پیر مسعود ، میرا کلاس فیلو
پیر شاہ عالم شاہ کے اصیل مرغ
اسلام آباد میں میر پور کے ایک سینیئر آرٹسٹ مجید کنور جو میرے ایک کولیگ ، مرحوم محمد ظفر سینئر پروڈیوسر کے بڑے بھائی ہیں ، میرے پاس ایک نیازی کی سفارش کیلئے آئے – میں نے ان کا نام تو سن رکها تها لیکن ان سے کبھی ملاقات نہیں ھوئی تھی اور نہ ھی تعلق کا کوئی حوالہ ذهن میں تھا ، سو میں نے معذرت کرتے ھوئے ان کے کام کی نوعیت پوچھی تو معلوم ھوا کہ مجید کنور کے انکم ٹیکس کا کوئی مقدمہ میانوالی کے سید مسعود کے سامنے پیش ھے – اور وہ نیازی صاحب ان کے واقف ہیں – مجید کنور بہت عرصے سے بزنس چهوڑ چکا تھا اور بہت عرصے سے مالی طور پر گردش میں تھا – اس کے باوجود اسے تین چار لاکھ روپے کا ٹیکس نوٹس ملا تھا اور محکمے والے اس کی جان کو آئے هوئے تهے جس کے جواب میں اس نے اپیل کر رکھی تھی – یہ غالبا” 1998/9 کی بات ھے – اس وقت اس پیسے کی قدر کا اندازہ لگا لیں –
میانوالی کا سید مسعود ؟ میں سوچ میں پڑ گیا – مسعود کا نام لڑکپن سے میری یادوں میں پیر مسعود کے نام سے ھے اور پیر کے لاحقے کے بغیر میں لڑکپن کے پیارے ساتھی کو پہچان نہیں پا رہا تھا – اس کی وجہ یہ هے کہ ہمارے دوستوں کے گروپ نے انہیں کبهی مسعود کے نام سے یاد نہیں کیا ، ہمیشہ پیر مسعود کہا – میڑک میں میں اور پیر مسعود گورنمنٹ یائی سکول میانوالی کے بی سیکشن کے کلاس روم میں ایک مشرک بنچ پر بیٹھتے تھے جو ٹو سیٹر تھا –
اچانک مجید کنور نے کہا کہ وہ انتہائی ایماندار جج ھے – تو میں نے کہا ، اب میں سمجھ گیا ، تم کس مسعود کی بات کر رھے ھو – اور تم بالکل ٹھیک جگہ پر آئے ھو –
وہ حیران ھو گیا –
میں نے کہا – میں نہ تو فون کروں گا ، نہ ھی سفارش کرنے جاوں گا لیکن اگر تمہارا کیس جائز ھے تو کام ھو جائے گا –
بات اس کی سمجھ میں نہ آئی –
میں نے کہا ، تم میرا ایک کام کردو – تمہارا کام خود بخود ھو جائے گا –
کون سا کام ؟
میں نے کہا – بک سنٹر پر جا کر میری ایک کتاب خریدو – اس پر لکھو –
پیر مسعود کی خدمت میں – اور اس پر میرے نام کے دستخط کر کے سید مسعود کو پہنچا دو – تمہارے پاس وقت نہیں ، میرے پاس کتاب نہیں ورنہ میں تمہیں یہ سو ڈیڑھ کا خرچہ نہ کراتا –
مجید کنور کا میانوالی کی ایک بہت پیاری شخصیت مرحوم امان اللە خان نیازی عیسی خیل سے دوستی کا سلسلہ رہ چکا ھے – امان اللە خان نیازی ، صدر ایوب خان کی کیبنٹ میں وفاقی سیکریڑی اور آزاد کشمیر کونسل کے کرتا دھرتا رہ چکے ہیں اور نہایت نفیس مزاج کے انسان تھے – میں نے ان کو دیکھا نہیں ، اپنی کالج لائف میں ان کی تصاویر اخباروں میں دیکھی ہیں – مجید