ہمارے بچپن کا ماہ رمضان ۔
کل جب افطاری کرنے بیٹھا تو مجھے اپنے بچپن کا ماہ رمضان یاد آ گیا ۔سوچا کچھ یادیں آپ سے شیئر کرلوں ۔۔
گھریلو خواتین ماہ رمضان سے کئی دن پہلے ماہ رمضان کی تیاری شروع کر دیتی تھیں ۔سب سے اہم سویاں کی تیاری اور دیسی گھی کی تیاری ہوتی تھی ۔سویاں دو طریقوں سے بنائی جاتی تھیں ۔ایک سویوں والی گھوڑی “منجے”کی “وڈانڑیں”کے ساتھ کس دی جاتی اور آٹے کی مخصوص “روڑیاں”بنا کر اس میں ڈالی جاتیں اور اس کی “ہتھی” کو گھمایا جاتا تو نیچے لگی “چھانڑیں” سے لمبی لمبی سویاں نکلتیں جنھیں خشک ہونے کے لئے دوسرے منجے پر بچھائی چادر کے اوپر ڈال دیا جاتا ۔دوسری سویاں جن کو کچی
سویاں بھی کہا جاتا،”ماٹی”کو الٹا رکھ کر اس پر گوندھے آٹے کو پیڑے کو دونوں ہاتھوں سے اس طرح ملتے کہ وہ ایک رسی کے ٹکڑے کی شکل اختیار کر لیتا۔یہ دوسری سویوں سے موٹی ہوتیں اور گڑ اور گھی میں بڑے مزے کی تیار ہوتیں ۔
اس طرح ذخیرہ کئے گئے”مکًھنڑ” سے “روڑی تتی” کی جاتی (مکھن سے دیسی گھی بنانے اور اس دوران سویٹ ڈش “وسنٌٹر” کی تیاری کو روڑی تتی کرنا کہا جاتا) ۔۔
ماہ رمضان کا چاند دیکھنے کے لئے سارے لوگ گھروں سے باہر نکل کر یا اونچی جگہوں پر چڑھ کر چاند دیکھنے کی کوشش کرتے۔اگر چاند نظر نہ آتا تو پھر لوگ ریڈیو کا رخ کرتے۔اور وہاں سے معلوم ہوتا ۔
شروع شروع میں مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر نہیں تھے تو تراویح ،افطاری اور سحری بند ہونے کی اطلاع”نغارہ ” بجا کر دی جاتی ۔سحری کے وقت گاؤں کا مراثی ڈھول بجا کر اور ساتھ بلند آواز میں حمد،نعت پڑھ کر یا کبھی کبھی سیف الملوک پڑھ کر لوگوں کو جگاتا ۔۔اس دور میں موجودہ طرز کے ماڈرن مکانات نہیں تھے ۔نہ ہی حویلیوں کا رواج تھا۔ بڑے کمرے (کوٹھے) ہوتے تھے اور اور کوٹھے کے “چنے” کے ساتھ یا “کندھ” کے ساتھ مٹی کا بنا ہوا”چًلھا” ہوتا تھا ۔چنانچے جب سحری کے وقت تمام “ویھڑوں”(صحنوں) کے چولہوں میں آگ جل رہی ہوتی تو بڑا دلکش منظر ہوتا ۔سحری عموماً سویوں ،دھی یا پچھلی رات کے بچے سالن سے کی جاتی بہت کم لوگوں کے پاس گھڑیاں ہوتی تھیں۔سارا کام اندازے سے ہو رہا ہوتا۔مسجد میں نغارہ بجتے ہی سحری بند کر دی جاتی۔
گرمیوں میں افطاری گڑ سے بنے شربت سے کی جاتی۔فرج نہیں ہوتے تھے ۔شام کو دو تین لوگ شہر سے گدھا گاڑی پر برف لے آتے جو فورآ بک جاتی ۔کچھ لوگ نہر کے کنارے لگے نلکوں سے ٹھنڈے پانی کو استعمال کرتے۔بہت کم گھروں میں پکوڑے بنتے ۔ اگر “ھک دانڑاں پنڈ دا لبھ ونجیں ہا (اگر ایک عدد کھجور مل جاتی ) تو غنیمت ہوتی ۔۔فروٹ چاٹ اور باقی لوازمات کا کوئی تصور نہیں تھا ۔
شروع کے دنوں میں مسجد میں تراویح پر رش ہوتا۔باقی لوگ ثواب کی نیت سے جبکہ محلے کے بچے شرارتوں کی نیت سے تراویح پڑھنے جاتے۔۔
افطار پارٹیوں کا نام بھی نہیں سنا تھا۔
نئی “کھیڑی”بنوانی ہوتی تو اپنے محلے کے موچی کو “پیرا”(پاؤں کا ماپ) دےدیا جاتا۔اسی طرح محلے کے درزی کو نئے کپڑے سلنے کے لئے دے دئیے جاتے۔
