میرا میانوالی
یادیں ——–
2001 میں لکھی ھوئی میری ایک نظم کا پہلا اور آخری بند
( یہ مکمل نظم میں نے اپنے ایم اے کے کچھ سٹوڈنٹس کو لکھ کر دی تھی- اس کی کوئی کاپی اس وقت میرے پاس نہیں- اگر کسی عزیز کے پاس ھو تو میسنجر سے مجھے ارسال کردیں )-آرائش —– ملک شعبان کسر-بشکریہ-منورعلی ملک- 2 نومبر 2017-
میرا میانوالی
فیس بک سے دوستی ——————————-
آج سندھ دھرتی سےاپنے ایک بہت پیارے بیٹے کو آپ سے متعاارف کراتا ھوں- بیٹا اس لیے کہہ رھا ھوں کہ یہ اپنے کمنٹس میں مجھے بابا جانی کہتے ھیں-
ذکر ھے ضلع دادو کے رھنے والے معشوق کھوسو کا – معشوق کھوسو حمزوخان کھوسو کے صاحبزادے ھیں- ان کا آبائی گاؤں لال بخش کھوسو، تحصیل جوھی ، ضلع دادو تھا- جب ابتدائی تعلیم مکمل ھوئی تو یہ دادو منتقل ھو گئے، جہاں ان کے والد محترم محکمہ زراعت کے ریسرچ سٹیشن میں ملازم تھے- وھاں سے ایف ایس سی پری انجینئرنگ کرنے کے بعد یونیورسٹی آف سندھ جامشورو سے گریجوئیشن کی- والد کی رٰیٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے جوھی میں اپنا گھر بنالیا- سفارش کے بغیر ملازمت نہ مل سکی تو انہوں نے مہران پبلک سکول کے نام سے جوھی میں اپنا سکول بنا لیا- اب وہ اس سکول کے ھیڈماسٹرھیں-
معشوق خان ماشاءاللہ بہت کامیاب اور مقبول ٹیچر ھیں- شاید اللہ نے انہیں اسی کام کے لیے پیدا کیا تھا- میری انگلش ، اردو تمام پوسٹس پہ روزانہ حاضری لگواتے ھیں- انگلش بھی اچھی خاصی لکھ لیتے ھیں-
معشوق کھوسو سندھی زبان کے بہت معروف شاعر بھی ھیں- تقریبا 500 غزلیں ، گیت ، بیت اور ڈوھڑے لکھ چکے ھیں- مشاعروں میں ان کا کلام بہت مقبول ھے- سندھی ادبی سنگت جوھی اور احمدخان مدہوش اکیڈیمی کے رکن بھی ھیں- ریڈیو پر سندھی کے منتخب اشعار میں ان کے شعر اکثر نشر ھوتے رھتے ھیں – ان کے لیے بہت سی دعائیں- –
——-بشکریہ-منورعلی ملک- 8 نومبر 2017-
میرا میانوالی
میرالا خوف علیہم و لا ھم یحزنون ——- القرآن الحکیم
اللہ کے محبوب ترین بندے وہ ھوتے ھیں جو دونوں طرف منت سماجت کر کے اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان صلح صفائی کرادیتے ھیں- یہی کام تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے کیا – یہی کام سید علی الہجویری المعروف داتا گنج بخش عمر بھر کرتے رھے- ھزاروں ھندوؤں کو مسلمان کیا ، لاکھوں مسلمانوں کا اللہ سے تعلق مستحکم کیا- اللہ نے اس کارخیر کے صلے میں ان کا نام اور کام ھمیشہ کے لیے زندہ کر دیا- تقریبا 980 سال سے لاکھوں لوگ یہاں حاضر ھوتے ھیں- چوبیس گھنٹے میں سے ایک گھنٹہ داتا کا دربار خالی نہیں ھؤا-
جس وقت بھی جائیں سینکڑوں لوگ وھاں موجود ھوتے ھیں- کچھ قبر کے سرھانے
