Major Sultan Akbar Khan was from tribe of Tri Khel of Ghundi. He was born in 1919 . He was Proud father of Martyr Major General Javed Sultan Khan Niazi, Brigadier Pervez Sultan Khan and Brigadier Shahid Sultan Khan .He died on 9 September 2016 .
ملنگ کا جنازہ ، مجذوب کا فتوی
میجر سلطان اکبر خان کی باتیں-تحریرظفر خان نیازی
سن 2002 تک پرویز مشرف کے گرد سول بیوروکریسی مکمل گھیرا ڈال چکی تھی اور اپنے مفاد میں کئی الٹے سیدھے قوانین ضابطے اور قوانین منظور کرا کے اپنی من مانی کرنے کی پوزیشن میں آچکی تھی – انہی دنوں سروس پروموشن کی لئے ایک ضابطہ متعارف کرایا گیا جسے بیسٹ آف بیسٹ کا نام دیا گیا – اس فارمولے کے تحت ان سینئرز کو جو ہر طرح سے ترقی کے مستحق تھے بائی پاس کر کے ، اہنے منظور نظر جونیئرز کو پروموٹ کرنے کی راہ نکالی گئی – سید انور محمود ان دنوں سیکریٹری اطلاعات و نشریات تھے ، ان کی بیگم نیر محمود ریڈیو میں ہماری کولیگ لیکن عبیدہ اعظم اور مجھ سے جونیر تھیں اس فارمولے کے تحت ہم دونوں کو بائی پاس کر کے کنٹرولر بنا دی گئیں – میرے ساتھ دوہرا ہاتھ یہ ہوا کہ مجھے ساتھ ہی ڈی آئی خان کی طرف دھکا دے دیا گیا تاکہ اسلام آباد میں رہ کر کوئی لیگل کاروائی نہ کر سکوں – یہ بات میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس سارے کھیل میں مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ میرا بیٹا علی صورت سپیشل چائلڈ تھا جسے اچانک دورے پڑتے تھے – پرائے شہر میں ایک کرائے کا گھر اور بڑی بیٹی تیرہ سال کی اور حسن دس سال کا تھا – بہر حال قہر درویش برجان درویش ، اللہ کا نام لے کر بیگم اور بچوں کو پریشان چھوڑ کر ڈی آئی خان جائن کرنے چل پڑا – رستے میں میانوالی قیام کیا اور کچہری بازار سے گزرا تو میجر سلطان اکبر خان صاحب نظر آئے جو اسلم فوم کے سامنے سڑک ہر ہی کرسی پر بیٹھے تھے – حال احوال سن کر بے ساختہ بولے ، گھبراو مت – وہ خود ہی تمہیں بلا لیں گے –
ولی کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی اللہ پاک لاج رکھتا ہے – صرف 28 دن بعد کسی سفارش کے بغیر ہیڈ کوارٹر کے آرڈر کے مطابق میں ڈبل ٹی اے ڈے اے لے کر واپس اسلام آباد راولپنڈی پہنچ چکا تھا –
میانوالی کے اسلم فوم والے ، ملک نیک محمد ، خورشید انور خان اور پروفیسر سلیم احسن کے پاس میجر سلطان اکبر صاحب کی ایسی بے شمار باتیں ، بے شمار قصے ہیں – ہم ان کی ولایت اور درویشی کے دل سے قائل تھے اور ان کی قربت کے جتنے لمحات میسر ہوتے اسے نعمت سمجھتے- مجھے ان کی قربت نسبتا” دیر سے نصیب ہوئی – وہ پہلی ملاقات مجھے آج بھی یاد ہے – سن تو ٹھیک سے یاد نہیں ہے لیکن نوے کی دہائی میں کہیں میجر سلطان اکبر خان صاحب کے مجھے پہلی بار نیاز حاصل ہوئے – میں پروفیسر سلیم احسن کے ہمراہ مین بازار میانوالی میں حافظ سویٹ سے نکلا تو میجر صاحب مغرب کی سمت سے آ رہے تھے – سلیم احسن نے آگے بڑھ کر سلام کیا ، اتنے میں ان کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ دونوں بازو لہرا کر اپنے مخصوص انداز میں بولے ، او ما دی دعا الا ای اوئے ، اوہ ما دی ای اس نوں —
میجر صاحب پر جذب کی ایسی کیفیت اکثر طاری رہتی تھی – وہ اکثر اپنے مخصوص انداز میں جھومتے جھومتے اس طرح مختلف کلمات پکار اٹھتے تھے – ویسے تو سبھی کو ماوں کی دعائیں ہیں لیکن میرے ساتھ ایک خاص واقعہ ہے جو بہت ذاتی سا ہے اور موقع ملا تو شاید آپ سے شیئر بھی کر لوں – اس وقت مجھے حیرت اس پر ہوئی کہ میری ذاتی سی بات میجر صاحب کو کیسے معلوم ہوگئی – بعد میں اندازہ ہو گیا کہ مولانا روم کی اصطلاح کے مطابق میجر صاحب روشن ضمیر درویش ہیں –
