منورعلی ملک کے ستمبر 2021 کےفیس بک پرخطوط
میرا میانوالی–
سروس کے آغاز ہی میں پرنسپل کا منصب سنبھالنا میرے لیئے کوئی مسئلہ نہ تھا – وہ جو کہتے ہیں مچھلی کے بچے کو تیرنا سیکھنے کی کیا ضرورت ، میرے دادا جی ملک مبارک علی ، باباجی ملک محمد اکبرعلی ، بڑے بھائی ملک محمد انورعلی اور ماموں جان ملک منظورحسین سب لوگ تعلیمی اداروں کے سربراہ رہ چُکے تھے – یُوں کہیئے کہ تعلیمی ادارے چلانے کی اہلیت مجھے ورثے میں ملی تھی –
میں نے ڈاکٹر مجید قریشی صاحب کی طرح جمہوری انداز میں دوستوں کی مشاورت سے کالج چلایا – سب دوستوں نے بھرپُور تعاون کیا – محکمہ تعلیم سے تعلقات میرے قلم نے خوشگوار رکھے –
جولائی 1977 میں میں نے کالج لیبارٹریز کے لیئے دو ملازم بھرتی کیے – کچھ سفارشیں بھی آئیں، مگر میں نے سفارشوں کو نظرانداز کرکے صحیح معنوں میں مستحق آدمی بھرتی کیئے، اس پر تھوڑا سا ہنگامہ ہوا – جن کی سفارشیں نظر انداز کی تھیں انہوں نے سیکریٹری ایجوکیشن کو شکایت لگائی کہ پرنسپل نے مارشل لاء کے ban کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوملازم بھرتی کر لیئے-
یاد رہے کہ جولائی 1977 میں جنرل ضیاء نے مارشل لگایا تھا ، اور اس کے ساتھ ہی تمام ملازمتوں میں بھرتی پر پابندی لگا دی تھی –
سیکریٹری ایجوکیشن نے ڈائریکٹر کالجز سرگودہا ڈویژن کو اس معاملے کی تفتیش کا حکم جاری کر دیا – مجھے تو شکایت کا علم ہی نہ تھا ، اس وقت پتہ چلا جب ڈائریکٹر صاحب اچانک وارد ہوئے ، اور بتایا کہ اس معاملے کی تفتیش کرنی ہے –– رہے نام اللہ کا –––بشکریہ-منورعلی ملک-1ستمبر 2021
پروفیسر رفیع اللہ خان ، ڈائریکٹر کالجز سرگودھا ڈویژن بہت دبنگ شخصیت تھے – ہمیشہ پنجابی میں بات کرتے تھے – اچھی انگلش بول چال اور تحریر بہت پسند کرتے تھے – اس وجہ سے مجھ پر بہت مہربان تھے – آج ذرا غصے میں تھے – آتے ہی کہنے لگے “ پُتر ، ایہہ تُوں کی کیتا اے – بھلیا لوکا ، مارشل لاء دے ban دے دوران تُوں دو بندے ملازم رکھ لئے نیں ، ہُن تیری نوکری تے جاوے ای جاوے“-
میں نے کہا “سر ، ایسی کوئی بات نہیں ، میں نے ban کے دوران بندے بھرتی نہیں کیئے – میں نے متعلقہ فائیل منگوا کر انہیں دکھائی –
حقیقتِ حال یہ تھی کہ 5 جولائی کو مارشل لا ء نافذ ہوتے ہی تمام ملازمتوں کی بھرتی پر پابندی عائد کر دی گئی – ایک ہفتہ بعد پابندی ختم کر دی گئی – آٹھ دس دن بعد دوبارہ لگا دی گئی – جس دن میں نے بندے بھرتی کیئے اُس دن پابندی نہیں تھی –
خان صاحب یہ ریکارڈ دیکھ کر خوشی سے اُچھل پڑے ۔ کہنے لگے “ اوئے، میں تے کہندا سی میرا پُتر بڑا پڑھا لکھا بندہ ہے – اوہ ایسراں دی غلطی نئیں کر سکدا —– اینہاں دی —————- (شکایت کرنے والوں کو لمممممممبی سی گالی)— !!!
خان صاحب بہت خوش تھے – کُچھ دیر بیٹھ کر ہنسٹے ہنساتے رہے – میرے دو چار ساتھی جو اس وقت آفس میں موجُود تھے اُن سے کہنے لگے “ اوئے مُنڈیو، ، میرا پُتر بڑی سوہنڑیں انگریزی لکھدا جے — اینوُں خوش رکھوگے تے تُہاڈیاں ACRs ( سالانہ خفیہ رپورٹس) وچ رنگ بھر دیوے گا “-
چائے پینے کے بعد خان صاحب ہم سے گلے مِل کر رخصت ہو گئے —- ایسے صاحبِ دل ، صاحبِ نظر افسر اب کہاں –——————- رہے نام اللہ کا –––بشکریہ-منورعلی ملک-2ستمبر 2021
میرا میانوالی–
کالج کے لیے فرنیچر ، سائنس کا سامان اور لائبریری کی کتابیں خریدنے کے لیئے سرکار ہر سال ڈیویلپمنٹ گرانٹ کے نام پر کچھ پیسے دیتی ہے – گورنمنٹ کالج عیسی خیل کو ایک لاکھ روپیہ ملا – 1977 میں ایک لاکھ روپیہ اچھی خاصی رقم تھا – اس رقم میں جتنا فرنیچر ، سائنس کا سامان اور کتابیں آسکتی تھیں ، میں نے خرید لیں –
رقم کی ادائیگی ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس سے بِل کی منظوری کے بعد نیشنل بینک سے رقم نکلوا کر کی جاتی تھی – ہم نے بِل بنا کر بھیجا تو ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس میں اٹک گیا – کبھی ایک اعتراض ، کبھی دوسرا ، فلاں کاغذ ساتھ لگائیں ، فلاں رسید مشکوک ہے ، نئی رسید بنوا کر بھیجیں – ایک حُکم کی تعمیل ہوجاتی تو کوئی نیا حُکم صادر ہوجاتا – ایک دو سیانے لوگوں نے کہا “ سر ، ان کو کچھ نہ کُچھ دینا پڑتا ہے – دوچارہزار روپے دے دیں تو سارے اعتراض ختم ہو جائیں گے “ – میں نے کہا جب میں نے خود اپنے لیئے اس رقم میں سے کُچھ نہیں لیا تو کسی اور کو کیسے دے دُوں – یہ رقم امانت ہے میں اس میں خیانت نہیں کر سکتا –
