MERA MIANWALI _ JANUARY 2024

منورعلی ملک کے جنوری          2024کے فیس  بک   پرخطوط

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
WELCOME 2024 نیا سال مبارک
اک نیا سال اور آیا ھے
خوشیاں بدلیں گی غم بھی بدلیں گے
لوگ یہ بات کیوں نہیں کہتے ؟
سال بدلا ھے ھم بھی بدلیں گے
1  جنوری  2024 
موسموں کے مزاج برہم ہیں
کیا اچھا زمانہ تھا جب سیدھے سادے صاف ستھرے موسم ہوا کرتے تھے۔ دیہات کے لوگ دیسی مہینوں کے حوالے سے موسموں کا حساب شمار کرتے تے۔ چیتر ، وساکھ بہار کے مہینے شمار ہوتے تھے۔ جیٹھ ہاڑ سے گرمی کا موسم شروع ہوتا تھا۔ ساون بدرھیوں گرمی کا عروج ہوتا تھا۔ ان مہینوں میں بارشیں بھی ہوتی تھیں مگر موسم گرم ہی رہتا تھا۔
اسیوں کتیوں کے مہینوں میں گرمی رخصت ہونے لگتی تھی۔ منگھر پوہ مانہہ میں سردی عروج پر ہوتی تھی۔ ان دنوں میں ہلکی بارش کی دو چار جھڑیاں بھی ہوتی تھیں۔ نصف مانہہ کے بعد موسم بدلنے لگتا تھا۔ سردی کی شدت بتدریج کم ہونے لگتی تھی۔ پھگنڑں کا مہینہ بہار کا آغاز ہوتا تھا۔ (دیسی مہینوں کے نام میں نے اپنی زبان میں لکھے ہیں اس لیئے یہ عام سرائیکی / پنجابی سے ذرا مختلف ہیں)۔
موسموں کا یہ حساب کتاب سو فی صد درست تھا۔
اب نہ وہ دیسی مہینوں کا شمار ہے نہ موسموں کا اعتبار۔ گرمی سردی دونوں موسموں میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ دونوں موسم آخری دنوں میں بہت شدید ہو جاتے ہیں۔ گرمی کے آخری دنوں میں شدید گرمی اور سردی کے آخری دنوں میں شدید سردی پڑتی ہے۔
موسموں کے بارے میں سائنس دان تو بہت بری خبریں سنا رہے ہیں۔ واللہ اعلم
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟ ====اللہ رحم کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔2جنوری  2024 
ہمارے بچپن کے دور میں لوگ سردی کے موسم میں میٹھی چیزیں زیادہ کھایا کرتے تھے۔ مٹھاس جسم کو توانائی فراہم کرکے سردی کے احساس کو کم کر دیتی ہے۔
سب سے مقبول اور بآسانی دستیاب میٹھی چیز گڑ ہوا کرتا تھا۔ اکثر لوگ شام کے کھانے کے بعد گڑ کی ایک آدھ روڑی ضرور کھایا کرتے تھے۔ گڑ سردی کا احساس کم کرنے کے علاوہ کھانا ہضم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔
دسمبر جنوری کی یخ بستہ راتوں کے پچھلے پہر وارہ بندی کے تحت کھیتوں کو پانی دینے کے لیئے جانے والے کسان بھی گڑ کی دوچار روڑیاں جیب میں ڈال کر لے جاتے تھے۔
گڑ سے حلوہ ، کرکنڑاں، پراٹھا، وشلی ، پت اور کئی دوسری میٹھی چیزیں گھروں میں بنائی جاتی تھیں۔
اس زمانے میں سرخ پشاوری گڑ عام دستیاب تھا۔ یہ گڑ نرم اور شہد کی طرح میٹھا ہوتا تھا۔ اب تو بہت عرصہ سے کہیں نظر نہیں آیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔–3 جنوری  2024 
دیسی مہینوں کے حساب سے آج پوہ کے مہینے کی 23 تاریخ ھے۔ اس حساب سے تو سردی کے صرف بیس پچیس دن باقی ہیں۔ آج سے سات آٹھ دن بعد مانہہ کا مہینہ شروع ہوگا۔ مانہہ کی پندرہ تاریخ کے بعد سردی بتدریج کم ہونے لگتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کا دورانیہ بڑھنے سے دھوپ کا دورانیہ بھی بڑھ جاتا ہے اور اس سے درجہ حرارت بھی بڑھتا ہے۔ پرانے زمانے میں بزرگ کہا کرتے تھے
ادھ مانہہ تے بھگل بانہہ
سادہ الفاظ میں اس بات کا مطلب یہ ہے کہ آدھا مانہہ گزرنے کے بعد شال یا چادر اوڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
سردی کے ہیں تو صرف بیس پچیس دن لیکن ان آخری چند دنوں میں یہ ہم سے توبہ کروا کر ہی جائے گی۔ سردی کا سارا جوش و خروش انہی چند دنوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ تیر کی طرح جسم سے آر پار ہو جانے والی ٹھنڈی یخ ہوائیں، دھند، ممکن ہے ایک آدھ بارش بھی ہو جائے۔ مگر یہ سوچ کر دل کو کچھ تسلی ہوتی ہے کہ آخر کب تک ؟ بس پانچ دس دن ہیں، اوکھے سوکھے گذر ہی جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔———4 جنوری  2024 
سردی کے موسم کا سب سے گرم پکوان پراٹھا کہلاتا تھا۔ یہ عام ناشتے والا پراٹھا نہیں بلکہ ایک خاص پکوان ہوا کرتا تھا۔
توے پر ایک روٹی ڈال کر اس کے اوپر مٹھی بھر گڑ کوٹ کر ڈال دیتے تھے۔ پھر اس کے اوپر ایک اور روٹی ڈال کر پکا لیتے تھے۔ اس گرما گرم دوہری روٹی کے درمیان میں چھری یا چاقو سے تقریبا دو انچ کا ٹکڑا کاٹ کر اس سوراخ میں گرم خالص گھی اور چٹکی بھر پسی ہوئی ہلدی ڈال دیتے تھے۔ پگھلے ہوئے گڑ ، خالص گھی اور ہلدی کے آمیزے میں نوالے ڈبو کر کھایا کرتے تھے۔
ہلدی خالص آئیوڈین ہوتی ہے اس لیئے یہ سردی سے ہونے والے جسم اور جوڑوں کے درد کا موثر علاج بھی ہے۔
پراٹھا رات کو سونے سے کچھ دیر پہلے کھایا جاتا تھا۔ اس کی گرم تاثیر سردی کا احساس ختم کر دیتی تھی ۔
اب نہ وہ لوگ رہے ، نہ وہ خالص چیزیں ، بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔5 جنوری  2024 
یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟
سورج کئی دن سے غائب ۔۔۔۔ کبھی کبھار دن کے پچھلے پہر شرمندہ شرمندہ سا کچھ دیر کے لیئے نمودار ہوتا ہے اور پھر غائب۔۔۔۔
کہتے ہیں ایک دفعہ سورج نے بڑے تکبر سے کہا ” ہے کوئی میرے جیسا طاقتور اس جہاں میں؟
اس سوال کے جواب میں
نکا جیہا اک ڈیوا بولیا شام تھئی فیر ویکھاں گے
