سفر جو اَمر ہوا
تحریر: قمرالحسن بھروں زادہ
چشمہ جھیل کے خاموش پانیوں میں دور ایک کشتی ساکت کھڑی تھی۔ زیادہ تر سندھی مچھیرے واپس اپنے چھپروں میں جا چکے تھے۔ ہماری رواں گاڑی میں بھی انجانے خوف تلے دبی پر اسرار سی خاموشی پھیلی تھی۔ سٹیئرنگ پہ ہاتھوں کی کمزور گرفت کے ساتھ میں فرنٹ سکرین پہ نظریں گاڑھے لب سیئے بیٹھا تھا۔ امی کی آنکھیں سائیڈ ونڈو سے چشمہ جہلم لنک کینال کے اس پار واقع گاؤں کچہ کالو کی آبادی کی متلاشی تھیں۔ ان دنوں ابو جان کی صحت بند مٹھی میں موجود ریت کی طرح سِرکتی جا رہی تھی۔ خاموشی کے حاوی ایوانوں میں ہلچل اس وقت پیدا ہوئی جب پچھلی سیٹ پہ بیٹھی چھوٹی بہنا ہالہ بھروں نے کہا کہ ابو جی تساں تھک ویسو، ہنڑ میڈی جھولی اِچ سِر رکھ کے لیٹ ونجو اور ساتھ ہی دائیں طرف سمٹتے ہوئے اس نے پیار سے ابو کا سر گود میں رکھنے کی کوشش کی۔ ابو جاناں کو معترض دیکھ کر میں نے ہالہ سے کہا کہ تم اپنی گود میں تکیہ رکھو تو پھر ابو جی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ابو جی اوئے، آپ کو دریائے سندھ سے پار ڈیرہ اسماعیل خان کے یہ علاقے کیوں اچھے لگتے ہیں؟ بیٹا یہاں کجھوروں کے باغات ہیں۔ لوگ سادہ ہیں۔ دین دار ہیں اور دین دار لوگوں سے دلی عقیدت اور رغبت رکھتے ہیں۔ ابو جی کی کوشش ہوتی کہ صرف دامان (ڈیرہ اسماعیل خان کا خشک علاقہ) میں پلنے بڑھنے والے دنبوں کی ہی قربانی کی جائے۔ مارچ کے آخری دن تھے۔ یوم پاکستان 23 مارچ کے سلسلے میں قومی تعطیل تھی۔ پہاڑی سلسلے خیسور سے مشرق میں دریائے سندھ تک ہریالی ہی ہریالی ہے۔ 12 دسمبر 1970 کو چشمہ بیراج سے گزرنے کی وجہ سے دریائے سندھ کی متروک گزرگاہ اب زرخیز میدانوں کا روپ دھار چکی ہے۔ چشمہ رائٹ بینک کینال اپنی روانی سے اس علاقے کی پسماندگی کو کب کا بہا کر دور لے جا چکی ہے۔ بیلنوں کی مدد سے گنے کا رس نکال کر سڑک کے دونوں اطراف بڑے بڑے کڑاہوں میں گڑ بنانے کا عمل جاری تھا۔ بابا اپنے پسندیدہ علاقے سے گزر رہے تھے۔ اس لئے سفر میں ان کی طبیعت ہشاش بشاش ہونے لگی تھی۔ بلوٹ کے تاریخی قصبے سے تھوڑا آگے میں نے پہاڑ کی چوٹی پہ موجود صدیوں سے وقت کا منہ چڑاتے کافرکوٹ جنوبی کے مندروں کی طرف ہالہ بھروں کی توجہ مبذول کروائی۔ چشمہ رائٹ بینک کینال کو ہم نے ڈھکی سے پہلے دوبارہ پار کیا۔ جی ہاں وہی ڈھکی جس کو ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم کجھور کی سلطنت کے دارلحکومت کا درجہ حاصل ہے۔ امی جان نے یاد کروایا کہ تمھارے والد کی دوائی کا وقت بھی ہو گیا ہے تو تم کہیں کشادہ ہوٹل کے سامنے بریک لگاو اور ساتھ ہی پیچھے مڑ کر ابو جان سے مخاطب ہوئیں کہ قمر دا پیو، تساں دوائی گھنسو تو ابو جان نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلا دیا۔ یہ نہیں، وہ نہیں ہوٹل کا فیصلہ کرتے کرتے ہم سید علیاں کے گاؤں سے گزرنے لگے تو سڑک کے دائیں طرف کافی صاف ستھرا اور کشادہ ہوٹل ہمیں اپنی طرف کھینچ لے گیا۔ میں نےگاڑی ٹاہلی تلے پارک کی۔ ہاتھ منہ دھونے کے بعد میں ایک بڑی چارپائی کھینچ لایا۔ امی کے لئے چارپائی کے سامنے کرسی رکھ دی۔ امی نے ابو جی کو گھر سے لائے گئے دودھ میں چائے مکس کر کے پلائی اور دوائی دی۔ ابو کافی پرسکون انداز میں بیٹھے تھے۔ ابو جان نے دو بار دھیمی سی مسکراہٹ دی جس کی تازگی و مٹھاس ہم تینوں کی روح تک اتر گئی۔ چائے پی کر جانے کی تیاری کی تو ابو فورا اٹھ کر چلنے لگے لیکن امی نہ جانے خیالوں کے کن سمندروں میں غوطہ زن تھیں ، جانے کے لئے نہیں اٹھیں۔ ابو جی ان کے قریب گئے امی کے سر کی پچھلی جانب اپنا ہاتھ رکھا اور کہا کہ چلیں۔ امی ابو کی صرف یہی ادا یاد کر کے بھی دھاڑیں مار کر رو دیتی ہیں۔ اب ہمارا گزر ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی علاقے پہاڑ پور سے ہو رہا تھا۔ پہاڑ پور ایک روایتی قصبہ ہے جس کی تجارت سے کئی کئی چھوٹے گاؤں منسلک ہیں۔ یہاں کے نواحی قصبے گوڈلہ میں اونٹوں سے وزن اٹھانے کے مقابلہ جات پہ مشتمل میلہ اپنی نوعیت کا منفرد میلہ ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی مشہور ثوبت یہاں بھی ذائقے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ تحصیل پہاڑپور کے سیکڑوں حفاظ کرام اور علمائے کرام پنجاب کی مساجد میں الله اور اس کے کریم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام بلند کئے ہوئے ہیں۔ پہاڑپور کے بازار میں گاڑی روک کر کولڈ ڈرنک، پانی اور پکوڑے لینے گیا تو امی نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اچار اور ٹافیاں خرید لیں۔ پہاڑ پور کے متعلق بتانے کے لئے میرے پاس بہت کچھ ہے لیکن مجھے آگے چلنا ہے۔ ہمارے آج کے سفر کی کوئی مخصوص منزل نہ تھی۔ بابا جان کے لئے علاج کے ساتھ تفریح ضروری ہے۔ امی جان کے اس حکم پہ ہم صبح سے نکلے ہوئے تھے اور ہمیں شام ڈھلے ہی گھر واپس جانا تھا۔ پہاڑپور سے پنیالہ کی راہ لی۔ خیسور رینج کی اختتامی ڈھلوان سے ملحق یہ قصبہ بھی اپنے محل و وقوع کے اعتبار سے انوکھا ہے۔ پہاڑ پور سے جنوب مغرب کی جانب چڑھائی چڑھتے ہوئے چشمہ رائیٹ بینک کینال کو ہم نے تیسری مرتبہ پار کیا۔ یہاں یہ نہر حدِ فاصل ہے۔ ریگستان اور سرسبز میدان کی حدِ فاصل۔ گنجان و سنسان کی حدِ فاصل۔ بہتی نہروں اور دھوکہ دیتے سرابوں کی حدِ فاصل۔ کار کی کھڑکیوں میں سے نظر آنے والے سرسبز کھیت خشک چٹیل ٹیلوں اور صحرائی میدانوں میں یکدم بدل گئے۔ صحرائے دامان جس کی انتہا کوہِ سلیمان ہے یہاں اس کی ابتدا ہے۔ ہالہ بھروں نے یوں پل بھر میں بدلتے مناظر دیکھ کر موبائل کیمرہ آن کر لیا جو پھر شام ڈھلنے تک آن رہا۔ کہیں ریت تو کہیں زرخیز مٹی کے خشک میدان دامان کا یہ سلسلہ انڈس ہائی وے سے پار کوہِ سلیمان اور وزیرستان کے پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اب وانڈھا جات شروع ہیں۔
