میانوالی میں سکھوں کا گردوارہ
یہ گردوارہ آج بھی موجود ہے جو سری گُرو سنگھ سبھا ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا.
اس گردوارے کی عمارت تقریباً 3 کینال پر محیط ہے.
1849ء میں سکھوں کے ہاتھ سے مکمل اقتدار گیا تو انھیں اپنے مستقبل کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کے مستقبل کی فکر بھی لاحق ہوئی۔ اس دور میں عیسائیت، برہمو سماج، آریہ سماج، احمدیہ اور علی گڑھ کی تحاریک عروج پر تھیں چنانچہ سکھوں کو اپنے مذہب کو بچانے اور اس کو اصل شکل میں بحال کرنے کا خیال آیا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ بہت سے سکھ تیزی سے مذہب تبدیل کر رہے تھے۔ چکوال میں سکھوں سے مسلمان ہونے والے بہت سے خاندان اب بھی موجود ہیں جن میں سے کچھ شیخ کہلاتے ہیں.
سنگھ سبھا تحریک کا ایک مقصد مذہب تبدیل کرنے والے سکھوں کو واپس ان کے آبائی دھرم میں لانا بھی تھا ۔ یہ تحریک باقاعدہ طور پر یکم اکتوبر 1873ء کے دن امرتسر میں شروع ہوئی تھی۔ سری سنگھ سبھا تحریک کے تحت گردوارے بھی بنائے گئے اور سکھوں کو تعلیم کی طرف بھی راغب کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ گردوارے بیشتر سکھ کمیونٹی سے چندہ اکٹھا کر کے تعمیر کیے جاتے تھے اور ان کا طرز تعمیر قدیم گردواروں سے بلکل مختلف تھا۔ ان پر مینار اور گنبد وغیرہ بھی نہ تھے اور ان کو مذہبی عبادات کے علاوہ سماجی تقریبات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس تحریک کے تحت پنجابی زبان کی ترویج اور کتب کی اشاعت کا کام بھی کیا جاتا تھا۔ برٹش گورنمنٹ سکھوں کی اس تحریک کو اچھا نہ سمجھتی تھی اور اس کا ذکر انھوں نے جہلم گزٹیئر 1904ء میں اچھے الفاظ میں نہیں کیا ہے۔
میانوالی کا یہ گردوارہ بھی سری سنگھ سبھا تحریک کے تحت تعمیر کرایا گیا تھا. صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود گردوارہ آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے.
اس کی تعمیر کی تاریخ مجھے تاحال نہیں مل سکی .اس علاقہ میں سکھ گھرانے کافی تعداد میں موجود تھے. گردوارہ ایک بازارمیں موجود ہے سکھوں نے مذہبی نسبت سے اس بازار کا نام گرونانک بازار رکھا تھا بعد ازاں اس کا نام مسلم بازار رکھا گیا. اب بھی پرانے بزرگ گرو بازار کے نام سے پکارتے ہیں.
اب اس گردوارہ میں لڑکیوں کیلئے ووکیشنل انسٹیٹوٹ بنا ہوا ہے جہاں بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں.
تحریر و تحقیق ایڈمن: ذکا ملک – Mianwali Old Memoriesღ