(ایک ننھے سے چراغ نے کہا شام ہوئی تو دیکھ لیں گے کہ تم کتنے طاقتور ہو)۔
سورج چاند ستارے زمین آسمان سب کچھ خالق کائنات کے اختیار میں ہے۔ وہ جو بہتر سمجھتا ہے وہی کرتا ہے۔ اصل اقتدار اور طاقت اسی کے پاس ہے۔
سردی کی موجودہ لہر کے ستم اپنی جگہ ، مگر یہ بھی سوچیں کہ اس سردی میں بھی ہم جیسے بلکہ ہم سے بہتر کئی لوگ صرف ایک پتلی سی چادر اوڑھ کر کھلی ہوا میں اپنا اپنا کام کر رہے ہیں ۔ ہم ہیٹروں کے سامنے بیٹھ کر بھی ہائے ہائے کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئیے کہ اس وقت لاکھوں مزدور دو وقت کی روٹی کے لیئے باہر کھلی ہوا میں مشقت کر رہے ہیں ۔ ان کے پاس نہ پہننے کو گرم کپڑے ہیں نہ سردی سے بچنے کا کوئی اور سامان ۔ جب وہ اس حال میں بھی اللہ سے شکوہ نہیں کرتے تو ہم سر سے پاوں تک گرم کپڑوں میں ملبوس لوگ ہیٹروں کے سامنے بیٹھ کر بار بار ہائے مرگئے کیوں کہہ رہے ہیں۔؟؟؟
ذرا صبر کریں۔ یہ سردی تو صرف چند دن کی مہمان ہے۔ آگے اچھے دن آنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔6 جنوری  2024 
گیس کا بحران۔۔۔۔۔ لوگ پریشان۔۔۔ گیس کے نگران جب چاہیں گیس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں گیس کی قلت ہے ۔ کبھی گیس آتی ہے تو پریشر اتنا کم ہوتا ہے کہ اس پر نہ کھانا بن سکتا ہے نہ ہیٹر کام کرتا ہے۔ موم بتی جیسا مشکوک شعلہ موم بتی جتنی روشنی بھی نہیں دے سکتا۔ عوام گیس والوں کو لمبی لمبی گالیاں بھلے دیتے رہیں، ان گالیوں سے نہ ان کو کوئی فائدہ ہوتا ہے ، نہ گیس والوں کو نقصان۔
وہ بھی کیا دن تھے جب گیس کا سسٹم ہی ہمارے ملک میں موجود نہ تھا۔ لکڑیوں کی آگ پر کھانا بھی بنتا تھا ، اسی آگ سے ہیٹر کا کام بھی لیا جاتا تھا۔۔ لوگ اونٹوں پر لدے لکڑیوں کے بھار خرید کر کام چلا لیتے تھے۔ ہمارے بچپن کے دور میں لکڑیوں کا ایک بھار ایک روپے میں ملتا تھا۔ اس سے ایک ہفتہ کام چل جاتا تھا۔ مطلب چار روپے میں مہینہ بھر موجاں ای موجاں۔
چلیں ماضی میں اتنی دور جانے کی بجائے ارد گرد نظر ڈال کر یہ بھی دیکھ لیں کہ آج بھی وطن عزیز کے بے شمار دیہاتی علاقے گیس کی سہولت سے محروم ہیں ۔ وہاں لکڑیوں سے ایندھن کا کام لیا جاتا ہے۔۔۔ نہ گیس کی بندش کا شکوہ نہ پریشر کم ہونے کا رونا۔ ہم شہروں میں رہنے والے لوگ بھی لکڑیوں کا سٹینڈ بائی بندوبست کر کے اس رونے دھونے سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ جب گیس نہ ہو تو لکڑیوں کی آگ جلا لی جائے۔
گیس کے سلنڈروں سے گذارہ تو ہو جاتاہے۔ لیکن یہ سلنڈر خطرناک بھی ہوتے ہیں۔ ابھی دو دن پہلے یہ خبر چل رہی تھی کہ لاہور کے ایک گھر میں سلنڈر پھٹنے سے گھر جل کر راکھ ہو گیا اور اس آگ میں جل کر چار بچے بھی جاں بحق ہو گئے۔ بے شک اللہ سب کا نگہبان ہے لیکن احتیاط تو بہر حال ضروری ھے۔ سلنڈروں والا خطرہ مول لینے کی بجائے لکڑیوں کی آگ سے کام چلایا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔7 جنوری  2024 
کبھی کبھی دل بہت دکھتا ہے یہ سوچ کر کہ میں نے اپنی شاعری کو وہ اہمیت نہیں دی جس کی یہ مستحق تھی ۔ کئی سال سے فیس بک پر نثر لکھ رہا ہوں۔ دنیا جہان کے ہر موضوع پر لکھتا ہوں مگر اپنی شاعری کے بارے میں ایک آدھ پوسٹ کبھی کبھار لکھ دیتا ہوں یا جب کبھی مصروفیت کی وجہ سے پوسٹ نہ لکھ سکوں تو اپنا ایک آدھ شعر فیس بک پر لگا دیتا ہوں۔
اپنی شاعری کے ساتھ یہ بے رخی سراسر زیادتی ہے۔ اس زیادتی پر احتجاج کرتے ہوئے میرے ایک بہت پڑھے لکھے دوست معروف نقاد جناب محمد سلیم الرحمن نے میرے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ آپ اپنی شاعری سے سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیوں کرتے ہیں ؟ حالانکہ معیار کے لحاظ سے آپ کی شاعری آج کے کسی بڑے شاعر کی شاعری سے کم تر نہیں۔
جناب محمد سلیم الرحمن کی اس بات پر ندامت تو محسوس ہوئی مگر شاعری کو پھر بھی میں وہ اہمیت نہ دے سکا جس کی یہ مستحق تھی۔نالائقی سمجھیں یا کچھ اور میں نے شاعری کو ہمیشہ نظر انداز ہی کیئے رکھا۔ عام شاعروں کی طرح میں دوستوں کی محفل میں کبھی اپنا شعر نہیں سناتا ۔ نثر میں تو چار کتابیں لکھ دیں ، فیس بُک پر سینکڑوں پوسٹس اس کے علاوہ ہیں، مگر شاعری کا ایک ہی مختصر سا مجموعہ 2002 میں شائع ہوا۔
شاعری کے ساتھ یہ رویہ سراسر ناانصافی ہے، کیونکہ قلم کے حوالے سے شاعری ہی میری پہلی پہچان تھی۔ لالا عیسی خیلوی کی آواز میں میرے گیت دنیا بھر میں معروف و مقبول ہوئے۔ فیس بک پر اکثر دوست اسی حوالے سے مجھے پہچانتے ہیں۔ مگر فیس بک پر میری شاعری کہیں نظر نہیں آتی۔
اپنی اس کوتاہی کی تلافی کے لیئے ارادہ ہے کہ چند پوسٹس لکھ کر حسب توفیق اپنی شاعری کا حق ادا کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ صلاحیت بھی رب کریم کی عطا ہے ۔ اس کی بے قدری بہرحال ایک جرم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔9جنوری  2024 
شاعری کے مطالعہ کا شوق بچپن سے تھا۔ اس شوق کی تسکین کا سامان میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کی ذاتی لائبریری نے فراہم کر دیا۔ اگرچہ بچپن میں مجھے ان کتابوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت بھی نہ تھی لیکن میں نے چوری چھپے بہت کچھ پڑھ لیا۔
