منورعلی ملک کےستمبر   2022 کےفیس بک  پرخطوط

میرا میانوالی- 

دِل دُکھتا ہے ریلوے سٹیشنوں کی ویرانی دیکھ کر – کہاں گئیں وہ رونقیں ، وہ آتی جاتی ٹرینیں ، مُسافر خانوں میں ٹرین کے منتظر مسافر ، پکوڑوں اور دیسی مٹھائیوں کی ریہڑیاں ، آباد ٹی سٹال جہاں اچھی چائے کے شوقین لوگ چائے کی پیاس بُجھانے کے لیئے آتے جاتے تھے – مسافروں کے علاوہ گاؤں کے شوقین مزاج لوگ بھی ریلوے سٹیشن پہ سپیشل چائے پینے کے لیئے آتے تھے – سِلور رنگ کے لپٹن پیک کی چائے کی پتی ، سو فی خالص دُودھ اور سفید چینی جسے ہم ولائتی کھنڈ کہتے تھے – اس چائے کی اپنی خوشبو، اپنا ذائقہ ہوتا تھا۔
ہمارے بچپن کے دور میں داؤدخیل ریلوے سٹیشن پر دن میں تین مسافر ٹرینیں آتی جاتی تھیں – ایک لاہور سے ماڑی انڈس ، ایک پشاور سے مُلتان اور ایک مختصر فاصلے کی ٹرین ماڑی انڈس سے کندیاں آتی جاتی تھی- اس ٹرین کو چَھٹُل کہتے تھے جو کہ انگریزی کے لفظ shuttle کی بگڑی ہوئی مقامی شکل تھی – بعد میں اس ٹرین کو ڈبے کہنے لگے –
لاہور ٹرین اور ملتان ٹرین ایک آدھ گھنٹے کے وقفے سے آگے پیچھے آتی جاتی تھیں – صبح سات اور آٹھ بجے کے درمیان داؤدخٰیل پہنچتی تھیں ، واپسی کے سفر پہ شام پانچ چھ بجے پھر آجاتی تھیں – ڈبے صبح دس بجے ماڑی انڈس سے کُندیاں جاتے تھے اور تین بجے واپس آتے تھے – بعد میں دُوسری کئی ٹرینیں اور دو ریل کاریں بھی اس علاقے میں آنے جانے لگیں – پشاور سے کراچی جانے والی خوشحال ایکسپریس ، رات دس بجے پشاور سے ملتان جانے والی ایک ٹرین جسے عطاءاللہ ایکسپریس کہتے تھے ، کیونکہ یہ ٹرین میاں عطاءاللہ نامی وفاقی وزیر برائے ریلوے نے جاری کی تھی –
بڑی رونقیں ہوتی تھیں – داؤدخیل ریلوے سٹیشن ہمارے بچپن کی سیرگاہ ہوا کرتا تھا – داؤدخیل کے خالص دیہاتی ماحول میں شہری ماحول کا پہلا تڑکہ یہی ریلوے سٹیشن تھا-
ایک وہ دور تھا جب داؤدخیل سے میانوالی ، سرگودھا ، لاہور، مُلتان ، پنڈی ، پشاور جانے کے لیئے واحد سواری ٹرین تھی – رفتہ رفتہ ان منزلوں کے لیئے بس سروسیں دستیاب ہونے لگیں – بس کا سفر تیز رفتار تو ہوتا ہے مگر ٹرین کی طرح آرام دہ نہیں ہوتا – اب تو اللہ کے فضل سے بہت سے لوگوں کی اپنی گاڑیاں ہیں – کوئی پاگل ہوا ہے جو ٹرین کے انتظار میں پھرتا رہے –
اب تو کُچھ بھی باقی نہیں رہا ، دن بھر میں ایک آدھ مریل سی ٹرین آتی جاتی ہے – صرف اتنی ترقی ہوئی ہے کہ سٹیشن اب “جہازوں“ کے اڈے بن گئے ہیں – اب مسافرخانوں میں جہازوں اور آوارہ کُتوں کا راج ہے –
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی———————– رہے نام اللہ کا —-١ستمبر  2022

میرا میانوالی-

یہ کیا تماشا ہے ؟
ابھی فون پر فیس بُک آن کی تو سکرین پر ایک نوٹس نمودار ہوا کہ آپ کا پیج اَپ ڈیٹ ہوگیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں – ملاحظہ فرمایا تو رواں پیج کی جگہ میرا ایک تین چار سال پرانا پیج Malik Munawar Ali کے نام سے سامنے آگیا – وہ پیج بناکر تو میں نے ویسے ہی پنگا لیا تھا – پچھلے چار سال سے میں نے اُس پیج کو ہاتھ بھی نہیں لگایا – میرا اصل پیج تو Munawar Ali Malik کے نام سے یہی ہے جو آپ کئی سال سے دیکھ رہے ہیں – لیکن اب اس پیج کی زیارت مجھے صرف لیپ ٹاپ پر نصیب ہوگی – فون پر تو وہی چار سال پرانا پیج قبضہ کرچکا ہے – اسے بے دخل کر کے اس کی جگہ اصل پیج فون پر لانے کا طریقہ کوئی پڑھا لکھا نوجوان جانتا ہو تو مجھے بتادے – کوشش بہرحال میں بھی کرتا ہوں شاید کوئی اٹکل کام آجائے ، لیکن مشکل لگ رہا ہے – کوئی مشورہ ؟ کوئی تجویز؟؟
——————— رہے نام اللہ کا —  –٣ ستمبر  2022

میرا میانوالی-

ہمارے علاقے میں بس سروس کا آغاز 1945-46 میں ہوا – بس کو لاری کہتے تھے – دراصل پرانے فوجی ٹرک نیلامی میں خرید کر اُن پر بس کی باڈٰی بنوا لیتے تھے – اس طرح چالیس پچاس ہزار میں بس بن جاتی تھی – یہ بُوڑھی کھوسٹ بسیں لمبا سفر نہیں کر سکتی تھیں ، اس لیئے میانوالی سے صرف عیسی خیل تک آتی جاتی تھیں –
بنوں کی سروس دستیاب نہ تھی –
بسوں کی طرح ان کے ڈرائیور بھی عمررسیدہ بزرگ ریٹائرڈ فوجی ہوتے تھے – عیسی خیل میانوالی رُوٹ پر عیسی خٰیل کے چاچا عمر خان سینیئر ، کمر مشانی کے چاچا محمد خان ، میانوالی کے چاچا قریشی صاحب اور ایک شاہ جی بھی ہوتے تھے –
اُس زمانے میں مُلک بھر کی سڑکوں پر امریکی گاڑیوں کا راج تھا – شیورلیٹ ، فورڈ اور ڈاج Chevrolet , Ford , Dodge مشہور و معروف امریکی گاڑیاں تھیں – بعد میں برطانوی بیڈ فورڈ Bedford گاّڑیاں بھی
سڑکوں پر آگئیں ———————– رہے نام اللہ کا  –٤ ستمبر   2022

میرا میانوالی- 

میانوالی سے عیسی خیل دن میں صرف پانچ بسیں آتی جاتی تھیں، دو میانوالی ٹرانسپورٹ کمپنی کالا باغ گروپ کی اور دو عیسی خیل گروپ کی – میانوالی ٹرانسپورٹ کمپنی صرف ان چار بسوں پر مشتمل تھی – کالاباغ گروپ والی دو نواب آف کالاباغ کی ملکیت تھیں ، عیسی خٰیل گروپ والی دو بسیں عیسی خیل کے رئیس خُداداد خان کی ملکیت تھیں – تلہ گنگ بس سروس کی ایک بس بھی اِس رُوٹ پہ چلتی تھی – یہ پانچ بسیں دن میں صرف ایک ہی پھیرا لگاتی تھیں –
نیلام شُدہ پرانے فوجی ٹرکوں پر بس کی باڈی لگا کر بنی ہوئی یہ بسیں بہت نازک مزاج تھیں – بس کو سٹارٹ کرنے کے لیئے بھی بہت منتیں ترلے کرنے پڑتے تھے – کلینر (کنڈکٹر) لوہے کا راڈ بس کے اگلے بمپر میں ڈال کر پُورے زور سے دوچار بار گُھماتا تھا تو بس سٹارٹ ہوجاتی تھی – اگر سٹارٹ نہ ہوتی تو مسافروں سے دھکا لگوایا جاتا تھا –
میانوالی عیسی خیل کے درمیان کالا باغ اڈے پر بس دس پندرہ منٹ رُکتی تھی – یہاں بس کا عملہ اور مسافر چائے پانی پِیا کرتے تھے – کالا باغ لاری اڈہ موجودہ جگہ کی بجائے مین روڈ پر واقع تھا – چاچا غُلام محی الدین کا ہوٹل اُس دور کا مقبُول ترین ہوٹل تھا – بڑی زبردست چائے بناتا تھا چاچا محی الدین – اس ہوٹل کا حلوہ بھی بہت سپیشل ہوتا تھا –
وقت کے ساتھ سب کُچھ بدل گیا – پٹرول سے چلنے والی پرانی بسوں کی جگہ ڈیزل سے چلنے والی نوِیں نکور فلائینگ کوچیں آگئیں – امریکی گاڑیوں شیورلیٹ ، فورڈ ، ڈاج کی جگہ جاپانی گاڑیاں ہینو ، نسان ، سُوزو وغیرہ آگئیں –
راستے بھی بدل گئے – پہلے میانوالی سے پنڈی جانے کے لیئے تلہ گنگ ، کھوڑ ، فتح جنگ سے ہوکر جانا پڑتا تھا – پھر موٹروے بن گیا تو تلہ گنگ سے آگے بلکسر سے موٹروے کے راستے پنڈی پہنچتے تھے ۔ چار پانچ گھنٹےکا سفر تھا- اس سال سی پیک کی مہربانی سے داؤدخٰیل کے راستے پنڈی پہنچنے میں صرف دو گھنٹے لگتے ہیں –
اسی طرح لاہور جانے کے لیئے سرگودہا سے لاہور کی بس ملتی تھی جو چنیوٹ ، پنڈی بھٹیاں ، خانقاہ ڈوگراں ، شیخوپورہ کے راستے لاہور پہنچتی تھی – سات آٹھ گھنٹے کا سفر تھا- اب موٹروے کے راستے میانوالی سے لاہور پہنچنے میں تین چار گھنٹے لگتے ہیں –
محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
————————- رہے نام اللہ کا ———————–
—— منورعلی ملک ——
پکچر۔۔۔ امریکی ڈاج Dodge بس… 1950٥ ستمبر  2022