30جون تمام سرکاری ادائیگیوں کی آخری تاریخ ہوتی ہے – اب کی بار میں خود بِل لے کر اکاؤنٹس آفس گیا – اکاؤنٹس آفیسر صاحب سے ملا – انہوں نے فائیل پر ایک نظر ڈال کر فائیل مجھے واپس دیتے ہوئے کہا “ دیکھیں جی پروفیسر صاحب ، اس میں آئی ڈی او صاحب کا سرٹیفیکیٹ بھی نہیں لگا ہوا ، فلاں فلاں رسیدیں بھی یُوں نہیں ، یُوں بنانی تھیں ” –
میرا میٹر گھُوم گیا – میں نے فائیل ان کی میز پر پھینک کر کہا “ یہ بِل اپنے پاس رکھیں – ان کا اچار ڈال لینا – میں یہ ایک لاکھ روپیہ اپنی جیب سے دے دُوں گا“-
یہ کہہ کر میں وہاں سے نکلا اور اپنے گھر داؤدخیل آگیا – تقریبا پانچ بجے شام داؤدخیل سکول کا ایک کلرک جو صبح کسی کام سے اکاؤنٹس آفس گیا تھا ، میرے ہاں آیا اور منظورشدہ بِل مجھے دیتے ہوئے کہنے لگا “ سرِ ، آپ کے بِل پاس ہو گئے ہیں – بینک آج رات بارہ بجے تک کُھلے رہیں گے – آپ نیشنل بینک عیسی خیل سے رقم وصول کر لیں “-
پاکستان میں رہنے کے لیے کبھی کبھی تھوڑا بہت پاگل بننا پڑتا ہے – سراسر شرافت سے ہمیشہ کام نہیں چلتا –—– رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک-3ستمبر 2021
میرا میانوالی–
جب ہم نے ہوش سنبھالا داؤدخیل ایک بالکل سادہ سا گاؤں تھا – زبان، لباس ، کھانا پینا سب کچھ خالص دیہاتی تھا – دُودھ ، مُرغی ، انڈہ بیچنے کا رواج نہ تھا – اول تو ہر گھر میں گائے بھینس ، مُرغیاں وغیرہ ہوتی تھیں ، اس لیئے دُودھ ، دہی ، مکھن گھی ، مُرغی انڈہ وغیرہ خریدنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی – اگر کسی وقت ضرورت پڑ بھی جاتی تو ہمسایوں ، رشتہ داروں کے گھر سے ہر چیز مُفت مل جاتی تھی – شاید اسی لیئے رزق اور رشتوں میں برکت بھی تھی –
داؤدخٰیل کے خالص دیہاتی کلچر میں شہری کلچر کی آمیزش کا آغاز جناح بیراج کی تعمیر سے ہوا – بیراج کی تعمیر کے دوران مختلف علاقوں سے محکمہ نہر کے ملازمین یہاں آکر رہنے لگے – داؤدخیل اور پکی شاہ مردان کے درمیان ان ملازمین کے رہنے کے لیئے نہر کالونی بن گئی – شہروں کے رواج کے مطابق یہ لوگ دودھ ، گھی ، مُرغی انڈہ وغیرہ نقد پیسے دے کر خریدتے تھے – یُوں داؤدخیل میں یہ چیزیں بیچنے کا رواج برپا ہوا – نقد پیسہ ملنے لگا تو کُچھ لوگوں نے دوچار گائیں بھینسیں پال کر دُودھ گھی وغیرہ کی فروخت کا کام ذریعہ ء معاش بنا لیا – اس حوالے سے چاچا محمد نواز خان المعروف چاچا وازُو شادی بیاہ کے موقعوں پر ایک لوک گیت بھی گایا کرتے تھے ، جس کے ابتدائی بول تھے
اللہ سوہنڑاں بند نہ کریں ہا ہیڈ والے روزگار کو
(اے اللہ جناح بیراج والے روزگار کو بند نہ کرنا)
شہری علاقوں سے ملازمین کے یہاں آکر رہنے سے یہاں کی زبان ، لباس اور رہن سہن میں بھی شہری اثرات در آئے – چادر یا دھوتی اور بند گلے کی قمیض کی بجائے کالر والی قمیض اور شلوار کا رواج آگیا – تبدیلی کا یہ عمل تیس چالیس سال پر مُحیط تھا – آج سے ہماری محفل کا موضوعِ گفتگو کلچر کی تبدیلی کا یہی عمل ہوگا – خاصی دلچسپ داستان ہے –—————– رہے نام اللہ کا —-–بشکریہ-منورعلی ملک-4ستمبر 2021
میرا میانوالی–
جناح بیراج کی تعمیر کے دوران مزدُور زیادہ تر داؤدخیل کے مقامی لوگ تھے – جب تعمیر مکمل ہوگئی تو صرف مستقل ملازمین باقی رہ گئے – بیلدار ، مالی ، چوکیدار وغیرہ سب داؤدخیل ہی کے تھے – چند میٹرک پاس نوجوان کلرک بھرتی ہو گئے – افسر ، ایکس ای این ، ایس ڈی او، اوورسیئر وغیرہ داؤدخیل سے باہر کے تھے –
داؤدخٰیل کے قبیلہ نیکُوخیل (سالار) کے بھائی فتح خان محکمہ نہر میں اکاؤنٹنٹ کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے اپنے قبیلے کے بہت سے لوگ محکمہ نہر میں بھرتی کروا دیئے – قبیلہ بہرام خیل کے چند لوگ بھی محکمہ نہر میں ملازم ہوگئے –
یُوں جناح بیراج کی تعمیر سے کسی حد تک داؤدخیل کی معیشت میں بھی تبدیلی آئی – لیکن بنیادی طور پر داؤدخیل کی معیشت زرعی ہی رہی – بارانی زمین سے پیدا ہونے والی گندم ہی سے سب ضروریات پُوری کی جاتی تھیں – نقد پیسے کی بجائے گندم کے بدلے میں روزمرہ کے استعمال کی چیزیں مقامی دکانوں سے خریدی جاتی تھیں – گندم کی فصل کے بعد ضرورت کے مطابق گندم گھر میں رکھ کر باقی فروخت کردی جاتی تھی – اس سے جو پیسے ملتے تھے وہ شادی بیاہ اور دُوسری ضروریات پر خرچ کیئے جاتے تھے – فصل کے حساب سے شادی بیاہ اپریل مئی میں ہوتے تھے –
جناح بیراج کی تعمیر سے داؤدخیل کے کلچر اور معیشت میں معمولی درجے کی تبدیلیاں تو آئیں ، مگر کوئی انقلاب برپا نہ ہوا – دس پندرہ سال بعد پی آئی ڈی سی کے چار کارخانوں کے قیام نے داؤدخٰیل کا حُلیہ ہی بدل کے رکھ دیا – رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-5ستمبر 2021
