منورعلی ملک کےمئی 2022 کےفیس بک پرخطوط
میرا میانوالی-
آسمان پر عید کا چاند تلاش کرنے کی بجائے زمین پر اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کریں تو اللہ آپ کے بہت سے مسائل اپنی قدرت سے حل کر دے گا۔-
٢ مئی 2022
میرا میانوالی-
عید مبارک
اللہ کریم اس عید کو تمام امت مسلمہ کے لیئے باعث خیرو برکت بنائے۔فیس بک کے سب ساتھیوں کو عید مبارک -٢ مئی 2022
میرا میانوالی-
عیداں تے شبراتاں آئیاں سارے لوکی گھراں نوں آئے،
او نئیں آئے محمد بخشا جیہڑے آپ ہتھیں دفنائے۔
۔۔۔۔۔۔ صوفی شاعر میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ۔-٤ مئی 2022
میرا میانوالی-
ناصر خان کے سٹی کلر لیب کی افتتاحی تقریب،
ہمارے دوست مرحوم اقبال کوچوان لالا عیسی خیلوی سے محو گفتگو۔-٤ مئی 2022
میرا میانوالی-
صاحب دل، صاحب شعور، صاحب قلم شخصیت ایچ کے نیازی کے ساتھ
4 مئی ٢٠٢٢- ٥ مئی 2022
میرا میانوالی-
عید کے تین دنوں میں سے ہر دن کی الگ الگ مصروفیات اور مشاغل ہوتے تھے – پہلا دن نئے لباس کی نمائش ، چلنے پھرنے اور کھانے پینے کے لیئے وقف ہوتا تھا – راہ چلتے ہر واقفِ کار سے گلے مل کر “عید چن مبارک“ کہنا فرض سمجھا جاتا تھا –
گھر میں کھانے پینے کے علاوہ شہر کی دُکانوں سے سوڈاواٹر کی ٹھاہ کر کے کُھلنے والی بوتلیں پینا ، چاچا اولیا ، محلہ امیرے خیل کے ماما حمیداللہ خان ، اور محلہ علاؤل خیل کے حاجی سلطان محمود المعروف حاجی کالا کی دکانوں سے جلیبیاں اور پکوڑے کھانا بھی اس دن کے مخصوص مشاغل تھے – اُس زمانے میں شاپر تو ہوتے نہیں تھے ، نوجوان لوگ دکان پر ہی پلیٹوں میں ڈال کر یہ چیزیں کھالیتے تھے ، مگر بچے جھولی میں ڈال کر لے جاتے اور گھر سے باہر کہیں بیٹھ کر کھا لیتے تھے – جلیبیوں کےشِیرے اور پکوڑوں کے تیل سے نئے نکور کپڑوں کا جو حشر نشر ہوجاتا اُسے دیکھ کر ماؤں کی چیخیں ساتویں آسمان تک سُنائی دیتی تھیں –
عید کا دُوسرا دن خواتین کی عید کہلاتا تھا – اس دن خواتین کی ٹولیاں گلی محلوں میں گُھوم پھر کر اپنی پسند کی چیزیں خریدا کرتی تھیں – مرد اس دن گھروں سے باہر کم ہی نکلتے تھے – اگر مجبورا نکلنا بھی پڑتا تو نظریں جھُکائے ہوئے چُپ چاپ گُذر جاتے تھے – شرم و حیا کا دور تھا ، خواتین کو دیکھتے ہی راستہ بدل لیتے تھے ، یا دیوار کی طرف مُنہ کر کے کھڑے ہو جاتے تھے –
عید کے تیسرے دن کی مصروفیات کی تفصیل قدرے طویل ہے ، اس لیئے کل لکھوں گا –
———————– رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —--٦ مئی 2022
میرا میانوالی-
عید کا تیسرا دن بڑا سپیشل دن سمجھا جاتا تھا – اس دن ضلع کا سب سے بڑا اجتماع شاہ گُل حسن کا میلہ ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن کے قریب شاہ گُل حسن کے مزار پر منعقد ہوتا تھا – مقامی زبان میں اس تہوار کو سَیل کہتے تھے – سَیل تے وینے پئے آں کا مطلب تھا ہم شاہ گُل حسن کے میلے میں شرکت کے لیئے جا رہے ہیں – لفظ سَیل دراصل “سَیر“ کی بگڑی ہوئی شکل تھا –
عیسی خیل سے بھکر تک تقریبا دو سو کلومیٹر علاقے کے لوگ اس میلے میں شریک ہوتے تھے – میں نے چند سال پہلے ایک پوسٹ میں کہا تھا 5 سال سے 95 سال تک کے لوگ اس میلے میں شرکت فرض سمجھتے تھے – بالکل ایسا ہی ہوتا تھا – بیماری کی وجہ سے کوئی نہ جاسکتا تو الگ بات ، ورنہ میلے میں نہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا –
دلچسپ بات یہ کہ وہاں کُچھ بھی نیا یا انوکھا نہیں ہوتا تھا – کوئی ایسی چیز نہ تھی جو صرف اس میلے ہی میں ملتی ہو – کالاباغ ، ماڑی انڈس اور داؤدخیل کے کُچھ دکان دار اپنا مال لا کر شاہ گُل حسن کے مزار کے ارد گرد درختوں کے سائے میں زمیں پر سجا دیتے تھے – ایک دو فرشی ہوٹل بھی اس ایک دن کے لیئے لگ جاتے تھے ، جہاں لوگ زمین پربیٹھ کر کھاتے پیتے تھے – ہمارے محلے کے چاچا اولیا بھی اپنا جلیبیوں اور پکوڑوں کا بزنس یہیں لے آتے تھے – میلے میں آنے والے لوگ چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے ، دن گذار لیتے تھے – کوئی خاص شغل وہاں نہیں ہوتا تھا ، پھر بھی اس میلے میں حاضری دینا فرض سمجھا جاتا تھا – بزرگ کہتے تھے یہ سب رونق شاہ گُل حسن کی برکت سے ہوتی ہے-
میلے میں لوگوں کی آمدورفت کا منظر دیکھنے کے لائق ہوتا تھا – صبح سات آٹھ بجے لاہور سے ماڑی انڈس جانے والی ٹرین کے اندر، باہر ، دائیں بائیں ، اُوپر نیچے لوگ مکھیوں کی طرح چمٹے ہوتے تھے – ٹرین تو نظر ہی نہیں آتی تھی – شام پانچ بجے واپسی پر بھی یہی سماں ہوتا تھا- ایک آدھ دفعہ ہم نے بھی ماڑی انڈس سے داؤدخیل تک کا سفر ٹرین کی چھت پر بیٹھ کر طے کِیا تھا –