ترقی پسند شاعری کا دور تھا۔ فیض ، ساحر لدھیانوی، احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے شاعر ترقی پسند تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ ترقی پسند تحریک دراصل جاگیر داری، سرمایہ داری ، جبر اور استحصال کے خلاف مظلوم غریبوں اور مزدوروں کی بغاوت کا اعلان تھی۔ اس قسم کی نظریاتی شاعری کے علاوہ ان لوگوں نے غم جاناں کے موضوع پر بھی بہت خوبصورت شعر کہے۔ مثلا فیض صاحب کا یہ شعر دیکھیئے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
ساحر کا شعر ملاحظہ کیجیئے۔۔۔۔۔
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے
اس قسم کے دل کو چھو لینے والے بہت سے اشعار ان لوگوں کی شاعری کی زینت ہیں۔
فیض، ساحر اور ندیم کے علاوہ میں ناصر کاظمی کی شاعری سے بھی بہت متاثر ہوا۔ ناصر کا رنگ ان سب سے جدا ہے۔ یہ شعر دیکھیئے
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
شکیب جلالی بھی میرے پسندیدہ شاعر تھے ۔ شکیب کا شعر دیکھئے۔۔۔۔۔
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں ؟
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ
جوانی کے آغاز میں ان شاعروں سے متاثر ہو کر میں نے انہی کے انداز میں شاعری کی ۔ خیالات میرے اپنے ہیں انداز ان بڑے شاعروں کا ہے۔
بنیادی طور پر میں اردو غزل کا شاعر ہوں۔ سرائیکی گیت نگاری تو بہت بعد میں شروع کی ، اس کا ذکر بعد میں ہوگا۔
غزل کی عمومی روایت کے مطابق میری شاعری اداس شاعری ہے۔ وہ جو انگریز شاعر Shelley نے کہا تھا
Our sweetest songs are those
That tell of saddest thought
(بہترین شاعری اداس شاعری ہوتی ہے)
شاعری کے بارے میں اپنا بھی یہی نظریہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔10 جنوری  2024 
شاعری کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں، مگر اس غیر شاعرانہ موسم میں شاعری کے بارے میں لکھنا تو شاعری سے زیادتی ہے۔ اللہ معاف کرے ، ایسی غضب کی سردی پڑ رہی ہے کہ اب تو سردی کے اچھے خاصے مداح بھی کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتے ہیں ہم سے غلطی ہوئی ، آئندہ نہیں ہو گی۔
چند دن پہلے ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ سردی ہم سے توبہ کروا کے ہی جائے گی۔ وہی بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ معلوم نہیں یہ حالات کب تک رہیں گے۔ ویسے تو چند دن سے زیادہ نہیں رہنے چاہئیں لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی تو نہیں۔ موسموں کا مالک جو فیصلہ چاہے کر دے ، مالک جو ہوا۔
سردی تو ان دنوں میں بہر حال ہوتی ہے مگر یہ جو دھند ہے سارا کام اسی نے خراب کیا ہوا ہے۔ دھند ہمارے بچپن کے دور میں بھی ہوتی تھی ، ہم اسے کہیڑ کہتے تھے۔ لیکن وہ دھند تو صرف فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک رہتی تھی ۔۔۔ سورج نکلتے ہی دھند چھٹنے لگتی تھی۔ ایک آدھ گھنٹے میں موسم صاف ۔ دن بھر دھوپ چمکتی تھی۔ یہ حال تو کبھی نہ دیکھا کہ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک دھند ہی دھند۔ باہر نکلیں تو لگتا ہے گیلی چادر اوڑھ لی۔
آفرین ہے ان مزدوروں اور گھر سے باہر کام کرنے والوں کی ہمت پر جو ان حالات میں بھی اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ اللہ حافظ و ناصر ہو ان باہمت لوگوں کا۔
فیس بک پر بعض دوست بتاتے ہیں کہ دھند کی وجہ سے آج تک 2024 کا سورج نہیں دیکھا۔ یا اللہ رحم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔11 جنوری  2024 
دو دن پہلے اپنے پسندیدہ شاعروں میں میں نے شکیب جلالی کا ذکر کیا۔ شکیب جلالی کو کم لوگ جانتے ہیں کیونکہ صرف 32 سال کی عمر میں خود کشی کر کے یہ بے مثال شاعر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
شکیب کی خودکشی کی وجہ ذہنی توازن کی خرابی تھی جو اسے اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ ایک دن اچانک اس کے والد نے اس کی والدہ کو دھکا دے کر ٹرین کے آگے پھینک دیا۔ شکیب اس وقت دس سال کا بچہ تھا۔ والدہ کی موت کے دردناک سانحے نے اسے دنیا اور زندگی سے متنفر کر دیا۔ وہ مسلسل ڈپریشن میں مبتلا رہنے لگا۔ بی اے کرنے کے بعد اسے ملازمت بھی مل گئی، شادی بھی کرلی مگر اس کے ذہنی توازن کا مستقل علاج نہ ہو سکا۔
نومبر 1966 میں ایک دن وہ سرگودھا ریلوے سٹیشن کے قریب ایک ہوٹل پہ بیٹھا تھا کہ اچانک ٹرین کے انجن کی سیٹی سن کر اٹھا اور باہر جاکر ٹرین کے آگے پٹڑی پر سر رکھ دیا۔
شکیب جلالی کی شاعری کا ایک ہی مجموعہ “روشنی اے روشنی” کے عنوان سے شائع ہوا ، وہ بھی اس کی موت کے بعد۔ 2004 میں اس کی بقیہ شاعری کا مجموعہ کلیات شکیب جلالی کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔
شکیب کے مقام کا اندازہ اس کے ان اشعار سے کیجیئے۔
نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتہ دکھائی دیتا ہے
ملبوس خوشنما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر
آکر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ
اس شعر میں اس کی موت کا واضح اشارہ ملتا ہے ۔
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔12جنوری  2024 