یادیں ۔۔۔۔۔۔
مدینہ منورہ ۔ دسمبر 2019
میرا میانوالی–
1950 -1955 کے دوران سرکار کے زیرانتظام صنعتی ترقیاتی کارپوریشن PIDC
نے داؤدخیل کے شمال مشرق میں پہاڑ کے دامن میں کیمیائی کھاد، سیمنٹ ، پنسلین اور رنگ بنانے کے چار کارخانے قائم کیئے – ان کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں ، دفتری عملہ ، انجینیئرز اور انتظامیہ کے افسران کے لیئے داؤدخیل / پنڈی ریلوے لائین اور پہاڑی نالہ جابہ کے درمیان تقریبا 2×2 کلومیٹر پر محیط رہائشی کالونی تعمیر کی گئی – یہ کالونی اس وقت کے صدرمملکت سکندر مرزا کے نام سے منسُوب کی گئی –
ہزاروں افراد کی رہائش کے لیئے مختص اس کالونی میں شہری طرزِ زندگی کی تمام سہولتوں ، ہسپتال ، سکول ، بنک ، پوسٹ آفس ، جامع مسجد ، سڑکیں ، پانی بجلی اور گیس کی مفت فراہمی ، رعایتی نرخوں پر کپڑا اور روزمرہ استعمال کی چیزوں کی دستیابی کا بندوبست کیا گیا – کالونی میں پندرہ بیس دکانوں پر مشتمل مارکیٹ بھی بنائی گئی –
سکندرآباد ہاوسنگ کالونی داؤدخیل کے لوگوں کے لیئے شہری طرزِ زندگی کا ماڈل ثابت ہوئی – لوگوں کے شعور کی سطح بلند ہوئی اور کارخانوں میں کام کرنے کا نقد معاوضہ ملنے لگا تو معیار زیست بھی بلند ہوگیا – لباس ، خوراک اور رہائش میں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں – الیکٹرانک مصنوعات اور جدید طرز کی بہت سی چیزیں رواج میں آئیں –
مختصر یہ کہ داؤدخٰیل کا خالص دیہاتی ماحول تیزی سے شہری ماحول کے اثرات قبول کرنے لگا – آج کا داؤدخیل ہمارے بچپن کے داؤدخیل سے بہت مختلف ہے ، مگر دیہاتی طرزِزندگی کی کُچھ جھلکیاں کہیں کہیں اب بھی نظر آتی ہیں –
——————– رہے نام اللہ کا-––بشکریہ-منورعلی ملک-7ستمبر 2021
میرا میانوالی–
صبح سویرے موسلادھار بارش۔ موسم بہت خوشگوار۔ آج موسم enjoy کرتے ہیں۔ پڑھنا لکھنا کل سہی۔
صحن میں مستری مزدور بدستور کام میں مصروف ہیں۔ انہیں دیکھ کر عجیب سا محسوس ھو رہا ھے، موسم enjoy کرنا بھی ان کے نصیب میں نہیں۔
اقبال نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔۔۔
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات،
اللہ کریم ان کا حافظ و ناصر ھو، ان کی زندگی بھی آسان کردے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔–بشکریہ-منورعلی ملک-8ستمبر 2021
میرا میانوالی–
پی آئی ڈی سی کے چار کارخانوں میں داؤدخیل کے بہت سے لوگوں کو ملازمت ملنے سے شہر کی معیشت اور معاشرت میں بہت سی خوشگوار تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں – معیارِزندگی بلند ہوا –
مزدوروں کے حقوق کا شعور پیدا کرنے میں ایڈووکیٹ امان اللہ خان نیازی (عمران خان کے چچا) نے بلامعاوضہ بہت اہم خدمات سرانجام دیں – ان کا براہِ راست داؤدخیل کی فیکٹریز یا یہاں کے لوگوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا – پھر بھی انہوں نے مزدُوروں کی سیاسی تربیت اور تنظیم سازی کے لیئے اپنی خدمات وقف کردیں – انتظامیہ کے خلاف مزدُوروں کے مقدمات کی بلامعاوضہ پیروی کی – ہر ہفتے داؤدخٰیل جاکر لیبر یوُنین کی رہنمائی کرتے رہے – یُوں ایک منظم اور مضبوط لیبر یُونین وجود میں آگئی ، جس کی کوششوں سے مزدُوروں کو بہت سے حقوق اور مراعات حاصل ہوئیں –
اپنی اس تمام تر محنت سے امان اللہ خان نے ایک پیسے کا فائدہ بھی حاصل نہ کیا – نہ لیبر یونین کا کوئی عہدہ قبول کیا ، نہ کوئی اپنا بندہ بھرتی کروایا – بس خدمت خلق کا ایک جنون تھا جس کے تحت انہوں نے یہ گراں قدر خدمات سرانجام دیں – جنون کانام تو ان کے ہونہار بھتیجے نے بھی بہت لیا ، مگر یہ والا جنون غلط لوگوں نے یرغمال بناکر اپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیا – امان اللہ خان بہت دلیر اور سمجھدار تھے – اپنے فیصلے خود کرتے تھے – کوئی انہیں بلیک میل نہیں کر سکتا تھا – ان کا کوئی منظورنظر مشیر اور معاون نہ تھا – مزدوروں کے حقوق کے لیئے ان کی جدوجہد تاریخ کا ایک زریں باب ہے –
بات ذرا سی سیاسی ہو گئی – لیکن اس سیاق و سباق میں یہ بات ضروری تھی – مقصد کسی کی تعریف یا کسی پر تنقید نہیں ، صرف احساس بیدار کرنا ہے –
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات———————— رہے نام اللہ کا ––بشکریہ-منورعلی ملک-9 ستمبر 2021
میرا میانوالی–
داؤدخیل کے کارخانوں کی داستان خاصی طویل بھی ہے ، دردناک بھی –