میلے والے دن میلہ گراؤنڈ سے کُچھ فاصلے پر ٹِیلوں کی اوٹ میں جُوئے کا ورلڈ کپ فائینل قسم کا میچ بھی ہوتا تھا – وہ لوگ میلے میں شریک نہیں ہوتے تھے ، اُدھر ہی ٹیلوں کی اوٹ میں بیٹھ کر منہ کالا کرتے رہتے تھے – پتہ نہیں کم بختوں نے اپنی اس حرکت کے لیئے یہ جگہ اور یہ دن کیوں مقرر کر رکھا تھا ؟ ضلع بھر کے سینیئر جواری وہاں آتے تھے — واللہ اعلم –
———————- رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک —-–٧ مئی 2022
میرا میانوالی-
عید کی تین چُھٹیاں گھر پہ گُذارنے کے بعد مسافر اپنی اپنی منزلوں کو واپس روانہ ہوتے , تو خاصے جذباتی مناظر دیکھنے میں آتے تھے – مائیں بہنیں روتے ہوئے ، دعا کے لیئے ہاتھ اُٹھائے ، بچے مسافروں کی راہ روکنے کے لیئے اُن کے پاؤں سے لپٹ کر زار زار روتے منتیں کرتے ، جانے والے بھی آنکھوں میں آنسُو لیئے رخصت ہوتے تھے-
آمدو رفت کا اکلوتا ذریعہ ٹرین ہوتی تھی – کزن ، دوست احباب ، دس بارہ سال تک کی عمر کے بچے بھی ریلوے سٹیشن تک ساتھ جاتے تھے – ٹرین کی روانگی تک بار بار گلے مل کر سب لوگ اپنی محبت کا اظہار کرتے – جب تک ٹرین نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جاتی سب لوگ پلیٹ فارم پر کھڑے ہاتھ ہلا ہلا کر مسافروں کو اپنی وفاؤں کا یقین دلاتے رہتے –
آج کے دور میں ایسے جذباتی مناظر دیکھنے میں نہیں آتے – موبائیل فون پر آمنے سامنے گفتگو live chat کی سہولت نے ہجر و فراق کا تصور ہی ختم کر دیا ہے – اب تو بقولِ شاعر
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جُھکائی ، دیکھ لی
ہجر و فراق کا اپنا مزا ہوتا تھا – اس کیفیت سے لاجواب شاعری جنم لیتی تھی – اب تو ہجر و فراق کا ذکر پُرانے ڈوھڑے ماہیوں اور لوک گیتوں کی شکل میں دیکھنے سُننے میں آتا ہے –
————————- رہے نام اللہ کا ————————-—— منورعلی ملک —– –٩ مئی 2022
میرا میانوالی-
خالص سرسوں کا تیل اب تو قصہ ء ماضی بن چُکا ، اس نام سے جو چیز بازار میں دستیاب ہے اُس کی نہ بُو سرسوں کے تیل جیسی ہے، نہ تاثیر – خالص سرسوں کے تیل کی ہلکی سی سوندھی خوشبُو کی بجائے ایک ناگوار سی بدبُو صاف بتا دیتی ہے کہ یہ کوئی اور چیز ہے – اول تو یہ سرسوں کی بجائے گھٹیا قسم کے روغنی بیج توریا کا تیل ہوتا ہے ، یا پھر سرسوں کا بھی ہو تو کیمیائی کھاد کی ملاوٹ اسے خالص نہیں رہنے دیتی –
خالص سرسوں کا تیل وہ ہوتا تھا جو کھاد کی آلائش سے پاک ، سونے جیسی رنگت اور دلکش خُوشبو سے آراستہ ہوتا تھا – اسی تیل کی کرامت تھی کہ ساٹھ سال کی عمر تک بھی سر کے بال سیاہ ، لمبے ، گھنے اور نرم رہتے تھے – سرپہ اس تیل کی مالش دماغ کو تروتازہ رکھتی تھی – جسم کے پٹھوں کو مضبوط بنانے کے لیئے نہانے سے پہلے پُورے جسم پر سرسوں کے تیل کی مالش کا رواج بھی عام تھا – یہ تیل بہترین خوراک بھی تھا – پکوڑے تلنے کے علاوہ اس تیل سے بہت لذیذ حلوہ بھی بنتا تھا –
سرسوں کے بیج سے تیل نکالنے کے سادہ سے سسٹم کو اُردو میں کولہُو ، ہماری زبان میں گھانڑِیں کہتے تھے – گھانڑیں کو چلانے کا کام بیل سے لیا جاتا تھا – بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُسے گھانڑیں سے جوت دیا جاتا تھا – بیل دن بھر دائرے میں گھُومتا رہتا اور سرسوں کے بیج سے تیل نکل کر ایک چھوٹے سے پرنالے کی راہ سے ٹین کے ڈبے میں گرتا رہتا تھا – پھر اس تیل کو بوتلوں میں بھر لیا جاتا تھا –
ہمارے داؤدخیل کے محلہ اللہ خیل میں چاچا سلطان احمد قصاب کی گھانڑیں ہوا کرتی تھی – ایک گھانڑیں محلہ انزلے خیل میں چاچا عثمان قصاب کے گھر میں بھی دن بھر رواں دواں رہتی تھی – بدلتے وقت کے ساتھ سب کُچھ بدل گیا – نہ وہ گھانڑیاں رہیں ، نہ اُن کے مالک ، نہ وہ سرسوں رہی، نہ وہ تیل ۔۔۔۔۔
———————— رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —–-١٠ مئی 2022
میرا میانوالی-
مقدر خان شریف خیل مفرور تھا – قیامِ پاکستان کے وقت جب ہندو مسلم فسادات کی آگ داؤدخیل تک پہنچی تو یہاں کے ہندو بھی شہر چھوڑنے لگے – ایک ہندُو خاندان رات کی تاریکی میں ریلوے لائین کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا پائی خیل ریلوے سٹیشن کی طرف جارہا تھا ۔ مقدر خان نے اُن کی راہ روک کر پُوچھا کدھر جا رہے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم شہر چھوڑ کر بھارت جا رہے ہیں کیونکہ ان حالات میں ہمارے جان و مال محفوظ نہیں رہ سکتے – داؤدخٰیل کے سب لوگ جانتے ہیں کہ ہم ہندو ہیں ، اس لیئے یہاں ہم زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں –
مقدرخان نے کہا بات یہ ہے کہ پائی خیل جاتے ہوئے رات کی تاریکی میں تمہیں کوئی لُوٹ لے گا ، اور نام میرا بدنام ہوگا – سب لوگ کہیں گے مقدری بد معاش نے لُوٹ لیا – میں بدمعاش ضرور ہوں ، بے غیرت ہرگز نہیں کہ اپنے شہر کے لوگوں کو لُوٹتا پھروں – چلو واپس ، داؤدخیل ریلوے سٹیشن سے میں خود تمہیں ٹرین پہ بٹھا دوں گا – میرے ہوتے ہوئے کوئی تمہارا کُچھ نہیں بگاڑ سکتا –
مقدرخان اُس قافلے کو داؤدخیل سٹیشن واپس لے آیا ، اور بندوق کندھے پر رکھ کر رات بھر اُن لوگوں پر پہرہ دیتا رہا – صبح چار بجے انہیں ٹرین پر بٹھا کر نامعلوم منزلوں کی طرف روانہ ہوگیا –
———————– رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —-١١ مئی 2022
میرا میانوالی-
آج کسی اور موضوع پہ لکھنا تھا ، مگر کل کی پوسٹ پر آصف خان کے کمنٹ نے ایک اپم معاملے کی طرف متوجہ کردیا – آصف خان لکھتے ہیں :
اللہ رحم کرے ، ہم تو سرسبز و شاداب چمن چھوڑ آئے تھے – یہ چمن کب ویران ہوا ، کیوں ویران ہوا ، کس نے ویران کیا ؟؟؟ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے تھا، کیونکہ اب تو اس کالج کی باگ ڈور اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو ہم سے براہِ راست تعلیم و تربیت یافتہ ہیں – پرنسپل احمد حسن خان نیازی میرے سابق سٹوڈنٹ ہیں – شعبہء انگریزی کے سربراہ ناصر اقبال اور صفی اللہ ملک بھی اسی کالج میں میرے ایم کے سٹوڈنٹ رہے – بلکہ ناصر تو انٹرمیڈیئٹ سے ایم اے تک میرے سٹوڈنٹ رہے – اور بھی بہت سے پروفیسر صاحبان اسی کالج میں ہمارے سٹوڈنٹ رہے – یہ لوگ اس چمن کی بہار دیکھ چُکے تھے ، پھر کس دل سے انہوں نے اس چمن کا ویران ہونا گوارا کر لیا –
پروفیسرصاحبان کے درمیان نظریاتی اختلافات ہمارے دور میں بھی ہوتے تھے ، لیکن یہ اختلاف جھگڑے کی صورت میں سامنے کبھی نہ آئے – سٹوڈنٹس کو تو ہم ان اختلافات کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے تھے – کسی تعلیمی ادارے کا بیڑہ تب غرق ہوتا ہے جب ٹیچرز اپنے اختلافات میں سٹوڈنٹس کو شامل کر لیتے ہیں – ایساہرگز ، ہرگز نہیں ہونا چاہیئے-
کُچھ عرصہ سے اس کالج کے بارے میں اچھی خبریں نہیں آرہی تھیں ، میں نے بعض پروفیسر صاحبان سے شکوہ بھی کیا ، اب آصف خان بتاتے ہیں کہ حالات مزید ابتر ہو رہے ہیں – صحت کے مسائل کی وجہ سے میں گھر سے باہر کم ہی نکلتا ہوں ، لیکن اب کسی دن پروفیسر سرورخان، پروفیسر رئیس احمد عرشی اور چند دُوسرے پرانے ساتھیوں کو ہمراہ لے کر کالج جانا پڑے گا – اپنے گھر کو ویران ہوتے کون دیکھ سکتا ہے ؟؟؟؟؟
ہمیں یہ زحمت دینے کی بجائے بہتر نہ ہوگا کہ ہمارے یہ سب بچے (اساتذہ ء کرام) خود ہی مل بیٹھ کر معاملات طے کر لیں اور کالج کو پھر ایک مقدس درسگاہ بنا دیں – پھر ہمیں بُلا کر بڑے فخر سے کہیں “ سر، یہ ہے آپ کا چمن ، کوئی کمی بیشی ہو تو ہمیں بتا دیں “-————————– رہے نام اللہ کا – -١٢ مئی 2022
میرا میانوالی-
فتح مکہ کے بعد جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے تمام دُشمنوں کے لیئے عام معافی کا اعلان کر دیا تو ایک صحابی نے جنابِ علی کرم اللہ وجہہ سے کہا “ جناب یہ کیا بات ہوئی ، ان لوگوں نے تو آپ سب پر بے تحاشا ظُلم و ستم کیئے – آپ کے عزیزوں اور ساتھیوں کو شہید کیا ، آج اللہ نے آپ کو ان پر غلبہ عطا کیا تو ان سے انتقام لینا تھا ، ان میں سے کسی کو زندہ نہیں چھوڑنا چاہیئے تھا – مگر رسول اللہ نے ان سب کو معاف کردیا “
جنابِ علی نے فرمایا “ برتن کے اندر جو کُچھ ہوتا ہے وہی باہر آتا ہے – ہمارے دُشمنوں کے دِلوں میں حسد ، بُغض ، تکبر اور کمینگی تھی ، ہمارے اندر شرافت ، رحم و کرم ، عفو درگذر اور سخاوت ہے اس لیئے جنابِ رسول اللہ نے رحم و کرم ، عفو و درگذر اور سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کو معاف فرما دیا –
——————— رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک——–١٣ مئی 2022
میرا میانوالی-
نہر کے پُل کے پار دریا کے کنارے تک دوتین میل لمبی اتنی ہی چوڑی پٹی کا علاقہ داؤدخیل کچہ کہلاتا ہے – اس علاقے میں داؤدخیل کے قبیلہ شریف خیل , علاؤل خیل اور امیرے خیل کے کُچھ لوگ آباد ہیں -اس آبادی کو شملات ( پٹوار کے کاغذات میں شاملات دیہہ) کہتے ہیں – توحید آباد (سابقہ نام گندا) بھی داؤدخیل کچہ میں شمار ہوتا تھا –
