گراں فروشی کے اصل اسباب
ماہ رمضان کے آتے ہی جہاں غیر مسلم ترقی یافتہ ممالک میں بھی اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کر دی جاتی ہے وہاں ہمارے مُلک میں پہلے روزہ کو ہی ان اشیاء کی قیمتیں دوگنا ہو جاتی ہیں۔ اوپر سے المیہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے کا میکانزم بنانے کی بجائے کمپنی کی مشہوری کیلئے سیاسی شخصیات کی تصاویر والے بیگز کے ذریعے ریاست کے اربوں روپے غریب کی امداد کے نام پر جھونک دئیے جاتے ہیں ، اس کارخیر میں کوئی ایک سیاسی جماعت شامل نہیں بلکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ 2013 کے بعد شہباز شریف کی تصاویر ، 2018 کے بعد عثمان بزدار کی تصاویر اور اب سابق وزیراعظم نواز شریف کی تصاویر والے بیگز تقسیم ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ حکومت جو بھی ہو انیس بیس کے فرق سے کام سب کے یکساں ہی ہوتے ہیں۔ یوں تو سارا سال ہی مہنگائی کا طوفان اس ملک میں پوری شدت کے ساتھ چلتا ہے لیکن رمضان میں تو یہ طوفان غریب عوام کی جڑیں تک ہلا کر رکھ دیتا ہے لیکن حکومت میڈیا پر مہنگائی کنٹرول کرنے کے جھوٹے دعووں سے آگے نہیں بڑھتی۔
اس سال بھی رمضان کا پہلا عشرہ گزرنے کو ہے لیکن اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر میانوالی سجاد احمد خان اور انکی انتظامی ٹیم اپنے دفاتر میں بیٹھ کر لوگوں کو طفل تسلیاں دینے میں مشغول ہیں لیکن مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے زمینی حقائق کو ماننے پر کوئی تیار نہیں ہوتا۔ ضلع بھر میں تعینات اور نامزد پرائس کنٹرول مجسٹریٹ اپنی کاروائی ڈالنے کیلئے روزانہ چھوٹے اور غریب دوکانداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں لیکن مہنگائی کی اصل جڑ کو پکڑنے پر تیار دکھائی نہیں دیتے۔ میری ذاتی تحقیقات کے مطابق مہنگائی کا اصل ذمہ دار مڈل مین ہے جو اپنے دونوں ہاتھوں کو چھوٹے دوکانداروں کے ذریعے خون میں رنگ رہا ہے۔ جب منڈی کے ذریعے چھوٹے دوکانداروں کو ایک چیز انتہائی مہنگے داموں ملے گی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مہنگی چیز خرید کر کیسے سستی چیز فروخت کریں گے۔ مثلا کل منڈی میں 5 کلو گرام بھنڈی کی قیمت 1600 روپے وصول کی گئی اس طرح دوکاندار کو یہ بھنڈی 320 روپے کلو کے حساب سے پڑ گئی اور سرکاری ریٹ لسٹ پر اسکی قیمت 290 روپے فی کلو تھی۔ اسی طرح 8 کلوگرام گوبھی کی منڈی میں قیمت 1200 روپے تھی جو کہ دوکان دار کو 150 روپے فی کلو پڑتی تھی لیکن سرکاری لسٹ پر اسکی قیمت فروخت 110 روپے فی کلو تھی۔ اسی طرح 13 کلو گرام ٹماٹر کی منڈی میں قیمت 2200 روپے تھی اور چھوٹے دوکانداروں کو یہ 170 روپے میں پڑتا تھا لیکن سرکاری لسٹ میں اسکی قیمت 130 روپے تھی اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جب تک منڈی کو کنٹرول کرنے کا سرکاری سطح پر کوئی میکانزم نہیں بنایا جاتا تب تک چھوٹے دوکانداروں کو روزانہ کی بنیاد پر جتنے مرضی چالان کر دئیے جائیں یا اُن کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کر دی جائیں قیمتیں کم ہونا کسی دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت میں قیمتیں کم نہیں ہو سکتیں۔ دوسرا اہم نقص یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر سرکاری ریٹ لسٹ مرتب کرنے کی ذمہ داری ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ مارکیٹ کمیٹی کے چیئرمین کے پاس ہے جو کہ خود ایک آڑھتی اور مڈل مین ہے۔
اس طرح اُس کے ہاتھ میں یہ اہم ذمہ داری دینا ویسے بھی چھوٹے دوکانداروں پر بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ ضلع بھر کے تمام چھوٹے شہروں کی منڈیوں میں اسی ڈسٹرکٹ مارکیٹ کمیٹی کی چھتری تلے تو آڑھتی دوکانداروں کی کھال اتارتے ہیں اوپر سے لسٹ بھی انہی آڑھتیوں کے سرغنہ کے ہاتھوں مرتب کرائی جاتی ہے یعنی یہ تو خود ہی قاتل خود ہی منصف والی بات ہوئی۔ اگر ڈپٹی کمشنر میانوالی صاحب واقعی مہنگائی کنٹرول کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ایک تو روزانہ ضلع کے ہر شہر کی منڈی میں نیلامی کے وقت اپنا ایک سرکاری نمائندہ موقع پر بھیجیں جس کی نگرانی میں بولی کا پراسس مکمل کیا جائے تاکہ تمام اشیاء کے ریٹ کا پتہ چل سکے دوسرا اہم کام کہ آڑھتیوں کے پاس باہر سے آنے والے ٹرکوں کا باقاعدہ حساب کتاب سرکاری نمائندہ کے ذریعے رکھا جائے مثلاً اگر کمرمشانی سے تعلق رکھنے والا حاجی نامی ایک آڑھتی بیرون ضلع سے ایک ٹرک پیاز کا لائے تو اس کی قیمت اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کی مکمل تفصیل انتظامیہ کے پاس ہو کہ ایک بوری پیاز پر اڑھتی کا کتنا خرچہ آیا ہے اور وہ آگے سرکاری حساب سے دوکانداروں کو ایک جائز منافع پر فروخت کرے تاکہ آگے چھوٹے دوکاندار بھی سرکاری لسٹ کے مطابق اشیاء فروخت کر سکیں لیکن یہ ضروری ہے کہ سرکاری ریٹ لسٹ آڑھتی کی قیمت فروخت کے حساب سے منڈی کے حقائق دیکھ کر مرتب کی جائے۔
اسی طرح سرکاری ریٹ لسٹ ضلع کی بجائے تحصیل کی سطح پر مرتب کی جائے تاکہ انتظامی کنٹرول یونٹ چھوٹے ہونے کی وجہ سے آڑھتی اور چھوٹے دوکاندار دونوں کو قابو کرنے میں آسانی ہو۔ مجھے امید ہے کہ اگر ڈپٹی کمشنر میانوالی سجاد احمد خان مندرجہ بالا تجاویز کو زیر غور لائیں اور مہنگائی کنٹرول کرنے کا نیا میکنزم بنائیں تو عوام کو کافی حد تک ریلیف مل سکتا ہے کیونکہ اس میں کوئی خاص کیمسٹری بھی شامل نہیں کہ تحصیل کی سطح پر نہ صرف پرائس مجسٹریٹ پہلے سے کام کر رہے ہیں بلکہ منڈیوں میں نمائندہ کے طور پر کالاباغ ، کمرمشانی اور عیسیٰ خیل کی ٹاؤن کمیٹیوں کے اہلکاروں تعینات کئے جا سکتے ہیں