کیمیائی کھاد، سیمنٹ ، رنگ سازی اور پنسلین کے ان چار کارخانوں میں سے رنگسازی کا کارخانہ (پاک ڈائیز اینڈ کیمیکلز) اور پنسلین کا کارخانہ تو سرکار کی بے حسی کے باعث آج سے دس پندرہ سال قبل صفحہء ہستی سے مٹ گئے – پرائیویٹائیزیشن کی مزدورکُش پالیسی کے تحت یہ کارخانے سرمایہ داروں کے ہاتھ سستے داموں بیچ دیئے گئے – سرمایہ دار تو صرف اپنا منافع دیکھ کر پیسہ خرچ کرتا ہے – جس کاروبار میں نفع کم ہو اس کے دروازے بند – اس کاروبار سے روزی کمانے والے مزُوروں کی ذمہ داری وہ اپنے سر نہیں لیتا – یُوں سینکڑوں ، ہزاروں لوگ اچانک بے روزگار ہو جاتے ہیں – پاک ڈائیز اور پنسلین فیکٹری کے مزدُوروں کے ساتھ یہی المیہ ہوا – سرمایہ داروں نے ان کارخانوں کی اینٹیں بھی بیچ دیں – پنسلین فیکٹری کی زمین رہائشی پلاٹس کی شکل میں کُچھ بِک گئی ، بقیہ کے سودے ہو رہے ہیں – سیمنٹ سازی میں منافع دیکھ کر مالک نے میپل لیف سیمینٹ فیکٹری کے علاوہ سیمنٹ کےتین اور پلانٹ لگا دیئے –
سیمنٹ کے ان کارخانوں سے ہوا اور پانی میں آلُودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے – ترقی اور خوشحالی کے نام پر تباہی کا یہ عمل ملک بھر میں جاری ہے – لاہور کا دریائے راوی تو بہت عرصہ پہلے گٹر بن چُکا تھا ، کارخانوں کا فُضلہ کئی سال سے مسلسل دریائے سندھ میں گرانے کی وجہ سے اب دریائے سندھ میں بھی آلُودگی خطرناک حد تک بڑھ چُکی ہے – اللہ رحم کرے –
نام نہاد ترقی اور خوشحالی کے منفی نتائج کے بارے میں علامہ اقبال نے بہت عرصہ پہلے یہ کہہ کر خبردار کردیا تھا ———-
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
ہر طرف یہی ہوتا نظرآرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔————————— رہے نام اللہ کا—–بشکریہ-منورعلی ملک-11ستمبر 2021
میرا میانوالی–
ہاؤسنگ کالونی سکندرآباد پاکستان کے چاروں صوبوں کے کلچرز کا سنگم تھا – ملک کے تمام علاقوں سے آئے ہوئے لوگ یہاں کےکارخانوں میں کام کرتے رہے – بیس پچیس برس ملازمت کے دوران ان کے بچے یہیں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے – میٹرک تک تعلیم کالونی کے سکول میں مکمل کی – وہ آج بھی سکندرآباد کو اپنا گھر سمجھ کر اس کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں – میری پوسٹس میں سکندرآباد کا ذکر پڑھ کر بہت درد بھرے کمنٹس دیتے ہیں – اپنے دوستوں اور ہمسایوں کو یاد کر کے آنسُو بہاتے ہیں – ان کے کمنٹس سے بعض اوقات میری آنکھیں بھی بھیگ جاتی ہیں ، کیونکہ ان میں سے کئی لوگوں کے والد میرے جانے پہچانے دوست اور ساتھی تھے ، جو یہاں بیس پچیس سال ملازمت کے بعد اپنے اپنے آبائی وطن کو لَوٹ گئے – ان میں سے کئی اب اس دنیا میں موجود نہیں – جب تک زندہ رہے سکندرآباد کو یاد کرتے رہے –
سکندرآباد کو یہ اعزاز بھی نصیب ہوا کہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا اُردو ناول “اُداس نسلیں“ ، عبداللہ حسین نے یہیں بیٹھ کر لکھا – عبداللہ حسین اُس وقت یہاں کی میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں انجینیئر تھے – میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کے بہت قریبی دوست بن گئے – میں اُس وقت میٹرک میں پڑھتا تھا – عبداللہ حسین چھوٹی سی FIAT کار پہ ہمارے ہاں آیا کرتے تھے –
کالونی اب بھی آباد ہے ، مگر ہمارے جاننے والے اکثر لوگ چلے گئے – ان میں سے جواِس وقت دُنیا میں موجُود ہیں اللہ کریم انہیں خوش رکھے، جو رُخصت ہو گئے اُن کی مغفرت فرمائے –
گُذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————- رہے نام اللہ کا –––بشکریہ-منورعلی ملک-12ستمبر 2021
میرا میانوالی–
سکندرآباد کی فیکٹریز اور کالونی میں شہری علاقوں کے ملازمین سے میل جول کے باعث داؤدخیل کے کلچر میں کئی تبدیلیاں رُونما ہوئیں – زبان ، لباس، خوراک اور گھروں کی تعمیر میں یہ تبدیلیاں رائج ہو کر کلچر کا حصہ بن گئیں- زبان کے کئی قدیم الفاظ کی جگہ پنجابی اور اُردو کے الفاظ آگئے – کسی دن ان الفاظ پر الگ پوسٹ لکھوں گا –
فیکٹریز میں کام کرنے والے لوگوں کی زندگی میں خوشحالی کے اثرات مختلف صورتوں میں نظر آنے لگے – سائیکل کی جگہ موٹرسائیکل نے لے لی – چال ڈھال اور رکھ رکھاؤ میں نئی روایات قائم ہوئیں – کالاباغ کی بجائے سکندرآباد مارکیٹ عمومی شاپنگ سنٹر بن گئی – کالاباغ میں شاپنگ صرف وہاں کی مخصوص مصنوعات ( جُوتے ، لوہے کا گھریلو سامان ، مٹی کے برتن ، مصلے اور چٹائیاں) تک محدود ہوگئی – روزمرہ کی ضرورت کا باقی سب سامان سکندرآباد مارکیٹ سے ملنے لگا –
چاچا علی خان بہرام خیل کا ہوٹل ، چاچا دوست محمد خان المعروف دوسہ نمبردار کا ہوٹل ، ماما غلام حسین کا باٹا شُو سٹور ، محمد شیرخان کی نیوز ایجنسی ، اور میاں میڈیکل سٹور پہ ہمارا بہت آنا جانا رہا –