میجر صاحب جب گھر سے نکلتے تو کچہری بازار میں اسلم فوم پر بیٹھک لگاتے یا پھر ملک اور نیازی ٹیکس لاء فرم کے دفتر میں تشریف لاتے جو کچہری بازار میں حاجی شفیع بیڑے والا کی دکان کی بالائی منزل ہے – آمد پر سب سے پہلے وہ ایک ماہیا سناتے- یہ ماہیا حضور اکرم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہوتا – پھر سب سے حال احوال کرتے اور موڈ میں آتے تو درویشوں ولیوں کے واقعات خاص طور پر جن سے ان کی ملاقات رہی تھی سنانے لگتے تھے – ان کی بات بات سے نبی کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت چھلکتی –
میجر صاحب اگرچہ شاعر نہیں تھے لیکن نبیءکریم کی محبت میں سرشار ہو کر نعتیہ ماہیئے کہا کرتے تھے – اور ان سے جب بھی ماہیئے کی فرمائش کی جاتی ، فورا” ماہیا تخلیق کر کے سنا دیتے اور نبی کریم کی شان بیان کرکے بہت خوشی محسوس کرتے –
اللہ والوں کی سب سے بڑی نشانی یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی قربت میں اللہ کی یاد آئے – میجر صاحب کی قربت میں ایک نرالی بات دیکھی – ان کی قربت میں شدت سے نبیءکریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کریمی یاد آتی –
ایک دفعہ میجر صاحب کے آبائی گھر غنڈی سے ان کے رشتہ داروں نے پچاس بوری گندم چرا لی – میانوالی کے دیہی منظر میں ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں جو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر ہی حل ہوتے ہیں – ان کے صاحبزادے ، جنرل جاوید سلطان اس وقت بریگیڈیئر تھے – ضلع پولیس کے ایس پی کو فون کیا ، پولیس نے وہ چند لوگ پکڑ کر جیل بھجوا دیئے – اس پر ملزموں کی رشتہ دار خواتین واویلا کرتی اور معافی مانگتی ہوئی میجر صاحب کے میانوالی والے گھر پہنچ گئیں – یہ رمضان کا مہینہ تھا اور 27 تاریخ ان کو اندر آگئی تھی – میجر صاحب کو ان کے جیل جانے کا پتہ چلا تو مضطرب ہو گئے – فون پر جاوید سلطان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ، رابطہ نہ ہوا – میجر صاحب نے بھاگ دوڑ کر کے خود ان ملزموں کو رہا کرا لیا اور اپنے گھر بلا کر ان سے معافی مانگی ، اپنی پچاس بوریوں کو بھلا کر الٹا اپنی جیب سے پانچ پانچ ہزار روپے دے کر انہیں رخصت کر دیا – بار بار افسوس سے کہتے تھے ، میری وجہ سے ان کو تکلیف ہوئی – یہ تھی نبی کریم صلے اللہ علیہ والہ وسلم کے عاشق کی ادائے کریمی —-
ان کے سامنے کوئی نعت پڑھتا تو وہ فورا” کھڑے ہو کر سنتے اور ان پر وجد طاری ہونے لگتا تھا – مودت الی القربا کے بہت قائل تھے –
میجر صاحب درویشوں اور صوفیوں کے اکثر واقعات سناتے تھے – پشاور کے ایک مجذوب کا فتوے بہت شوق سے سناتے تھے – کہتے تھے ، پشاور قصہ خوانی بازار کے چوک میں ایک مست حال مجذوب ہوتا تھا – وہ ناچتا گاتا رہتا تھا کہتا تھا ، سن لو میرا فتوے –
جسے عشق شاہ رسولاں نہیں ہے
مسلماں نہیں ہے ، مسلماں نہیں ہے
خود میجر صاحب بھی اس فتوے کے قائل تھے اور اکثر اس شعر کو دہراتے رہتے تھے –
اس کے علاوہ یہ نعتیہ شعر بھی بار بار ، مزے لے لے کر پڑھتے :–
تو جو اللہ کا محبوب ہوا ، خوب ہوا
یا نبی خوب ہوا ، خوب ہوا ، خوب ہوا
ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے ، جب سے ہوش سنبھالا عصر کی غیر موکدہ سنتیں اور تہجد کبھی نہیں مس کئے- گھر سے نکلتے وقت لازمی طور پر پانچ روپے کسی غریب کو دیتے –
– میں نے انہیں یہ کبھی یہ نہیں بتایا تھا کہ میں شاعر ہوں – ایک دن مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے ، قیامت کو سارے لوگ مختلف جماعتوں میں نکلیں گے – میں اور تم انشا اللہ نعت خوانوں کے جھنڈے تلے نکلیں گے – اللہ اکبر !