میرا میانوالی-

ستمبر1965 کے یہی دن تھے جب بھارت نے اچانک پاکستان پر پُوری طاقت سے حملہ کردیا – بری فوج ، بحریہ اور فضائیہ تینوں مسلح افواج پاک سرزمین کے دفاع کے لیئے میدان میں آگئیں – اُس وقت نواب کالاباغ ملک امیرمحمد خان مغربی پاکستان کے گورنر تھے – اُنہوں نے فی الفور تاجر نمائندوں کو بُلا کر کہا جنگ جیسے ہنگامی حالات سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر آپ لوگ عام طور پر چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں – لیکن جنگ کے دوران بنیادی ضرورت کی کسی چیز کی قیمت میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں ہونا چاہیئے – بس اتنا یاد رکھیں کہ میرا نام ملک امیر محمد خان ہے – میں اپنے حُکم کی نافرمانی برداشت نہیں کرتا – میرا یہ پیغام ہر سطح کے دکان داروں تک پہنچا دیں – بس اب آپ لوگ جا سکتے ہیں –
اور پھر ہم نے دیکھا کہ تقریبا تین ہفتے کی جنگ کے دوران بنیادی ضرورت کی کسی چیز کی قیمت میں ایک پیسے کا اضافہ بھی نہیں ہوا – تاجر جانتے تھے کہ گورنر صاحب صرف حُکم جاری ہی نہیں کرتے اُس پر عمل کروانا بھی جانتے ہیں – نافرمانی کرنے والے کو نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں –
اب تو یہ حال ہے کہ کئی سال سے چیزوں کی قیمتوں میں اندھا دُھند اضافہ ہو رہا ہے اور حکومتیں اپنا حصہ وصول کر کے خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں – اب سیلاب کے دوران تو منافع خوری کی ہر حد کراس ہوگئی ، مگر حکومت پتہ نہیں کہاں ہے –
ملک امیر محمد خان ایک متنازعہ شخصیت تھے – آُن کے ظلم کی بھی بہت سی داستانیں مشہور و معروف ہیں – مگر کُچھ نہ کُچھ خُوبیاں بھی ہر انسان میں ہوتی ہیں – نواب صاحب جیسا ایڈمنسٹریٹر پھر دیکھنا نصیب نہ ہوا –
——————— رہے نام اللہ کا  –٦ ستمبر   2022

میرا میانوالی- 

ایک بار کہی ہوئی بات کو دُوسری بار دُہرانا اچھا نہیں لگتا ، مگر بعض اوقات کسی دُوسرے حوالے سے کوئی بات دوبارہ کہنی پڑ جاتی ہے – جس رفتار سے میری پوسٹس کے قارئین کی تعداد الحمدللہ بڑھ رہی ہے یہ بھی خیال رہتا ہے کہ کئی قارئین کے لیئے پہلے کہی ہوئی بات بھی نئی ہوگی –
گذشتہ چند دن بسوں کا ذکر چلتا رہا – بچپن میں اپنی دلچسپیاں بہت عجیب تھیں – پہلے کالے کلوٹے ریلوے انجنوں سے عشق چلتا رہا – ساتویں کلاس میں باباجی مجھے عیسی خیل لے گئے – وہاں وہ گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈماسٹر تھے – عیسی خیل آمدورفت بس کے ذریعے ہوتی تھی – یُوں مجھے بسوں سے دلچسپی پیدا پوگئی – مختلف کمپنیوں اور ماڈلز کی بسوں کی پہچان ہوئی – میانوالی عیسی خیل رُوٹ پر اُس زمانے میں امریکی گاڑیاں فورڈ ، ڈاج ، شیورلیٹ وغیرہ چلتی تھیں – پنڈی گھیب بس سروس کی ایک برطانوی آسٹن بس بھی ہفتے میں ایک دو بار آتی جاتی تھی –
مجھے اپنی امی کے حکم کی تعمیل میں ہر ہفتے داؤدخیل آنا پڑتا تھا – بابا جی تو ہر ہفتے میرے ساتھ نہیں آسکتے تھے – ساتویں کلاس کے بچے کو اکیلا داؤدخیل بھیجنا بھی مناسب نہ تھا – اللہ نے یہ مسئلہ یُوں حل کر دیا کہ تلہ گنگ بس سروس کی بس کے ڈرائیور کمرمشانی کے چاچا محمد خان جو پندرہ بیس سال پہلے ہمارے بابا جی کے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے انہوں نے مجھے لانے لے جانے کی ذمہ داری قبول کر لی – اُن کی بس صبح پانچ بجے عیسی خیل سے میانوالی روانہ ہوتی تھی – سنیچر کی صبح اس بس کی فرنٹ سیٹ میرے لیئے وقف ہوتی تھی – اس سیٹ پر دوآدمیوں کی گنجائش تھی ، مگر چاچا محمد خان میرے ساتھ کسی دُوسرے آدمی کو نہیں بیٹھبے دیتے تھے –
اتوار کو بعد دوپہر میں عیسی خیل واپس بھی اسی بس سے جاتا تھا- واپسی پر بھی مجھے فرنٹ سیٹ ملتی تھی – امریکی سٹوڈی بیکر Studebaker کمپنی کی اس بس کی اپنی الگ شان تھی – بھاگتی بھی بہت تیز تھی – آتے جاتے ہوئے چاچا محمد خان مجھے کالاباغ اڈے پر چاچا محی الدین کے ہوٹل سے چائے بھی پلاتے تھے – عظیم انسان تھے – اپنے ٹیچر کے بچے کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے – اللہ کریم ان کو بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے ان کا احسان کبھی نہیں بُھول سکتا – اپنے ٹیچر کی ایسی قدروقیمت میانوالی کے لوگوں کا طرہء امتیاز ہے –
———————– رہے نام اللہ کا —–٧ ستمبر  2022

میرا میانوالی-

بعض سٹوڈنٹس کی اپنے ٹیچر سے محبت عقیدت کی حدوں کو چُھوتی ہے – وہ دعائیں مانگتے رہتے ہیں کہ کبھی اپنے محبوب ٹیچر کی خدمت کا موقع ملے – میجر میاں محمد قریشی کو یہ موقع 60 سال اتنظار کے بعد ملا – موصوف آج سے 60 سال پہلے داؤدخیل سکول میں میرے سٹوڈنٹ تھے – اللہ جانے کیسے میرا نقش ان کے دل پر ایسا ثبت ہوا کہ وہ مجھے دل دے بیٹھے – تعلیم مکمل کرنے کے بعد موصوف کو پاکستان آرمی میں کمیشن مل گیا – مدتوں بعد فیس بُک پر مجھے دیکھا تو میری فرینڈز لسٹ میں شامل ہوگئے- میری ہر پوسٹ بڑے شوق سے پڑھنے لگے – پھر واٹس ایپ پہ رابطہ ہوا تو اکثر علیک سلیک ہوتی رہی – 2019 میں جب میری اہلیہ مرحومہ شفا ہسپتال اسلام آباد میں زیر علاج تھیں , میجر صاحب کو پتہ چلا تو فورا ہسپتال پہنچے – تقریبا 60 سال بعد یہ ہماری پہلی ملاقات تھی –
ابھی پچھلےہفتے میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی کو اسلام آباد کی ایک یونیورسٹٰی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ ملا تو میں نے انہیں میجر صاحب کا فون نمبر دے کر کہا یہ آپ کے بڑے بھائی ہیں ، پنڈٍی میں رہتے ہیں ، ان سے ضرور مل لینا – میجر صآحب کو بھی میں نے اکرم بیٹے کا نمبر دے کر کہا اکرم بیٹے کا خیال رکھیں – اکرم وہاں پہنچے تو میجر صاحب نے سگے بھائیوں کی طرح والہانہ گرمجوشی سے استقبال کیا – شاہانہ انداز میں ان کی دعوت کا اہتمام کیا – مجھے میسیج کر کے کہا “ سر، بہت شکریہ، میری دیرینہ آرزُو تھی کہ آپ کبھی میرے مہمان ہوں – اکرم بھائی کے آنے سے یہ دیرینہ آرزُو پوری ہوگئی – اکرم نے میجر صاحب کے حُسنِ سلوک کے بارے میں جو کُچھ بتایا وہ میرے لیئے باعث فخر ہے – اللہ کریم میجر صاحب کو بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے
میجر میاں محمد قریشی ایک عسکری گھرانے کے چشم و چراغ ہیں – ان کے تین صاحبزادے پاک فوج میں اہم عہدوں پر فائز ہیں –
میجر میاں اسلام آباد میں ریئل اسٹیٹ بزنس کی معروف شخصیت ہیں۔ ٹیپو اسٹیٹ کے بانی اور CEO ہیں۔
میں نے اکرم بیٹے کی شاہانہ خاطر تواضع پر شکریئے کا میسیج بھیجا تو میجر میاں کا جواب یہ تھا
“ سر ، تُساں اکرم بھائی نی فکر اُکا نہ کرو – اِتھے میں جو بیٹھا ہاں“———————- رہے نام اللہ کا —  –٨ ستمبر   2022