میری اردو شاعری نعت ، سانحہ کربلا کے حوالے سے منظومات اور غزل پر مشتمل ہے۔
نعت میرا سرمایہ حیات ہے۔ ایک نعت میں میں نے کہا تھا۔۔۔۔
کسی کو ندامت پہ بخشا گیا ہے کسی کو گرا کر اٹھایا گیا ہے
مجھے نعت کہنے کی توفیق دے کر کرم کا بہانہ بنایا گیا ہے
اسی قسم کا ایک اور شعر ہے۔۔۔۔
حضور آپ کا خاص احسان ہے
مری نعت ہی میری پہچان ہے
یہ اللہ کا خصوصی کرم ہے۔ میری نعت روایتی نعت نہیں۔ دل کی باتیں ہیں جو میں اپنے آقا کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔ یہ چند شعر دیکھیئے۔
فرش زمیں سے عرش بریں تک عرش بریں سے عرش نشیں تک ،
راہ نما ہے آپ کی چاہت صلی اللہ علیک وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اداس راتوں میں چشم تر کے دیئے جلا کر میں منتظر ہوں
مری غریبی کی لاج رکھ لیں کبھی تو تشریف لائیں آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھیں بھی برستی ہیں ساون کا مہینہ بھی
ہے شام بھی ہونے کو اور دور مدینہ بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوکچھ بھی ملا مجھ کو اس در سے ملا مجھ کو
جینے کا سلیقہ بھی مرنے کا قرینہ بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ میرے بس میں نظام عالم نہ دل پہ ہے اختیار آقا
اسی کشا کش میں کر لیا ہے ضمیر کو تار تار آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے حوالے سے بات کی تو دلوں کے پتھر پگھل گئے ہیں
تو ہی مرا اعتماد آقا تو ہی مرا اعتبار آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر دعا تیرے وسیلے سے سنی جاتی ہے
درد جو بھی ہو مدینے سے دوا آتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق رسالت مآب و اہل بیت رسالت مآب مجھے اپنی والدہ سے ور ثے میں ملا ۔ اس بات کا اعتراف اس شعر میں ملاحظہ کیجیئے۔۔۔
یہ آغوش مادر کا فیضان ہے میں کسی اور کو رہنما کیسے مانوں
مری تربیت ہی کچھ ایسی ہوئی ہے مجھے ایک ہی در دکھایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔13جنوری  2024 
سانحہ کربلا بھی میری شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ جناب حسین کا کردار تاریخ اسلام کا ایک تابندہ باب ہے۔ صبرواستقامت کی ایسی مثال چشم فلک نے پھر نہیں دیکھی ۔ اصغر معصوم کی شہادت کے بارے میں میری ایک نظم سے یہ منظر دیکھیئے۔۔۔۔۔۔۔
شہید بچے کی آخری ہچکیاں رکیں تو
حسین نے پھول سا وہ لاشہ زمیں پہ رکھا
لہو میں تر ہاتھ اپنے چہرے پہ پھیر کر آسماں کو دیکھا
کہا ترا شکر میرے مولا
کہ میں تری بارگاہ میں پیش کر رہا ہوں
یہ ننھا منا حسین تحفہ
مرا یہ تحفہ وصول کر لے
مرا یہ ننھا شہید بچہ قبول کر لے
حسین سا اور کون ہو گا
نہ کوئی تھا اور نہ ہے ،نہ ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔14  جنوری  2024 
بنیادی طور پر میں اردو غزل کا شاعر ہوں۔ سرائیکی گیت نگاری کے میدان میں تو مجھے لالا عیسی خیلوی نے دھکا دیا۔ شکر ہے اس دھکے سے میں گرنے کی بجائے سنبھل گیا۔ لالا کے اصرار پر گیت نگاری شروع کرنے سے پہلے میں نے لالا سے کہا میں صرف اداس گیت ہی لکھ سکوں گا۔ لچے لفنگے گیت مجھ سے نہیں لکھے جاتے۔ لالا نے کہا ٹھیک ہے ، جس طرح لکھو تمہاری مرضی، مجھے تمہارے قلم سے پیار ہے۔ جو لکھ دو گے تمہاری مہربانی سمجھ کر قبول کر لوں گا ۔
میرے گیت تین قسم کے ہیں کچھ گیت لالا کی بتائی ہوئی فلمی یا غیر فلمی دھنوں پر لکھے گئے، کچھ پرانے لوک گیتوں میں نئے مصرعے شامل کرکے جیسے ساوی موراکین۔۔۔ چن کتھاں گذاری ایئی رات۔۔۔۔۔سن جانی کتھے ونج توں وسیاایں۔۔۔۔۔ پھراں ڈھونڈیندی جوبن کالے والاں دا ، وغیرہ۔۔۔۔۔۔
ہجر فراق محرومی اور شکوہ شکایت کے کچھ گیت میں نے اپنی مرضی سے لکھے۔ اصل شاعری انہی گیتوں میں ہے۔ ان گیتوں میں سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آیا۔۔۔۔ رت ولی پکھواں دے جوڑے آگئے۔۔۔۔ نت دل کوں آہدا ہاں کل ماہی آسی۔۔۔۔ بیٹھی دیوانی قبراں دے اوہلے۔۔۔۔ توں نئیں آیا ۔۔۔۔۔ اک خوبرو جوان وغیرہ شامل ہیں۔
ایسے ہی کچھ اور گیت بھی تھے ، اس وقت یاد نہیں آ رہے۔
زیادہ تر گیت میں نے 1975 سے 1980 تک عیسی خیل قیام کے دوران لکھے۔ پھر لالا لاہور جابسا اور میں میانوالی آگیا۔ میانوالی میں میں نے معروف گلوکار ایوب نیازی کے لیئے بھی کچھ گیت لکھے۔ رت ولی پکھواں دے جوڑے آگئے والا گیت میں نے ایوب نیازی کے لییے لکھا تھا۔ ایوب نیازی کا کیسیٹ سن کر لالا نے بھی یہ گیت ریکارڈ کرا دیا۔ ایوب نیازی کی دھن اور تھی لالا نے یہ گیت صابر علی کی کمپوز کی ہوئی دھن میں گایا۔
اللہ کے فضل سے میرے گیت دنیا بھر میں معروف و مقبول ہوئے۔ جناب مجبور عیسی خیلوی، سوہنا خان بے وس ، ملک آڈھا خان اور اظہر نیازی جیسے لیجنڈ شاعروں کے درمیان زندہ رہ جانا بھی بڑی بات ہے۔ فاروق روکھڑی بھی بعد میں اس گروپ میں شامل ہوگئے۔
1985 کے بعد میں نے کوئی گیت نہیں لکھا۔ صرف ایک دو گیت لالا کی فرمائش پر لکھ دیئے۔ اب تو یہ بھی یاد نہیں کون سے گیت تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔15جنوری  2024  
میری پسند ۔۔۔۔۔۔۔
شاعر کے لیئے اپنی شاعری اولاد کی طرح ہوتی ہے ۔ اپنی لکھی ہوئی ہر چیز اچھی لگتی ہے۔ پھر بھی اگر کوئی پوچھے کہ آپ کو اپنے لکھے ہوئے گیتوں میں سے کون سا گیت سب سے اچھا لگتا ہے تو میں کہوں گا یہ والا گیت ۔۔۔۔۔۔