رمضان کے دوسرے تیسرے ہفتے میں گھروں میں “پینگھ” “اڈ” دی جاتی (درخت کے ساتھ دو لمبی رسیاں لٹکا کر جھولا بنا دیا جاتا) ۔
کچھ لوگ اپنے گھروں میں “چھتیر” لگوا دیتے ۔
اس طرح محلے میں کسی خالی “بھورے”(پلاٹ) میں “چچینگل” لگا دیتے۔
ان چھتیروں اور پینگھوں پر “جًھوٹے”(جھولے) لئے جاتے اور “مچانڑیاں” چڑھائی جاتیں (پینگھ اور چھتیر پر کھڑے ہوکر زور زور سے جھولا جھولنے کو مچانڑئ چاڑنا کہا جاتا تھا) ۔ اس طرح مقابلہ ہوتا تھا کہ کون اونچی “مچانڑیں” چڑھاتا ہے ۔
ھکویویں ،تروینویں اور ست وینویں (رمضان کی اکیسویں ،تئیسویں اور ستائیسویں شب) کو گھروں میں حلوہ یا میٹھے چاول بناے جاتے ۔
ہم بچے ان طاق راتوں کو ثواب سے زیادہ ان میٹھی ڈشوں کی وجہ سے جانتے تھے۔۔ہم بچے شام ہوتے ہی کسی پرات یا مجمیں میں پلیٹوں میں ڈلی سویٹ ڈش کو رشتہ داروں اور “دھیاں دھیڑیں”(بیٹیوں اور بہنوں) کے گھر پہنچاتے۔(اس کو ہماری زبان میں بخرے ڈیوڑاں کہتے تھے )۔۔
مسجد میں ماہ رمضان کی ستائیسویں کو قرآن مجید کا ختم ہوتا اور رات تراویح کے بعد لڈو تقسیم کئے جاتے ۔۔
ماہ رمضان کے آخری دنوں میں سب تیاریاں عروج پر ہوتیں ۔برادری میں کوئی چھوٹی موٹی” مونہہ سوجی”(ناراضگی) ہوتی تو یہ کہہ صلح کروا دی جاتی کہ “”وڈا ڈیں خًدا دا ہئے۔ہک ڈوجے نون ماف کر ڈیو “( اللہ تعالیٰ کا پیارا دن ہے ۔اس کی بدولت ایک دوسرے کو معاف کر دیں)
جن بچیوں بچوں کی شادیاں عید کے بعد ہونی ہوتیں ان کے “ڈھیاڑے”رکھے جاتے (تاریخ فائینل کی جاتی).عید کے نزدیک منگنی والی بچیوں کے “ساھوروں” (سسرال)کی طرف سے”ورینڑاں”(کپڑے اور چوڑیاں وغیرہ) بھیجی جاتیں۔
رمضان کے اخری دنوں میں دور دراز شہروں میں روزگار کے سلسلے میں گئے گاؤں کے مکینوں کی آمد شروع ہو جاتی ۔
ماہ رمضان کی آخری راتوں میں گاؤں کے بزرگ چاند کا سائز دیکھ کر بتاتے تھے کہ عید کس دن ہوگی۔ ماہ رمضان کے آخری ایک دو دن میں چوکوں چوراہوں پر اس طرح کے مکالمے سننے کو ملتے۔
” لالا ۔پچھلا مہینہ تریھاں دا ہئی۔اے مہینہ نوں تے وھیاں دا ہو سی ۔(بھائی جی ۔۔پچھلا مہینہ تیس کا تھا یہ مہینہ انتیس کا ہوگا )
اس پر دوسرے صاحب بولتے ۔۔
“”لالا ۔میں آپ راتیں ڈٹھا ہے ،چن ھیڈا وڈا کھلوتا ہئی ۔اے عید تریھاں دی تھی سی (بھائی صاحب ۔میں نے خود رات چاند کو دیکھا ہے ۔اچھے بڑے سائز کا تھا ۔روزے تیس ہی ہوں گے)۔اس طرح یہ بحث چاند کے نظر انے تک جاری رہتی۔۔
نوٹ: پرانے دور میں عید الفطر کا احوال کسی اور دن ۔
دعاؤں کا طالب:
لوگوں کی خدمت کرنا ۔۔قناعت پسند ۔حلال کی روزی کمانے والے۔۔ ۔۔
افسوس ہماری نئی نسل ان کے ناموں سے بھی واقف نہیں ۔۔۔
جا او سجڑاں حوالے رب دے ،تے میلے چار دناں دے ۔۔۔
اس دن عید مبارک ہو سی جس دن فر ملاں گے ۔۔
اللہ تعالیٰ چاچا نواب بلوچ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین
ڈاکٹر طارق مسعود خان شہباز خیل