بس اسی اک بات پر رکھتا ہوں بخشش کی امید
میں نے تیرے نام کو مولا کبھی بیچا نہیں
وہ اکثر دعائیں دیتے نظر آتے اور ان کا یہ دعائیہ فقرا تو بہت دلچسپ اور معنی خیز تھا – وہ دعا دیتے تو کہتے ، اللہ تیری جائز ، ناجائز ہر مراد پوری کرے – یہ ناجائز مراد کی منظوری کی بات صرف انہی سے سنی –
ویسے تو ان کی زبانی بے شمار واقعات اور بزرگوں کی باتیں سنی ہیں لیکن ایک ملنگ کا قصہ مجھے سب سے زیادہ یاد رہ گیا – یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت انوکھا تھا – وہ یہ واقعہ دو تین بار سنا چکے تھے لیکن اس واقعے کی جزئیات یاد کرنے کیلئے سلیم احسن کو فون کیا تو معلوم ہوا اسلم فوم والے اور حافظ سویٹ والے عبدالحلیم اس واقعے کے عینی شاہد بھی ہیں – میجر صاحب کی یہ پک بھی اسلم فوم والے کی عنایت ہے چند مزید تصویریں آپ کمنٹس میں دیکھ سکیں گے – ملنگ کا جنازہ تو ایک واقعہ ہے ، وہ میجر صاحب کے بے شمار ایسے روحانی تصرفات کے عینی شاہد ہیں جو عقل انسانی کی گرفت سے باہر ہیں –
ملنگ کا قصہ سن 1987 کی بات ہے – ان دنوں سے ذرا پہلے تک گورنمنٹ گرلز کالج کے گیٹ سے ذرا آگے مشرق کی طرف ایک ملنگ سردی گرمی ، ہر موسم میں کمبل اوڑھے گرلز کالج کی دیوار کے ساتھ بیٹھا رہتا تھا – وہ ملنگ کسی سے بات نہیں کرتا تھا البتہ صبح جب میجر صاحب واک کیلئے نکلتے تو وہ ملنگ ان سے چند باتیں کر لیتا- وہ اس دیوار کے پاس بہت عرصہ تک ٹکا رہا اور 1987 میں وہ ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانے والے احاطے میں آگیا تھا جو میانوالی میں ملنگوں ، مجذوبوں اور بے خانماں نیم پاگلوں کا ہمیشہ سے پسندیدہ مقام بلکہ صدر مقام رہا ہے –
میجر صاحب بتاتے ہیں ، ایک دن میں اپنے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہی ملنگ میرے گھر آیا تھا اور یہ پیغام دے کر گیا کہ میجر صاحب کو کہنا ، ذرا میری خبر رکھنا – میجر صاحب کہتے ہیں میں گھر پہنچا اور یہ پیغام سنا تو ملنگ کے پیچھے ریلوے اسٹیشن جا پہنچا – وہاں جا کر معلوم ہوا وہ ملنگ تو کچھ دیر پہلے ریلوے پلیٹ فارم کے ایک بنچ پر لیٹ کر انتقال کر چکا ہے اور سٹی پولیس والے قانونی تقاضے پورا کرنے اس کی میت اٹھا کر ڈسٹرکٹ ہسپتال جا چکے ہیں – میں ہسپتال پہنچا تو مجھے دیکھ کر پولیس کا ایک سپاہی بھاگ کر میرے پاس آیا اور کہا میجر صاحب ، ہماری مدد کیجئے ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم اس ملنگ کا کیا کریں – میجر صاحب نے کہا ، آپ تسلی رکھیں ، میں اسی کام کیلئے آیا ہوں –
میجر صاحب وہاں سے گھر واپس آئے – ان کا گھر سٹی سٹریٹ کو کراس کرتی اس پتلی سی گلی میں ہے جو حمیداللہ خان روکھڑی کے گھر کے سامنے سے کچہری بازار میں جا نکلتی ہے – یہاں آکر انہیں خیال آیا کہ گلی بنک میں بیکری والے خوشی محمد سے بات کی جائے تاکہ کفن دفن کا بندوبست کیا جاسکے – اچانک بازار کے موڑ سے انہیں چاچا دوسہ سوانسی آتا دکھائی دیا – چاچا دوسہ کا کردار ایک الگ دلچسپ مضمون ہے جس پر شاید کبھی روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا – میجر صاحب نے چاچا دوسہ سے پوچھا ، کہاں جا رہے ہو – وہ بولا ، میرا دل کر رہا تھا کہ آپ کی پاس حاضری دوں – میجر صاحب نے اسے ملنگ کے مرنے اور خبر رکھنے کی بات سنائی – یہ سن کر وہ کہنے لگا ، میں قبر تیار کراتا ہوں ، آپ باقی معاملات دیکھیں –