ولدے پکھیاں آنڑں ڈسایا
تیڈے ولنڑں دا ویلا آیا۔۔۔۔۔ توں نئیں آیا
سنجھے گھر وچ عمر گذر گئی
کملی راہواں ڈیہدی مر گئی
غیراں آنڑں جنازہ چایا۔۔۔۔۔ توں نئیں آیا
طعنے ظالم لوک مریندے
اجڑ کے وی نئیں جیونڑں ڈیندے
میں بہوں اوکھا وقت نبھایا ۔۔۔۔۔ توں نئیں آیا
سینے لا کے اوکھ تے تنگیاں
ہر دم تیڈیاں خیراں منگیاں
ڈھل گیا سر توں سکھ دا سایا۔۔۔۔۔ توں نئیں آیا
اس گیت کے دوتین بول اور بھی تھے اس وقت یاد نہیں آرہے۔ اتفاق سے جس وقت یہ گیت ریکارڈ ہوا میں بھی لالا کے مزنگ لاہور والے سٹوڈیو میں موجود تھا۔ ریکارڈنگ کے دوران ماحول خاصا سوگوار ہو گیا۔ گانے میں لالا نے بھی کمال کر دیا ۔ گیت کی دھن کا آئیڈیا میرا اپنا تھا۔ موسیقی الطاف حیدر صاحب نے ترتیب دی۔ میرے کہنے پر الطاف حیدر صاحب نے ہر بند کے آخر میں وائلن کا ایک ہلکا سا ٹچ دے دیا جس سے درد کا تاثر کچھ اور گہرا ہو گیا۔
یو ٹیوب پر یہ گیت سن لیں، امید ہے آپ میری رائے سے اتفاق کریں گے۔ ویسے پسند اپنی اپنی ، اگر آپ کو کوئی اور گیت زیادہ اچھا لگتا ہے تو آپ کی مرضی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔16 جنوری  2024 
اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں شاعری میں اپنا نام یا تخلص کیوں استعمال نہیں کرتا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ گیتوں میں میں اپنا نام شامل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لالا کو بتا دیا تھا کہ میں نہیں چاہتا میرے سٹوڈنٹس کو پتہ چلے کہ میں یہ کام بھی کرتا ہوں۔ میری مرضی کے برعکس رحمت گراموفون کمپنی نے میرے گیتوں کے ساتھ میرا نام کیسیٹ کے کور پر لکھنا شروع کردیا۔
اردو شاعری میں بھی میں نے اپنا نام صرف دوتین غزلوں میں استعمال کیا ۔ وجہ شاید یہ رہی کہ غالب کی طرح مجھے بھی شاعری شریفانہ کام نہیں لگتا تھا۔ غالب نے تو صاف کہہ دیا تھا۔۔۔۔
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
یہ الگ بات کہ غالب کو تمام تر عزت شاعری ہی سے ملی۔ کچھ ایسا ہی گھمنڈ مجھے بھی تھا۔ میں سمجھتا تھا ٹیچر کی حیثیت میں پہچان ہی میرے لییے کافی ہے۔ لیکن آنے والے وقت نے مجھے شاعر ہی کی حیثیت میں دنیا بھر میں متعارف کرا دیا ۔
تخلص کا استعمال غزل کی روایت ہے۔ شاعر غزل کے مقطع (آخری شعر) میں اپنا تخلص (قلمی نام) استعمال کرتے ہیں۔ تخلص نام سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ غالب کا نام تو اسداللہ خان تھا، تخلص غالب۔ حالی کا اصل نام الطاف حسین تھا ، تخلص حالی۔ اکثر شاعر اپنا نام ہی تخلص کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثلا اقبال ، فیض وغیرہ۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں کے نام اتنے غیر شاعرانہ ہوتے ہیں کہ وہ تخلص یا قلمی نام استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مثلا شورش کاشمیری کا اصل نام عبدالکریم تھا، ابن انشا کا اصل نام شیر محمد خان ، ساحر لدھیانوی کا اصل نام عبدالحئی تھا۔
میں اپنا نام منور ہی تخلص کے طور پر استعمال کرتا ہوں، مگر بہت کم ۔ صرف روایت کی خاطر اچھی بھلی غزل میں زبردستی اپنا نام ٹھوکنا اچھا نہیں لگتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔17 جنوری  2024 
غزل کا دامن بہت وسیع ہے۔ ہر شعر کا موضوع الگ ہوتا ہے۔ اس طرح غزل میں جتنے شعر ہوں اتنے موضوعات سما سکتے ہیں۔۔زلف و رخسار کی باتوں کے علاوہ مذہب ، سیاست، معیشت ، معاشرت ، انسانی کردار کے مختلف پہلو ، طنزو مزاح ، سخت تنقید ، غرض انسانی زندگی سے متعلق ہر موضوع پر بہت کام کی باتیں غزل میں سما سکتی ہیں ۔ دو مصرعوں کے ایک شعر میں مکمل منظر یا واقعہ بھی سمویا جا سکتا ہے۔
میری شاعری کے اکلوتے مجموعے میں تقریبا 40 غزلیں شامل ہیں۔ بحروں کی جو ورائیٹی میرے ہاں ہے ایسی ورائیٹی بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔
موضوعات کے لحاظ سے بھی ایک نیا رنگ نظر آتا ہے۔ یہ سیاسی اشعار دیکھیئے ۔۔۔
دکانیں ضمیروں کی سجنے لگیں
کہ پھر موقع انتخابات ہے
ضمیر اب کسی کا بھی زندہ نہیں
مرے شہر میں اب مساوات ہے
یہ شعر میں نے تقریبا 40 سال پہلے 1977 کے انتخابات کے موقع پر کہے تھے۔ یہ الگ بات کہ آج بھی سیاست کے میدان میں ہمارے ہاں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
بےرحم مہنگائی کے حوالے سے بھی بہت عرصہ پہلے یہ شعر کہا تھا۔۔۔۔
یا تو انسان کی قیمت بھی بڑھا دی جائے
ورنہ ہر چیز کی قیمت میں کمی کی جائے
چھوٹے قد کے بڑے لیڈروں پر یہ طنز ملاحظہ کیجیئے ۔
مرے نصیب مجھے کارواں نہ راس آیا
قصور یہ تھا کہ قد رہنما سے اونچا تھا
پتہ نہیں آپ کو شاعری کے بارے میں ان باتوں سے فائدہ ہوتا ہے یا نقصان۔ بہر صورت اب یہ ذکر چھڑ گیا ہے تو چند روز مزید چلے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔18 جنوری  2024 
کنڈل (عیسی خیل)
دریائے سندھ اور دریائے کرم کا سنگم====19جنوری  2024 
غزل کی وسعت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے بہت سے موضوعات پر شعر کہے ہیں۔ میری پسند کے کچھ شعر ملاحظہ کیجیئے۔
دو دلوں کے قرب کی اس انتہا کے باوجود
تیرے گھر سے میرے گھر تک فاصلہ رہ جائے گا