کنور اکثر ان کا ذکر کرتا تھا – اور ان کے حوالے سے کئی نیازیوں کو اور میانوالی والوں کے عمومی مزاج کو جانتا تھا – وہ اچھا جی کہہ کر اٹھا اور مجھے خدا حافظ کہہ کر چلاگیا – میں اسے یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اگر میں خود سید مسعود کے پاس سفارش کیلئے گیا اور کام ناجائز ھوا تو پیر صاحب نے کام تو نہیں کرنا لیکن دل پر بوجھ ضرور لے لینا ھے – جائز ھوا تو اسی طرح ھو جائے گا –
مجید کنور نے میری تجویز پر عمل کیا کتاب خوابشار پیر صاحب کو پہنچا دی –
اگلے دن سہ پہر کو مجید کنور میرے پاس آیا تو خوشی سے اس کا چہرا کهلا هوا تها – وہ کورٹ سے سیدھا میرے پاس ھی شکریہ ادا کرنے آیا تھا – وہ مجهے بتا رہا تها ، اپیل بورڈ میں پیر صاحب کے ساتھ ایک ممبر اور بھی تھا – اور اس کا کیس جونہی پیش ھوا ، بقول اس کے جج صاحب مجھے دیکھ کر مسکرا دیئے – دوسرے جج نے کیس دیکھا اور ایک منٹ میں فیصلہ مل گیا جو مجید کنور کے حق میں تھا – اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک اتنی بڑی مصیبت سے ایک کتاب کے تحفے نے کسطرح اس کی جان چهڑا دی تھی –
مجھے اس بات کی خوشی ھے کہ پیر مسعود نے انتہائی منفعت بخش پوسٹوں پر رہ کر اپنے نام و ایمان اور اپنے سید بزرگوں کی آن کی حفاظت کی ھے اور رزق حلال میں گزارہ کیا هے – صرف تنخواہ پر گزارہ کرنا کتنا مشکل ھے ، بلکہ کتنا بڑا جہاد ھے ، ایک سرکاری ملازم ھی یہ تلخ حقیقت جانتا ھے – اس کے علاوہ ایماندار سیشن جج یا بنکنگ کورٹ کا جج جس کے سامنے کروڑوں اور اربوں روپے کے کیس پڑے هوں اور ارب پتی اپنے فائدے کیلئے سب کچھ کر گزرنے کے قائل هوں ، ان کا مقابلہ میں قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے نتیجے میں جس معاشرتی اور اعصابی دباو سے پیر مسعود کو گزرنا پڑا ھے اس سے پیر مسعود کی صحت پر منفی اثر ضرور پڑا ھے – لیکن ایسے افراد پر اللە کا خصوصی کرم ھوتا ھے – اور وہی ثابت قدم رہنے کا حوصلہ بھی دے دیتا ھے –
یہ بات مجھے پیر مسعود کی ایک پوسٹ پڑھ کر یاد آئی جس میں انہوں نے لکھا ھے کہ ایک بار ان کا تبادلہ سیالکوٹ ھو گیا اور میں بہت پریشان رھے لگا – ایک دن مجھے خواب میں اپنے والد دادا اور دیگر چچاوں کے ساته ایک نامعلوم بزرگ ملے اور کہا ، تم لاہور جاو – میں صبح ھوتے ہی لاہور روانہ ھو گیا – اور وہاں جا کر حیران رہ گیا کہ غیر متوقع طور پر تیار شدہ ٹرانسفر لیٹر میرا منتظر تھا –
ایسے خواب رزق حلال کی طرح اللە کی نعمتوں میں سے ایک نعمت هیں ، سو مجھے پیر مسعود کے اس خواب پر تعجب نہیں هوا – پیر مسعود اس وقت ریٹائرڈ لائف گزار رھے هیں اور مجھے خوشی ھے کہ میں بهی ان کے چاہنے والوں میں سے ایک هوں –