میرا میانوالی-

چند سال پہلے کی بات ہے میرے ایک قریبی عزیز کی ضمانت کا کیس زیرِ سماعت تھا – وکیل کے ایک سوال کے جواب میں میرے عزیز نے میرا حوالہ دیا تو جج صاحب کا نوجوان ریڈر اپنی کُرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا – جج صاحب نے کہا “کیا بات ہے؟“
ریڈر نے کہا سر، جن صاحب کا اس بندے نے نام لیا ہے وہ میرے ٹیچر ہیں-
جج صاحب نے مُسکرا کر کہا “ کمال ہے “ – یہ کہہ کر اُنہوں نے ملزم کی ضمانت منظور کر لی –
اللہ جانے میرا وہ ریڈر بیٹا کون تھا – اللہ کریم اس کو بے حساب عزت عطا فرمائے – الحمدللہ ہزاروں بیٹے ہیں ، زندگی کے مختلف شعبوں میں – ابھی کل پرسوں میجر میاں محمد قریشی کا ذکر ہوا- ڈاکٹر ، وکیل اور ٹیچر تو بے شمار ہیں – اللہ سب کو سلامت رکھے – ان کے لیے میرا نام ہی کافی ہے – اس میں میرا کوئی کمال نہیں – میرے رب کریم کا خصوصی کرم ہے کہ اُس نے مجھے ٹیچر بنایا ، ٹیچر بھی ایسا کہ جس کا نقش دِلوں پر ثبت ہے – کوئی ایک دن بھی میری کلاس میں بیٹھا مجھے بُھلا نہ سکا –
ایک دفعہ میں عیسی خیل جانے کے لیئے داؤدخیل سے بس میں سوار ہوا – بس میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی – کُچھ لوگ بس کی سیٹوں کے درمیان کھڑے تھے ، میں بھی اُن کی صف میں شامل ہوگیا – اچانک پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک سمارٹ نوجوان اپنی سیٹ سے اُٹھا اور مجھ سے کہنے لگا “ سر، آپ یہاں بیٹھ جائیں “ – میں نے کہا “جی نہیں آپ بیٹھیں مجھے کالاباغ سے سیٹ مل جائے گی – دوچار منٹ کی بات ہے –
نوجوان نے کہا “ سر ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کھڑے ہوں اور میں بیٹھا رہوں ، آپ پلیز اِدھر بیٹھ جائیں“
میں نے سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا “ صاحب، میں نے آپ کو پہچانا نہیں , آپ مجھے کیسے جانتے ہیں ؟-
نوجوان نے کہا “ سر ، میرا نام سید امیر عباس نقوی ہے – میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں – جب میں کوٹ بیلیاں سکول میں آٹھویں جماعت کا سٹوڈنٹ تھا ، آپ ایک دن ہمارے ہیڈماسٹر سید اقبال بخاری صاحب سے ملنے کے لیئے آئے تھے ، اور ہیڈماسٹر صاحب کی فرمائش پر آپ نے ہمیں Direct and Indirect Narration پڑھائی تھی – سرَ َ َ ، آپ نے جو کُچھ پڑھایا تھا وہ آج بھی مجھے یاد ہے “-
اپنی زندگی میں کئی ایسے واقعات آتے رہتے ہیں ، اور ہر بار اپنا سر بارگاہِ رب العزت میں شُکر سے جُھک جاتا ہے –
———————- رہے نام اللہ کا —  –١٠ ستمبر  2022

میرا میانوالی-

یہ جو میں کبھی کبھی ٹیچر کی حیثیت میں اپنے تجربات و مشاہدات بیان کرتا ہوں ، مقصد اپنی تعریف کرنا نہیں ہوتا بلکہ ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کے کردار کی تعمیر اور اصلاح کی غرض سے یہ واقعات و مشاہدات بیان کرتا ہوں کیونکہ میری پوسٹس کے قارئین کی ایک بڑی تعداد ٹیچرز اور سٹوڈنٹس پر مشتمل ہے –
ٹیچر کی عزت کا پیمانہ اس کی اپنے کام میں مہارت ہے – ٹیچر کو اپنے مضمون پر جتنا زیادہ عبور ہوگا ، اتنا ہی وہ سٹوڈنٹس کی نظر میں معزز ہوگا – میرا مضمون انگلش رہا ، الحمد للہ مجھے اس میں مکمل دسترس میسر رہی – مجھے اپنے مضمون (انگلش) سے عشق تھا – اللہ کے فضل سے درجن بھر کتابیں بھی لکھیں ، بہت عرصہ انگریزی اخبارات میں کالم بھی لکھتا رہا ، ایم اے کی سطح تک پیپر سیٹر Paper Setter اور ایگزامینر Examiner بھی رہا – سکول کی چھٹی کلاس سے لے کر ایم اے پارٹ ٹُو تک ہر کلاس پڑھانے کا موقع ملا اور میں نے پڑھانے کا حق ادا کر دیا- کبھی کلاس میں کوئی مشکل پیش نہ آئی –
میرے سٹوڈنٹس جانتے ہیں کہ میں کلاس میں خاصا خُشک مزاج ٹیچر تھا – جو کُچھ پڑھانا ہوتا تھا اس کے سوا اِدھر اُدھر کی کوئی بات ، کوئی ہنسی مذاق نہیں کرتا تھا – کلاس کے ڈسپلن کے معاملے میں کبھی کوئی مسئلہ نہ بنا – میں نے یہ دیکھا ہے کہ نکمے سٹوڈنٹس بھی لائق ٹیچر کا پُورا پُورا احترام کرتے ہیں – میرے ایسے سٹوڈنٹس بھی تھے جنہیں انگریزی سیکھنے میں تو کوئی دلچسپی نہ تھی ، نہ ہی وہ کُچھ سیکھ سکے ، لیکن کلاس کے اندر اور باہر وہ ًدل و جان سے میرا احترام کرتے تھے –
پڑھانے میں میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ صرف مقررہ کورس کے نوٹس رٹنے کی بجائے سٹوڈنٹس تھوڑا بہت انگریزی بولنا لکھنا بھی سیکھ جائیں- اس انداز تدریس سے بہت سے سٹوڈنٹس مستفید ہوئے –
آج کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ سٹوڈنٹس اور معاشرے میں عزت حاصل کرنے کی پہلی شرط اپنے کام میں مہارت ہے – یہ خُوبی ٹیچر کے بہت سے عیب چُھپا لیتی ہے —- کُچھ اور باتیں بھی ہیں جن پر انشآءاللہ کل بحث کریں گے –
———————— رہے نام اللہ کا —-  -١١ ستمبر   2022

میرا میانوالی- 

انگریزی سے خوف اور نفرت ہمارے نظامِ تعلیم کا المیہ ہے – افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ بچوں کے دل میں یہ خوف اور نفرت ہم ٹیچر لوگ پیدا کرتے ہیں – انگریزی پر ٹیچر کی اپنی گرفت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو زبان سکھانے کی بجائے سارا زور نصاب کی کتابوں کے نوٹس رٹوا کر امتحان پاس کروانے پر صرف کرتا ہے –
جب انگریزی سے آپ خوفزدہ ہوں کہ ہائے یہ تو بڑی مشکل چیز ہے ، اور اس خوف کی وجہ سے آپ اس سے نفرت کرتے ہوں تو آپ اس کو سیکھنا ناممکن سمجھ کر اس سے گُریز کرتے ہیں – بس اتنا رٹا لگا لیتے ہیں کہ امتحان میں پاس ہو جائیں – ہمارے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں انگریزی کی تعلیم بس یہیں تک محدود ہے – لوگ امتحان تو پاس کر لیتے ہیں لیکن نہ یہ زبان بول سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں –
میرے ایک سٹوڈنٹ مرحوم حفیظ ملک اسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارے میں ٹیچر تھے – ایک دفعہ مجھ سے ملنے آئے تو کہنے لگے سر، ٹیچر بہت دیکھے ہیں لیکن آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا – میں نے کہا بیٹا ایسی کوئی بات مجھے تو نظر نہیں آتی – دوسرے ٹیچرز کی طرح میں بھی پڑھاتا ہوں ، میں کوئی آسمان سے تارے توڑ کر تو نہیں لاتا –
حفیظ نے کہا سر فرق یہ ہے کہ آپ نے کبھی انگلش کو مشکل کہہ کر ہمیں ڈرایا نہیں – بلکہ آپ اتنی آسانی اور روانی سے انگریزی بولتے اور پڑھتے ہیں جیسے یہ ہماری اپنی زبان ہے – اس سے ہمیں بھی حوصلہ ملا ، ہمیں انگلش اچھی لگنے لگی اور ہم شوق سے یہ زبان پڑھنے لگے – مختصر بات یہ کہ آپ بچوں کو انگریزی سے خوف اور نفرت سے نجات دلا دیتے ہیں –
آہ – حفیظ اب اس دنیا میں موجود نہیں – جوانی ہی میں اللہ کو پیارا ہوگیا – اللہ کریم اسے اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے –
میں اکثر کہا کرتا ہون کہ جب میں نے انگلش پڑھا کر ہی روزی کمانی ہے تو اس پر عبور حاصل کرنا میرا فرض بنتا ہے – آج کی گفتگو میں ٹیچرز کو یہی پیغام دینا تھا کہ
جناب آپ جو مضمون بھی پڑھاتے ہیں اس پر عبور حاصل کرنا آپ کا اخلاقی فرض ہے – اگر یہ خوبی اپنے اندر پیدا کر لیں توبچے آپ کا دل وجان سے احترام بھی کریں گے، آپ پر فخر بھی کریں گے –
——————— رہے نام اللہ کا12ستمبر  2022

میرا میانوالی-

پروفیسر شمشاد محمدخان لودھی سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں ریاضی (میتھس) کے پروفیسر تھے – اپنے مضمون کے اتنے بڑے ماہر تھے کہ میٹرک کے میتھس کے کورس کی کتابیں اُن کی لکھی ہوئی تھیں –
ایک دفعہ لیکچر کے دوران کہنے لگے سٹوڈنٹ کا اپنے ٹیچر پر اعتماد ٹیچر کا بہت قیمتی سرمایہ ہوتا ہے – میری بچی نویں CLASS NINE میں پڑھتی ہے – کل وہ گھر میں سکول کا ہوم ورک کر رہی تھی – میں نے کہا بیٹا میتھس کا یہ سوال جو آپ حل کر رہے ہیں ، کر تو آپ ٹھیک ہی رہے ہیں لیکن اس کو حل کرنے کا بہتر طریقہ اور ہے – بچی نے کہا جی نہیں ، ہماری میڈم نے ہمیں ایسے ہی بتایا ہے – میں نے کہا بیٹا بے شک آپ کی میڈم بہت قابل ہوں گی مگر جس کتاب سے وہ آپ کو پڑھاتی ہیں وہ تو میری لکھی ہوئی ہے، اس لیئے میرا بتایا ہوا طریقہ ہی بہترین طریقہ ہے – بچی نے کہا چھوڑیں ابو ، آپ جتنے قابل بھی ہو جائیں میری میڈم سے زیادہ قابل نہیں ہو سکتے –
یہ واقعہ سُنا کر پروفیسر لودھی صاحب نے کہا میں سلام کرتا ہوں اُن میڈم صاحبہ کو جن کا مقام اُن کے سٹوڈنٹس کی نظر میں اتنا بلند ہے – خوش نصیب ہیں وہ ٹیچر جن کے سٹوڈنٹ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ٹیچر جیسا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا –
——————— رہے نام اللہ کا١٣ ستمبر   2022