میں نے مانا ساتھ تم کچھ بھی نہیں لے جاو گے
اٹھ گئے جب تم تو میرے پاس کیا رہ جائے گا
میرے مرنے کی خبر اخبار میں دیکھو گے تم
اور میرے نام خط آدھا لکھا رہ جائے گا
کیا ہوا تیری غزل میں اب وہ شوخی کیوں نہیں؟
لوگ پوچھیں گے منور سوچتا رہ جائے گا
ناصر کاظمی کی زمین میں میری ایک غزل کے یہ شعر دیکھیئے۔۔۔۔۔۔
آج کوئی اس سے یہ پوچھے
اس نے مجھ میں کیا دیکھا تھا
چوڑی کے ٹکڑے سے اس نے
اپنے ہاتھ پہ “م” لکھا تھا
اس رومانوی انداز کی غزل میں یہ خوفناک شعر بھی شامل ہے ۔۔۔۔
پیاسی ماں کی لاش سے بچہ
ٹھنڈا پانی مانگ رہا تھا
بچہ تو ہر مطالبہ ماں سے ہی کرتا ہے۔ معصوم بچے کو کیا خبر کہ ماں تو خود پیاس سے مر چکی ہے۔ ایسے دردناک مناظر آج کل غزہ میں دیکھنے میں آرہے ہیں کہ معصوم بچے ماوں کی لاشوں سے لپٹ کر فریاد کر رہے ہیں۔
میں نے تو یہ شعر 45 سال پہلے کہا تھا ۔ سچ ہے کہ اچھا شعر کبھی پرانا نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔20جنوری  2024 
اپنے شعر ، اپنی پسند۔۔۔۔۔
حبس آج ایسا تھا جیسے تیری خاموشی
بادل اس طرح برسا تو ہو مہرباں جیسے
اب وہ آئیں تو ان سے کہہ دینا
تم نہ آئے چلا گیا کوئی
رشتوں کو ٹوٹنے سے بچانے کی فکر میں
اندر سے ٹوٹ پھوٹ کے ہم خود بکھر گئے
خیر ہو دل ناداں اب یہ غم بھی سہنا ہے
اس سے بھی نہیں ملنا شہر میں بھی رہنا ہے
خزاں نے نوچ لیئے پھول اور پتے سب
شجر پہ کچھ نہ سہی میرا آشیاں تو ہے
غیر مشروط پیار سب سے کیا
کر گئی ہے یہ سادگی تنہا
وہ محبت نہیں ضرورت تھی
میں اکیلا تھا آپ بھی تنہا
کہنا تیرے بعد وطن پردیس ہوا ہے
شہر وہی ہے لوگ پرائے اس سے کہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔21جنوری  2024 
انا للہ وانا الیہ راجعون
جا او یار حوالے رب دے۔۔۔۔۔۔
فیس بک پر اپنے جگر حاجی حمید اللہ خان وتہ خیل OSAKA بیٹری ڈیلر کی وفات کی خبر دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔
مرحوم حمید اللہ خان ہمارے بہت پیارے دوست تھے۔ جب وہ روزنامہ مرکز اسلام آباد کے نمائندہ تھے تو روزانہ شام کے بعد مین بازار میانوالی میں حافظ سویٹ شاپ کی بالائی منزل پر ہماری محفل منعقد ہوتی تھی۔ پروفیسر محمد سلیم احسن، مرحوم مہر زمان خان، حیات اللہ خان بہرام خیل اس محفل کے مستقل ممبر تھے۔ کبھی کبھی منصور آفاق اور پروفیسر محمد فیروز شاہ بھی اس محفل میں شریک ہوتے تھے۔ ریلوے سٹیشن کی مسجد میں عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم لوگ پلیٹ فارم کے ٹی سٹال سے چائے پیتے اور پھر اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے تھے۔ بہت عرصہ یہ محفل چلتی رہی۔
ایک رات شدید سردی میں ہم لوگ سٹیشن کی طرف جا رہے تھے تو نالی میں پڑے ایک کتے کو سردی سے کانپتے دیکھ کر حمید اللہ خان رک گئے۔ دونوں ہاتھوں سے کتے کو اٹھا کر نالی سے نکالا ۔ پھر قریبی ہوٹل سے گرم دودھ اور ڈبل روٹی لا کر اپنے ہاتھوں سے کتے کو کھلائی اور اسے سٹیشن کے برآمدے کے ایک کونے میں رکھ دیا تاکہ سردی سے مر نہ جائے ۔
حمید اللہ خان جیسے صاحب احساس لوگ اب کہاں ؟
رب کریم مغفرت فرما کر بلند درجات عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔21 جنوری  2024 
میری یہ غزل مقبول ترین غزل ثابت ہوئی۔ یہ غزل مرحوم ظفر خان نیازی نے میرے بیٹے مظہرعلی ملک ( علی عمران) کی آواز میں اپنے ریڈیو پروگرام سوغات کے لیئے ریکارڈ کی تھی۔ ملک بھر میں مقبولیت کے باعث یہ غزل پروگرام سوغات کا مستقل آئٹم بن گئی۔ جب تک پروگرام سوغات چلتا رہا یہ غزل اس پروگرام کی زینت رہی۔
ایک دفعہ ظفرخان نیازی سے ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے سامعین کے خطوط کے ڈھیر میں سے ایک خط نکال کر مجھے دکھایا۔ یہ خط چکوال سے ایک بزرگ نے لکھا تھا۔ انہوں نے اس خط میں کہا تھا “نیازی صاحب، پلیز اس سے کہنا والی غزل ریڈیو پر نہ لگایا کریں۔ میں دل کا مریض ہوں۔ اس غزل میں شاعر اور گلوکار نے اتنا بے پناہ دکھ سمو دیا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکتا”۔
غزل ملاحظہ کیجیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ہوئی پنچھی لوٹ آئے اس سے کہنا
ہم بیٹھے ہیں آس لگائے اس سے کہنا
پتوں پر شبنم کی چاپ سنی اٹھ بیٹھے
ہم نے یوں بھی دھوکے کھائے اس سے کہنا
ہم کو خبر ہے موسم گل کو جانا بھی ہے
جا کر ہم کو بھول نہ جائے اس سے کہنا
کہنا تیرے بعد وطن پردیس ہوا ہے
شہر وہی ہے لوگ پرائے اس سے کہنا
اس کے کہنے پر ہم نے تو صبر کیا ہے
اپنے دل کو بھی سمجھائے اس سے کہنا
دریا نے رخ بدلا تو اک گاوں اجڑا
مل نہ سکے پھر دو ہمسائے اس سے کہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔22 جنوری  2024 
سرائیکی گیتوں کے علاوہ میں نے سرائیکی میں کچھ غزلیں بھی کہی تھیں۔ لاپرواہی سمجھیں یا نالائقی ، وہ ڈائری ہی گم ہوگئی جس میں وہ غزلیں لکھی تھیں۔ چند شعر یاد ہیں۔ شاید ان میں بھی کوئی آپ کے کام کا شعر نکل آئے۔ شعر یہ ہیں۔۔۔۔۔
بے شک خالی ٹور وے سائیں
ناں ڈس بوھا ھور وے سائیں
کجھ ڈے ناں ڈے تیڈی مرضی
منگتاں دا کیا زور وے سائیں
تیں جیہا جگ وچ ھور نہ کوئی
میں جئے لکھاں ھور وے سائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاں ڈیوے تے پھوک مریسیں
