رقص درویش — ایک رخ

یہ پک اس درویشانہ رقص کے آغاز کی ہے جسے رقص رومی کہتے ہیں – بازووں کو سینے پر باندهه کر وہ الف یا ایک کی علامت بنتے ہیں ، اشارہ اللہ کے واحد اور ایک ہونے کا ہے – اس کے بعد یہ سامعزن( یہی ان کا نام ہے ) دائرے میں دائیں سے بائیں اس انداز میں گهومتے ہیں کہ ان کا دایاں ہاتهه آسمان کی طرف اٹها ہوتا ہے اور بایاں بازو دراز لیکن بایاں ہاتهه زمین کی طرف — دائرے میں مسلسل گهومنا کائنات میں سیارگان کی گردش کی طرف اشارہ ہے – دایاں اوپر ، آسمان کی طرف اٹها ہوا ہاتهه اللہ کی طرف سے آتی نعمتوں کا بیان ہے اور بایاں ہاتهه رقص میں جس پر دل سے ہوتی ہوئی درویش کی مسلسل نگاه پڑتی ہے ، زمین پر رہنے والے ان لوگوں کی نشان دہی ہے جو اللہ کی ان نعمتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں –
ان سامعزن رقاصوں کا پہناوا بهی معنی خیز ہے – سر پر خیمے کی طرح ٹوپی ہستی کے خیمے کا اشارہ ہے اور کالے قیمتی جبے کی بغیرر سفید قیمتی لمبا چغہ انا کا سمبل ہے جسے وقت کی گردش سے تار تار ہونا ہے ، وغیرہ -یہ تفصیل بہت طویل ہے ، اس پر کتابیں لکهی گئی ہیں – رومی سلسہء صوفیہ میں اس رقص کا مقصد ، بہر حال نفس کی پاکیزگی کی ایک کوشش اور محبت کا اظہار ہے – محبت اس لئے ضروری ہے کہ مولانا رومی کا قول ہے ، ساری محبتوں کی موجیں مل کر اللہ کی دریائے محبت کا دهارا بن جاتی ہیں –
یہ ابتدا میں نے اس لئے بیان کی ہے کہ اس طرح رقص وغیرہ کے الٹے سیدهے کئی مناظر آپ کو صوفیا کے دیگر سلسلوںں میں نظر آتے ہیں – خاص طور پر آج کل کئی ایک ویڈیوز فیس بک پر ہیں جن کے بیک گراونڈ میں اپنی طرف سے فلمی نغموں کو ڈب کر کے ان کی بهد اڑائی جاتی ہے – اس کی مناسب وضاحت تو متعلقہ سلاسل کے کرتا دهرتا ہی بہتر کر سکتے ہیں، یہ چند سطریں میں اس لئے عرض کر رہا یوں کہ عزیزم بہادر جنجوعہ نے اس بارے مجهه سے پوچها ہے کہ یہ کیا ہے –
جی جنجوعہ صاحب ! یہ جهومتے لوگ سیفییہ سلسلے کے ہیں – اس سلسے کے بانی جناب سیف الرحمان 19255 میں افغانستان میں پیدا ہوئے ، مختلف جگہوں کے علاوہ پشاور کے قرب و جوار میں بهی ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی – خلافت حاصل کرنے کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ آفریدیوں کی دعوت قبول کر کے پشاورباڑہ میں مستقل قیام پذیر ہو گئے – وہاں مفتی منیر شاکر کے فتووں اور ان کے طالبان کے لشکر اسلام گروپ کی بندوقوں کا سامنا کرنا پڑا ، خاصا خون خرابہ ہوا ، آجر کار لاہور کے قریب فقیر آباد میں شفٹ ہوگئے – 2010 میں انتقال کیا – میانوالی میں میرے لڑکپن کے دوست اور کلاس فیلو ، پروفیسر سلیم احسن اور بہت سے دوسرے اس سلسلے سے منسلک ہییں – کندیاں کے میاں محمد صاحب ریان ، لاہور میں اس سلسے کے بہت اہم خلیفہ ہیں – وہ میانوالی اکثر آتے رہے ہیں – ان کی دو ایک محافل میں نے بهی اٹینڈ کی ہیں – ان کا کہنا