میرا میانوالی- 

گارڈن کالج راولپنڈی میں امریکی پروفیسر جان وائلڈر John Wilder میرے بہت مہربان استاد تھے – وہ ہماری کلاس کو انگلش کمپوزیشن پڑھاتے تھے – پڑھانے کا انداز یہ تھا کہ چالیس منٹ کے پیریئڈ میں سے پہلے بیس منٹ لیکچر دیتے تھے اس کے بعد ہمیں اسی لیکچر سے متعلق ایک مشق دے دیتے تھے جو ہم اگلے بیس منٹ میں حل کرکے ان کے سپرد کر دیتے تھے – مشق کاغذ کا ایک ورق ہوتا تھا جس پر سوالات لکھے ہوتے تھے ۔ سوالوں کے جوابات اسی ورق پر لکھنے ہوتے تھے – یہ سوالات Objective type ہوتے تھے لیکن MCQ کی لعنت سے پاک عقل شعور والے سوالات ہوتے تھے –
80 سٹوڈنٹس کے لیئے روزانہ مشق کی 80 کاپیاں کر کے لانا آسان کام نہ تھا – فوٹوسٹیٹ کا نظام اس زمانے میں ہوتا نہیں تھا ، سلائی مشین کی طرح ہینڈل گُھما کر چلنے والی مشین ہوتی تھی جسے Cyclostyle machine سائیکلو سٹائیل مشین کہتے تھے – عبارت کاغذ پر ٹائیپ کرکے مشین کے سلنڈر پر لگادی جاتی تھی ، پھر ہینڈل گُھما کر اس کی کاپیاں نکالی جاتی تھیں ۔ اچھا خاصا رپھڑ تھا ، مگر پروفیسر جان وائلڈر پھر بھی روزانہ یہ سارا دھندہ سرانجام دیتے رہے – گھر جاکر حل سُدہ مشقوں پر نمبر لگانا ،پھر نئی مشق تیار کرکے اُس کی 80 کاپیاں نکالنا ، خاصا دِل گُردے کا کام تھا –
ایک دفعہ مشق میں مجھے 100 میں سے 98.5 نمبر دیئے – پیپر واپس دیتے ہوئے مُسکرا کر کہا آپ کی مشق میں غلطی تو کوئی نہیں تھی ، ڈیڑھ نمبر صرف اس لیئے کاٹا ہے کہ آپ کے مُلک میں انگلش میں پُورے نمبر دینے کا رواج ہی نہیں –
امتحان سے دوتین ماہ پہلے ہمارے بابا جی کی ریٹائرمنٹ کے باعث مجھے کالج چھوڑ کر داؤدخیل واپس آنا پڑآ – آنے سے ایک دن پہلے پروفیسر جان وائلڈر کو میں نے بتایا کہ میں کالج چھوڑ کر جا رہا ہوں – پریشان ہوگئے – کہنے لگے چلو میرے ساتھ – کالج کیمپس ہی میں ان کا گھر تھا – مجھے وہاں لے گئے اور بیگم سے کہا چائے بناؤ –
پھر مجھ سے کہا “دیکھیں آپ کالج نہ چھوڑیں – میرے گھر پر رہیں ، آپ کے تمام اخراجات میں برداشت کروں گا – دو سال بعد میں یہاں سے امریکہ واپس جاؤں گا تو آپ کو ساتھ لے جاوں گا اور وہاں سے آپ کو ایم اے انگلش کرواؤں گا –
اتنے میں اُن کی بیگم صاحبہ چائے بنا کر لے آئی تھیں – پروفیسر صاحب کی باتیں سُن کر مجھ سے کہنے لگیں
Yes, Munawar, why not be a son to us
( ہاں ، منور، آپ ہمارے بیٹے بن جائیں ناں )
پروفیسر صاحب کی شفقت دیکھ کر اُس وقت بھی میری آنکھیں بھیگ رہی تھیں ، اب یہ قصہ لکھتے وقت بھی یہی عالم ہے –
سات سمندر پار جاکر رہنا بہت مشکل لگ رہا تھا ، یہ بھی یقین تھا گھر والے جانے کی اجازت نہیں دیں گے – پروفیسر صاحب کا دِل بھی نہیں دُکھانا چاہتا تھا,
اس لیئے میں نے کہا “ سر، میں گھر جاکر اپنی فیملی سے مشورہ کروں گا ، اجازت مل گئی تو واپس آجاؤں گا ، نہ آیا تو سمجھ لیں کہ مجھے اجازت نہیں مل سکی-
یہ کہہ کر میں آنسُو پُونچھتا وہاں سے واپس چل دیا ——
اجازت کہاں ملنی تھی ؟———————– رہے نام اللہ کا —١٤ ستمبر  2022

میرا میانوالی-

کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں امریکہ سے خالد نیازی صاحب نے کہا “سر ، اگر آپ کے پروفیسر جان وائیلڈر صاحب ابھی زندہ ہیں تو اُن کا پتہ بتادیں میں انشاءاللہ اُن سے مل کر آپ کا اظہارِتشکر اُن تک پہنچا دوں گا –
پروفیسر صاحب سے رابطے کا یہ امکان دیکھ کر ایک بار پھر آنکھیں بھیگ گئیں – میں نے خالد نیازی کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے کہا اب بہت دیر ہوچکی – جب پروفیسر جان وائیلڈر صاحب گارڈن کالج میں ہمیں پڑھاتے تھے اُس وقت اُن کی عمر چالیس سال سے اُوپر تھی ، آج 65 سال بعد غالب امکان یہی ہے کہ وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہوں گے —
عتیل صاحب نے کسی زمانے میں کسی شاعر کا بہت ظالم شعر سنایا تھا ، اپنے اور پروفیسر جان وائیلڈر کے تعلق کے حوالے سے وہ شعر ذہن میں گُونج اُتھا اور آنکھوں سے مزید آنسو بہہ نکلے – یوں لگا جیسے وہ شعر میرے نام استادِ محترم کا آخری پیغام ہو – شعر یہ تھا-
ممکن ہے ایسا وقت ہو ترتیبِ وقت میں
دستک کو تیرا ہاتھ بڑھے، میرا در نہ ہو
کل کی پوسٹ میں پروفیسر صاحب سے جس الوداعی ملاقات کا ذکر ہوا وہ ہماری آخری ملاقات تھی – اس کے بعد نہ ملاقات ہو سکی نہ رابطہ – کُچھ دن بعد خبر ملی کہ وہ امریکہ واپس چلے گئے – نہ آُن کا پتہ میرے پاس تھا ، نہ میرا اُن کے پاس ، رابطہ ممکن ہی نہ رہا – دل میں یہ حسرت ہمیشہ رہی کہ کاش کسی طرح استادِ محترم سے ملاقات ہو اور میں اُن کے پاؤں چُھو کر کہہ سکوں کہ
Sir, I’ve done it
(سر ، میں نے آپ کی خواہش پُوری کردی ، میں نے ایم اے انگلش کر لیا)———————– رہے نام اللہ کا —  –١٥ ستمبر   2022

میرا میانوالی-

مرحوم ڈاکٹر اجمل نیازی میانوالی کو حیرتوں کی سرزمین کہا کرتے تھے – کئی حوالوں سے میانوالی واقعی حیرتوں کی سرزمین ہے – پنجاب کی شمال مغربی سرحد پر واقع یہ دُور افتادہ خطہ لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھی حکومتوں کی نظروں سے تو ہمیشہ اوجھل ہی رہا – سرکار کے منظورِنظر علاقوں جیسی سہولیات میانوالی کو کبھی نصیب نہ ہوئیں ، اس لیئے دنیاوی لحاظ سے یہ علاقہ غریب ہی رہا ، مگر ربِ کریم نے اس علاقے کے لوگوں کو ایسی علمی ، ادبی، فنی، اور اخلاقی صلاحیتوں سے مالامال کر دیا کہ میانوالی کا نام دُنیا بھر میں مشہور و معروف ہو گیا – اس شہرت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے –
اردو اور سرائیکی ادب میں مُلک گیر شہرت کے حامل شاعروں اور ادیبوں کے علاوہ انگریزی شاعری میں بھی یہاں کی نوجوان نسل کے چند لوگ شہرت اور مقبولیت کے مراحل بڑی تیزی سے طے کر رہے ہیں – وتہ خیل کی ایک بچی کشف نُورخان کا انگریزی شعری مجموعہ NURTURED RUINS بارش کا پہلا قطرہ ثابت ھوا- کشف نُورخان کی شاعری زبان و بیان اور موضوعات کے لحاظ سے بہت اعلی درجے کی شاعری ہے – انگریزی زبان میں اُن کی دسترس حیرت انگیز ہے –
حال ہی میں موچھ کے لہر نیازی بھی ایک اُبھرتے ہوئے شاعر کی حیثیت میں یہاں کے ادبی اُفق پر نمودار ہوئے ہیں – بہت قلیل عرصے میں اُن کی انگریزی شاعری کے تین مجموعے DREAMS IN THE DESERT , DANCING LEAVES اور MY SAD SONG منظرِعام پر آچکے ہیں – لہر نیازی اُن کا قلمی نام ہے – اصل نام گلستان خان نیازی ہے – لہر نیازی ہائر سیکنڈری سکول داؤدخیل میں سینیئر انگلش ٹیچر ہیں – انگریزی میں خوبصورت مختصر نظمیں لکھتے ہیں – سہل زبان اور دیہاتی کلچر کے موضوعات شہرہء آفاق امریکی شاعر ROBERT FROST کی یاد تازہ کرتے ہیں –
لہر نیازی 6 ستمبر کو اپنی انگریزی شاعری کا دُوسرا اور تیسرا مجًموعہ مجھے دینے کے لیئے میرے ہاں آئے – یہ دو خوبصورت کتابیں 100 مختصر نظموں پر مشتمل ہیں – ان کتابوں پر گورنمنٹ کالج میانوالی کے شعبہ ء انگریزی کے سربراہ پروفیسر ناصر اقبال ، عالمز پبلک سکول کے پرنسپل پروفیسر سید ندیم عالم ، گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن کے وائس پرنسپل اسدفاروق خان نیازی اور تھری ڈیز سکول میانوالی کے ڈائیریکٹر ظفر نیازی کےجامع ریمارکس لہر نیازی کے کامیاب شاعر ہونے کی ضمانت ہیں –
لہر نیازی کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے – سکولوں اور کالجوں کے سربراہوں سے گذارش ہے کہ لہر نیازی کی کتابیں اپنی لائبریریوں کی زینت بنائیں –
لہر نیازی کے لیئے بہت سی نیک تمنائیں –
————————- رہے نام اللہ کا –  –١٦ ستمبر  2022