داؤدخیل میں اگر کوئی کہتا “ مارکِیٹ وینے پئے آں “ تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم سکندرآباد مارکیٹ جارہے ہیں –
———————– رہے نام اللہ کا ––بشکریہ-منورعلی ملک-13ستمبر 2021
میرا میانوالی–
سکندرآباد ہاؤسنگ کالونی ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر سیداسحاق بہت دلنشیں شخصیت تھے – کم گو، مگر نہایت خوش اخلاق ۔ شائستہ اور باوقار انسان تھے – تشخیص کے ایسے ماہر کہ مریض کو جہاں بھی لے جائیں تشخیص نہیں بدلتی تھی – مریض کو دیکھتے ہی سمجھ جاتے تھے کہ اسے کیا مرض لاحق ہے – کوئی لمبے چوڑے ٹیسٹ بھی نہیں
بتاتے تھے – بس دوا لکھ کر دے دیتے تھے –
ڈاکٹر صاحب ہمارے فیملی ڈاکٹر بھی تھے – ہم چونکہ فیکٹریز کے ملازم نہیں تھے ، اس لیئے ہم ان سے پرائیویٹ علاج کرواتے تھے – معمولی سی فیس (صرف پچاس روپیہ) – دوا ہسپتال کی بجائے میڈیکل سٹور سے لینی پڑتی تھی –
ایک دفعہ دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے اچانک مجھے لگا کہ دل کی دھڑکن یکلخت بہت تیز ہو گئی ہے – بے چینی بڑھنے لگی تو میں سکندرآباد ہسپتال پہنچا – ہسپتال اس وقت بند تھا – ڈسپنسر سید سجادحسین شاہ نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کسی کام سے فرٹیلائیزر فیکٹری گئے ہوئے ہیں – میں نے کہا انہیں فون پر میرا بتا دیں – سجاد شاہ صاحب نے مجھے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں سٹریچر پر لٹا دیا اور ڈاکٹر صاحب سے فون پر بات کی – کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحب آگئے – سجاد شاہ صاحب نے بتایا کہ اس وقت میرے دل کی دھڑکن 136 پہ پہنچ چکی ہے – (صحتمند انسان کے دل کی دھڑکن 72 ہوتی ہے) –
ڈاکٹر صاحب کے ردعمل سے پتہ چلا کہ ڈر خطرے کی کوئی بات نہیں – انہوں نے سجاد شاہ صاحب سے کہا انہیں ایک گولی Inderal 10mg پانی کے ساتھ دے دیں— گولی لیتے ہی دس منٹ میں دل کی دھڑکن بحال ہوگئی ، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا –
میں نے کہا “ڈاکٹر صاحب، یہ تھا کیا ؟
ہنس کر کہنے لگے “ ملک صاحب ، میں آپ کو دل کا مریض نہیں بنانا چاہتا – بس اتنا کہوں گا کہ دل کی رفتار کی فکر نہ کیا کریں – اس بچارے کو اپنا کام کرنے دیں – اس کی رفتار آپ کی جان بچانے کے لیے کبھی تیز کبھی سُست ہوتی رہتی ہے – فی الحال آپ کا مسئلہ ہاضمے کی خرابی کا نتیجہ تھا – یہ کوئی فکر کی بات نہیں تھی “-————————– رہے نام اللہ کا ——–بشکریہ-منورعلی ملک-14ستمبر 2021
میرا میانوالی–
سکندرآباد ہاؤسنگ کالونی کے کلچرل ونگ نے ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا – ضلع بھر سے شعراء اس مشاعرے میں شریک ہوئے – میں نے ابھی شعر کہنا شروع نہیں کیا تھا – میرے ماموں مرحوم ملک منظورحسین منظور اس محفل کے مہمان خصوصی تھے – بیماری کی وجہ سے وہ خود تو محفل میں شریک نہ ہوسکے ، اپنی ایک غزل لکھ کر مجھے دے دی کہ ان کی طرف سے حاضری کے طورپر ان کے نام سے یہ غزل مشاعرے میں پڑھ دوں – حُکم کی تعمیل سے انکار کی مجال نہ تھی ، مشاعرے میں شریک ہونا پڑا – ترنم سے غزل پڑھی ، بہت واہ واہ ہوئی –
ماموں جان علامہ اقبال کے انداز میں قومی موضوعات پر نظمیں لکھتے تھے – ان کی شاعری محبوب اور زُلف ورخسار کے ذکر سے پاک ہوتی تھی – اقبال کی طرح ان کی شاعری میں بھی عربی، فارسی کے الفاظ بہت زیادہ ہوتے تھے ، اس لیئے عام لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے تھے – مشاعرے میں ان کی غزل پر واہ واہ میری مترنم آواز کی وجہ سے ہوئی – میرے بعد ایک اور شاعر نے اپنا کلام سنانا شروع کیا – اچانک سامعین کی اگلی صف سے ایک صاحب سٹیج سیکریٹری کے پاس آکر کہنے لگے “ جی ایم (جنرل مینیجر) صاحب کی بیگم صاحبہ کی فرمائش ہے کہ منورعلی ملک کو دوبارہ بُلایا جائے –
کسی شاعر کو دوبارہ کلام سُنانے کا موقع دینا مشاعروں کی روایات کی خلاف ورزی ہے – دوسرے شاعر اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں – مگر یہ فیکٹری کی انتظامیہ کا مشاعرہ تھا ۔ جنرل منیجر صاحب کی بیگم کی فرمائش حُکم کا درجہ رکھتی تھی – میں نے اُن صاحب سے کہا میں تو شاعر ہوں بھی نہیں – جیسا کہ میں نے سٹیج پر بتایا تھا ، میں نے جو غزل پڑھی وہ میری نہیں ، میرے ماموں جان کی تھی —– انہوں نے کہا جی آپ وہی غزل دوبارہ پڑھ دیں ، بیگم صاحبہ بس آپ کی آواز سننا چاہتی ہیں –