کچہ بہت سی ضروریاتِ زندگی کی سپلائی لائین ہوا کرتا تھا – دیسی مُرغیاں ، انڈے ، گھی , ایندھن کے لیئے لئی کی جھاڑیاں ، کُوندر ، کانہہ کانے ( سرکنڈے کی مختلف قسمیں) – کُوندر اور کانہہ بھٹیوں کے ایندھن کے طور پہ بھی استعمال ہوتی تھیں اور ان سے چھپر بھی بنائے جاتے تھے – دریا کے کنارے اُگنے والی خود رو کُوندر سے پڑچھے (چٹائیاں) بھی بنتی تھیں –
پڑچھا قالین کے طور پر بیٹھنے کے لیئے بھی استعمال ہوتا تھا ، مگر اس کا خاص استعمال چارپائی کے کور cover کے طور پہ ہوتا تھا – چارپائی کے برابر سائیز کا پڑچھا چارپائی پر پھیلا کر اس کے چاروں کونوں کو چارپائی کے پایوں سے باندھ دیا جاتا تھا – رات کو سونے سے پہلے اس پر پانی کا چھڑکاؤ کرکے سونا ہمارے علاقے کا عام رواج تھا – بہت مزے کی نیند آتی تھی – رات بھر ہلکی ہلکی ہوا چلتی رہتی تھی – نیچے گیلا پڑچھا ، اُوپر سے ہلکی ہوا اس نیند کا ایک اپنا لُطف تھا –
کانا (سرکنڈا) ہمارے ہاں تو صرف چھپر بنانے کے لیے استعمال ہوتا تھا ، لیکن کُچھ علاقوں میں اس سے کُرسیاں (مُوڑھے یا مونڈھے) اور میزیں وغیرہ بھی بنتی تھیں –
کانے کا یہ فرنیچر بڑے شہروں میں آج بھی بہت مقبول ہے –
بچپن میں تختی پر لکھنے کے لیئے قلم بھی کانے سے بنتا تھا – ہمارا کلاس فیلو خلیل ماچھی یہ قلم بنانے کا ماہر تھا – بہت نیک دل انسان تھا ، پُوری کلاس کو قلم مفت سپلائی کرتا تھا –
کانے کے حوالے سے لالا عیسی خیلوی کا ٰایک ماھیا بھی بہت مقبول تھا – بول تھے
چِٹی چِھل کانے دی
ہِک مِل تُوں ڈھولا، نئیں لوڑ زمانے دی———————— رہے نام اللہ کا ———-—— منورعلی ملک —––١٤ مئی 2022
میرا میانوالی-
کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں پروفیسر احسن واگھا نے سرائیکی میں لکھنے کی فرمائش کی ہے – یہی فرمائش عبدالمالک شاد صاحب نے بھی کی ہے –
ڈیرہ غازی خان کے احسن واگھا صاحب ہمارے دیرینہ مہربان ہیں – اس وقت قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ ء لسانیات کے سربراہ ہیں – ان سے تعارف ہمارے مرحوم دوست , ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے سٹیشن ڈائریکٹر ، معروف شاعر وافسانہ نگار ظفر خان نیازی نے کرایا تھا – احسن واگھا نام ور صاحب علم و قلم شخصیت ہیں – انگریزی کے پروفیسر کی حیثیت میں منصبی خدمات کے علاوہ اپنی سرائیکی زبان کےدنیا بھر میں تعارف و ترویج کے لیئے ان کی خدمات دنیا بھر میں ان کی پہچان ہیں – ان کے حکم کی تعمیل مجھ پہ واجب ہے– ان شآءاللہ کل کی پوسٹ سرائیکی میں ہوگی –
میری سرائیکی جنوبی پنجاب کی ٹکسالی سرائیکی نہیں ، میرے داؤدخیل کی زبان ہے، جو میانوالی اور عیسی خیل کی زبان سے بھی قدرے مختلف ہے – امید ہے لوگ اس زبان میں بات بھی سمجھ لیں گے –————————— رہے نام اللہ کا ——————————— منورعلی ملک —–-١٥ مئی 2022
میرا میانوالی-
سجنڑاں نی فرمائش اے جو آپنڑیں زبان اِچ پوسٹ لکھو – لِکھنڑاں تاں کوئی مسئلہ نِیں ، پڑُھنڑں تے سمجُھنڑں بَہُؤں سارے لوکاں کنڑں اوکھا ہوسی – سرائیکی بولنڑں آلے تاں اَیرے تے ڈانگ مار کے کُجھ نہ کُجھ مطلب کڈھ گِھنسُن ، بھلا میڈیاں پوسٹاں نے بَہُوں سارے پڑُھنڑں آلے بِھرا پنجابی ، پشتُون، سندھی تے بلوچ وی ہِن – اُنہاں چو گل کئی لوکاں نے سِر تو لنگھ ویسی – اُردو نی گل ہوراے – اُردو ساڈے چؤاں صُوباں نے لوگ سمُجھ سگنے ہِن – اس وجہ تو روزانہ آپنڑیں زبان اِچ لکھنڑاں تاں مناسب نہ ہوسی – ہَفتِچ ہِک پوسٹ نال سرائیکی بھراواں نی ٹھرک وی پُوری تھی ویسی ، تے باقی لوکاں ناں گُزارا وی چلنا رہسی-
آپنڑیِن زبان اِچ لکھنڑں نال ہِک رولا اے وی ہے جو میڈی زبان خالص لَمیں ( جنوبی پنجاب) نی زبان نیں ، بلکہ ساڈے داؤدخیل نی زبان تاں میانوالی تے عیسی خیل نی زبان نالو وی چنگی بھلی مختلف اے – مثال نے طور تے میانوالی نے لوک آکھنِن میں فلانڑاں کم کریندا پیا ہاں ، عیسی خیل آلے آکھِنن کردا پیا ہاں ، تے ساڈے داؤدخٰیل آلے آکھِنن کرینا پیا ہاں – ہور وی بہوں ساریاں گلہاں اِچ ساڈی زبان ہِک وَکھری ٹائیپ نی زبان اے – اے زبان کمر مشانی تے مندہ خٰیل نی زبان نے زیادہ نَزِیک اے – عیسی خٰیل آلاں نی زبان تاں اُکا نرالی شئے ہے – مثلا اُردو اِچ اگر اکھاں “ وہ دیوار پہ جا گِرا َ تاں باقی ضلعے نی زبان اِچ اکھساں کندھ تے ونج لگا ، عیسی خیل آلے آکھسن کندھ تے نیہہ لگا —– اے لفظ نیہہ پتہ نیِں کِتھو چا کے گِھن آئے ہِن بادشاہ لوک – !!!