میرا میانوالی-

مہربان اساتذہ ء کرام کا ذکر چھڑا تو سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں اپنے انگلش کے پروفیسر سر محمد اقبال خان یاد آگئے – بہت لائق ٹیچر تھے – گورنمنٹ کالج شیخوپورہ سے ٹرانسفر ہو کر آئے تھے – ٹرانسفر یُوں ہوا کہ انہیں گریڈ 19 میں پروموشن ملی تو گورنمنٹ کالج لاہور ( آج کا GCU) میں وائس پرنسپل کے عہدے کی پیشکش ہوئی – گورنمنٹ کالج لاہور میں وائس پرنسپل ایک انتظامی عہدہ تھا ، پڑھنے پڑھانے کی بجائے انتظامی فرائض ادا کرنے پڑتے تھے – اچھی خاصٰی افسرانہ ٹَور ہوتی تھی – مگر پروفیسر اقبال خان نے یہ افسرانہ ٹھاٹھ باٹھ قبول کرنے سے صاف انکار کردیا – بتایا کرتے تھے کہ میں نے سیکریٹری ایجوکیشن سے کہا
I was born a teacher, and would love to die a teacher
میں ٹیچر پیدا ہوا تھا اور ٹیچر کی حیثیت ہی میں مرنا چاہتا ہوں –
اس گریڈ کی انگلش کے پروفیسر کی پوسٹ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں خالی تھی ، سو خان صاحب اس کالج میں آگئے – انگلش میں الحمد للہ میں کلاس میں سب سے آگے تھا ، اس لیئے مجھ پر بہت مہربان تھے –
جب امتحآن کا داخلہ بھیجنے کا وقت آیا تو پھڈا پڑ گیا – اصولِ تعلیم نامی ایک مضمون میں میری حاضریوں کی تعداد بمشکل پانچ سات فی صد بنتی تھی – بہت خُشک ، دماغ کھانے والا مضمون تھا اس لیئے میں ہفتے میں ایک آدھ دن سے زیادہ اس کلاس میں حاضری نہیں دیتا تھا – اس مضمون کے پروفیسر حاجی فضل احمد صاحب سخت اصول پسند تھے – میں حاضریوں کی تصدیق کا فارم لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو برس پڑے – فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی ، سارا سال غائب رہ کر کہتے ہو مجھے 75 فیصد حاضریاں لکھ دیں –
میری خوش قسمتی سے عین اُسی وقت پروفیسر اقبال خان صاحب وہاں آگئے – پروفیسر حاجی صاحب کو گرجتے اور مجھے سر جُھکائے دیکھا تو ہنس کر پروفیسر حاجی صاحب سے کہنے لگے “ حاجی صاحب ، کیوں مُنڈے نوں تنگ کردے پئے او “
پروفیسر حاجی صاحب نے کہا “ دیکھیں جی ، یہ صاحبزادے سارا سال غیر حاضر رہے اور اب کہتے ہیں میری حاضریاں پُوری کردیں –
پروفیسر اقبال خان نے حیران ہو کر کہا کیا کہہ رہے ہیں حاجی صاحب ؟ اس سے زیادہ باقاعدہ حاضری دینے والا تو کوئی سٹوڈنٹ میری کلا س میں بے ہی نہیں —- بات اُن کی بھی درست تھی ، انگلش مجھے اچھی لگتی تھی ، اس لیئے انگلش کی کلاس چاہے رات ایک بجے بھی لگتی میں کبھی ایک دن بھی غیر حاضر نہ ہوتا –
پروفیسر حاجی صاحب نے کہا “ مگر میرے مضمون میں تو ان کی حاضریاں بہت ہی کم ہیں“
پروفیسر اقبال خان صاحب نے کہا “ چلیں ، مہربانی کردیں ، بچوں سے غلطیاں ہو جاتی ہیں “-
حاجی صاحب نے اٹل لہجے میں کہا میرے قلم سے ان کی حاضریاں پُوری نہیں ہو سکتیں –
پروفیسر اقبال خان صاحب نے ہنس کر کہا “ میرے قلم سے تو ہو سکتی ہیں “—— یہ کہہ کر اُنہوں نے جیب سے قلم نکالا اور فارم پر میری 75 فی صد حاضریاں لکھ کر
پروفیسر حاجی صاحب سے کہا “ اب یہاں دستخط فرما دیجیئے “-
پروفیسر حاجی صاحب کیا کرتے ، مُسکرا کر دستخط کر دیئے – حاجی صاحب بہت سخت مزاج تھے – اقبال خان صاحب کے سوا کوئی اور پروفیسر بھی کہتا تو نہ مانتے – مگر سر اقبال خان کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ انکار ناممکن تھا- پروفیسر اقبال خان سے کہا “ یہ آپ کا لاڈلا کیسے بن گیا ؟“
پروفیسر خان صاحب نے کہا حاجی صاحب ، انگلش میں یہ میری کلاس کا ٹاپ سٹوڈنٹ ہے –
حاجی صاحب نے کہا “ چلو ، کوئی کام تو کر لیتا ہے “-
میں حاضری فارم لے کر دونوں پروفیسر صاحبان کو سلام کر کے کمرے سے باہر آگیا-
——————- رہے نام اللہ کا ———————— منورعلی ملک ——   –١٧ ستمبر   2022

میرا میانوالی- 

سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران ہم سے کئی دلچسپ وارداتیں سرزد ہوئیں –
ایک دفعہ پرنسپل صاحب کے زیرِصدارت کالج کی مجلسِ ادب کے اجلاس میں میں نے ایک مزاحیہ مضمون پڑھا جس میں چند پروفیسر صاحبان کا بھی مزاحیہ انداز میں تعارف کرادیا – مضمون بہت پسند کیا گیا – ہال قہقہوں اور تالیوں سے گُونجتا رہا – مگر دُوسری طرف ہنگامہ کھڑا ہو گیا – جو پروفیسر صاحبان اجلاس میں موجود نہ تھے اُن سےکسی نے کہہ دیا کہ ملک منور نے مضمون میں آپ کا مذاق اُڑایا ہے – سٹاف روم میں میرے خلاف کارروائی پر بحث ہوئی – کسی نے کہا اُس کو کالج سے نکال دیا جائے ، کسی نے کہا جُرمانہ کردیں – وائس پرنسپل صاحب نے کہا اُس کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں ہو سکتی ، کیونکہ پرنسپل صاحب نے بھی اُس کے مضمون کو سراہا تھا –
مجلس ادب کے انچارج میرے مہربان اُستاد پروفیسر محمد اسحق جلالپوری صاحب نےمجھے علیحدہ بُلا کر کہا آپ کے مضمون میں تو کسی کی توہین کا کوئی پہلو نہ تھا ، مگر اساتذہ کے دل میں رنجش نہیں رہنی چاہیئے – اس لیئے آپ فلاں فلاں پروفیسر صاحبان سے الگ الگ مل کر معافی مانگ لیں – میں نے آُن کے حُکم کی تعمیل کردی – باقی سب پروفیسر صاحبان نے تو مجھے بڑی شفقت سے معاف کردیا – انگریزی کے پروفیسر شیخ نذیر احمد کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ سب سے زیادہ ناراض ہیں ، حالانکہ اُن کا تو میرے مضمون میں ذکر بھی نہیں تھا –
اگلی صبح میں اپنے کلاس روم کی طرف جاتے ہوئے پروفیسر شیخ نذیر صاحب کے کلاس روم کے سامنے سے گُذرا تو کسی تِیلی لگانے والے نے پروفیسر صاحب سے کہا
“ سر ، وہ جا رہا ہے “
پروفیسر صاحب نے مجھے بُلا لیا – بہت غصے میں تھے ، کہنے لگے “ آپ کو ہمارا مذاق اڑانے کی جراءت کیسے ہوئی –
میں نے کہا “ سر ، میں نے مذاق تو نہیں اُڑایا –
فرمایا Do you know where you stand
میں نے کہا Yes, Sir
پروفیسر صاحب نے کہا Then get lost
(دفع ہو جاؤ)
وہاں سے دفع ہو کر میں اپنے کلاس روم کی طرف چل دیا جہاں ہمارے سیکشن کے پروفیسر اقبال خان صاحب انگلش پڑھا رہے تھے –
دوسرے دن پروفیسر نذیر صاحب برآمدے میں مل گئے – میں نے سلام کیا تو کہنے لگے بھئی وہ مضمون مجھے دکھاؤ تو سہی ، میں بھی دیکھ لوں تم نے لکھا کیا ہے –
خوش قسمتی سے مضمون اُس وقت فائیل میں میرے پاس موجود تھا – دھڑکتے دل اور لرزتے ہاتھوں سے مضمون پروفیسر صاحب کو دے دیا – وہ مجھے ساتھ لے کر اپنے آفس میں آئے اور مجھے سامنے کی کُرسی پر بٹھا کر مضمون پڑھنا شروع کیا – پڑھتے ہوئے ان کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی – پورا مضمون پڑھ کر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا Wonderful !!! It’s a beautiful piece of literature.
(زبردست ! یہ تو ایک خوبصورت ادب پارہ ھے)۔
پھر مجھے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا “ مزاح اچھا لکھ لیتے ہو – لکھتے رہا کرو “-
انسُو چھپانے کے لیئے میں Right, Sir کہہ کر تیزی سے کمرے سے باہر نکل آیا –
———————– رہے نام اللہ کا ——————————– منورعلی ملک ——١٨ ستمبر  2022

