اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
منزل پرپہنچنا زندہ چاہے مردہ!
تحریر: حبیب اللہ، میانوالی03145900322
ہمارے ملک میں موٹرسائیکل، چنگ چی رکشہ اور گاڑیوں میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔اسی وجہ سے بے ہنگم ٹریفک کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے روزانہ ایکسیڈنٹ ہونامعمول بن گئے ہیں۔پاکستان کی ٹریفک کے نظام میں جہاں اور خامیاں موجود ہیں وہی پر کم عمری کی ڈرائیونگ کرنا بھی بنیادی وجہ ہے۔کم عمر لڑکوں کے پاؤں ابھی زمین پر پورے لگ نہیں رہے ہوتے کہ موٹرسائیکل پوری سپیڈ سے دوڑا رہے ہوتے ہیں۔نہ ہی ایمرجنسی میں ان سے بریک لگتی اور نہ ہی ان سے موٹر سائیکل ، چنگ چی یا گاڑیاں کنٹرول ہوتی ہیں۔جس کی وجہ سے اپنی تو ہڈی پسلی ایک ہوتی ہی ساتھ میں دوسرے بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ٹریفک پولیس ان حالات میں کیا کرے؟ ان حادثات میں مرنے والوں کا کیا قصور تھا؟ضلع میانوالی کی عوام اور پولیس کو بھی اسی طرح کے ٹریفک مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میانوالی شہر میں موٹرسائیکل، چنگ چی رکشہ اور گاڑیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے ٹریفک کی بندش، غلط پارکنگ، کم عمری کی ڈرائیونگ اور ایکسیڈنٹ میں اضافہ ہونا معمول بن گیا ہے۔نوجوان لڑکے سڑکوں پر موٹرسائیکل دوڑاتے ہوئے ہر طرف نظر آتے۔اکثریت نوجوانوں حتی کہ بڑی عمر کے لوگوں کو کانوں میں ہیڈ فون لگائے، ایک ہاتھ سے ہینڈل پکڑے موٹر سائیکل، چنگ چی اور گاڑیاں چلاتے دیکھتے ہیں۔سمجھدار دیکھنے والے لوگ دل ہی دل میں ان کولعن تعن کر رہے ہوتے ہیں۔ا سی طرح کی اوورسپیڈ کسی بے قصوربچے، عورت، بزرگ راہ گیر کی جان لے سکتی ہے۔ اب کیا ان کے والدین ان کو اس طرح کی ڈرائیونگ یا اوورسپیڈ کی اجازت دیتے ہیں تو میرا ذاتی جواب ہو گا نہیں کیونکہ والدین بیچاروں کو اس قسم کی حرکات کا سرے سے پتہ ہی نہیں ہوتا۔ دیکھنے میں آیا کہ میانوالی شہر کے تمام سکولوں اور کالجوں کے راستوں پر صبح و شام کے اوقات میں ٹریفک کی بے ہنگم روانی کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہر گلی کوچے اور بڑی سڑکوں سے ہر قسم کی ٹریفک کی آمد ورفت ہوتی جس کی وجہ سے حادثات کے خطرات لاحق رہتے کہ کسی کا جانی نقصان نہ ہو۔ کیونکہ افراتفری کے عالم میں سب لوگ رواں دواں ہوتے ہیں۔خاص طور پر بلوخیل روڈ ، انڈر پاس، سبزی منڈی ، گرلز کالج یا جہاز چوک کے اطراف میں ٹریفک کی بندش دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان اداروں کے ساتھ کوئی پارکنگ اور ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے مناسب انتظامات نہیں کیے گئے۔ جس کا جس طرف کو دل کرتابغیر اردگرد دیکھے موٹر جاتا۔ٹریفک پولیس اہلکار بیچارہ خانہ پوری کیلئے موجود ہوتا لیکن میں نے اتنا اندازہ لگایا کہ یہ اس کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ ہم لوگوں نے جلد ازجلد اپنی منزلوں پر پہنچنا ہوتا چاہے جو بھی ہوجائے۔موجودہ حالات میں ہر شخص کو افراتفری اور ڈپریشن کا مرض لگ گیا ہے جس بچہ سے لے کر بزرگوں تک کو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔اس افراتفری اور ڈپریشن کے ماحول میں ڈرائیونگ کرنا موت کو گلے لگانے کے برابر ہے۔میانوالی شہر عید گاہ سڑک سے لے کر جہاز چوک تک ٹریفک کا نظام آپ سب جانتے ہیں۔ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے لوگ غلط سائیڈ پر کٹیں مارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔موٹر بائیک، چنگ چی والا گلی ، کوچے سے نکلتے وقت اس بات کا دھیان نہیں رکھتا کہ مین سڑک پر کوئی آ رہا یا نہیں۔ انڈرپاس، سبزی منڈی ٹریفک کی بے ہنگم روانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔شہر میانوالی میں غلط پارکنگ بھی ٹریفک کی بندش میں اہم کردار ادر کر رہی ہے۔ویسے تو ٹریفک کی حوالہ سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن یہاں لکھنے کا مقصد اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھنا ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ہم لوگ ٹریفک کے قوانین کی کتنی پابندی کرتے۔ ہم کس طرح کی ڈرائیونگ کرتے۔اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے کتنی دفعہ غلط سائیڈ پر چل پڑتے۔اس کے علاوہ اوورلوڈنگ بھی ایک اہم مسئلہ ہے پاکستان میں میری ذاتی رائے کے مطابق اس کا کوئی حل موجود نہیں۔ کیونکہ پولیس جرمانے کرے بھی تو کوئی فائدہ نہیں جب تک ڈرائیور حضرات خود اس عمل کی نفی نہ کریں۔ہم چند روپوں کی خاطر اپنی اور دوسروں کی جانیں خطرے میں ڈال کر مین سڑکوں پر اوور لوڈگاڑیاں چلاتے پھرتے ہیں۔جن سے سڑکوں میں درڑایں، ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ حادثات بھی رونما ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے اردگرسکول و کالج کی چنگ چی، گاڑیاں، بسیں اوورلوڈنگ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔والدین نے کبھی اس بارے اپنے خدشات ظاہر کیے؟ ڈرائیوروں نے کبھی سوچا؟ والدین اور ڈرائیوروں نے ان معصوموں بچوں کی قیمتی جانوں کے بارے سوچا؟ اگر سوچا ہوتا تو یوں کم عمری میں ڈرائیونگ نہ کرواتے اور نہ ہی والدین اوورلوڈ گاڑیوں میں ان کو سوار کرواتے اور ڈرائیور حضرات بھی چند روپوں کی خاطر اوورلوڈنگ نہ کرتے۔ لیکن ہمیں تو جلدی ہے اس دنیا سے جانے کی کیونکہ مجھے راستہ دو میں نے منزل پرپہنچنا زندہ چاہے مردہ!