———————- رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک —— -١٦ مئی 2022
میرا میانوالی-
معروف دانشور سید واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ کے ایک دوست اُن سے ملنے کے لیئے آئے – واصف صاحب نے اُن کے لیئے چائے منگوائی – چائے کا کپ ہاتھ میں لیتے ہوئے واصف صاحب کے دوست نے کہا “ شاہ جی ، میں آج کل کے مُلکی حالات کی وجہ سے بہت پریشان ہوں -“
شاہ جی نے کہا “ حالات تُم نے خراب کیئے ہیں ؟؟؟“
دوست نے کہا “نہیں“
شاہ جی نے کہا “ حالات کو تُم ٹھیک کر سکتے ہو ؟“
اس نے کہا “نہیں“
شاہ جی نے کہا “ فیر چُپ کر کے چاء پی“——————
یہی بات تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے چاچا غالب نے کہی تھی کہ
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کُچھ نہ کُچھ گھبرائیں کیا
اقبال نے تو براہِ راست اللہ تعالی سے کہہ دیا تھا ———
مُجھے فکرِ جہاں کیوں ہو ، جہاں تیرا ہے یا میرا ؟؟؟—————-
خوش رہیں، خوش رکھیں —– آج کوئی اور موضوع ذہن میں نہ آیا تو کُچھ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں یاد آگئیں – سوچا یہی آپ سے شیئر کردوں –
——————— رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک ——-١٧ مئی 2022
میرا میانوالی-
ہمارے ماموں ملک نُورکمال ہر اتوار کو سائیکل پر جناح بیراج کے راستے مندہ خیل سے داؤدخیل آتے تھے – ایک دن انہوں نے بتایا کہ جناح بیراج پر مُجھ سے آگے کُچھ فاصلے پر ایک شخص سائیکل پر آرہا تھا – سائیکل کے کیریئر (پچھلی سیٹ) پر ایک خاتون بیٹھی تھی – خاتون کی گود میں دوچار ماہ کا بچہ بھی تھا – پُل کے درمیان میں پہنچ کر خاتون نے اچانک سائیکل سے اُتر کر بچے کو پُل کے فرش پر رکھا ، اور پُل کے مغربی کنارے سے دریا میں چھلانگ لگا دی –
اللہ معاف کرے , پُل کے مغربی کنارے کا تصور بھی ہولناک ہے – دریائے سندھ پُوری قوت سے ، غیظ و غضب کے عالم میں شور مچاتا، جھاگ اُڑاتا , گولی کی طرح تیزی سے چوبیس گھنٹے رواں دواں رہتا ہے — دریا کا شور اتنا بلند آہنگ ہے کہ راتوں کے پچھلے پہر کی خاموشی میں پانچ کلو میٹر دُور داؤدخیل میں بھی سنائی دیتا ہے – اس قدر بپھرے ہوئے دریا میں گرنے والوں کا اللہ جانے کیا حشر ہوتا ہوگا –
اللہ جانے اُس بدنصیب خاتون کی کیا مجبوری تھی کہ اُس نے وہاں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا جہاں دریا کا غیظ و غضب دیکھ کر اچھے خاصے دلیر انسان پر بھی ہیبت طاری ہو جاتی ہے – اس واقعے کا ایک دلگداز پہلو یہ بھی ہے کہ خاتون نے خود تو اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ، مگر بچے کو زندہ و سلامت چھؤڑ گئی کیونکہ ماں تو آخر ماں ہوتی ہے –
آج کی پوسٹ کا مقصد جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی یہ ہدایت یاد دلانا تھا کہ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو ، ایک خطبے میں یہ بات زور دے کر تین بار دُہرائی –
—————— رہے نام اللہ کا —————–—— منورعلی ملک —–١٨ مئی 2022
میرا میانوالی-
صاحبِ کردار لوگ
مرحوم ائیر مارشل نُورخان کئی حوالوں سے ایک صاحبِ کردار انسان تھے – پاکستانی فضائیہ کے سربراہ کی حیثیت میں انہوں نے بے مثال خدمات سرانجام دیں – ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل نُورخان دنیا کے بہترین پائلٹس میں شمار ہوتے تھے –
1965 کی جنگ میں ائیر مارشل نُورخان پاک فضائیہ کے سربراہ تھے – اس جنگ میں تینوں مسلح افواج میں سے پاک فضائیہ کا پلہ بھاری رہا – پاک فضائیہ نے اپنے سے کئی گنا بڑی بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ دی – کہتے ہیں اس جنگ میں بھارتی فضائی اڈوں پر کئی حملوں کی قیادت ائیر مارشل نور خان نے خود کی – 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی ائیر مارشل نورخان نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں –
ائیر مارشل نُورخان 1969 – 1971 میں گورنر مغربی پاکستان بھی رہے – انہوں نے ہر منصب پر اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوایا – گورنر کی حیثیت میں ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے کالجوں کے لیکچررز کو اسسٹنٹ کمشنر کے برابر گزیٹڈ کلاس ون سکیل BS -17 دلوایا – اس سے پہلے لیکچرر کی پوسٹ گزیٹڈ نہیں تھی –