میرا میانوالی- 

سنٹرل ٹریننگ کالج میں آخری مہینہ مشقِ تدریس Practice of Teaching کے لیئے وقف ہوتا تھا – 20, 20 سٹوڈنٹس کے گروپ بنا کر اُنہیں لاہور کے مختلف سکولوں میں متعین کردیا جاتا تھا – ہر گروپ کے نگران ایک پروفیسر صاحب ہوتے تھے ، گروپ میں سے پروفیسر صاحب اپنی معاونت کے لیئے ایک سٹوڈنٹ کو گروپ مانیٹر مقرر کر دیتے تھے –
ہمارے گروپ کو گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول خزانہ گیٹ ( لوئر مال) متعین کیا گیا – نگران انگلش کے پروفیسر شیخ نذیر احمد تھے – انہوں نے مجھے گروپ لیڈر مقرر کر دیا –
ایک دن میں دسویں کلاس کو انگریزی پڑھا رہا تھا – بلیک بورڈ پر کُچھ لکھنے لگا تو ایک لڑکا بھی میرے دائیں طرف کھڑا ہو کر بلیک بورڈ پر لکھنے لگا – میں نے تڑاخ سے اُس کے منہ پر تھپڑ رسید کر کے آُس سے کہا جاؤ اپنی سیٹ پہ بیٹھ جاؤ – اُس لڑکے نے اپنا بیگ اُٹھایا اور کلاس روم سے نکلتے ہوئے پیچھے مُڑ کر مجھ سے کہا “میں ویخ لواں گا“ – میں بھی میانوالی کا جوان تھا ، تڑی کیسے برداشت کرتا – میں نے کہا “ میں تمہارے باپ کو بھی دیکھ لُوں گا“-
میں نے یہ واقعہ اپنے نگران پروفیسر شیخ نذیر احمد کو بتایا تو اُنہوں نے کہا ایسے لڑکے کا پکا بندوبست ہونا چاہیئے – یہ کہہ کر وہ مجھے سکول کے پرنسپل صاحب کے پاس لے گئے – سکول کے پرنسپل میاں سلطان محمود صاحب ساڑھے چھ فٹ قد کے سُرخ و سفید بھاری بھرکم ، سفید داڑھی اور نُورانی چہرے والے بزرگ تھے – ہم نے یہ واقعہ اُنہیں بتایا تو غصے سے آگ بگولہ ہوگئے – فرمایا کل صبح میں اس نواب کے بچے کو دیکھ لُوں گا –
دُوسرے دن پرنسپل صاحب پہلے پیریئڈ میں اُس کلاس میں گئے – اُس لڑکے کی پہلے تو خُوب مرمت کی پھر کان سے پکڑ کر دھکا دیتے ہوئے کہا “ آئندہ اس سکول میں قدم نہ رکھنا“-
اگلی صبح اس لڑکے کے والد صاحب پرنسپل صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے – وہ کسی سرکاری محکمے میں سول انجینیئر تھے – پرنسپل صاحب نے تو اُن کی اچھی خاصی دُھلائی کر دی – اُن سے کہا “ اولاد کی تربیت کرنے کی بجائے بچوں کو ہمارے سپرد کر دیتے ہو ، ایسے بچوں کو گھر پر ہی رکھو – اس سکول میں اب آپ کے بچے کی کوئی گنجائش نہیں – سکول چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ بھی نہیں دوں گا کہ یہ جاکر کسی اور سکول کا ماحول خراب نہ کرے “-
دوسرے دن میں سکول پہنچا تو اُس لڑکے کی ماں اپنے بیٹے کے ساتھ سکول کے گیٹ پر میری منتظر تھی – ہاتھ جوڑ کر کہنے لگیں،
“ پُتر جی ، رب دا واسطہ جے بچے نُوں معاف کر دیو , نئیں تے ایس دی زندگی برباد ہو جائے گی” – لڑکا میرے پاؤں پکڑ کر رونے لگا –
میں ان ماں بیٹے کو پروفیسر نذیر صاحب کے پاس لے گیا – وہ ہم سب کو ساتھ لے کر پرنسپل صاحب کے پاس گئے – پروفیسر صاحب نے صورتِ حال بتائی تو میاں صاحب (پرنسپل) نے کہا معاف تو میں نے نہیں ملک منور صاحب نے کرنا ہے – اگر یہ راضی ہیں تو لڑکا سکول میں بیٹھ سکتا ہے ، ورنہ نہیں – میں نے کہا “ سر ، میں نے اسے معاف کردیا“ – تب جاکر اُس لڑکے کو سکول میں بیٹھنا نصیب ہوا –
کاش ہمارے تمام اداروں کے سربراہ میاں سلطان محمود صاحب جیسے دبنگ انسان ہوتے ———————- رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک ——١٩ ستمبر   2022

میرا میانوالی- 

سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور میں ہم میانوالی کے لوگوں کا ایک اچھا خاصا گروپ تھا – میرے اور میرے ماموں زاد ممتاز بھائی کے علاوہ کالاباغ سے کرم اللہ پراچہ ، میانوالی سے مخدوم عبدالرزاق اور ملک مشتاق ، قتالی خیلانوالہ سے لالُو نُورخان قتالی خیل ، مُوسی خیل سے عظیم خان، کُندیاں سے ملک عطاءاللہ ، نانگنی سے ملک رب نواز ، پپلاں سے ملک محمد خان اور افغانی صاحب – ہم سب لوگ ہاسٹل میں رہتے تھے۔
ممتاز بھائی ، میں ، کرم اللہ پراچہ اور ملک مشتاق نیو ہا سٹل میں رہتے تھے – باقی لوگ نیوہاسٹل سے مُلحق اولڈ ہاسٹل میں مقیم تھے-
کالج اور ہاسٹل کربلا گامے شاہ اور ضلع کچہری کے درمیان لوئر مال پر واقع تھے – نیوہاسٹل میں ہم بالائی منزل پر رہتے تھے – بالائی منزل کا پہلا کمرہ ( نمبر101 ) میرا اور ممتاز بھائی کا مسکن تھا – کمرہ نمبر 107 میں کرم اللہ پراچہ اور ملک مشتاق رہتے تھے – ہمارے کمرہ نمبر 101 کی پچھلی کھڑکی کربلا گامے شاہ کے صحن میں کُھلتی تھی – ہر رات ٹھیک 12 بجے ایک ملنگ نہایت پُرسوز بلند آواز میں ایک منقبت کا صرف ایک مصرعہ دو بار الاپتا تھا – مصرعہ یہ تھا
جگ تے نہیں کوئی ثانی ساڈ ے امیر دا
بلا کا درد تھا اُس شخص کی آواز میں – درو دیوار پر بھی رقت طاری ہوجاتی تھی – پتہ نہیں اللہ کا وہ بندہ کون تھا ، کہاں سے آتا تھا ، کہاں رہتا تھا ، کوشش کے باوجود کُچھ پتہ نہ چل سکا – لوگ صرف اتنا بتاتے تھے کہ ایک ملنگ ہے جو ٹھیک اپنے وقت پہ آکر منقبت کا یہ مصرعہ الاپتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے – کسی سے بات نہیں کرتا ، یہ بھی نہیں پتہ آتا کہاں سے ہے ، جاتا کہاں ہے – پُر اسرار شخصیت ہے –
کالج کے مشرقی گیٹ کے سامنے سڑک کے پار اُردو بازار تھا – اس کے جنوب میں گورنمنٹ کالج (اب یونیورسٹٰی) لاہور – گیٹ کے شمال کی جانب راوی روڈ داتا صاحب کے دربارسے ہوتی ہوئی شاہدرہ کی سمت جاتی تھی – دربار داتا صاحب کےسامنے بھاٹی چوک تھا وہاں سے مشرق کو سرکلر روڈ نکلتی تھی جس کے دائیں جانب اردو بازار اور مشہور و معروف انارکلی بازار تھا –
کالج ، ہاسٹل ، کربلا گامے شاہ ، داتا دربار ، سڑکیں بازار سب کُچھ آج بھی موجُود ہے ، مگر
گُذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ
——————– رہے نام اللہ کا ————————– منورعلی ملک ——٢٠ ستمبر  2022

میرا میانوالی- 

بی ایڈ کا پریکیٹیکل امتحان بھی اچھا خاصا تماشا ہوتا تھا – امیدوار کو ایک کلاس کو مقررہ سبق پڑھانا ہوتا تھا – ایگزامینر صاحبان ٹیچر کا لباس ، بول چال ، بلیک بورڈ پر لکھائی ، سبق سے متعلقہ چارٹ اور پکچرز وغیرہ چیک کرتے تھے – ہر چیز کے الگ الگ نمبر ہوتے تھے –
ایک رجسٹر میں سبق پڑھانے کا مفصل طریقہ لکھنا پڑتا تھا جسے Lesson Plan کہتے تھے – سبق اسی طریقہ ء کار کے مطابق پڑھانا پڑتا تھا – انگلش کے سبق کا Lesson Plan لکھنا ہر آدمی کے بس کا روگ نہ تھا – سچے پاکستانی مسلمانوں کا انگریزی میں ہاتھ تنگ ہوتا ہے ، یہ کام ہم جیسے گنہگار لوگ ہی کر سکتے ہیں –
کام کا اچھا خاصا بوجھ بن گیا – انکار مجھ سے ہوتا نہیں تھا ، اکثر ساتھیوں کے Lesson Plan مجھے ہی لکھنے پڑے – ہاسٹل میں ہمارے کمرے میں میلہ لگ گیا – میں دن رات دوستوں کے Lesson Plan لکھنے لگا – ممتاز بھائی تنگ آگئے – کہنے لگے “اوئے ، یہ جو تم نے میلہ لگا رکھا ہے ، نہ دن کو آرام ، نہ رات کو چین ، اب میں کدھر جاؤں “ —–
میں نے کہا “ میں کون سا لوگوں کو گھروں سے بُلا کر لاتا ہوں کہ آؤ تمہیں Lesson Plan لکھ دوں – لیکن جو آجاتے ہیں اُن کے لیئے کام سے انکار میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا “
بھائی نے کہا ٹھیک ہے ، تم اپنے ضمیر کو راضی کرتے رہو ، مگر مجھے بتاؤ میں کدھر جاؤں – میں نے کہا بھائی صاحب دوچار دن کاکام ہے – آپ بستر اور سامان اُٹھا کر برآمدے میں ڈیرہ لگا لیں –
ہماری اس تکرار کے دوران لالُو نُورخان قتالی خیل کمرے میں داخل ہوئے – پُوچھا خیر تو ہے – ممتاز بھائی نے قصہ بتایا – لالُو نے کہا ممتاز بھائی ، باز تو اِس نے آنا نہیں ,
کیوں نہ اس کی بُری عادت سے فائدہ اُٹھایا جائے- فائدہ یوں تھا کہ ان دوشریف آدمیوں نے اعلان کر دیا کہ منور سے Lesson Plan لکھوانے جو بھی آئے انارکلی بازار کے جالندھر موتی چُور ہاؤس سے ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ لے کر آئے – اور کینٹین سے چار کپ چائے بھی منگوا کر دے۔
سودا پھر بھی مہنگا نہ تھا ، لانے والے خود بھی مٹھائی کھانے میں شریک ہوتے تھے – یُوں ہمارے کمرے میں مٹھائی کے ڈبوں کی لائینیں لگ گئیں —– کیا سہانا دور تھا—-
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————- رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک ——٢١ ستمبر   2022