عجیب صورتِ حال تھی – میں نے وہی غزل دوبارہ پڑھی اور بیگم صاحبہ جُھوم جُھوم کر واہ واہ کہتی رہیں ، یہ صرف آواز کے جادُو کا اثر تھا ، ورنہ غزل تو بیگم صاحبہ کے سر سے بہت اُوپر سے گذر گئی ہوگی – اس غزل کا سب سے آسان شعر یہ تھا ، یہ بھی بہت کم لوگ سمجھ سکیں گے – شعر یہ تھا ——
کمندِ فکر فلک پر تو ڈال سکتا ہے
سکُونِ قلب سے محروم ہےمگر الحاد
شعر کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کو نہ ماننے والا آدمی عقل کی مدد سے آسمان تک بھی پہنچ جائے ، اُس کا دل سکُون سے محروم ہی رہتا ہے –
——————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-15ستمبر 2021
میرا میانوالی–
الحمدللہ الکریم —–
اردو میں میری نئی کتاب “تاریخ انگریزی ادب” اسی ہفتے منظرعام پر آگئی۔ یہ کتاب اردو بازار لاھور کے کتاب محل پبلشرز نے شائع کی ھے۔ یہ اردو میں میری پانچویں کتاب ھے۔ پہلی کتاب “درد کا سفیر” ، دوسری “پس تحریر” ، تیسری “جان ملٹن” چوتھی میرا شعری مجموعہ “جوتم سے کہہ نہ سکا”۔اسی دوران انگلش کی 12 کتابیں بھی منظرعام پر آئیں ۔ 5سال سے اردو میں روزانہ پوسٹس بھی آپ دیکھ رہے ہیں۔ بہت کچھ اور بھی کرنا چاہتا ہوں۔ دعا کرتے رہیں ۔
‐‐————- رہے نام اللہ کا–
میرا میانوالی–
323 صفحات پر محیط , 13 ابواب پر مشتمل میری تازہ کتاب “تاریخ انگریزی ادب“ کی تکمیل میں ایک سال سے کچھ زائد عرصہ لگا ، کیونکہ صرف لکھنا نہیں تھا ، ہر باب لکھنے سے پہلے معلومات کی تصدیق کے لیئے تاریخِ ادب کی مستند کتابوں سے شواہد لینے پڑے ۔ جہاں ضرورت پڑی ان مؤرخین کی تحریروں سے اقتباسات لے کر کتاب میں شامل کیئے گئے –
یہ کتاب انگریزی ادب کی تقریبا 1350 سالہ تاریخ کا احاطہ کرتی ہے –
تاریخ کی کوئی بھی کتاب حرفِ آخر نہیں ہوتی – تحقیق کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔ اسی حساب سے ترمیم ، تخفیف اور اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے- یہ کتاب صرف حقائق پیش کرکے انگریزی ادب کی تاریخ اور اہل قلم کا تعارف کراتی ہے – میں نے اپنا کام کردیا – اچھا ہے یا ناقص ، یہ فیصلہ کرنا اہلِ علم کا کام ہے –
تاریخ کا جذبات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ مگر میرے لیئے اس کتاب کی خاصی جذباتی اہمیت بھی ہے – 18 ویں اور 19 ویں صدی کی تاریخ کا زیادہ ترحصہ میں نے اسلام آباد میں اپنی اہلیہ مرحومہ کی بیماری کے دوران ان کے قریب صوفے پر بیٹھ کر لکھا – یوُں اس کتاب کے وہ باب ہمیشہ مجھے ان کی یاد دلاتے رہیں گے – اسی حوالے سے میں نے یہ کتاب مرحومہ کے نام سے منسوب کردی ہے –
———————– رہے نام اللہ کا ––بشکریہ-منورعلی ملک-20ستمبر 2021
میرا میانوالی–
میری کتاب تاریخ انگریزی ادب کی اشاعت پر آپ لوگوں کے اظہار مسرت ، مبارک باد کے پیغامات اور دعاؤں کے لیئے آپ سب کا ممنون ہوں – جزاکم اللہ الکریم –
اس کتاب کے بعد دو اور منصوبے زیرغورہیں ، ایک تو اپنی اردو پوسٹس کا انتخاب کتاب کی شکل میں شائع کروانا ، دوسرا انگریزی اخبارات میں اپنے کالموں کا مجموعہ منظرِعام پر لانا – بہت سے کالم تو گُم ہوگئے – جو مل سکے ان کو کتاب کی صورت میں شائع کروانا ضروری سمجھتا ہوں، اللہ کریم سے ہمت و توفیق عطا ہونے کے لیئے آپ کی دعائیں مطلوب ہیں –
گذشتہ دو پوسٹس پر کمنٹس میں کُچھ ساتھیوں نے “تاریخِ انگریزی ادب“ ملنے کا پتہ پُوچھا ہے – یہ کتاب۔ کتاب محل اُردو بازار لاہور نے شائع کی ہے – اپنے علاقے کے بُک سیلرز سے کہہ کر آپ منگوا سکتے ہیں –
کُچھ دوستوں نے پُوچھا ہے یہ کتاب اُردو میں ہے یا انگلش میں – یہ میں نے پبلشر کی فرمائش پر اُردو میں لکھی ہے – انگلش میں لکھنا بہت آسان ہوتا کیونکہ ادب کی تاریخ اور تنقید سے متعلق اصطلاحات اور الفاظ انگلش میں پہلے سے موجود ہیں ، لکھنا بہت آسان ہوتا، مگر پبلشر کی فرمائش کی تکمیل ضروری تھی – اس لیئے یہ کتاب اردو میں لکھی گئی – اُمید ہے بہت لوگ اس سے مستفید ہوں گے –
——————- رہے نام اللہ کا ––بشکریہ-منورعلی ملک-21ستمبر 2021
میرا میانوالی–
حشرتک انتظار کرنا ھے
راستے میں بٹھا گیا کوئی
لخت جگر محمد علی ملک کی 29 ویں سالگرہ
وہ خود تو 18 سال کی عمر میں یہ دنیا چھوڑ گیا، مگر ہم اس کی سالگرہ اور برسیوں کا حساب رکھتے ہیں۔ بہت گہرا زخم ھے۔
علی بیٹے کے لیئے دعاوں کی درخواست ھے۔–بشکریہ-منورعلی ملک22ستمبر 2021
میرا میانوالی–
موسم بدل رہا ہے – ہر موسم کی کچھ مخصوص مصروفیات، مشاغل اور بیماریاں موسم کے ساتھ آتی ہیں – اس موسم میں باجرے کی فصل کٹائی کے لیے تیار ہوجاتی تھی – اس مرحلے پر بڑی تعداد میں جنگلی چڑیاں فصل پر حملہ آور ہوتی تھیں – دن بھر چڑیوں کو اُرانے کے لیئے مختلف حربے استعمال کیئے جاتے تھے – عام طور پر یہ کام بچوں سے لیا جاتا تھا – سارا دن بچوں اور چڑیوں کی تکرار فضا میں گُونجتی رہتی تھی –