بیٹھے تلاوت قرآن کریم میں مشغول ، کچھ کھڑے ھو کر ایصال ثواب میں مشغول ، کچھ اللہ کے حضور میں اپنی درخواستوں پر سفارش کے طلبگار- جی ھاں، انسان ازلی بدبخت نہ ھو تو اس کے لیے داتا صاحب کی سفارش خالی نہیں جاتی- کسی صدر ، وزیر اعظم یا رئیس کے در پہ اتنے لوگ ھر وقت موجود نہیں ھوتے ، جتنے داتا صاحب کے اردگرد ھر وقت دیکھنے میں آتے ھیں-
تقریبا پچاس سال پہلے جب میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور کا سٹوڈنٹ تھا ، تو کئی دفعہ رات کے پچھلے پہر دوستوں کے ھمراہ داتا صاحب کے ھاں جانے کا اتفاق ھؤا، داتا دربار ھمارے ھاسٹل کے پیچھے چند قدم کے فاصلے پر واقع ھے- اس لیے وھاں کسی وقت بھی آنا جانا ھمارے لیے مشکل نہ تھا- جب بھی گئے دیکھا کہ رات ایک بجے سے فجر کی نماز تک سینکڑوں لوگ وھاں آتے جاتے رھے-
سوچنے کی بات یہ ھے کہ وھاں سے کچھ ملتا ھے تو لوگ وھاں جاتے ھیں- ورنہ کون جاتا ؟ بہت ماڈرن، اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی وھاں دیکھا، صدر ، وزیراعظم ، سیاسی رھنما، جرنیل، جج ، سب وھاں جاتے ھیں- اللہ کے حضور میں اپنی اپنی درخواستوں پر داتا صاحب کی سفارش کے لیے–
یہ قصہ انشاءاللہ اس وقت کی پوسٹس میں ایک دو دن مزید چلے گا-
————– رھے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 10نومبر 2017-
میرا میانوالی
آنکھیں بار بار بھیگ جاتی ھیں ان کا ذکر کرتے ھوئے————-
ذکر ھے قبیلہ امیرے خیل کی عظیم خاتون ، محترمہ عالم خاتوں المعروف دیدے عالو (عالوبہن) کا، جنہوں نے میری شحصیت کی تشکیل میں ماں اور ٹیچر دونوں کا کردار ادا کیا –
کل کی پوسٹ میں ان کا مختصر تعارف کراچکاھوں کہ وہ میری والدہ کی منہ بولی بہن تھیں- امی کی دو سگی بہنیں بھی تھیں، لیکن دیدے عالو کا امی سے پیار ان سے بھی زیادہ تھا – روزانہ صبح سات آٹھ بجے ھمارے ھاں آتیں، دوپہر کے کھانے اور ظہر کی نماز کے لیے گھر واپس جاتیں تو مجھے بھی انگلی سے لگا کر ساتھ لے جاتیں- بے تحاشہ کھلاتی پلاتی تھیں- نماز سے فارغ ھوکر پھر مجھے ساتھ لے کر ھمارے گھر واپس آجاتیں- شام سے ذرا پہلے واپس جاتی تھیں- تقریبا 80 سال کی عمر تک زندہ رھیں، جب تک چل پھر سکتی تھیں اپنے معمول کے مطابق روزانہ ھمارے ھاں آتی رھیں- امی ان سے تقریبا 20 سال پہلے فوت ھوگئیں، مگر ان کی وفات کے بعد بھی دیدے عالو روزانہ ھمارے ھاں آتی رھیں-
میں جب عیسی خیل کالج میں تھا ، ایک دن گھر آیا تو سامنے دیدے عالو بیٹھی تھیں – میں نے کہا ”دیدے جی ، آپ اب بھی یہاں آتی ھیں ”
دیدے کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، کہا ” ھاں ، چنوں (میرے چاند) میں اپنے وقت پہ روزانہ آتی ھوں — غلام جنت (میری والدہ کا نام ) تو اب اس دنیا میں واپس نہیں آئے گی ، بس اس کے گھر اور آپ لوگوں کو دیکھ کر دل کو تسلی دے لیتی ھوں-