یوں اسی رات نو بجے ملنگ کا جنازہ پورے اہتمام کے ساتھ اسی مسافر خانے کے احاطے میں کنٹین کے پاس پڑھا گیا – حافظ عبدالحلیم بتاتے ہیں کہ اس جنازے میں بیس پچیس آدمی شریک تھے جو خود بخود وہاں پہنچ گئے تھے – ملنگ کو میانوالی کے قدیم قبرستان میں جو وانڈھی گھنڈ والی میں ہے اور جس میں حضرت سلطان زکری کے والد میاں علی آسودہءخاک ہیں ، دفن کر دیا گیا – میانوالی شہر کو اپنا نام میاں علی کے نام نامی سے ہی ملا ہے – ملنگ کا اپنے مرنے سے پہلے اپنی موت کی خبر دینا بہت غیر معمولی بات ہے –
میجر سلطان اکبر خان نیازی غنڈی کے رہنے والے تھے – چند مہینے قبل 102 سال کی عمر میں وفات پائی – سکول سرٹیفیکیٹ میں عمر تین سال کم درج تھی – اللہ پاک نے ان کو زندگی میں بے شمار کامیابیاں نصیب فرمائیں – ناکامیوں اور دکھوں کا سامنا کرنے کا ان کا اپنا مزاج تھا – میجر جنرل جاوید سلطان ان کے بڑے صاحبزادے تھے – ان کا ہیلی کاپٹر کریش ہوا اور وہ شہید ہوئے تو کمال ضبط کا مظاہرہ کیا –
اس کا ذکر کرتے ہوئے جنرل جاوید سلطان کی صاحبزادی ماہم جاوید اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھتی ہیں – میں اپنے کمرے میں تھی – 6 فروری 2008 کو چار بجے کے قریب دادا جان آئے اور حسب معمول ٹی وی آن کرنے کا کہا – ٹی وی آن کیا تو بریکنگ نیوز میں میرے والد کی شہادت کی خبر آرہی تھی – یہ سن کر ہم پر سکتہ طاری ہوگیا –
میرے دادا یہ خبر سن کر بولے ، الحمد لللہ ، اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ، اس اعزاز کیلئے میرے بیٹے کو منتخب کیا —
میجر صاحب ایک واقعہ سناتے تھے اور اس سے اخذ شدہ نتیجہ سبق کے طور پر پیش کرتے تھے –
کہتے ہیں ، ایک دفعہ مجھے جھنگ میں ریچھ کتے کی لڑائی دیکھنے کا موقع ملا – اس لڑائی میں مختلف کتے تھے – بھروانوں کا کتا یہ لڑائی جیت گیا – میں نے پوچھا ، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ کتا کس اصول کے تحت جیت گیا ہے –
منتظمین نے بتایا ، اس لڑائی میں اصول یہ ہے وہی جیتتا ہے جو مار کھاتا رہے لیکن منہ سے چوں نہ نکالے –
کہتے ہیں نفس کی لڑائی میں وہی جیتا جس نے مصائب پر صبر کیا اور چون تک یعنی اف نہیں کی –
آپ کے صاحبزادے میجر جنرل جاوید سلطان کی اچانک شہادت ہوئی – معمر باپ کیلئے اس عمر میں اس سے بڑا صدمہ کیا ہو سکتا ہے ، کہتے ہیں میں نے اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے سجدہء شکر ادا کیا اور اپنا منہ بند کر لیا—-
ان کے باقی دونوں بیٹے بھی فوج میں بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچے ہیں- میجر صاحب عمر بھر شریعت کے پابند رہے اور درویشی کے ساتھ ساتھ نرم دلی اور خوش مزاجی کی وجہ سے مقبول ترین شخصیت تھے – کبھی کبھی تو جذب کی کیفیت میں کھل کر ایسی باتیں کہہ جاتے تھے جن کا تعلق آئندہ کے زمانے سے ہوتا تھا –