وانڈھا مدت سے اب دائیں رخ پنیالہ کی جانب محو سفر ہیں۔ وانڈھا کریم خان سے ڈالہ نما کاروں میں بارات جا رہی ہے۔ آس پاس ریتلے میدانوں میں چنے کی فصل تیار کھڑی ہے جہاں بیر کی جھاڑیوں تلے سرخ بیر موتیوں کی طرح زمین پہ بکھرے ہوئے ہیں۔ امی کے اصرار پہ تھوڑی دیر ہم بیر بھی چنتے رہے۔ خیسور رینج جو کہ کنڈل سے شروع ہوتی ہے پنیالہ اس کا اختتام ہے۔ پہاڑ کا اختتامیہ ایک وسیع پر اسرار ڈھلوان ہے جس پہ اگر کوئی پتھر لڑھکایا جائے تو اپنی اندھا دھند رفتار کے باعث زمین پہ دھڑام سے گر کر ارتعاش پیدا کر دے۔ پنیالہ بلچ پٹھانوں کا وطن آم کی پیداوار کے لئے بھی مشہور ہے۔ جی ہاں صحرا میں نخلستان کی تعریف پہ پنیالہ پورا اترتا ہے۔ پنیالہ میں جا بجا فالج، لقوہ، مرگی، یرقان اور جنات کے دم کرنے والے اپنے بیٹھک نما حجروں میں اپنے گاہکوں یا غرض مند سمجھ لیں، کے منتظر نظر آتے ہیں۔ انڈس ہائی وے پہ پہنچ کر یارک کی راہ لی۔ یارک ،ڈیرہ اسماعیل خان – ہکلہ سیکشن پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا نقطہ آغاز ہے یا آپ چاہیں اختتام کہہ لیں۔ ظہر کی نماز یارک سٹیڈیم کے ساتھ پٹرول پمپ پہ ادا کی اور کھانا بھی یہیں چھپر نما ہوٹل میں کھایا۔ مٹی کے تمام برتنوں کی یارک ایک صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ یارک کے ہنر مندوں کے ہاتھ سے بنے گھڑے، کٹوے، ماٹیاں، چاٹیاں، کولر، گملے، مرتبان، ساڑنک، پتروٹے، بٹھلے، بٹھلیاں اور بچوں کے کھلونے وغیرہ اپنی بناوٹ پائیداری اور مٹی کی تاثیر رکھنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یارک اور گردونواح میں پاکستان لیول کی سالانہ جیپ ریلی کا انعقاد ہوتا ہے۔ سدرہ شریف درگاہ پہ بوہڑ کے درخت تلے بابا کا آرام کرنا اور امی جان کا ان کے چہرے پہ دوپٹے کے پلو سے ہوا دینے کا منظر میں بتا تو سکتا ہوں بیان نہیں کر سکتا۔ عصر کی نماز مزار سے ملحق مسجد میں پڑھ کر واپسی ہوتی ہے۔ سدرہ شریف سے واپسی پہ سنسان راستے پر کار دوڑاتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ اللہ والے بھی نہ جانے کہاں کہاں بسیرا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یارک انٹرچینج سے ہم سی پیک پہ آ گئے۔ ایم 14 سے موسوم یہ موٹروے خیسور رینج اور شیخ بدین کے سلسلے کے درمیان سفید ریت کے صحرا سے تیر کی مانند شاں کر کے گزرتی ہے۔ خود کار ڈرائیو کرتے ہوئے پاکستان کی کسی بھی موٹروے پہ میرا یہ پہلا سفر تھا اور بد قسمتی سے بابا کے ساتھ تفریح کی غرض سے کیا جانے والا یہ آخری سفر ثابت ہوا۔ موٹروے پہ گل پانڑہ (میری کار کا نام جو میرے دوست بونیری نے رکھا) نے رفتار پکڑی تو ہوا کے تیز جھونکے کار میں گھس کر ابو کے گالوں کو چھونے لگے۔ ابوجان نے ٹانگیں سیدھی کرنے کی غرض سے دونوں فرنٹ سیٹوں کے درمیان میں پاؤں رکھ لئے تو گیئر لیور پہ جمی میری نیم کھلی مُٹھی پہ ابو کے دائیں پاؤں کی ایڑی بہت دیر تک رہی۔ آج بھی یاد کرتا ہوں تو نم آنکھوں کے ساتھ بے اختیار اپنے بائیں ہاتھ کی پشت چوم لیتا ہوں۔ کنڈل انٹرچینج سے کنڈل گاؤں اور اب چشمہ بیراج کی راہ لینا تھی۔ شام ڈھل چکی تھی۔ کنڈل گاؤں میں پھر آرام کرنے کا فیصلہ ہوا۔ چاچا دین محمد کے ہوٹل پہ چائے کا آڈر دیا۔ ابو نے چائے پیتے وقت امی کو اظہارِ تشکر یا پھر اظہار محبت یا پھر اگلے دو ہفتوں بعد ہونے والی مستقل جدائی سے پہلے حوصلہ دینے کے لئے جو خوبصورت مسکراہٹ دی اس گُم مسکراہٹ کے تعاقب میں امی آج بھی گھر میں گم سم بیٹھی ہے۔