میری امی ان پڑھ تھیں ، دیدے عالو پرائمری پاس تھیں – ان کے پاس حدیث کی مستند کتاب صحیح مسلم اردو ترجمے کے ساتھ ، انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات پر مشتمل کتاب قصص الانبیاء اور محمددلپذیر نامی پنجابی شاعر کا لکھا ھؤا منظوم قصہ حضرت یوسف علیہ السلام تھا- وہ ان میں سے کسی ایک کتاب میں سے کچھ نہ کچھ پڑھ کرامی کو سنایا کرتی تھیں- بہت سی اچھئ باتیں ھم نے ان سے سیکھیں-
میرے قلم پہ ان کا اتنا ھی حق ھے جتنا میری والدہ کا – اب ان کا ذکر چھڑ ھی گیا ھے ، تو ایک دو دن انہی کا ذکر رھے گا- اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ، بہت عظیم خاتون تھیں-
— رھے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک- 11 نومبر 2017-
میرامیانوالی ——————
میری امی ، محترمہ عالم خاتوں کو دیدے عالو کہتی تھیں- ھماری زبان میں بہن کو دیدے کہا جاتاتھا- دیہات میں یہ لفط شاید آج بھی بولا جاتا ھے- یہ لفظ محبت ، احترام اور تقدس کی علامت ھؤاکرتا تھا- دلچسپ بات یہ ھے کہ امی کی طرح ھم بھی انہیں دیدے ھی کہا کرتے تھے-
دیدے عالو سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں- سات میں سے تین بھائی تھے ، چار بہنیں- بڑے بھائی امیر قلم خان نیازی (نوجوان صحافی ضیاء نیازی کے دادا) مکڑوال میں ملازم تھے- ان سے چھوٹے گلستان خان نیازی معروف ریڈیو سنگر تھے- کچھ عرصہ انگلینڈ میں بھی ملازمت کرتے رھے- ان سے چھوٹے عطاءاللہ خان نیازی ریلوے میں سٹیشن ماسٹر تھے- تینوں بھائیوں کو میں ماموں کہا کرتا تھا- وہ بھی مجھ سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے-
دیدے عالو نے شادی نہیں کی – تینوں بھائیوں نے والد کی جائیداد میں سے بہن کا حصہ الگ کرکے ان کےنام کردیا تھا- یوں دیدے عالو ساٹھ ستر کنال زمین کی مالک تھیں- اس زمین سے انہیں اچھی خاصی آمدنی ھوتی تھی – اس کے علاوہ تینوں بھائی ھرماہ انہیں پیسے بھی بھیجتے تھے- بھائی تو سب ملازمت کے سلسلے میں داؤدخیل سے باھر رھتے تھے- تینوں بہنیں شادی شدہ تھیں، دیدے جی چار کنال کے گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ رھتی تھیں- اللہ کا دیا سب کچھ تھا، اور وہ یہ سب کچھ اپنی بہن غلام جنت (میری امی) اور ان کے بچوں پر خرچ کردیتی تھیں- مرغیاں ، انڈے ، خالص گھی، جو کچھ بھی ھاتھ لگتا ، ھمارے لیے لے آتی تھیں- ان کے بہن بھائی ان کی اس دریا دلی پر خوش ھوتے تھے- کتنے عظیم لوگ تھے سب کے سب !!! ——