ٹیچرز کا بہت احترام کرتے تھے – ان کے گاؤں ٹمن کے گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈماسٹر ملک نُورخان میرے باباجی کے دوست تھے – ملک نُورخان ائیر مارشل نورخان کے ٹیچر رہ چکے تھے – پاکستان کی تاریخ میں وہ واحد ہیڈماسٹر تھے جو 66 برس کی عمر تک اپنے منصب پہ فائز رہے – وجہ یہ تھی کہ ریٹائر ہوئے تو ائیرمارشل نُورخا ن نے انہیں ملازمت میں دو سال کی توسیع دلوادی – پھر ہر دوسال بعد مزید دوسال کی توسیع دلواتے رہے- یہ توسیع ہیڈماسٹر صاحب کی درخواست پر نہیں ، بلکہ ائیرمارشل نورخان اپنے طور پر دلواتے رہے – ہیڈماسٹر صاحب ہر بار کہتے بس مزید سروس نہیں کروں گا ، مگر ائیرمارشل نُورخان ہر بار منت ترلے کر کے انہیں توسیع دلواتے رہے – بالآخر66 برس کی عمر میں ہیڈماسٹر صاحب نے یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دئیے کہ بس بیٹا ، اب میری صحت مزید کام کی اجازت نہیں دیتی-
بھر پور کامیاب زندگی بسر کرنے کے بعد ائیر مارشل نورخان 2011 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے –
———————— رہے نام اللہ کا ————————–—– منورعلی ملک —— –١٩ مئی 2022
میرا میانوالی-
ہوتا یوں ہے کہ صبح دس گیارہ بجے کے قریب لیپ ٹاپ آن کرتا ہوں تو جو جی میں آئے لکھ دیتا ہوں – سیاست کے سوا ہر موضوع پر لکھتا ہوں – ساتھیوں کی ترجیحات کا بھی علم ہے – زیادہ تر لوگ پرانے کلچر کی باتیں پسند کرتے ہیں – بہت سے لوگ لالا عیسی خیلوی کے بارے میں سننا پڑھنا چاہتے ہیں – لیکن لالا کے بارے میں تو پُوری کتاب “درد کا سفیر“ بہت عرصہ پہلے لکھ دی تھی – فیس بک پر کبھی کبھار کسی حوالے سے ضروری سمجھوں تو اس موضوع پر کُچھ نہ کُچھ لکھ دیتا ہوں – روزانہ اس موضوع پہ نہیں لکھ سکتا کیونکہ اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا –
آپ دوستںوں کی مہربانی ہے کہ جو کُچھ بھی لکھ دوں پسند کر لیتے ہیں – الحمد للہ ہمارے اس سفر کا ساتواں سال چل رہا ہے – کبھی کوئی شکوہ شکایت دیکھنے سننے میں نہیں آیا ، بلکہ شکووں شکایتوں کی بجائے ڈھیروں دعائیں مل رہی ہیں – سودا خسارے کا نہیں – اس لیئے ان شآءاللہ لکھتا رہوں گا – لیکن شرط وہی کہ میری اُنگلی پکڑ کر چلنا ہوگا ، مطلب موضوع کا انتخاب میں ہی کروں گا –
آج کُچھ دوسری مصروفیات ہیں ، اس لیئے دو چار منٹ کی یہی بات چیت کافی سمجھیں – اللہ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو –
———————- رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک —-٢١ مئی 2022
میرا میانوالی-
کیہہ بنڑاں اے ؟
تریخ تھی گئی اے –
ایہا تریخاں بندے کو تماخُوں آر کر سٹینیاں ہِن – کڈاہیں وکیل غائب تے کڈاہیں جج صاب چُھٹی تے – خرچا وکھرا تے کھجل خواری اُتُر اِچ – بندہ زہر کھاوے چا ، کچاری نہ ونجے-
کیہہ کراں یار مجبُوری اے –
کیہری مجبوری ؟ تیکو تاں آکھا ہم کیس کو دفع کر ، تے بِھرا نال مُک مُکا کر گھِن –
کیہرا مُک مُکا ؟ زمین نے کا غذ میں چائی وتا ہاں ، تے او آکھنے زمین میڈی اے –
قبضہ تاں اُس ناں ہے – او زمین تے کوٹھا پائی بیٹھا اے – بھٹو صاب قنون بنڑایا ہئی جو 10 سال جیناں قبضہ راہوے زمین اُسے نی –
تُوں اے ڈَس ، تُوں میڈے نال ایں یا میڈے بِھرا نال ؟؟؟
یار میں تاں انصاف نی گل کیتی اے –
تُوں کول رکھ آپنڑاں انصاف – وڈا آیا ایں شِیشُن جج ——-
————————- رہے نام اللہ کا —————————– منورعلی ملک —--٢٢ مئی 2022
میرا میانوالی-
ہمارے بچپن کے دور میں گرمی کی چُھٹیاں دو قسطوں میں ہوتی تھیں – پہلی قسط اپریل کا مہینہ، دوسری قسط 15جون سے 15 اگست تک –
اپریل کی چُھٹیاں گندم کی کٹائی کے دنوں میں ہوتی تھیں ، کیونکہ فصل کی کٹائی میں بچے بھی والدین کا ہاتھ بٹاتے تھے – ان چُھٹیوں کو “ لَوآں آلیاں چُھٹیاں“ ( فصل کی کٹائی کی چُھٹیاں) کہتے تھے – بچوں کے لیئے یہ دن محنت مشقت کے دن ہوتے تھے –
اصل عیاشی 15 جون سے 15 اگست تک دومہینے کی گرمی کی چُھٹیاں ہوتی تھیں – اِٹی ڈنا (دیسی کرکٹ ) ، کھبا کھنڈُوری ( دیسی ہاکی سمجھ لیں) چِدھے ( کانچ کی گولیاں) کھوڑ ( اخروٹ) بچوں کے پسندیدہ کھیل ہوتے تھے – چِدھے اور کھوڑ کے کھیلوں میں نشانہ بازی کی مہارت کے باعث ہم اپنے کزن ریاست علی ملک کو ریاست علی جُٹاک کہتے تھے – لفظ جُٹاک کے معنی ہیں ماہر نشانہ باز –