تاں تو میکوں یاد کریسیں
میں اس ڈر توں مر ناں سگدا
مر ونجاں تاں توں بھل ویسیں
ہر ذرے وچ رب ڈسدا اے
کتھے کتھے سجدے ڈیسیں
چھوڑ بھلا ہک وعدہ کر کے
اجڑ ونجاں تاں جیونڑں ڈیسیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔23 جنوری  2024 
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی شاعری کے تعارف کے لیئے گذشتہ آٹھ دس دن میں جو کچھ لکھا فی الحال وہی کافی سمجھیں۔
“جو تم سے کہہ نہ سکا” کے عنوان سے میری شاعری کا مجموعہ 2002 میں شائع ہوا۔ لوگوں نے بہت پسند کیا ۔ پھر پڑھنے لکھنے کی کچھ دوسری مصروفیات کی وجہ سے شاعری سے توجہ ہٹ گئی۔ اس لیئے دوسرا مجموعہ مرتب ہی نہ ہو سکا۔
اب اچھی خبر یہ ہے کہ ان شآءاللہ میرے شعری مجموعہ کا دوسرا ایڈیشن ایک خوبصورت کتاب کی صورت میں عنقریب منظر عام پر آجائے گا۔ اس میں کچھ نئی چیزیں بھی شامل ہوں گی۔ اس کام میں ایک ڈیڑھ ماہ لگ سکتا ہے۔
دعاوں کے علاوہ کوئی مشورہ ، تجویز یا فرمائش۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔24 جنوری          2024 –منورعلی ملک۔۔۔
اتنی شدید سردی میں بندہ لکھے تو کیا لکھے ۔ دن کے گیارہ بجے ہیں ، سورج کا نام و نشاں تک نظر نہیں آرہا۔ اوپر نیچے دائیں بائیں ہر طرف دھند ہی دھند۔ ، درجہ حرارت صرف 7۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!!
سردی پہلے بھی ہوتی تھی لیکن دوچار سال سے سردی میں دھند کے اضافے نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ دھوپ نہ نکلنے کی وجہ سے ہر چیز دھند کی گیلی چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔
موسمیات والے کہتے ہیں یہ عذاب موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ اس میں ہر سال اضافہ ہی ہو گا۔
دوسری مصیبت یہ کہ دسمبر بھی گذر گیا، جنوری بھی ختم ہونے کو ہے مگر بارش نہیں ہوئی۔ خدا جانے یہ کیا ہو رہا ہے۔
یا اللہ رحم ۔
ہم تو سیدھی سادی بے ضرر سردی کے عادی تھے۔ دن بھر چٹی سفید دھوپ ، رات بھر سردی۔ دسمبر جنوری میں دو چار بارشیں بھی ہو جاتی تھیں۔ اب تو رات دن کا فرق ہی باقی نہی رہا۔ شدید سردی کی لہر رات دن برقرار ہے۔ اللہ جانے یہ سلسلہ کب تک چلے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔25 جنوری  2024 
کیا اچھا دور تھا ۔
ایک روپے میں آدھا کلو خالص گھی ملتا تھا۔ چائے کے 8 کپ، ایک کلو چینی ایسی ہی بہت سی چیزیں صرف ایک روپے میں مل جاتی تھیں۔ آج کے دس روپے کے نوٹ کے سائز کا ایک روپے کا نوٹ بھی ہوتا تھا۔ اب تو دس روپے میں بھی کچھ نہیں ملتا۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ  —-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کعبہ میں ولادت تربیت آغوش نبوت میں پائی،
مسجد میں علی منبر پہعلی، میداں میں علی بستر پہ علی

سردی نے اپنا سارا زور لگا لیا، اس زور آزمائی میں انسانوں پر جو گذری وہ بھی خاصا تلخ تجربہ تھا۔ مگر وہ جو شاعر نے کہا تھا
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
(تبدیلی کے سوا کوئی عمل مستقل نہیں ہوتا)
یہ عمل ہر وقت چلتا رہتا ہے۔ ہر آنے والے موسم کو جانا بھی ہوتا ہے۔ اپنا ایک پرانا شعر یاد آرہا ہے
ہر آتے موسم پہ یہ گمان بہار کیوں ھے
مرے مقدر میں زحمت انتظار کیوں ہے؟
اچھے وقت کا انتظار ہمیشہ رہتا ہے۔ اچھا وقت آ بھی جائے تو ہمیں اس سے بہتر وقت کا انتظار رہتاہے۔ اچھے وقت کی حرص کبھی ختم نہیں ہوتی۔
ذکر سردی کا چھڑا تھا ، کہنا یہ تھا کہ آثار بتا رہے ہیں سردی اب رخصت ہونے کو ہے۔ کل شام سے ہوا کی چھریوں میں وہ پہلی سی کاٹ نہیں رہی۔ آنے والے چند دنوں میں بارش کا بھی امکان ہے۔ اللہ کرے بارش ہو جائے۔ بارش سے سردی میں کچھ اضافہ تو ہوگا مگر سردی کا وہ پہلا سا غیظ و غضب جا چکا۔ اب ان شاءاللہ بہار آنے کو ہے ۔۔۔۔۔ کیا بندہ تھا فیض بھی۔۔۔ !!!! ہر حال میں پر امید ۔۔۔۔۔ کیا خوبصورت بات کہہ گیا۔۔۔
آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔26 جنوری  2024 
الیکشن کی آمد آمد ہے۔ اس لیئے کچھ ذکر الیکشن کا کہ
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
مجھے 1970 سے 2000 تک ہر الیکشن میں پریذا ئیڈنگ آفیسر کی حیثیت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ بہت سے دلچسپ تجربات ہیں۔ ان کا بیان دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
1970 کا الیکشن سب سے صاف شفاف الیکشن تھا۔ الیکشن کے انتظامی معاملات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہ تھی۔ اسی الیکشن کے نتیجے میں بھٹو صاحب برسراقتدار آئے۔ الیکشن تو خیروعافیت سے گذر گیا مگر الیکشن کے بعد جوڑ توڑ کے ہیر پھیر میں بہت نقصان ہوا۔ اسی جوڑ توڑ کی کشمکش میں 1971 کی پاک بھارت جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں آدھا پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ شکست کے بعد 93000 فوجی جوان جنگی قیدی بن کر بھارت کی حراست میں آگئے۔ اتنی تباہی ہوئی کہ بیان کرنا بھی مشکل ہے۔
اگر دونوں طرف کے لیڈر مل بیٹھ کر اپنے اختلافات حل کر لیتے تو یہ تمام تر تباہی اور رسوائی نہ ہوتی، مگر لیڈر اپنی اپنی ضد پر قائم رہے اور اس کا نتیجہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ بن گیا۔