میری کتاب برف پوش چمنی میں دو اشعار صلاح الدین سنبل اور پیر مسعود الحسن شاہ کے نام سے منسوب ہیں ، میرے یہ دونوں دوست آپس میں کزنز ہیں ، اس موقع پر شاید یہ اشعار آپ کو پسند آئیں اور اس کی ایک خاص وجہ بھی بتا دوں ، پہلے اشعار سن لیں :—
بہت خوش ھو کے ملتا هوں نئے لوگوں سے لیکن
نگاہوں میں ہمیشہ یار دیرینہ رھے هیں
یہ طے ھے پھر ملیں گے ھم کہیں اچھے دنوں میں
مصیبت کی گهڑی میں بھی تو ھم یکجا رھے هیں
اور آخر میں ایک بات بہت ذاتی سی ھے لیکن اس موقع پر یقینا” برمحل محسوس ھوگی –
سن 1970 میں ریاضی میں ایم ایس سی کرنے کے بعد میں بہت عرصہ تک بے روزگار رہا – اتنی طویل بےروزگاری سے میرے دوست بہت پریشان تھے – ایک دن پیر مسعود نے میرے گھر ایک اٹیچی کیس بھیجا جس میں سوٹ ، ٹائی ، نئی قمیض اور بوٹ تھے – پیغام یہ تھا کہ تم سوٹ نہیں پہنتے اس لئے انٹرویو میں فیل ھو جاتے ھو – اب جب بھی انٹرویو پر جانا پہن کر جانا –
میں جب گهر آیا اور یہ سب کچھ دیکها تو میں رو پڑا – دوستوں کی یہ محبت – چار سال کی طویل بےروزگاری کو میرے دوستوں کی محبت نے ہنسی کهیل میں بہا دیا – اب جہاں تک لباس کا معاملہ هے ، ٹائی سے مجھے ہمیشہ سے چڑ تھی – میں ماو کٹ کا بند گلے کا کوٹ پہن کر خوش ھوتا تھا – اس لئے کوٹ پتلون پہننے کی نوبت نہ آئی لیکن پیر مسعود کی تسلی کیلئے کہ میں نے انٹرویو میں اس کا سوٹ پہنا ھے کچھ دن وہ اٹیچی کیس اپنے پاس رکھا اور پھر انہیں شکرئیے کے ساتھ واپس کر آیا – خدا خدا کرکے 1974 میں مجھے چار سال کی بے روزگاری کے بعد ریڈیو پر جاب ملی –
میں اپنے دوستوں کی یہ محبتیں کبھی نہیں بھولا – جس نے مجھے ایک مہربان دنیا اور فراخدل میانوالی کا تصور دیا – عام لوگوں سے میری شاعری اور دیگر تحریروں میں جو محبت جھلکتی ھے وہ انہی پیارے دوستوں کی دین ھے ، اس فہرست میں کئی اور پیارے نام شامل ہیں – اللە میرے ان ساتهیوں کو سلامت رکھے اور جو ھم سے بچهڑ گئے ہیں ، ان کے قبروں پر اپنی رحمت خاص کے انوار تاقیامت برسائے —
(یہ پک پیر مسود الحسن شاہ کی ھے – ان کے چچا پیر شاہ عالم شاہ صاحب مرحوم اپنے زہد اور حکمت کے علاوہ میانوالی کے مشہور زمانہ اصیل مرغ کے تذکرے کے حوالے سے بہت بڑا نام ھے – اور دلچسپ بات یہ ھے کہ لڑاکا اصیل مرغوں کی یہ نسل ، پیر شاہ عالم شاہ مرحوم کے نام سے منسوب ھے ، لیکن پیر صاحب کو مرغ لڑانے سے سخت نفرت تھی – ان کو اس پرندے کا حسن دلفریب لگتا تھا – بلا مبالغہ ان کے صحن میں سینکڑوں اصیل مرغ تھے )
ظفر خان نیازی –2 اپریل2016