گرمی کی چُھٹیوں میں میرے کزن ممتاز حسین ملک اپنی فیملی کے ساتھ ہڈالی ضلع خوشاب سے داؤدخیل آجاتے تھے – ممتاز بھائی میرے تقریبا ہم عمر تھے – ہم دونوں شاعرانہ مزاج کے بندے تھے – اس لیئے ہم دوسروں سے الگ تھلگ اپنی دُنیا میں مگن رہتے تھے – ممتاز بھائی قصے کہانیاں سنانے کے ماہر تھے – بچوں کے دُوسرے کھیلوں سے تو ہمیں کوئی دلچسپی نہ تھی ، البتہ بٹیر بازی ہم نے بھی خُوب کی – چار آنے کا ایک بٹیرا (بٹیر) ملتا تھا – ہم دو دو آنے ڈال کر ایک بٹیرا خریدتے تھے – بٹیر ے کے کھانے پینے کابندوبست میرے ذمے تھا ،بٹیرا لڑانے کا اختیار بھائی ممتاز اپنے پاس رکھتے تھے – بڑے بھائی تھے ، اس لیئے اس استحصال پر میں احتجاج بھی نہیں کرسکتا تھا –
چُھٹیوں کے آخری چند دنوں میں سکول کا چُھٹیوں کاکام میں اپنے دوست محمد صدیق خان بہرام خیل کے ساتھ مل کر کرتا تھا – سچی بات تو یہ ہے کہ کام سارا بھائی محمدصدیق خان ہی کرتے تھے – میں تو بس بیٹھ کر تماشا دیکھتا رہتا – پڑھنے لکھنے کا کام اپنے بس کا روگ نہ تھا – اللہ بھلا کرے بھائی صدیق خان کا یہ بوجھ وہ بخوشی اٹھا لیتے تھے –
————————– رہے نام اللہ کا ——————————- منورعلی ملک —-٢٣ مئی 2022
میرا میانوالی-
فارسی کے ایک شاعر نے کہا تھا————
اے روشنئ طبع تو بر من بلا شُدی
(اے میری صلاحیت ، تُو تو میرے لیئے مصیبت بن گئی)
ہمارے محلے کی دکان پر ایک ملنگ ٹائیپ نوجوان کبھی کبھار دیکھنے میں آتا ہے – ایک دن کہنے لگا “ سرجی، وہ جو عطاءاللہ نے گایا ہے “تُوں نئیں آیا “ والا گیت ، وہ آپ کا لکھا ہوا ہے ناں ؟“
میں نے کہا “ جی ہاں “
اس نے کہا “سرجی ، مجھے بھی ایک گیت لکھ دیں ، سڑا بُھنا ہویا “
میں نے ہنس کر کہا “ تم خود گاؤ تو لکھ دوں گا“
کہنے لگا “ میری کوئی گانے والی شکل ہے – کسی گلوکار کی منت کروں گا “-
ملنگ ٹائیپ لوگوں کا دل توڑنا اچھا نہیں لگتا – میں نے کہا “ یہ کام تو میں نے بہت عرصہ ہوا ترک کردیا ، بہر حال تمہاری خوشی کی خاطر کوشش کروں گا “-
وہ نوجوان تو دعائیں دیتا رخصت ہو گیا ، اب اگلی ملاقات سے پہلے کُچھ نہ کُچھ کرنا پڑے گا ، لیکن سڑا بُھنا ہویا گیت والی شرط خاصی اوکھی ہے –
——————– رہے نام اللہ کا ———————— منورعلی ملک — –٢٤ مئی 2022
میرا میانوالی-
مدینتہ المنورہ —– نومبر2019
مسجدِ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ میں حاضری-٢٧ مئی 2022
میرا میانوالی-
28 مئی 1998 پاکستان کی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے ٠ اس دن تین بج کر سولہ منٹ پر بلوچستان کے ضلع چاغی میں پہاڑ کے دامن میں اللہ اکبر کا نعرہ گُونجا تو پہاڑ کا رنگ زرد پڑ گیا ، گردوغبار کا ایک وسیع و عریض بادل پہاڑ کے گرد چھا گیا – وجہ یہ تھی کہ اس لمحے پاکستان نے اپنی ایٹمی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 6 ایٹمی دھماکے کر دیئے – ایٹمی دھماکے اسی پہاڑ کی گہرائیوں میں کئے گئے تھے – اللہ اکبر کا نعرہ دھماکے کرنے والے عملے کے لیئے گرین سگنل تھا –
ایٹمی قوت کے اس مظاہرے کے بعد پاکستان ایٹمی طاقتوں کی فہرست میں شامل ہوگیا – نتیجہ یہ ہوا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتی –
عالمی طاقتوں نے ایک مسلمان ملک کا ایٹمی طاقت بن جانا اپنے امن کے لیئے خطرہ قرار دیا – اس طاقت سے پاکستان کو محروم کرنے کے لیے سازشوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے – لیکن وہ جو شاعر نے کہا تھا —
نُورِ خُدا ہے کُفر کی حرکت پہ خندہ زن
پُھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
پاکستان کی اس تاریخی کامیابی کے اولیں معمار عالمی شہرت یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس قوم بلکہ ملتِ اسلامیہ کے محسن تھے ، کیونکہ پاکستان کی ایٹمی قوت برادر اسلامی ملکوں کے لیے بھی تحفظ کی ضمانت ہے –
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس کارنامے کو جُرم سمجھ کر مغربی استعماری قوتوں نے ان کے خلاف کئی سازشیں کیں – ایٹمی پھیلاو کے جُرم میں ڈاکٹر صاحب مشرف کے زیرِ عتاب رہے – امریکہ نے مطالبہ کیا کہ ایٹمی پھیلاو کے جُرم کی سزا کے لیئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہمارے سپرد کیا جائے ، مگر عوام کے تیور دیکھ کر مشرف صاحب ڈاکٹر صاحب کو امریکہ کے حوالے کرنے کی جراءت نہ کر سکے –