بچے فصل کی حفاظت کاکام اپنی غرض کے لیئے کرتے تھے – اس کام میں باجرے کے سِٹے توڑ کر ان میں سے دانے نکال کر کھانے کا موقع مل جاتا تھا – چڑیوں کو بھگانے کے لیے غُلیل ، پتھر ، لمبی سی رسی یا کھبانڑیں استعمال ہوتی تھی – کھبانڑیں رسی کے دوچار فٹ لمبے ٹکڑے کے ایک سرے پر چھوٹا سا پتھر باندھ کر رسی کو سر کے اُوپر سے گھما کر پھینکنے کا عمل تھا – یُوں سمجھیئے کھبانڑیں ایک سادہ سا میزائیل تھا –
چڑیوں سے جنگ میں ہتھیاروں کے علاوہ زبان سے بھی کام لیا جاتا تھا – کُچھ مخصوص بول اُونچی آواز میں باربار دُہرائے جاتے تھے – ایک بول یہ تھا —————–
ہو چِڑی ہوووووو
تئیں میڈا سِٹا بھناں ، میں تیڈا گِٹا بھناں ہووووووو
داؤدخیل میں ہمارے گھر کے سامنے ہمارا دس کنال کا پلاٹ تھا – چاچا بشیراحمد اس میں باجرہ کاشت کرتے تھے – باجرے کی راکھی ہم بچہ لوگ مل کر کرتے تھے – دن بھر شغل میلہ لگا رہتا تھا – اب نہ وہ پلاٹ ہے ، نہ وہ لوگ –
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ
———————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-25ستمبر 2021
میرا میانوالی–
باجرے کی فصل سے مستفید ہونے کے لیے چڑیوں کے علاوہ بٹیر بھی بہت آتے تھے – یہ مہاجر پرندے سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے ہر سال اس موسم میں ہمارے ہاں کچے کے علاقے میں آتے تھے – یہ باجرے کی فصل پر صبح سویرے سحر کے وقت اُترتے تھے – سورج نکلتے ہی غائب ہو جاتے تھے –
داؤدخیل میں بٹیرے پکڑنے کا سسٹم (لاوہ) چاچا صالح محمد درکھان اور چاچا گھیبہ سُنارے نے رکھا ہوا تھا- وہ صبح سویرے کچے کے علاقے میں جاکر بٹیرے پکڑ لاتے تھے – ہم دوپہر کا سالن بنانے کے لیے بٹیرے ان کے ہاں سے خریدتے تھے – بٹیر ا چار آنے کا (ایک روپے کے چار) اور بٹیری دوآنے کی (ایک روپے کی آٹھ ملتی تھیں ) – ویسے بٹیروں کی نسبت بٹیریوں کا وزن بھی زیادہ ہوتا تھا ، گوشت بھی نرم – ہم پانچ سات بٹیریوں کے ساتھ ایک آدھ بٹیرا اپنا بٹیربازی کا شوق پُورا کرنے کے لیئے خرید لیتے تھے –
بٹیرے لڑانا داؤدخیل کے لوگوں کا پسندیدہ شغل تھا – ہدایت سُنارا، غلام مصطفی خان خانے خیل ، ہمارے کزن محمدعظیم ہاشمی اور ماسٹر درازخان داؤدخیل کے سینیئر بٹیر باز تھے – ہر ہفتے نہر کے پار بٹیروں کی پِڑی ( میچ) ہوتی تھی ، جس میں پائی خیل اور موچھ کے بٹیر باز بھی شریک ہوتے تھے – سینکڑوں روپے کی بازی ہوتی تھی – اچھا لڑاکا بٹیر ہزاروں روپے میں بِکتا تھا – لڑائی کے دوران جو بٹیرا بھاگ جاتا وہ دوبارہ لڑنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا ، اُسے یا تو ذبح کر دیتے یا بچوں کو دے دیتے تھے –
بزرگوں کو دیکھ کر ہم بچہ لوگ بھی آپس میں بٹیرے لڑایا کرتے تھے – ایک دفعہ ممتاز بھائی ایک لڑاکا بٹیری خرید لائے ، وہ عام بٹیروں سے قد میں بڑی تھی – اُس نے ہمارے بٹیروں پر تباہی پھیر دی – مار مار کر سب کو بھگا دیا – گھر والوں نے ہمیں ڈانٹ پھٹکار کر وہ بٹیری ہم سے لے کر ذبح کردی –
———————- رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک-26ستمبر 2021
میرا میانوالی–
اس موسم میں ملیریا بخار ہر گھر میں حاضری لگواتا تھا – تیز بخار، سردرد جسم میں درد ، اس کے ساتھ سردی بھی بہت لگتی تھی – لیکن اس کا علاج بھی بہت سادہ ہوتا تھا – سرکاری ہسپتال سے پانی کے رنگ کا کونین مکسچر Quinine mixture اور جسم اور سرکے درد کے لیئے اے پی سی پاؤڈر کی پڑیاں ملتی تھیں – کونین مکسچر اتنا کڑوا ہوتا تھا کہ منہ میں جاتے ہی کانوں سے بھی دھؤاں نکلتا محسوس ہوتا تھا – عام طورپر اس میں تھوڑا ساپانی ملاکر انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے ناک کو مضبوط پکڑ کر ایک گھونٹ پی لیا جاتا – ناک بند کرنے سے کڑواہٹ کم محسوس ہوتی تھی – اول تو پہلی خوراک ہی ملیریا کو بھگا دیتی تھی ، ورنہ ایک دو خوراکیں مزید پینا پڑتی تھیں – یہ ملیریا کا سو فی صد کامیاب علاج تھا – دوسری بار ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی –
کونین مکسچر اور اے پی سی پاؤڈر کے ساتھ لال رنگ کا ہاضمے کا شربت Carminative mixture بھی ملتا تھا – وہ میٹھا اور بہت لذیذ ہوتا تھا – ہم ہسپتال کے ملازم چاچا ملک غلام محمد کی منت سماجت کر کے وہ شربت ذرازیادہ مقدار میں لے لیتے تھے – کیا زمانہ تھا —– ! ! !
