نئے قصبے کی تاریخی مسجد – مسجدِخانقاہ سراجیہ
تحریر: قمرالحسن بھروں زادہ
میلوں پھیلی چشمہ جھیل کی شرقی جانب اور شیر دریا، دریائے سندھ پہ بنے چشمہ بیراج سے نکلنی والی چشمہ-جہلم رابطہ نہر کے شمالی کنارے سے ملحق علاقے کا فضائی نظارہ دیکھنے کو گرملتا تو آپ کی تمام تر توجہ کا ارتکاز سبزے کے قرطاس پہ عیاں تین گنبد ہوتے۔
زیادہ دور نہ جائیں ابھی وقت کی سوئی کو محض چہل سال پیچھے موڑیں تو اس علاقے کی واحد رونق یہی مسجد تھی جسکی بنیادوں کو اس وقت بھی یہ تینوں گنبد تھامے ایک انسانی نسل کی اوسط عمر بیت چکی تھی۔ایک صدی پرانی مسجد کے گرد پھیلی آبادی کو ابھی چالیس سال کا ہی عرصہ ہوا ہے تو آج کا موضوعِ تحریر اسی نئے شہر کی پرانی نشانی مسجد خانقاہ سراجیہ ہے۔
مساجد کی تاریخ بقدر تاریخ اسلام جتنی ہی پرانی ہے۔ہر دور اور علاقے کے لحاظ سے مساجد کے طرزِ تعمیر میں فرق رہا ہے لیکن گنبد، مینار اور محراب نے مسجد میں جو مقام اور دوام حاصل کیا ہے وہ مسجد کے طرزِ تعمیر میں مستعمل کسی دوسرے عنصر کو بہت کم ہی ملا ہے۔کچھ مذہب بیزار طبقے نے مسجد کے مینار اور گنبد کو غیر اخلاقی تشبیہات سے متاثر قرار دینے کی بھی سازش کی ہے لیکن میں ترک نظموں میں دی ہوئی تمثیل یہاں رقم کرنا چاہوں گا کہ مساجد کے گنبد ہمارے سروں پہ پہنے آہنی خود ہیں جبکہ مینار ہمارے لئے شمشیر و سنان ہیں۔
1920 کے اوائل میں ڈِنگ اور کھولہ گاؤں کے نواح
میں ایک جگہ جو اسوقت مولوی والا کھوہ سے موسوم تھی وہاں شاہی معماروں کا ایک کارواں آن ٹھہرا تھا۔ ریاست مالیر کوٹلہ موجودہ بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان معماروں کے متعلق یہ مشہور تھا کہ مغل فنِ تعمیر ان کی نسل میں خون کی طرح سرایت کر گیا ہے اور گنبد، مینار گری اور نصف کمان کی شکل کے زاویے اور حاشیے بنانے میں انھیں کمال مہارت حاصل ہے۔ ان معماروں میں ایک نام مستری ظہور کا بھی ہے جن کا خواجہ احمد خان صاحب سے والہانہ لگاؤ بذاتِ خود ایک باب ہے۔
یہ معمار شاہی مسجد دہلی جو مسجدِ جہاں نما بھی کہلاتی ہے جس نے آج بھارت کی سب سے بڑی جامع مسجد ہونے کا اعزاز تھاما ہوا ہے کا نمونہ اور طرزِ تعمیر کی جانچ پڑتال کر کے خواجہ احمد خان صاحب کے حکم پہ میانوالی کی دھرتی پہ قدم زن ہوئے تھے۔
مولانا ابو سعد خواجہ احمد خان (تلوکر) صاحب جو کہ خواجہ سراج الدین موسی زئی شریف کے خلیفہ تھے یہاں ایک ایسی خانقاہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے جو زمانوں تک رُشد و ہدایت کا موجب ہو اور ہوا بھی عین وہی کہ ایک صدی سے خانقاہِ سراجیہ کا فیض آج بھی جاری ہے۔
خواجہ صاحب کا فنِ تعمیر کا ذوق اتنا اعلی تھا کہ ان کا مقصد شاہی مسجد دہلی کی طرز پہ ایک ایسی مسجد جو صدیوں پرانے اور تاریخی فن تعمیر کو آنے والی کئی نسلوں تک اپنی کوکھ میں محفوظ رکھ سکے، تعمیر کرنا تھا۔
قدیم طرزِ تعمیر کی مغلیہ اور شاہانہ مسجد کی تعمیر اس پسماندہ علاقے میں انتہائی محدود وسائل میں ممکن نہ تھی۔حکیم عبد الوہاب کانپور سے جہاں زر کی دستیابی ممکن بنا رہے تھے تو وہیں مانک خاندان اس علاقے میں مسجد کی خاطر اینٹوں کا بھٹہ لگا رہے تھے کیونکہ اس سے پہلے گرد و نواح میں پختہ اینٹوں کا بھٹہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔
مسجد خاصی بلند چبوترے نما اونچی جگہ پہ قائم ہے اور مسجد کی مرکزی عمارت میں پہچنے کے لئے آج بھی درجن بھر سیڑھیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔مسجد میں لگی دستی لفٹ بھی موجود ہے جس کے ذریعے خواجہ خان محمد صاحب ضعیف العمری میں مسجد جاتے تھے۔مسجد کی دیواروں کی چوڑائی ڈھائی سے ساڑھے تین فٹ ہے ۔
مسجد کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اینٹوں کے لئے دس سے زائد مختلف سائز اور شکل کے سانچوں کا استعمال کیا گیا ہے جن میں آٹھ کونے والی حتی کہ مخروطی شکل کی پرنالہ نما اینٹیں بھی شامل ہیں۔
اینٹوں کی چنائی کے لئے چونا، ریت اور مسور کی دال کا مرکب استعمال کیا گیا ہے۔مسجد کی مرکزی عمارت ستر فٹ لمبی ہے اور بیس فٹ چوڑی ہے۔اور برامدہ بھی اسی جتنا ہے۔
مرکزی عمارت کے اوپری حصے کو تین الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور جس کے ہر حصے پہ ایک ایک گنبد ہے۔ ہر عالی شان گنبد کو الگ الگ آٹھ کونوں والی دیواروں پہ بنایا گیا ہے۔ہر گنبد میں دو دو کھڑکیاں ہیں۔
درمیانی گنبد اندر سے منقش ہے جبکہ اطراف کے دونوں گنبدوں کو دانستہ طور پہ اندر سے سادہ رکھا گیا ہے۔محراب کے ارد گرد شیشے کا نہایت باریک کام کیا گیا ہے اور مختلف رنگوں کے امتزاج سے کمال خوشنما بنایا گیا ہے۔رنگوں میں سفید، زرد اور فلکی رنگ نمایاں ہیں۔سفید قیمتی پتھر سے منبر تراشا گیا ہے۔
مسجد کی مرکزی عمارت کے لکڑی کے منقش ، کندہ کاری سے مزین انگوری رنگ کے تین دروازے ہیں جو تاریخ اور ہنر مندوں کے فن کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ان دروازوں کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ جب آپ کھولتے ہیں تو گویا محسوس ہوتا ہے کہ آپ حال سے ماضی کی راہداریوں میں قدم رکھ رہے ہیں۔ان دروازوں کو دیکھتے ہی انسان کچھ لمحوں کے لئے ٹھٹھک کے رہ جاتا ہے اور وقت تیزگام پٹڑی سے اتر کر ہم رکاب ہونے لگتا ہے۔ان دروازوں کے اوپر رنگین شیشوں کا استعمال کیا گیا ہے جن سے سفید روشنی مختلف رنگوں کا لبادہ اوڑھ کر اندر جھانکتی ہے۔
برامدہ کی لمبائی اور چوڑائی مرکزی عمارت جتنی ہی ہے لیکن اس میں چھبیس دروازہ نما ہیں جن میں تین صحن سے برامدہ اور تین برامدہ سے مرکزی مسجد میں داخل ہونے کے لئے ہیں۔باقی دو کو موری نما الماریوں کا روپ دیا گیا ہے جبکہ باقی کو شاہی مسجد دہلی کے برعکس شیشے سے بند رکھا گیا ہے۔
ہر گنبد کو باہر سے اٹھائیس مخروطی ابھاروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کو ایک سائبان کے اندر یکجا کیا ہے۔جس کے اوپر تین گولوں میں منقسم نقرئی اور طلائی رنگت کے دھاتی کلس لگائے گئے ہیں۔
مسجد کی چھت پہ چار چار میناروں کی تین قطاریں ہیں۔اور کل بارہ میناروں میں سے پہلی قطار میں طرفین کے دو مینار مرکزی ہیں جو مسجد کی ہئیت کو چار چاند لگا رہے ہیں۔جبکہ باقی دو قطاروں نے تینوں گنبدوں کو گھیرا ہوا ہے۔
مرکزی مسجد میں چار صفوں کی گنجائش ہے۔اسی ترتیب سے برآمدے میں بھی چار صفیں جبکہ صحن میں پندرہ صفوں کی گنجائش ہے۔