میرا میانوالی-

میرا بی ایڈ کا پریکٹیکل امتحان بھی خاصا دلچسپ اور عجیب تھا – مجھے نویں کلاس کو انگریزی کی کتاب کا سبق WARSAK DAM پڑھانا تھا – وارسک ڈیم دریائے کابل پر پشاور سے تقریبا 25 میل کے فاصلے پر 1960 میں تعمیر ہوا تھا –
ہمارے پریکٹیکل کے ایگزامینر گورنمنٹ کالج آف آیجوکیشن فیصل آباد کے ایک پروفیسر صاحب تھے –
امتحان کی تیاری کرنے کی بجائے میں رات دیر تک ساتھیوں کے LESSON PLAN لکھتا رہا – صبح 4 بجے کے قریب اپنا LESSON PLAN لکھ کر پانچ سات چارٹ بنا ئے ، چارٹس کو کمرے کی دیواروں پر آویزاں کرنے کے لیئے دھاگہ ڈالنا یاد ہی نہ رہا –
صبح کلاس میں پہنچ کر چارٹس کا پلندہ میز کے نیچے رکھ دیا ۔ اور کتاب لے کر سبق پڑھانے لگا —
اُدھر ہمار ے گروپ کے انچارج پروفیسر شیخ نذیر احمد صاحب ایگزامینر صاحب کو دوسرے ٹیچرز کاکام چیک کروانے کے بعد میرے کمرے کی طرف لاتے ہوئے میری تعریفوں کے پُل باندھتے رہے کہ اب ہم ایک مثالی ٹیچر کی کلاس میں جا رہے ہیں جسے انگریزی پر مکمل عبور حاصل ہے – انگریزوں کی طرح روانی سے انگلش بولتا ہے ، بہت اچھا خوشخط بھی ہے ، وغیرہ وغیرہ-
کمرے میں آئے تو سامنے نہ کوئی چارٹ نہ تصویر ، بہت پریشان ہوگئے – ایگزامینر صاحب تو میرا LESSON PLAN چیک کرنے لگے ، پروفیسر نذیر صاحب نے میرے قریب آکر کان میں کہا “بیڑہ غرق — چارٹس کدھر ہیں تمہارے ؟
میں نے کہا “ سر ، وہ دراصل چارٹس کو لٹکانے کے لیئے دھاگہ نہ مل سکا تو ——-
پروفیسر صاحب نے ہنس کر کہا “ تمہیں اتنے بڑے لاہور شہر میں دھاگہ نہ مل سکا – لخ دی لعنت —- چارٹس ہیں کدھر تمہارے؟“
میں نے چارٹس کا پلندہ میز کے نیچے سے اُٹھا کر انہیں دے دیا اور وہ ایگزامینر صاحب کے پاس جا کر اُنہیں بتانے لگے کہ یہ دیکھیں ، یہ چارٹس منورعلی ملک نے خود لکھے ہیں – وارسک ڈیم کا یہ اسکیچ sketch بھی انہوں نے خود بنایا ہے –
ایگزامینر صاحب بہت متاثر ہوئے – پھر پروفیسر صاحب نے مجھ سے کہا بھئی بلیک بورڈ خالی کیوں پڑا ہے ، اس پر بھی کُچھ لکھ کر دکھائیں – میں نے حُکم کی تعمیل کردی – اس کے بعد میں نے کلاس کو پڑھانا شروع کردیا – ایگزامینر صاحب بڑے غور سے میری حرکات و سکنات دیکھتے اور سر ہلا کر اطمینان کا اظہار کرتے رہے – لگتا تھا بہت خوش ہیں –
دوسرے دن پروفیسر نذیر احمد صاحب کالج میں ملے تو ہنس کر کہنے لگے “ یار، بہت نالائق ہو تم ، مگر قسمت اچھی تھی – تمہیں ایگزامینر صاحب نے سب سے زیادہ نمبر دیئے ہیں “-
میں نے کہا “ سر ، بڑی نوازش ہے آپ کی“-
فرمایا “ نوازش نہیں – You did really well. He was impressed
Thank you, Sirrrrr
کہہ کر میں ہاسٹل کی طرف چل دیا –
——————— رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک –  –٢٢ ستمبر  2022

میرا میانوالی-

اللہ تعالی کی کلاس میں —
الحمدللہ میں روزانہ اللہ تعالی کی کلاس اٹینڈ کرتا ہوں – ظُہر کی نماز کے بعد دس پندرہ منٹ قرآنِ حکیم کے ایک رکوع کی تلاوت کر کے اُس کا ترجمہ اور مختصر تشریح پڑھ لیتا ہوں – بالکل ایسا ہی لگتا ہے جیسے کلاس اٹینڈ کر رہا ہوں – اس سے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے ، ایمان کو تقویت بھی ملتی ہے اور زندگی کے کئی مسائل کا حل بھی یہیں سے مل جاتا ہے – کبھی تو ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے پیارسے سرپہ ہاتھ رکھ دیا ، سینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے ، آنکھیں تشکر کے انسؤؤں سے بھیگنے لگتی ہیں –
اللہ تعالی کی کلاس میں حاضری کا یہ سلسلہ ایک عرصے سے چل رہا ہے – ایک بار پُورا قرآنِ کریم ختم کرنے کے بعد نئے سرے سے دوبارہ پڑھنا شروع کر دیتا ہوں – صرف ایک رکوع روزانہ پڑھتا ھوں -آج کل سُورہ النحل ( پارہ 14 ) چل رہی ہے –
اردو ، انگریزی ادب کی سینکڑوں ، ہزاروں کتابیں پڑھ ڈالیں ، اب بھی پڑھتا ہوں , اُن کتابوں کی اہمیت اپنی جگہ ، مگر میرے رب کی کتاب کی بات ہی کُچھ اور ہے – یہ پُرامن ، خوشحال اور باعزت زندگی بسر کرنے کا طریقہ سکھاتی ہے – افسوس کہ ہم اس کتاب کو سمجھے بغیر صرف تلاوت پر اکتفا کرتے ہیں – تلاوت بھی زیادہ تر اُن لوگوں کو ایصال ثواب کے لیئے جو اب اس دنیا میں موجود نہیں – اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب تو صرف ہے ہی مُردوں کو ایصالِ ثواب کے لیئے ، زندہ انسانوں سے اس کا کوئی واسطہ ہی نہیں – یہی بات اقبال نے اپنے ایک فارسی قطعہ میں بڑے دُکھ سے کہی تھی – فرمایا
بہ بندِ صُوفی و مُلا اسیری
حیات از حکمت قرآں نہ گیری
زِ آیاتش تٰرا کارے جُز اِیں نیست،
کہ از یا سیِن او آساں بمیری
مختصر مفہوم یہ کہ یہ تو زندگی آسان کرنے والی کتاب ہے مگر تم لوگ مرنے والے کی موت آسان کرنے کے لیے سُورہ یس کی تلاوت ہی اس قرآنِ حکیم کا واحد استعمال سمجھتے ہو –
———————— رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک —-٢٣ ستمبر   2022

میرا میانوالی-

خدوزئی ، تحصیل عیسی خیل سے میری پوسٹس کے ایک دیرینہ قاری ملک نصیر نے واٹس ایپ کی وساطت سے شکوہ کیا ہے کہ میں تحصیل عیسی خیل کے اکثر شہروں اور دیہات کے بارے میں تو لکھتا رہتا ہوں مگر ان کے گاؤں خدوزئی کے بارے میں کُچھ لکھنے کی بجائے مندہ خیل سے سیدھا دریا کے پار داؤدخیل پہنچ جاتا ہوں – خدوزئی سے بے اعتنائی کیوں ؟؟؟
ملک نصیر صاحب داؤدخیل کی فرٹیلائیزر فیکٹری میں مکینیکل سب انجینیر ہیں – اپنے علاقے کے غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیئے احساس فاؤنڈیشن کے نام سے ایک فلاحی تنظیم بھی چلا رہے ہیں – اُن کا شکوہ بجا ہے کہ میں نے خدوزئی کے بارے میں کبھی کچھ نہیں لکھا – معذرت – اصل بات یہ ہے کہ میں اُن شہروں اور دیہات کے بارے میں لکھتا ہوں جنہیں میں نے قریب سے دیکھا ہے – عیسی خٰیل شہر میں میری زندگی کا کُچھ حصہ بسر ہوا – مندہ خیل تو ہمارا آبائی گاؤں ہے – تقریبا 80 سال قبل میرے دادا جی ملک مبارک علی داؤدخٰیل سکول میں ہیڈماسٹر کے منصب پر فائز ہوئے تو مندہ خیل سے ہجرت کرکے داؤدخٰیل میں مستقل طور پر مکین ہو گئے – لیکن ہمارے خاندان کے بہت سے لوگ مندہ خٰیل ہی میں مقیم رہے – ان کے ہاں بہت آنا جانا رہا – بزرگ تو سب رخصت ہوگئے – دوچار گھر اب بھی وہاں آباد ہیں – آنا جانا بہت کم ہوتا ہے مگر مندہ خٰیل سے پیار اب بھی ہے ، اور ہمیشہ رہے گا –
داودخیل سے مندہ خٰیل اور عیسی خیل آتے جاتے خدوزئی ہماری راہ کا ایک اہم سنگِ میل تو رہا ، منزل نہ بن سکا – لالا عیسی خیلوی کی وساطت سے یہاں کے فاروق ہاشمی صاحب سے دوستی کا رشتہ استوار ہوا ، مگر اس وقت جب فاروق ہاشمی صاحب خدوزئی سے ترکِ سکونت کرکے کُندیاں میں آباد ہو چُکے تھے – میرے ایک بہت محترم دوست ٹھٹھی کے حاجی غلام رسول صاحب تبلیغی جماعت کے سرگرم رہنما تھے – اُن کے ساتھ خدوزئی کے بھائی عبداللہ خان کے ہاں آنا جانا رہا – بھائی عبداللہ خان خدوزئی کی نمایاں شخصیت تھے – اچھے خاصے زمیندار تھے – بہت مخلص اور مہمان نواز انسان تھے – خدوزئی سے اپنا تعلق اُن کے دم سے قائم رہا – حاجی غلام رسول صاحب کی وفات کے بعد اُدھر جانے کا اتفاق میسر نہ ہوا –
خدوزئی ، میانوالی عیسی خیل روڈ پر مندہ خیل اور جلال پور کے درمیان واقع ہے – یہ چھوٹا سا گاؤں بہت خُوبصورت اور سر سبز وشاداب ہے – پارلی کندھی (دریا پار) کے دوسرے لوگوں کی طرح خدوزئی کے لوگ بھی بہت سادہ ، سچے ، دوست دار اور مہمان نواز ہیں – اللہ آباد رکھے بہت اچھے لوگ ہیں –
———————– رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک ——  –٢٥ ستمبر  2022