آب و ہوا کی بات ہے ، انگریز کے لیے ملیریا کینسر اور کورونا کی طرح موت کا پیغام ثابت ہوتا تھا – جب یہاں انگریزوں کی حکومت تھی ، بہت مرے تھے ملیریا سے – ملیریا مچھر سے پھیلتا ہے ، اس لیئے مچھروں سے بچنے کی خاطر مچھر دانیاں ، تیل کی مالش اور دوسرے بہت سے حربے استعمال ہوتے تھے –
ہمیں تو ملیریا وارے میں تھا، سال میں دوتین دن آرام کر لیتے تھے – اب تو اللہ معاف کرے ایسی ایسی خوفناک بیماریاں آ گئی ہیں جن کا کوئی علاج ہی نہیں – اللہ کریم ہم سب کو ان آفتوں سے محفوظ رکھے –
——————————– رہے نام اللہ کا ––بشکریہ-منورعلی ملک-27ستمبر 2021
میرا میانوالی–
بارانی زمین کا سب سے بڑا مسئلہ ساون کی بارشوں کا وَتَر (نمی) اکتوبر نومبر میں گندم کی کاشت کے لیے محفوظ رکھنا ہوتا تھا – داؤدخیل میں ریلوے لائین اور پہاڑ کے درمیان تقریبا پانچ میل لمبا ، دو میل چوڑا علاقہ تھل کہلاتا تھا – یہ علاقہ ساون میں پہاڑی نالوں کے پانی سے سیراب ہوتا تھا – سب سے بڑا پہاڑی نالہ بھڑکی زیادہ تر رقبے کو سیراب کرتا تھا – اس کے علاوہ شمال مشرق میں سوڑا اور ڈبُچھے نام کے دو نالے خیرآباد اور گردونواح کی زمینوں کو پانی فراہم کرتے تھے –
اس پانی کی نمی کو محفوظ کرنے کے لیئے بارشیں شروع ہونے سے پہلے کھیتوں میں ہل چلا دیتے تھے – نرم مٹی پانی زیادہ مقدار میں جذب کر لیتی تھی – بارشوں کا سلسلہ ختم ہونے کے چند دن بعد زمین پر لکڑی کا بھاری تختہ ( پَھلہ) پھیر کر زمین کی اُوپر کی سطح برابر کر دی جاتی تھی – یُوں پانی کی نمی اکتوبر نومبر میں گندم کی کاشت تک برقرار رہتی تھی –
ساون میں جُوں ہی بارش شروع ہوتی کسان کہیئاں ، بیلچے وغیرہ لے کر تھل کا رُخ کرتے , اور اپنی اپنی زمینوں کی طرف پہاڑی پانی کا رستہ ہموار کرکے واپس لوٹتے تھے – تیز بارش سے سر اور مُنہ کو بچانے کے لیے خالی بوری برساتی کی طرح اوڑھ لیتے تھے –
یہ منظر ہر سال دیکھنے میں آتا تھا —-
شہر کے اندر اور ارد گرد کی زمینیں کنوؤں کے پانی سے سیراب ہوتی تھیں ، وافر پانی دستیاب ہونے کی وجہ سے کنوؤں پر گندم کے علاوہ سبزیاں بھی کاشت ہوتی تھیں-
اب تو موسموں کے مزاج بھی بدل گئے ہیں ، بارشوں کی آمد غیر یقینی ہوگئی ہے – تھل کے علاقے میں ٹیوب ویل لگ گئے ہیں – زمین کی پیداوار کئی گُنا بڑھ گئی ہے ، مگر وہ پہلے جیسی برکت اب رزق میں باقی نہیں رہی – اب تو کیمیکل کھادوں والی زہرآلود خوراک سب کھا بھی رہے ہیں اور اس کے مضر اثرات سے طرح طرح کی بیماریوں سے مر بھی رہے ہیں ——– آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا –
——————- رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-29ستمبر 2021
میرا میانوالی–
بہت سے فیس بُک فرینڈز کو مجھ سے یہ شکوہ ہے کہ میں نے اپنی شاعری کے حوالے سے کبھی کوئی پوسٹ نہیں لکھی – یہی شکوہ لاہور سے میرے ایک بہت پڑھے لکھے سینیئر شاعر اور ادیب دوست نے ان الفاظ میں کِیا تھا — “ آپ اپنی شاعری سے سوتیلی اولاد جیسا سلُوک کیوں کرتے ہیں ؟ حالانکہ معیار کے لحاظ سے آپ کی شاعری آج کے کسی شاعر سے بھی کم نہیں “-
یہ تو خیراُن صاحب کی ذرہ نوازی ہے – بہر حال مجھے اپنی شاعری کی نمائش زندگی کے کسی بھی دور میں اچھی نہیں لگی – بے تکلف دوستوں کی محفل میں بھی میں نے کبھی اپنا شعر نہیں پڑھا –
جہاں تک فیس بُک کے دوستوں کی میری شاعری میں دلچسپی کی بات ہے ، وہ تو زیادہ تر “ سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آیا“ اور نِت دِل کوں آہدا ہاں کل ماہی آسی“ جیسی چیزوں کی بنا پر ہے ، جو لالا عیسی خیلوی کی آواز میں منظرعام پر آکر میرا تعارف بن گئیں – مانتا ہوں یہ بھی میری شاعری ہے ، مگر میری اصل شاعری اس سے بہت آگے کی بات ہے – گیت نگاری تو میں نے عیسی خیل میں قیام کے دوران لالا اور اُس محفل کے دُوسرے دوستوں کی فرمائش پر شروع کی- فطرت کے لحاظ سے میں غزل کا شاعر ہوں –
بچپن ہی سے اچھی شاعری پڑھنے کا شوق تھا – میرے بڑے بھائی مرحوم ملک محمدانورعلی ادب کا بہت اعلی ذوق رکھتے تھے – جدید شاعری اور افسانہ ادب میں اُن کی پسندیدہ اصناف تھیں – ان دواصناف کی بہترین کتابیں اُن کی ذاتی لائبریری میں موجود تھیں – اس کے علاوہ اُس دور کے تمام بڑے ادبی رسائل ، نقوش ، ادبِ لطیف، سویرا ، فنون ، اوراق وغیرہ کے وہ باقاعدہ خریدار تھے –
بچپن میں مجھے ان کتابوں رسالوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی ، پھر بھی میں چوری چُھپے کُچھ نہ کُچھ نکال کر پڑھ لیتا تھا – یُوں گھر ہی میں مجھے ولی دکنی اور میر تقی میر سے لے کر پروین شاکر تک سب اہم شاعروں کی شاعری پڑھنے کا موقع ملتا رہا –
اپنی شاعری کی داستان چھڑگئی ہے تو اب یہی قصہ کُچھ دن چلتا رہے گا – خاصی دلچسپ باتیں ہوں گی ، ان شآءاللہ –
———————- رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک-30ستمبر 2021
Like this:
Like Loading...
Related