کچھ ایسی ہی صورت حال اب بھی نظر آرہی ہے۔ لیڈروں کی انائیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ کوئی بھی اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ مل بیٹھنا تو درکنار ہمارے لیڈر صاحبان ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کر رہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی نقصان ہوا تو قصور وار سب ہوں گے۔ فرشتہ کوئی بھی نہیں، سب کی خامیاں پوری قوم جانتی ہے۔
1970 کا الیکشن سراسر غیر سیاسی، صاف شفاف الیکشن تھا۔ اقتدار کی سیاست تو الیکشن کے بعد شروع ہوئی اور اس نے تباہی پھیر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔27جنوری  2024 
انتخابات میں کئی لطیفے بھی رونما ہوتے تھے ۔
مشرف کا ریفرنڈم اندھا دھند دھاندلی کی دلچسپ ترین مثال تھا۔ حکم تھا کہ ووٹرز لسٹ میں موجود 90 فی صد سے زائد ووٹ جنرل مشرف کو ملنے چاہیئں۔ بندے حاضر ہوں نہ ہوں ان کے ووٹ بہر حال شمار ہونے چاہیئیں۔ شناخت کے بارے میں بھی زیادہ چھان بین نہ کی جائے۔ ووٹر اپنا جو نام بتائے اسی نام کا بیلٹ پیپر جاری کر دیا جائے۔
میں اس دن بلوخیل پولنگ سٹیشن پر پریزائیڈنگ افسر کی حیثیت میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ ایک ووٹر بیلٹ پیپر لینے آیا تو ایک مقامی آدمی نے کہا اس نام کا بندہ تو آج سے بہت عرصہ پہلے مر گیا تھا۔
جنرل مشرف کے پولنگ ایجنٹ نے ہنس کر کہا ” بھائی صاحب یہ بندہ صرف ووٹ ڈالنے کے لیئے آدھے گھنٹے کی چھٹی لے کر آیا ہے۔ ووٹ ڈال کر قبرستان واپس چلا جائے گا”۔
قہقہوں کی گونج میں اس بندے نے بیلٹ پیپر پر نشان لگایا اور ہنستا ہوا پولنگ اسٹیشن سے رخصت ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔28 جنوری  2024 
سرسوں اس موسم کا حسن ہے۔ کھیتوں میں جدھر نظر ڈالیں ایسے لگتا ہے زمین پر ہلکے زرد رنگ کی چادر بچھی ہوئی ہے۔ یہ رنگ آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون دیتا ہے۔
ہمارے ہاں سرسوں عام طور پر گندم کے ساتھ ہی کاشت کی جاتی ہے۔ سرسوں کا پودا قد میں گندم کے پودے سے ذرا بڑا ہوتا ہے۔ اس لییے جب سرسوں کے پھول کھلتے ہیں تو کھیتوں میں صرف سرسوں ہی نظر آتی ہے۔
سرسوں کی فصل گندم سے ذرا پہلے پک جاتی ہے۔ گندم کی کٹائی اس سے کچھ دن بعد ہوتی ہے۔
سرسوں کو ہمارے ہاں سریوں یا سرمی کہتے ہیں۔ یہ تیل دار فصل ہے۔ سرسوں کا تیل اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ سر پہ لگانے سے یہ بالوں کو لمبا نرم اور سیاہ بناتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کسی بھی شیمپو اور ہیئر کنڈیشنر سے زیادہ موثر ہے۔ سرسوں کے تیل سے کھانا بھی بن سکتا ہے۔ صحت اور توانائی برقرار رکھنے کے لیئے سرسوں کے تیل کی مالش بہت مفید ہے۔
سرسوں کے یہ سب فوائد اپنی جگہ مگر سرسوں کے کھیت کو دیکھ کر جو آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو مسرت ملتی ہے اس کا ایک اپنا لطف ہے۔ کبھی دل اداس ہو تو سرسوں کے کھیت میں نکل جائیں، اداسی فورا ختم ہو جائے گی۔
سرسوں کی فصل بہار کی آمد کا پہلا اشارہ ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔29 جنوری  2024 
MEMORIES ….. 1982
With my son (now Professor) Muhammad Akram Ali Malik

 

کلچے۔۔۔۔۔۔۔
سردیوں میں گاجروں کے کلچے بنا کر نہار منہ کھانا بھی ہمارے علاقے کی ایک اہم روایت تھی۔ ہمارے علاقے میں یہ روایت اب بھی برقرار ھے۔
کلچے بنانے کا طریقہ بہت سادہ تھا۔ پانی میں گاجریں اور گڑ ڈال کر اچھی طرح ابال کر رکھ لیتے اور صبح سویرے کھایا کرتے تھے۔ ٹھنڈی ٹھار نرم و ملائم گاجر منہ میں جاتے ہی سینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی تھی۔ بہت ہی لذیذ غذا تھی۔
کلچے ناشتے سے ذرا پہلے کھائے جاتے تھے۔
ہمارے بچپن کے دور میں سرخ گاجروں کے علاوہ بینگن کے رنگ کی گاجریں بھی ہوا کرتی تھیں۔ اب تو بہت عرصہ سے نہیں دیکھیں۔ واللہ اعلم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔30 جنوری  2024 
دیسی بیر بھی اس موسم کی خاص سوغات ہوا کرتے تھے۔ گول سرخ اور پیلے رنگ کے ان بیروں کی کئی قسمیں تھیں۔دیکھنے میں تو سب ایک جیسے مگر ذائقے میں فرق ہوتا تھا۔ کچھ بیر کھٹے میٹھے اور کچھ صرف میٹھے ہوتے تھے۔
بیری کے درخت گھروں میں بھی ہوتے تھے۔ دو بڑے درخت ہمارے گھر میں بھی تھے۔ دونوں کے بیروں کا اپنا اپنا ذائقہ تھا۔
داودخیل میں میٹھے رسیلے بیروں کے لیئے تھل (ریلوے لائین کے پار) کا علاقہ بہت مشہور تھا۔ وہاں بیری کے بہت بڑے بڑے درخت بیروں سے لدے ہوتے تھے۔ میں اور میرے کزن ملک ریاست علی، طالب حسین شاہ اور غلام حبیب ہاشمی وہاں سے بیروں کی جھولیاں بھر لاتے تھے- ( آہ۔۔۔۔۔ میرے یہ تینوں ساتھی اب اس دنیا میں موجود نہیں)۔
ریاست بھائی درختوں پر چڑھنے کے ماہر تھے۔ بیری کے درخت پر چڑھ کر شاخوں کو ہلاتے تو نیچے زمین بیروں سے لال سرخ ہو جاتی تھی۔
ریاست بھائی کو کنڈے پڑاوی (کانٹے چبھنے کا معاوضہ) مٹھی بھر بیر زائد ملتے تھے۔
اب نہ وہ بیریاں رہیں نہ وہ بندے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔31   جنوری 2024 –منورعلی ملک۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top