میرا میانوالی-

آج کی پوسٹ بھی جواب شکوہ ہے –
کل خدوزئی کے بارے میں لکھا تو طارق خان نیازی نے کمنٹ میں کہا “ اب جلالپور کے لوگ بھی شکوہ کا حق محفوظ رکھتے ہیں، سر “
کرم حسین صاحب نے بھی جلالپور کی خُوبصورت منظر کشی کرتے ہوئے جلالپور کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کی ہے – اس لیئے لکھنا واجب ہوگیا –
پنجاب میں کئی جلالپور ہیں – جنوبی پنجاب میں جلالپور پِیر والہ ، ضلع حافظ آباد میں جلالپور بھٹیاں ، تحصیل پنڈ دادن خان ضلع جہلم میں جلالپور شریف ، ضلع گجرات میں جلالپور جٹاں اور ضلع میانوالی کی تحصیل عیسی خیل میں ہمارا اپنا جلالپور –
ہمارے والا جلالپور میانوالی عیسی خٰیل روڈ پر دریائے سندھ اور رُودِ کوہی (پہاڑی نالہ) چچالی کے سنگم پر واقع ہے – محلِ وقوع کے لحاظ سے جلالپور بہت خوش نصیب ہے – یہاں سے دریا کے کنارے طلُوع و غروب ِ آفتاب کے دلکش منظر دیکھ کر انسان بے ساختہ پُکار اُٹھتا ہے “ سبحان اللہ“— بی بی سی کے شُہرہ آفاق صحافی سید علی رضا عابدی نے بھی اپنی کتاب میں جلالپور کا ذکر کیا ہے –
مجھے جلالپور میں رہنے کا شرف تو نصیب نہیں ہوا ، عیسٰی خیل ، مندہ خیل آتے جاتے یہاں سے گُذر بارہا ہوا – بہت عرصہ ہوا اپنے باباجی کے ساتھ داؤدخیل سے ٹولہ منگلی جاتے ہوئے ہم کُچھ دیر جلالپور میں رُکے تھے – یہاں کے سکول میں ماسٹر عبدالعزیز مرحوم نے ہمارے لیئے چائے کا اہتمام کیا تھا – سکول اُس وقت سڑک کے بائیں کنارے پر واقع تھا –
جلالپور کے ماسٹر محمد اکرم شاہ صاحب اور محکمہ نہر کے افسر ملک سرفراز صاحب میرے بہت عزیز دوست تھے – ملک صاحب انگریزی زبان میں دلچسپی کی وجہ سے میرے بہت قریبی دوست بن گئے –
جلالپور کے بارے میں میری معلومات بس اتنی ہی ہیں – جلالپور ہو یا خُدوزئی اپنے ضلع میانوالی کی زمین کا ہر ذرہ میرے لیئے آفتاب ہے – اللہ سب چھوٹے بڑے شہروں کو آباد رکھے ، سب گاؤں ، سب شہر میرے اپنے ہیں –
——————— رہے نام اللہ کا —————————- منورعلی ملک ——٢٦ ستمبر   2022

میرا میانوالی-

  اپنا تازہ نعتیہ شعر۔۔۔۔۔۔


بدنصیبی کہ نہ دیکھا ان کو،
خوش نصیبی کہ غلام ان کے ہیں

٢٨ ستمبر  2022

میرا میانوالی-

قرآن ِ حکیم میں ربِ کریم کا ارشاد ہے کہ اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا –
حالیہ سیلاب نے ہمیں احسان کرنے کا نادر موقع فراہم کردیا ہے – کروڑوں لوگ گھر بار ، ذریعہءمعاش بلکہ دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ، ہزاروں لوگ اس آفت کے باعث مختلف وبائی بیماریوں میں مبتلا فوری امداد کے مستحق ہیں – اتنے وسیع پیمانے پر تباہی کا مداوا صرف حکومت نہیں کر سکتی – اس کے لیئے ہم سب کو حسبِ توفیق ان سیلاب زدہ بھائیوں کی مدد کے لیئے آگے آنا ہوگا – خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو کسی صِلے اور ستائش سے بے نیاز ہو کر اپنے طور پر یہ کارِ خیر سرانجام دے رہے ہیں –
میانوالی شہر سے ڈاکٹر محمد ثقلین شاہ اور اُن کی اہلیہ ڈاکٹر صباحت فاطمہ صاحبہ ڈی آئی خان ( ڈیرہ اسمعیل خان ) کی تین متاثرہ تحصیلوں میں سیلاب سے متاثرین کی خدمت میں شب و روز مصروف ہیں – ہر ہفتے دوہفتے بعد یہاں سے راشن اور ادویات کا سٹاک لے کر وہاں جاتے ہیں ، لوگوں کو راشن کی فراہمی کے علاوہ علاج معالجہ کی سہولتیں بھی مہیا کر رہے ہیں – ان خدمات میں ڈاکٹر صاحب کے دوست ، فیس بُک فرینڈز اور فیصل آباد میڈیکل کالج کے ڈاکٹرصاحبان بھرپُور حصہ ڈال رہے ہیں –
اس ماہ ڈاکٹر صاحب اور ان کی اہلیہ نے ڈی آئی خان کی تحصیل کولاچی کے دورافتادہ متاثر ہ علاقوں میں تین میڈیکل کیمپ لگائے ہیں – اکتوبر میں بھی تین کیمپ لگانے کا ارادہ ہے – ان کیمپس میں ڈاکٹر صاحب کے ایک آئی سپیشلسٹ دوست اور فیصل آباد میڈیکل کالج کی دو لیڈی ڈاکٹرز شریک ہوں گی – اکتوبر میں یہ کیمپس تحصیل ڈیرہ اسمعیل خان میں لگائے جائیں گے – راشن کی فراہمی مسلسل جاری ہے –
ڈاکٹر محمد ثقلین کی کاوشیں لائق تحسین بھی ہیں ، لائقِ تقلید بھی – یہاں کے تمام ڈاکٹر صاحبان کے علاوہ عوام بھی اس کارِخیر میں بھرپُور شرکت کریں – آپ جو کُچھ کریں گے اس کا صلہ اللہ تعالی اتنا دے گا کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے –
جو لوگ ڈاکٹر ثقلین شاہ صاحب کے ساتھ اس کام میں حصہ لینا چاہیں ان کی اطلاع کے
لیئے ڈاکٹر صاحب کا پتہ اور فون نمبر درجِ ذیل ہے –
ڈاکٹر محمد ثقلین شاہ-محلہ میانہ ۔ میانوالی-فون نمبر —-0333 – 9833142————— رہے نام اللہ کا ————– منورعلی ملک ——٢٩ ستمبر   2022

میرا میانوالی-

چند دن پہلے پارلی کندھی ( دریا پار کا علاقہ) کا ذکر چھڑا تو کمر مشانی کا میلہ یاد آنے لگا –
بچپن میں ہم گرمی کی چُھٹیوں کے کُچھ دن مندہ خیل میں اپنے مامُوں ملک نُورکمال کے ہاں گذارتے تھے – ہر سوموار کو مامُوں جان مجھے سائیکل پربٹھا کر کمر مشانی کے میلے کی سیر کو لے جاتے تھے – ہم نے جب سے ہوش سنبھالا کمر مشانی میں ہر سوموار کو میلہ لگتا دیکھا – ضلع میانوالی کے دُوسرے اہم شہروں میں بھی ہفتے میں ایک دن میلہ لگتا ہے ، مگر کمر مشانی کے میلے کی اپنی الگ شان تھی – چیزوں کے معیار اور تنوع Quality and variety کے لحاظ سے کمر مشانی کا میلہ نمبر ون میلہ ہوا کرتا تھا- امید ہے اب بھی ویسا ہی ہوتا ہوگا – سب سے اہم بات یہ کہ پارلی کندھی کے کاروباری لوگ لُٹیرے نہیں , سچے کھرے ایماندار لوگ تھے – بہت معمولی منافع پر چیزیں فروخت کرتے تھے ، اس لیئے تمام چیزیں مناسب قیمت پر مل جاتی تھیں –
کمر مشانی کا میلہ اڈے کے گردونواح میں سڑک کے دونوں کناروں پر منعقد ہوتا تھا – سڑک کے دونوں جانب مال کے ڈھیر لگے ہوتے تھے – زیادہ تر کھانے پینے کی چیزیں ، سبزیاں ، موسمی پھل ، دیسی مُرغیاں ، انڈے خالص دیسی گھی وغیرہ کی خریدو فروخت ہوتی تھی – دوچار سٹال کپڑے کے بھی ہوتے تھے – مامُوں جان میلے سے دوچار مُرغیاں ، انڈے ، گائے کا خالص دیسی گھی ، ٹولے کے مشہورو معروف خُوشبودار ، شہد جیسے میٹھے خربُوزے وغیرہ خریدتے تھے – سردیوں میں پھل کی بجائے “پوپل“ نام کی مچھلی خریدتے تھے – پوپل اُنگلی کے سائیز کی چھوٹی سی مچھلی ہوتی ہے جسے توے پر بُھون کر کھاتے تھے ، بہت کراری لذیذ چیز ہوتی تھی –
میلے سے خریداری کرنے کے بعد ہم مسجد کے سامنے غلام خواجہ خان کے کریانہ سٹور پہ جاتے تھے – بہت بڑا کریانہ سٹور تھا – وہاں سے مامُوں جان گھر کا باقی سودا چینی ، پتی مصالحے وغیرہ خریدا کرتے تھے – غلام خواجہ خان ماموں کے دوست تھے – ہمیں چائے بھی پلایا کرتے تھے –
اب تو پتہ نہیں میلے کا کیا حال ہے – اُس زمانے میں کمر مشانی کے میلے کی سیر ایک بہت خوشگوار تجربہ ہوا کرتی تھی –
———————- رہے نام اللہ کا —————————- منورعلی ملک —  –٣٠ ستمبر  2022

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top