ڈاکٹر صاحب نے ایٹمی پروگرام کے علاوہ مُلک کو چند اعلی پائے کے تعلیمی ادارے اور ہسپتال بھی بنا کر دیئے- حال ہی میں ہمارے یہ محسن طویل علالت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئے – اللہ کریم انہیں بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے – اُنہوں نے پاکستان کو سر اُٹھا کر جینے کے قابل بنایا –
—————– رہے نام اللہ کا ———————— منورعلی ملک ——
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں،
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
-٢٨ مئی 2022
میرا میانوالی-
شیکسپیئر نے کہا تھا – What’s in a name
(نام میں کیا رکھا ہے؟)
بات یہ بھی بہت حد تک درست ہے ، لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کم ازکم ایک نام ایسا ہے جس کو قدرت انعام میں بہت کچھ دے دیتی ہے – وجہ اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اس نام پر اللہ کا خصوصی کرم ہے – نام ہے “محمد علی“۔۔۔۔۔۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیئے –
1. بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح
2۔ ولی صفت دلیر صحافی ، شاعر اور سیاسی رہنما محمد علی جوہر
3 ۔ وزیر اعظم پاکستان محمد علی بوگرہ
4. وزیر اعظم پاکستان ، پاکستان کے پہلے آئین کے خالق چوہدری محمد علی
5۔ باکسنگ کے عالمی چیمپیئن محمد علی کلے
ایسی کئی مثالیں اور بھی ہونگی – عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس نام کا فرد اگر راہِ راست پر قائم رہ کر محنت کرے تو کامیابیاں اس کا مقدر بنتی ہیں – چاہے وہ مزدُور ہی کیوں نہ ہو اس کے کردار کی کوئی نہ کوئی خُوبی اسے دُوسروں سے ممتاز اور منفرد بنا دیتی ہے – ہمیشہ ایسا نہ بھی ہو ، اکثر ایسا ہی ہوتا ہے –
محمد علی جوہر کی انفرادیت یہ ہے کہ ایک نظم میں کہا —-
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خُدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیئے ہے
پیغام ملاتھا جو حسین ابِن علی کو
خوش ہوں وہی پیغامِ قضا میرے لیئے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیئے ہے
جیل میں تھے تو گھر سے اطلاع آئی کہ آپ کی بیٹی آمنہ شدید بیمار ہے – نظم کی صورت میں جواب بیٹی کے نام یوں لکھا –
میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں
تُجھ سے میں دُور سہی ، وہ تو مگر دُور نہیں
آمنہ تُو جو شفا پائے تو رحمت اُس کی ،
اُس کو منظور نہ ہو ، مجھ کو بھی منظور نہیں
اللہ اکبر —- !!!! کیا صاحبِ ایمان لوگ تھے —- اس موضوع پر مزید بات ان شآءاللہ کل ہوگی ————
——————- رہے نام اللہ کا ————————– منورعلی ملک ——-٣٠ مئی 2022
میرا میانوالی-
سکول میں داخلہ لینے سے پہلے تین چار سال کی عمر میں ہی میری تعلیم کا آغاز دادا جی نے کر دیا تھا – کچی پہلی کلاس کا اُردو قاعدہ اور لکھنے کے لیئے لکڑی کی تختی مجھے دلوا کر انہوں نے قاعدے میں سے اردو کے حروف ا ، ب، پ وغیرہ کی پہچان کروائی اور پھر مجھے یہی حروف قاعدے میں سے دیکھ کر تختی پر لکھنے کے لیئے کہا –
“ا“ سے “ط، ظ“ تک تو کام ٹھیک چل گیا ، “ع ، غ“ پہ آکر معاملہ لٹک گیا – میں نے ع ، غ کی دُم دائیں طرف کی بجائے بائیں طرف کردی- دادا جی نے دیکھ کر کہا “غلط لکھا“
پھر انہوں نے خود تختی پر ع غ لکھ کر مجھے کہا “ اس طرح پُوری تختی پر لکھ دو“
میں نے حسبِ توفیق پُوری تختی پر لکھ تو دیا ، مگر ع غ کی دُم کا مسئلہ ویسے کا ویسا ہی رہا –
میں تو خوش تھا کہ دادا جی کے حکم کی تعمیل ہوگئی ، مگر جب تختی دادا جی کو دکھائی تو ایک زور دار تھپڑ بائیں رُخسار پر پڑا –
بس اُسی ایک تھپڑ نے میری قسمت سنوار دی – بڑی برکت تھی اُس تھپڑ میں – اس کے بعد پھر لکھنے میں غلطی مجھ سے کبھی سرزد نہ ہوئی – ساٹھ پینسٹھ سال لکھنے پڑھنے میں مشغول رہا ، آج بھی یہی کام کررہا ہوں – اُردو کی پانچ ، انگریزی کی بارہ کتابیں بھی لکھ چکا – اللہ کا خاص کرم ہے کہ جس زبان میں بھی لکھا میرا لکھا ہوا ہر لفظ برمحل رہا ، کبھی ردو بدل کی ضرورت نہ پڑی –
——————- رہے نام اللہ کا ——————– —— منورعلی ملک —— ٣١ مئی 2022