شاہ بسطام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف تصوف 

SHAH E BASTAM RESEARCH INSTITUTE OF SUFISM

    شیخ بایزید بسطامی (م 261ھ) سے روحانی نسبت و عقیدت ہونے کی وجہ سےمحمد منشاخان نے اپنے کتب خانہ کا نام “شاہِ بسطام تحقیقاتی ادارہ برائے تصوف  “پسند کیا اس نام کو مختصر انداز میں شبتابت – SEBRIS رکھا۔ تقریباً 2009ء میں باقاعدہ آپ نے ذاتی لائبریری کی بنیاد رکھی، بعد ازاں 2012ء میں اس کا نام شاہِ بسطام تحقیقاتی ادارہ برائے تصوف رکھا۔ ابتدا میں اس لائبریری کا   نام منشا لائبریری تھا۔ اسی وجہ سے آج بھی آپ کا کتب خانہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں منشا لائبریری کے نام سے معروف ہے۔

آپ کے کتب خانہ میں مختلف موضوعات پر بے شمار کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔ آپ کی طبیعت اور مزاج تصوف کی طرف مائل ہے اس لیے زیادہ ذخیرہ تصوف سے متعلق ہے۔ کتب خانے میں مختلف زبانوں میں قدیم و جدید کتابیں موجود ہیں، ان میں زیادہ تر کتابیں اردو، انگریزی، عربی اور فارسی میں موجود ہیں۔کتب خانہ میں تفاسیر، احادیث، تاریخ و تذکرہ، تصوف، ادب اور شاعری سے متعلق 15 ہزار (15000) سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ ان کتب میں زیادہ تر ذخیرہ تصوف سے متعلق ہے۔ آپ کی لائبریری میں قدیم قلمی مخطوطات بھی موجود ہیں۔

سید محمد ذیشان شاہ کاظمی صاحب (فاضلِ بھیرہ) نے تکمیلِ الشھادة العالمیہ فی علوم العربیہ والاسلامیہ کے لیے تحقیقی مقالہ کا موضوع میانوالی میں موجود اپنے دوست کے نجی کتب خانہ شاہِ بسطام تحقیقاتی ادارہ برائے تصوف معروف بہ کتب خانہ محمد منشا خان میانوالی (جو تصوف کی نادر و نایاب، قدیم اور جدید کتب پر مشتمل ہے) میں موجود کتبِ تصوف کے تعارف کو اختیار کیا۔

محمد منشاخان ایک معروف شخصیت ہیں، جنہوں نے میانوالی کے علاقے میں ایک وسیع ذاتی کتب خانہ قائم کیا ہے جو اس خطے کی علمی اور ثقافتی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ان کا یہ کتب خانہ نہ صرف کتب کی تعداد میں منفرد ہے بلکہ علمی ورثے اور مختلف موضوعات پر دستیاب مواد کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔ میانوالی جیسے چھوٹے شہر میں ایک اتنے بڑے کتب خانے کا قیام ایک بڑی علمی خدمت اور عوامی مفاد کا منصوبہ ہے، جس نے اس علاقے کے طلبا، محققین اور عام قارئین کو علم کے بے شمار خزانے فراہم کیے ہیں۔

محمد منشا خان کا علمی شوق اور کتب خانہ

محمد منشاخان کی علمی دلچسپی ان کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے، جس کا عملی مظہر ان کی وسیع کتابوں کی لائبریری ہے۔ ان کے کتب خانے میں مختلف موضوعات پر ہزاروں کتابیں موجود ہیں، جن میں دینیات، تصوف، فلسفہ، تاریخ، ادب، سائنس، اور جدید علوم شامل ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف اپنی ذاتی علمی پیاس بجھانا ہے بلکہ میانوالی کے عوام کو بھی علم کے اس سمندر سے مستفید کرنا ہے۔

یہ لائبریری میانوالی کے لوگوں کے لیے ایک علم کا خزانہ ہے، جہاں طلبا اپنی تعلیم کے لیے ضروری مواد حاصل کر سکتے ہیں اور محققین اپنے تحقیقی کام میں پیشرفت کر سکتے ہیں۔ محمد منشا خان کی یہ کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح ایک فرد اپنی ذاتی دلچسپی کو اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر سکتا ہے۔

میانوالی کے تعلیمی ماحول پر اثرات

میانوالی  ایک علمی مرکز بنتا جا رہا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ محمد منشا خان کا یہ کتب خانہ ہے۔ ان کی لائبریری میں موجود مختلف موضوعات پر کتابیں اس علاقے کے طلبا اور اساتذہ کے لیے نہایت اہم ہیں، جو جدید اور قدیم علم کے امتزاج سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو مالی وسائل کی کمی کے باعث بڑے شہروں کی لائبریریوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے، ان کے لیے یہ لائبریری کسی نعمت سے کم نہیں۔

تصوف اور روحانی کتب کا ذخیرہ

محمد منشاخان کے کتب خانے کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہاں تصوف اور روحانیت پر ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے۔ تصوف کے موضوع پر ان کی دلچسپی اور ذاتی مطالعہ نے ان کو اس میدان میں ایک منفرد مقام دیا ہے۔ ان کے کتب خانے میں تصوف کی کلاسیکی اور جدید کتابیں موجود ہیں، جو روحانی تعلیمات کے طلبگاروں کے لیے ایک انمول خزانہ ہیں۔

عوام کے لیے علمی خدمت

محمد منشا خان کی یہ لائبریری ایک ذاتی منصوبے کے طور پر شروع ہوئی تھی، لیکن اب یہ ایک عوامی خدمت کا ذریعہ بن چکی ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ علم کی تقسیم اور لوگوں تک پہنچانا ایک عظیم فریضہ ہے۔ ان کی یہ خدمت نہ صرف میانوالی بلکہ ارد گرد کے علاقوں میں بھی علمی بیداری پیدا کر رہی ہے۔

میانوالی کی سب سے بڑی ذاتی لائبریری: کتابوں کا عظیم ذخیرے

کتابیں انسانی علم اور ثقافت کی حفاظت کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ وہ قوموں کی تاریخ، فلسفے، ادب اور سائنسی تحقیق کا ایک خزانہ ہوتی ہیں۔ محمد منشا خان  کے پاس میانوالی کی سب سے بڑی ذاتی لائبریری ہے ایک ایسی لائبریری جو کسی عوامی کتب خانے کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ محمد منشا خان  کتابیں جمع کرنے والا نہیں  بلکہ علم، تاریخ اور ادب کے ساتھ ایک گہرا رشتہ رکھتا ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف کتابوں کا تحفظ ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے علم کو محفوظ رکھنا بھی ہے۔

کتابوں کی محبت اور سفر کا آغاز

میانوالی کی سب سے بڑی ذاتی لائبریری کے مالک محمد منشا خان  کی کہانی عام طور پر بچپن سے شروع ہوتی ہے، جب کتابوں کا شوق اس کے دل میں گھر کرتا ہے۔ یہ شخص شروع میں کہانیوں، ناولوں یا غیر افسانوی کتابوں سے متاثر ہوتا ہے اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، اس کا شوق کتابیں جمع کرنے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ نایاب کتابوں، قدیم نسخوں، اور مختلف موضوعات پر مبنی کتابوں کا ذخیرہ کرنا شروع کرتا ہے۔ یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس کا مجموعہ ہزاروں ی کتابوں تک پہنچ گیا ہے۔

یہ مجموعہ محض شوق تک محدود نہیں ، بلکہ علم اور تاریخ کی حفاظت کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ وہ کتابیں جنہیں شاید وقت کے ساتھ بھلا دیا گیا ہو، اس کی لائبریری میں ایک محفوظ مقام حاصل ہے ۔ یوں اس کا ذاتی کتب خانہ ایک ایسی جگہ بن گیا ہے جہاں پرانی اور نایاب کتابیں بھی نئے سرے سے زندگی پاتی ہیں۔