ہے ، گهڑی کی مرمت کرنا ہو آپ گهڑی ساز کے پاس جاتے ہیں ، قلب جاری کرانا ہے تو ہمارے پاس آئیں – اس کیلئے وہ سامنے بٹها کر توجہ کرتے ہیں – مجه پر بهی خصوصی توجہ کی لیکن میں تو ویسا ہی رہا شاید یہ جهومنا جهامنا میری قسمت میں نہیں تها – ان صوفیوں کا بے ترتیب رقص تو آپ نے ویڈیوز میں دیکها ہوگا ، کچهه لوگ بے ساختہ تڑپنے لگتے ہیں – ہمارے ایک دوست مہر زمان خان نیازی وتہ خیل ، پرسنل سکریٹری ٹو مرحوم ڈاکٹر شئرافگن خان نیازی ان لوگوں کی محفل میں اسی توجہ کی بنا پر بے ہوش ہو کر دو گهنٹے پڑے رہے ، ہوش آیا تو مڑ کر یوں بهاگے کہ مڑ کر ان کی طرف نہیں دیکها –
یہ تو مجهے معلوم نہیں کہ رقص رومی کی طرح اس کی بهی کوئی توضیح ہے کہ نہیں لیکن اتنا میں ضرور سمجها ہوں کہ نفس کشیی کیلئے یہ بنیادی طور روحانی مشقیں ہیں جو بعض لوگوں پر شاق گزرتی ہیں – جیسے باڈی بلڈنگ میں آپ مختلف مسلز کی گروتهه کیلئے مختلف ایکسرسائز کرتے ہیں ، ان کے اسی طرح مختلف لیول کے کورسز ہیں – سانسوں کا نفی اثبات اور ساتهه ساتهه کلمات الہی کے اوراد بهی ہیں – اللہ رسول کے ذکر پر ان پر بے ساختہ مستی اور وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے – اکثر کے قلب جاری ہیں ، ان کے سینے کی دهک دهک عام لوگوں سے مختلف ہے ، اکثر کے سینے کی دهڑکن ساتهه بیٹهے ہوئے کو سنائی دیتی ہے – ایک بار پروفیسر سلیم احسن میرے ساتهه میرے ایک اور بزرگ دوست چوہدری عبدالعزیز سے ملنے گئے – چوہدری صاحب پندرہ سال کی عمر میں سکهه سے مسلم ہوئے تهے -بیاسی پچاسی سال کے روحانی آدمی ہیں – مجهے کہنے لگے تمہارے پروفیسر دوست کا قلب جاری ہے –
مجموعی طور پر ان لوگوں کی محافل میں حمد و نعت اور درود شریف کا ورد رہتا ہے اور روز مرہ میں بهی ان کی زندگی صافف ستهری اور با شرع ہے – نہایت رکهه رکهاو والے امن پسند لوگ ہیں – لباس میں کابلی انداز کی سفید قمیض شلوار اور مخصوص پگڑی ہے – انتہائی پڑهے لکهے لوگ اس سلسلے میں دیکهے گئے ہیں – شہید جنرل ڈاکٹر مشتاق جو راولپنڈی میں طالبان کی دہشت گردی کا شکار ہوئے ، اسی سلسہءسیفیہ سے تهے —
سیفی سلسلے کے کچھ دوستوں کو چونکہ میں جانتا ہوں اس لئے میں یہ بات یقین سے کہہ رہا ہوں کہ یہ رقص نہیں – یہ ان کیی روحانی مشق کے سیشن ہیں – ان کے بارے میں مزید کوئی بات وہی کر سکتا هے جو اس بحر کا شناور ہو – ہماری مثال تو بالکل اس شخص کی طرح ہے جو پانی میں اترے بغیر تیراکی کو سیکھنے سمجهنے کی کوشش میں ہو –
رہی میری رائے — کوئی حتمی فتوے تو علماء ہی دے سکتے ہیں لیکن تنگ نظر مولوی کی شدت پسندی اور انسانی سروںں کے ساتهه فٹ بال کا کهیل کهیلنے والی طالبانی بدمستی کے مقابلے میں میں ہزار بار ان صوفیوں کے اس بے ہنگم مگر بے ضرر رقص کو ہی ترجیح دوں گا —
واللہ اعلم بالصواب —

 ظفر خان نیازی – 3اکتوبر2015

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top