میانوالی سے جماعت اسلامی کے محبی انور اعوان صاحب نے فون پر میجر صاحب کے حوالے سے ایک دلچسپ بات بتائی ہے – میجر صاحب اعوان صاحب کو مستانہ کہتے تھے –
اعوان صاحب بتاتے ہیں – نوے کی دہائی میں میجر صاحب عمرہ پر گئے تو میں نے درخواست کی کہ میرے لئے روضہ رسول صلے اللہ علیہ وسلم پر حج کی دعا کیجئے گا – جب واپس آئے تو میں اپنی درخواست کی بات کی تو میجر صاحب کہنے لگے – فے الحال تمہاری منظوری نہیں ملی – تمہارے بچے چھوٹے ہیں – اعوان صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد بھی میرے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی – اور مجھے حج کی سعادت اس وقت نصیب ہوئی جب وہ میٹرک کر چکی تھی –
میجر صاحب کے انتقال کے بعد ہم ان کی میٹھی باتوں سے ، ان کے نعتیہ ماہیئے سے اور درویشوں کے قصوں سے تو محروم ہوگئے لیکن ان کی دعائیں تو ہمارے ساتھ ہیں – وہ اپنے آبائی قصبے غنڈی ضلع میانوالی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں – وہ دعا کرتے تھے اللہ پاک ان کو ان کی بیگم سے پہلے اٹھائے – کہتے تھے مجھے اور کون سنبھالے گا – اللہ کی کرنی دیکھو، ان کی بیگم ان کے وصال کے بعد چند ماہ بعد 31 اکتوبر 2016 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں –
اللہ پاک ان دونوں کے مرقد کو اپنے نور سے منور فرمائے اور اپنے ان نیک اور پسندیدہ لوگوں سے ہمارے سماجی منظر کو ہمیشہ آباد رکھے جو دکھی دلوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں —
اس میں کو ئی شک نہیں کہ جہاں میانوالی کی تاریخ لکھنے والوں کا تذکرہ ہوگا تو وہاں میانوالی کے اس بیٹے کرنل شیر بہادر خان نیازی کا نام بھی ضرور لیا جائے گا جن کی وجہ سے تاریخ کے ساتھ تاریخ کے لکھاریوں کا نام محفوظ اور زندہ رکھنے کی کوشش کی گئ ہے.
جہاں عصرِ حاضر میں کتاب کی اہمیت میں کمی آئی ہے (جو فکر طلب مقام ہے) وہاں کرنل صاحب کی اس ویب سائٹ نے اپنا آپ ڈیجیٹل لائبریری کے طور پہ منوایا ہے جو کہ ہر میانوالی سے محبت کرنے والے کی ہتھیلی پہ دستیاب ہے. میانوالین کے لئے تاریخ و ثقافت پہ مشتمل یہ ڈیجیٹل دستاویزات ایک گوہرِ نایاب سے کم نہیں ہے جو کہ کرنل صاحب کی انتھک محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے.
میجر سلطان اکبر جیسی کئ پُراسرار‘علمی و ادبی‘ روحانی ‘صلاحیتیں رکھنے والی شخصیات سے میانوالی کی نئی نسل کو متعارف کرانا اس ویب سائٹ کا شروع سے ہی خاصہ رہا ہے.
میں گزارش کروں گا کہ ہمارے پیارے سر منور علی ملک کی طرح ظفر خان نیازی مرحوم جو کہ میرے فیس بک فرینڈ تھے انکی سب پوسٹ کو اس ویب سائٹ پہ بھی اپلوڈ کیا جائے شکریہ.
ذکاء ملک چاہ میانہ میانوالی
میجر سلطان اکبر کے گھرانے کر ساتھ میرا دادا جان سید نور حسین شاہ مرحوم (جو کہ نورنگا اور پورے علاقے کی ایک مشہور و معروف روحانی شخصیت تھے) کے زمانے سے گہرے عقیدت سے بھرپور تعلقات تھے. ان کی وفات کے بعد میرے والد مرحوم سید دوست محمد شاہ اور چچا مرحوم ہیڈماسٹر عطا محمد شاہ نے ان تعلقات کو جاری رکھا. میجر صاحب سادات نورنگا کی تہہ دل سے عزت کرتے تھے اللہ تعالٰی ہمارے اور ان کے جملہ مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین