ظفر خان نیازی
بلا شبہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک
ظفر نیازی بلا شبہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے قدرت نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا وہ تخلیق کا ایک موجیں مارتا دریا تھے قدرت نے انہیں حسن کردار اور حسن گفتار کے علاوہ طبیعت میں شگفتگی عطا کی تھی وہ ہر محفل کی جان تھے ذہانت کا جوہر ان میں نمایاں تھا شاید ایم ایس سی ریاضی نے انکے اس جوہر کو اور نکھار دیا وہ ساری اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے رہے
وہ بہترین دوست تھے اور دوستدار تھے وہ دوستوں کی کہکشاں میں چمکتے چاند تھے ان کی نورانی کرنیں دلوں کو منور کرتی تھیں وہ دوستی اور تعلق کو نبھانے کے لئے ساری دیواریں پھلانگ جاتے ایک دفعہ ان کی ایک ساتھی ریڈیو پروڈیوسر کو رقم کی اشد ضرورت پڑی رقم کچھ زیادہ تھی اس فقیر کے پاس اتنی رقم کہاں تھی خاموشی سے بینک سے قرضہ لیا اس کی ضرورت پوری اور خود اس رقم پپرسودادا کرتے رہے
ظفر نیازی ایک فراخ دل سخی اور مہمان نواز شخص تھے راولپنڈی کے صدر کا…ٹیک اوے… ہوٹل ان کا مہمان خانہ تھا سرے شام ہوٹل میں …دوستوں …کے ہجوم میں ظفر نیازی ایک سخی بادشاہ کیطرح عنایات کرتا نظر کرتا آتا اورسب کا بل کا خود ادا کرتا یہ سخی بادشاہ کا روز کا معمول تھا
ظفر کو نایاب چیزیں ڈھونڈنے خریدنے اور پھ دوستو ں میں بانٹنے کا جنوں تھا انکے اس دائرہ شوق میں پائپ…گھڑیاں…قیمتی پتھر اور فٹ پاتھ پر بکتی نایاب کتابیں تھیں مجھے اس قیمتی خزانے سے کئ چیز عطا ہوئ تھیں
انہیں اپنی انتہائ شفیق ماں (میرے لئے بھی)سے بہت پیار تھا بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد ماں نے نازو نعم سے پالا ان کے نانا فتح خان نے ایک انتہائ مہربان باپ کا کردار کیا نانا فتح خان نے اپنے نام کا ترجمہ…ظفر کرکے نومولودکا نام ظفر رکھا … یہ ایک نام نہیں تھا ایک پشینگوئ تھی اورزندگی بھر ظفریاب…کامیاب…کامران اور فتحیاب رہا اور نانا کے نام کی لاج رکھی
ہم کچھ دوستوں نے بےروزگاری کے دور میں اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی ظفر ہمارا متفقہ پرنسپل تھا اس زمانے میں ظفر …باریش…تھا کالج بہت کامیابی سے چلا کالج سے ہونے والی آمدن سے کالج خریدا اوربعد میں اسکی آمدن ہمنے تنخواہ کے طور پر برابر تقسیم کی غالبا”ہم سبکو پینسٹھ روپے حصہ ملا ملازمتیں ملنے کے بعد سب کالج کو چھوڑ تے چلے گئے
ظفر نیازی کا ایک روشن پہلو اس کی روحانی اور باطنی کامیابیاں ہیں قدرت نے ظفر کو ایک پاکیزہ دل و ماغ عطا کیا تھا ظفر کی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز …جس کی سب طلب اور تڑپ رکھتے ہیں…وہ خواب میں زیارت رسول کا اعزاز اور کرم تھا اور اس پر وہ بجا طور پر فخر کر سکتا تھا ظفر سخی تھا اور بے شک سخی اللہ کا دوست ہوتا ہے وہ اللہ کا دوست تھا اللہ عزوجل نے اس دوستی کو سب کے لئے یادگار بنا دیا وہ عموما”بیٹے کے ساتھ موٹر سائیکل پر مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتا تھا اسکی کمزور ٹانگوں میں زور نہیں رہا تھا مجبوری میں گھر ہی میں اللہ کے حضور سر جھکا لیتا تھا رخصتی کے دن معمول سے زیادہ ہشاش بشاش تھا نماز عصر کی تیاری کی وضو کیا مصلا بچھایا اور اللہ کے حضور دو حاضریاں ..اکٹھی ہو گئیں نماز بھی اور موت بھی حاضری…انا للہ و انا الیہ راجعون…
ظفر نیازی ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے سٹیشن ڈائرکٹر تھے بہت خوبصورت شاعر اور اعلی’نثر نگار تھے 25 نومبر ہماری دنیا سے جدائی کا دن ہے اللہ انہیں اپنی رحمتوں سدا نوازے امین
ظفر اور میری دوستی تقریبا”ساٹھ سال کے عرصے پر پھیلی ہوئ ہے ظفر کو مرحوم لکھتے ہوئے ہمت نہیں پڑھ رہی تھی وقت کی گرد نے ہمت بندھائ..اورکچھ لکھ دیا اس مرحوم دوست سے مرحوم ہونے کے بعد یہی کرسکتے ہیں کہ اس کی پر جمال زندگی کو ہدایت نامہ کے طور پر پیش کریں اور ایصال ثواب کا اہتمام کریں
ظفر نیازی کےلئے نذرانہ محبت
پروفیسر ملک محمد سلیم احسن
یار طرح دار سب سے منفرد
تھا بڑا دلدار سب سے منفرد
خوشبوئیں اظہار میں گفتار میں
وہ گل و گلزار سب سے منفرد
اس کی باتوں میں حلاوت شہد کی
تھا وہ خوش گفتار سب سے منفرد
وہ شریک غم شریک حال تھا
سب کا تھا غمخوار سب سے منفرد
ذات اس کی تلخئ حالات میں
سائہ دیوار سب سے منفرد
ذات میں اخلاص کی تھی چاندنی
وہ سراپا پیار سے منفرد
حسن لہجہ میں شگفتہ دل لگی
سب کا ہی دلدار سب منفرد
علم و دانش کا وہ فیضان کمال
ابر گوہر بار سب منفرد
رومی و اقبال روح شاعری
فیض سے سر شار سب منفرد
وہ جمال جدت تخلیق کا
تھا علمبردار سب منفرد
فکر و فن میں اک نویلی تازگی
وہ سجل رفتار سب سے منفرد
افسری میں خوشدلی کی شان تھی
تھا بڑا جیسا سب سے منفرد
ڈوب جائے چودھویں کا چاند بھی
وہ سدا ضو بار سب سے منفرد