کتابیں: علم کے خزانے

ایک بڑی ذاتی لائبریری کے مالک محمد منشا خان  کے لیے کتابیں صرف پڑھنے کے لیے نہیں  بلکہ وہ انہیں علم کا خزانہ سمجھتا ہے۔ یہ کتابیں انسانی تہذیب کی ترقی، علوم کی ترویج، اور ادب کی بہتری کی نشانی ہیں۔ وہ پرانی کتابوں کو ایک تاریخی دستاویز کے طور پر دیکھتا ہے جس کے ذریعے انسان کی فکری اور علمی ترقی کو سمجھا جا سکتا ہے۔

لائبریری میں صرف جدید کتابیں نہیں بلکہ قدیم دور کے مخطوطات، فلسفیانہ تحریریں اور دیگر نایاب نسخے بھی شامل ہیں۔ ان کتابوں کے ذریعے ماضی کی تہذیبیں، خیالات اور نظریات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک طرح سے یہ لائبریری ایک پل کا کام کر ریہی ہے جو ماضی اور حال کو جوڑتی ہے۔

کتب خانے کی دیکھ بھال اور ترتیب

ایسی بڑی تعداد میں کتابیں رکھنے کے لیے بہت زیادہ انتظامی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف کتابیں جمع کرنا کافی نہیں ہوتا، انہیں محفوظ رکھنا اور منظم کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ قدیم اور نایاب کتابوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مخصوص حالات، مثلاً درجہ حرارت اور نمی کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے تاکہ کتابیں خراب نہ ہوں۔

کتابوں کی اتنی بڑی تعداد کو ترتیب دینا بھی ایک چیلنج ہوتا ہے۔ ہر کتاب کو اس کے موضوع، زبان اور دور کے حساب سے منظم کرنا تاکہ ضرورت کے وقت اسے آسانی سے تلاش کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، ایسی لائبریری کے مالک کو نایاب کتابوں کے لیے بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ محمد منشا خان نے لائبریری میں باقاعدگی سے کام کرتے ہوئے لائبریری میں کتابوں کی بڑی تعداد کو برقرار رکھ کر بہت اچھا کیا۔

کتب جمع کرنے کا فلسفہ

محمد منشا خان  کے لیے کتابیں صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ وہ انہیں انسانی علم اور ثقافت کا اہم حصہ سمجھتا ہے۔ ہر کتاب، چاہے وہ کسی نامور مصنف کی ہو یا کسی گمنام مصنف کی، اس کے لیے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ علم کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک کتابوں کی بڑی تعداد جمع کرنے کا مقصد صرف زیادہ کتابیں اکٹھا کرنا نہیں بلکہ علم کی گہرائی اور تنوع کو محفوظ رکھنا ہے۔

اس کا فلسفہ یہ ہے کہ کتابیں علم کا ایسا خزانہ ہیں جو زمانوں تک محفوظ رہنا چاہیے۔ جہاں آج کل زیادہ تر معلومات ڈیجیٹل فارمیٹ میں منتقل ہو رہی ہیں، وہاں ایسی لائبریری کا مالک محمد منشا خان  اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کتابیں ایک مستقل اور محفوظ ذریعہ ہیں جو انسانی تاریخ اور علم کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرتی ہیں۔

نتیجہ

محمد منشاخان کا کتب خانہ میانوالی کے علمی و ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ ان کی یہ کوشش اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ کس طرح ایک فرد اپنی ذاتی دلچسپی اور شوق کو ایک بڑے اجتماعی مقصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ میانوالی جیسے علاقے میں ایک اتنی بڑی اور متنوع لائبریری کا قیام نہ صرف علم کی ترویج کا باعث ہے بلکہ نوجوان نسل کو تحقیق اور مطالعہ کی طرف مائل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔

PLEASE CLICK HERE TO  VISIT FACEBOOK PAGE AND KNOW UPDATED AND COMPLETE DETAILS ABOUT

SHAH E BASTAM RESEARCH INSTITUTE OF SUFISM BY MUHAMMAD MANSHA KHAN

 

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top