چشمہ بیراج کی تعمیر کے وقت ایک فرانسیسی انجینئر کو جب لوگوں کی زبانی اس خوبصورت مسجد کا علم ہوا تو وہ گھوڑے پہ سوار ہو کر پہنچا۔خواجہ خان محمد صاحب کی اجازت سے اس نے مسجد کا تفصیلی معائنہ کیا اور مسجد کے برامدے کی چھت پہ اپنی حیرانگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ 1920 میں اسطرح کی چھت ڈالنے کی جرات کسے ہوئی؟ اس دور میں لینٹر کی اصطلاح کا مفہوم ہی عام فہم نہیں تھا اور نہ ہی ربڈ سریا اور سیمنٹ ایجاد ہوئی تھی جب برامدے کو بنایا گیا۔
اب مسجد اپنی قدیم تر عمارت کے باوجود جدید ترین سہولتوں سے بھی آراستہ اور محفوظ ہے۔ائیر کنڈیشنز، شاورنگ فینز اور چھ پروں والے سیلنگ فین، بہترین قالین اور صحن حرکی شیلٹر سے بھی لیس ہے۔
جو لوگ مسجد کی ابتدائی اور تابناک عمارت کے شاہد ہیں ان کا کہنا ہے بعد میں جو ترمیم و تزئین و آرائش کی گئی اس سے مسجد کے کچھ حصوں میں پرانے ہنر مندوں کی کاریگری مشینی دور کی تصنع کا شکار ہوئی ہے۔
مسجد کو اگست 2012 میں تمام فقہی مسائل کو دیکھتے ہوئے اور طویل دلائل اور بحث کے بعد جامع مسجد کا درجہ دے کر کے عیدین اور جمعہ کی نماز کا اجراء کیا گیا۔
1980 میں پاکستان ٹیلی ویژن نے مساجد کے نام سے جب پروگرام شروع کیا تو سب سے پہلے پروگرام میں جامع مسجد خانقاہ سراجیہ پہ بنی ہوئی ڈوکومینٹری کو نشر کیا گیا۔
جامع مسجد خانقاہ سراجیہ کے ساتھ ایک بہترین مدرسہ جامعہ عربیہ سعدیہ، اور کئی صدیاں پرانی نایاب کتابوں پہ مشتمل تاریخی لائبریری اور تمام ضروری سہولیات سے لیس ایک ویلفئیر ڈسپنسری موجود ہے۔
مسجد سے ملحق قبرستان میں خانقاہ سراجیہ کے بانی جناب حضرت خواجہ احمد خان صاحب، جناب حضرت مولانا عبداللہ لدھیانوی صاحب ، عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت کے مرکزی امیر جناب حضرت خواجہ خان محمد صاحب اور برصغیر پاک و ہند میں افسانہ نگاری کو نئی جہت دینے والے جناب حامد سراج صاحب مدفون ہیں۔
خانقاہ سراجیہ کی تاریخی درگاہ کے موجودہ مسند نشین خواجہ خان محمد صاحب کے صاحب زادے جناب خواجہ خلیل احمد صاحب ہیں جبکہ ایک اور صاحبزادے جناب صاحبزادہ عزیز احمد صاحب عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت کے موجودہ مرکزی نائب امیر ہیں۔
ویسے تو پورا سال، پاکستان کے طول و عرض سے آنے والے اس خانقاہ کے عقیدت مندوں کا یہاں تانتا بندھا رہتا ہے لیکن رمضان کریم میں تراویح کے دوران اس مسجد میں شب خیزی کرنے والوں کا جذبہ کچھ الگ رنگ ہی رکھتا ہے۔
خانقاہ سراجیہ کی صدی سے قائم یہ تاریخی مسجد، درسگاہ اور لائبریری اسلامی و تاریخی فنِ تعمیر میں دلچسپی رکھنے والے ماہرِتعمیرات ، محققین اور سیاحوں کے لئے ان کی علمی و نظری آسودگی کے لئے ہمہ وقت دستیاب اور کثیر الجہتی ذریعہ ہے۔
مسجد سے متعلق کچھ معلومات کتاب تحفہ سعدیہ سے لی گئیں ہیں۔ زیادہ تر حصہ جناب محمود ملک کے حافظے کا مرہونِ منت ہے۔ مسجد کے اعداد و شمار میرے ذاتی مشاہدے سے عبارت ہیں جبکہ بشارت ملک کی خصوصی رہنمائی شامل رہی ہے۔
تصاویر کے لئے جناب ملک محمود صاحب کا خصوصی طور پہ شکر گزار ہوں۔