PROFESSOR GULZAR BUKHARI

نورنگا کا روشن دمکتا ستارہ پروفیسر گلزار بخاری

کھڑکیاں جاگتی آنکھوں کی کھلی رہنے دو

چاند کو دل میں اترنا ہے اسی زینے سے

یہ کون سا موتی ہے میرے دل کے صدف میں

یہ کون میری آنکھ کے پردوں میں چھپا ہے

      نام گلزار حسین شاہ اور تخلص گلزار ہے۔ ۱۱؍مارچ ۱۹۴۹ء کو نور نگا، میانوالی میں پیدا ہوئے۔ ایم اے(پنجابی) ۱۹۷۳ء اور ایم اے(اردو) ۱۹۷۵ء میں کیا۔ دیال سنگھ کالج ، لاہور کے شعبہ پنجابی سے منسلک رہے۔سید گلزار حسین شاہ نورنگا کا ایک مشہور و معروف اور جانا پہچانا روشن چہرہ ہے آپ نے سید امیر محمد شاہ صاحب کے گھر آنکھ کھولی جو کہ نورنگا کی بذات خود ایک نمایاں شناخت تھے اور سماجی تعلقات تو ان کے بعد ختم تھے

ایسا رہا کرو کہ کریں لوگ آرزو

ایسا چلن چلو کہ زمانہ مثال دے

گلزار بخاری نے ابتدائی تعلیم نورنگا سے ہی حاصلِ کی اور استاد محترم سید عطاء محمد شاہ کے انتہائی ذہین و فطین طلبا میں سے ایک تھے انہوں نے مڈل سٹینڈرڈ امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی. اس کے بعد موچھ میں بھی پڑھتے رہے اور عموماً اپنے ہم عصر اقبال حسین شاہ کے ساتھ سائیکل پر موچھ جایا کرتے تھے میٹرک، ایف اے اور بی اے کے امتحانات اعلیٰ کامیابی کے ساتھ پاس کیے اس دوران ایس وی کا امتحان پاس کرنے کے بعد نورنگا میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیے. جس ہیڈ ماسٹر کے ہونہار شاگرد تھے اسی معلم کے بہترین رفیق کار بن گئے ہماری جماعت کو ان کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل رہا ہے. بہت محنتی اور حلیم طبع استاد تھے. گلزار بخاری پڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی ڈگریاں بھی مسلسل بڑھاتے رہے. بی ایڈ وغیرہ کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے پنجابی کیا. جس وقت انہوں نے ایم اے کے لئے پنجابی کا انتخاب کیا تو ان کے کئی رفقاء حیران ہوئے مگر گلزارِ بخاری نے ایم اے پنجابی کر کے دکھایا اور مزے کی بات کہ کچھ عرصے بعد ان کی اسی مضمون میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور لیکچرار تقرری ہو گئی. پھر تو گلزار بخاری کو لاہور کا بہت بڑا ادبی ماحول مل گیا وہاں انہوں نے بہت جلد اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھ کر نورنگا، میانوالی اور پاکستان کا نام روشن کیا. وہ بہت جلد پورے پاکستان کے ادبی حلقوں کی جان بن گئے اور بہت نام کمایا. پیغمبری پیشہ سے عرصہ دراز تک منسلک رہنے کے بعد ماشاءاللہ پرنسپل کے عہدے سے باعزت ریٹائر ہوئے.

گلزار بخاری۔۔۔۔۔ تحریر    منورعلی ملک
پروفیسر گلزار بخاری، فاروق روکھڑی اور میں ایک ساتھ وادئ شعروسخن میں وارد ہوئے۔ ہم تینوں اردو غزل کے مترنم شاعر تھے اور ترنم کی بنا پر ہم مشاعرے لوٹنے والے شاعر شمار ہوتے تھے۔
عوامی سطح پر ہمارا تعارف 1960-70 کے عشرے میں ماڑی انڈس کے ایک مشاعرے میں ہوا۔ یہ ضلع میانوالی کا پہلا بڑا مشاعرہ تھا جس میں بھکر تک کے شعرا شریک ہوئے۔ مشاعرے کا اہتمام ماڑی انڈس سکول کے ہیڈماسٹر سید انجم جعفری نے کیا تھا۔ مشاعرے کی صدارت بزرگ شاعر میرے ماموں ملک منظور حسین منظور نے کی۔ گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل پروفیسر سید محمد عالم اور علامہ انوار ظہوری مہمانان خصوصی تھے۔
گلزار بخاری نے جو غزل پیش کی اس کا یہ شعر حاصل غزل قرار پایا۔
میں سیپ ہوں مرا حاصل ہے پرورش ان کی،
خدا نصیب کرے آپ کو گہر میرے
اس وقت گلزار بخاری گورنمنٹ ہائی سکول داودخیل میں ٹیچر تھے۔ یہ مشاعرہ ہم تینوں مترنم شعرا نے لوٹ لیا۔ ہر شعر پر بے پناہ داد ملی۔
گلزار بخاری سادات نورنگہ کے مشہور و معروف علمی و ادبی خانوادہ کے فرد منفرد ہیں۔ ان کے تین بھائی پروفیسر شاہ علی اعظم، طاہر بخاری اور فیروز بخاری بھی بہت اچھے شاعر تھے۔ طاہر بخاری اور فیروز بخاری جوانی ہی میں اس دنیا سے رُخصت ہوگئے۔ پروفیسر شاہ علی اعظم گورنمنٹ کالج میانوالی کے شعبہ اردو سے ریٹائر ہو کر روکھڑی موڑ کے قریب سادات کی بستی میں مقیم ہیں۔
ایم اے پنجابی کرنے کے بعد گلزار بخاری گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرر کے منصب پر فائز ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد وہاں سے دیال سنگھ کالج ٹرانسفر ہوا۔ وہیں سے ریٹائر ہوئے۔
شاعر کی حیثیت میں گلزار بخاری قومی سطح پر معروف و مقبول ہیں۔۔ گلزار کی غزل روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی شاعری دانشورانہ منطق نہیں ، دل سے نکلی ہوئی صدا ہے جو تیر کی طرح دلوں میں اتر جاتی ہے ۔میری نظر میں گلزار بخاری کی اپنے والد محترم کی وفات پر لکھی گئی نظم کے یہ دوشعر گلزار کی شاہکار شاعری ہیں۔۔۔۔۔
شکست دل کا گلہ کریں کیا یہ سانحہ کب گمان میں تھا،
قضا نے گل کر دیا اسی کو چراغ جس کی امان میں تھا،
شکار ہونے سے کب مفر ہے مگر یہ گلزار سانحہ ہے،
ابھی اسے چاہیئے تھی مہلت ابھی پرندہ اڑان میں تھا
پروفیسر گلزار بخاری کی شاعری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top