ایک دن میانوالی کے قبرستان میں
ہمارے شہر کا مرکزی قبرستان میانوالی کے مغربی کونے پر واقع ہے۔ جہاں ہمارے اپنے اور پرائے، رشتہ دار اور بیگانوں کے مزارات و مقامات ہیں۔ اس بار ہم کزنز نے قبرستان میں اپنے رشتے داروں کی قبروں کی صفائی اور مرمت کی نیت سے ایک مہم کو اٹھایا۔ 9 محرم الحرام ہونے کی وجہ سے سبھی ہم خیال ہوئے۔ مبارک لمحات تھے کہ وقت کے ساتھ ساتھ غفلت نے بھی اجازت دی۔ یوں تو کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ قبرستان میں معدوم ہوتی قبروں کا خیال رکھ سکے۔ بوجھ بٹ جائے تو کم ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح مشترکہ کاوش مشکل کام کو آسان کر دیتی ہے۔
یوں تو سال بھر میں شاذ و نادر ہی موقع ملتا ہے کہ سب جمع ہو کر قبرستان کی صفائی کریں۔ پہلے کسی دور میں سنا کرتے تھے کہ میونسپل کمیٹی قبرستان کا خیال رکھتی ہے لیکن وہ بھی نام کا خیال ہوتا۔ وقتاً فوقتاً کچھ لوگ مل کر نجی سطح پر فاؤنڈیشن نما کمیٹی بناتے رہے تاکہ قبرستان کا خیال رکھا جائے لیکن وہ بھی کوئی خاص کارگر ثابت نہ ہوا۔ بعد ازاں لوگوں نے مل کر اپنے رشتے داروں کے احاطۂ قبرستان کو صاف کرنا شروع کیا۔ یہ مہم کامیاب ہوئی اور تاحال جاری ہے۔
جن راستوں پر زیادہ آنا جانا نہ ہو وہاں گھاس، جھاڑیاں اور خار دار پودے اُگ آتے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے قبروں کے چاروں اطراف خار و خس اور گندگی جمع ہو جاتی ہے۔ اسی خیال نے مجبور کیا کہ ہم متحرک عزیز و اقارب اس مقصد کے لیے جمع ہوں تاکہ اپنے پیاروں کی قبروں کو صاف کریں، ان کی یادوں کو زندہ کرتے ہوئے ان نشانات کو باقی رکھ سکیں جہاں ہم حاضر ہو کر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔
ہم 9 محرم الحرام کو بعد از نمازِ عصر شام 6 بجے مع اوزار اور ساز و سامان قبرستان پہنچے۔ ہم سبھی جمع ہو کر مشترکہ عزم کے ساتھ کام پر لگ گئے۔ یہ قبرستان بہت وسیع ہے میری معلومات کے مطابق مرکزی قبرستان کا ایک مغربی حصہ جو عیدگاہ سے ملحقہ ہے وہ تقریباً 32 ایکٹر (یعنی 256 کنال پر مشتمل ہے)۔ قبرستان میں داخل ہوتے ہی جہاں دیکھو قبریں ہی قبریں نظر آتی ہیں۔ جیسے قبروں کا سمندر ہو۔
دورانِ کام ماحول سنجیدہ تھا ہم جہاں دیکھتے لوگ ہی لوگ تھے۔ وہ بھی اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضر تھے۔ کوئی قبروں کو درست اور صاف کر رہا تھا، کوئی پھول کی پتیاں اور کھجور کے پتے قبروں پر سجا رہا تھا۔ قبرستان میں کچھ مقامات پر خوبصورت پودے اور درخت بھی اُگائے گئے ہیں۔ کچھ لوگ اُنہی درختوں کو پانی بھی دے رہے تھے اور کچھ لوگ اپنوں کی قبروں کے پاس بیٹھے فاتحہ خوانی اور تلاوتِ قرآن میں مصروف تھے۔
قبروں کی دیکھ بھال کرنے کے پیچھے ہمارا ایک مقصد اور احساس تھا جس نے ہمیں قبروں کی دیکھ بھال اور ان کو صاف کرنے کے لیے متاثر کیا۔ کسی نا کسی قبر کا کتبہ جو پہلے پوشیدہ تھا ہماری کوشش سے نئے طور پر ظاہر ہوا، ان کتبوں پر لکھا نام و تاریخِ وفات اور اشعار پڑھ کر دل مغموم ہوا۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو ہمارے والدین کے جدِ اعلیٰ تھے جن کا تذکرہ ہم بچپن میں اپنے والدین سے کسی نا کسی بات کے دوران سنتے آئے۔ ان کو گزرے بھی ایک زمانہ بیت گیا۔ یہاں قدیم قبروں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا، اُن کی حالتِ زار دیکھ کر بڑا ہی دکھ ہوا یقیناً ان کے وارثین میں سے کئی چل بسے ہوں گے جو ان تک پہنچ نہیں پاتے یا پھر مر کر انہی کے پڑوس میں کہیں دفن ہوں گے۔ جیسے ہم نے بھی اپنوں کی قبروں پر حاضری دی جسے ہماری آنے والی نسلیں یقیناً بھلا دیں گی۔
ہم سب مل کر کام کرتے رہے اور اپنے بچھڑوں کی یادیں تازہ کرتے رہے کیوں کہ اُن کے ساتھ بیتے مشترکہ لمحات کو بھلانا ممکن نہیں، مگر وہ اب یہاں دفن ہیں۔ ان کی زندگی کے کئی ایسے واقعات ہمارے دلوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہیں جو ان کی یاد کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ ہماری یہ کوشش صرف ظاہری صفائی کی ہرگز نہ تھی بلکہ پسِ پردہ روحانی کوشش یعنی باطنی صفائی کی نیت بھی تھی۔ وہاں چلتے پھرتے ہمیں بھی احساس ہوتا رہا کہ ہم نے بھی اسی شہرِ خموشاں میں کل کو آنا ہے جہاں اپنی اپنی کوٹھڑی میں زندگی بسر ہوگی۔ ہماری دائمی محبت کا اظہار، مٹی کے دانے کے برابر مانگی جانے والی مخفی دعاؤں کی طرح ہے جو ان روحوں کے لیے بخشش اور امن کی طالب تھیں۔
قبرستان میں جانے سے ہمیں زندگی کی حقیقت سمجھ آتی ہے کہ یہ مختصر سی زندگی جسے ہم نے غفلت کی نظر کیا ہوا ہے یہ بہت جلد ختم ہو جائے گی اور ہم نے بھی زندگی کو موت کے حوالے کر دینا ہے۔ مرنے کے بعد ہمارا ٹھکانہ یہی قبرستان ہوگا جہاں پر ہمارے رشتہ دار اور دوست احباب ہمارا انتظار کر رہے ہیں