آج ان میں سے کوئی بھی اس دنیا میں موجود نہیں- اللہ کریم سب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے- ان کے قائم کیے ھوئے پیارمحبت کے رشتے بحمداللہ تعالی آج بھی برقرار ھیں- دیدے عالو مجھے منورعلی ملک کی بجائے منورعلی خان امیرے خیل کہا کرتی تھیں- ان کے اس قول کے احترام میں ان کے خاندان کے لوگ آج بھی مجھے اپنے خاندان کا فرد سمجھتے ھیں- اللہ سب کو سلامت رکھے-
—— رھے نام اللہ کابشکریہ-منورعلی ملک- 12 نومبر 2017-
میرا میانوالی
فیس بک سے دوستی —————–
فیس بک پہ میرے پرانے ساتھیوں میں ایک اھم نام ———— پروفیسرعصمت اللہ شاہ
پروفیسرعصمت اللہ شاہ کا آبائی گھر لودھراں میں ھے- ایم اے اردو ، ایم فل ، ایم اے سرائیکی ایم فل کے بعد اب سرائیکی میں پی ایچ ڈی کا ارادہ باندھ رھے ھیں – 2008 میں پاکستان میں سرائیکی کے لیکچرر کی اکلوتی اسامی کے لیے پبلک سروس کمیشن سے منتخب ھو کر ایس ای کالج بہاولپور میں متعین ھوئے- اس سال اسسٹنٹ پروفیسر کی اسامی پر براہ راست منتخب ھونے کے بعد اسی کالج میں خدمات سرانجام دے رھے ھیں-
شاہ صاحب کی تین کتابیں، سوجھل قصے، حفیظ خان کی تحقیقی جہتیں اور پریم نگر شائع ھو چکی ھیں- ان کا سرائیکی لوک داستانوں کا اردو ترجمہ نیشنل بک فاؤنڈیشن عنقریب شائع کر رھی ھے-
عصمت اللہ شاہ طالب علمی کے دور میں 1995 میں پروفیسر سلیم احسن اور مجھ سے ملنے کے لیے گورنمنٹ کالج میانوالی آئے تھے – بتاتے ھیں کہ اس موقع پر میں نے اپنی کتاب ”درد کا سفیر اپنے آٹوگراف کے ساتھ انہیں دی تھی-
شاہ صاحب کو سرائیکی سے پیار نہیں ، عشق ھے – (عشق ، پیار سے ذرا زیادہ سر پھرا ھوتا ھے) – میری پوسٹس پر کمنٹس بھی سرائیکی میں دیتے ھیں- انگلش کے حروف میں سرائیکی زبان بہت دلچسپ لگتی ھے-
بہت محبت کرنے والے مہربان دوست ھیں – ان کے لیے بہت سی دعائیں -بشکریہ-منورعلی ملک- 14 نومبر 2017-
میرا میانوالی
میری پہلی نعت ————– 1977
آرائش — وسیم سبطین
یہ نعت آپ Google پر yeh tera chehra لکھ کر یوٹیوب پر
لالاعیسی خیلوی کی آواز میں سن بھی سکتے ھیں –
بشکریہ-منورعلی ملک- 20 نومبر 2017-
میرا میانوالی
میرامیانوالی —————————– 1
بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا- ھم پانچویں کلاس میں پڑھتے تھے- سکول کی پرائمری کلاسز اس زمانے میں داؤدخیل کے موجودہ گرلز ھائی سکول میں بیٹھتی تھیں- ایک دن اچانک آسمان پر ایک بادل سا نمودار ھؤا- اس کے نمودار ھوتے ھی پورے شہرکے لوگوں نے رونا پیٹنا، اور اللہ تعالی سے معافیاں مانگنا شروع کردیا-
یہ بادل نہیں ٹڈی دل تھا- نام تو شاید آپ نے سنا ھوگا ، دیکھا نہیں ھوگا- اللہ کبھی نہ دکھائے- یہ عذاب الہی کی ایک ھولناک صورت ھے- اللہ تعالی نے کئی قوموں کو اس عذاب کے ذریعے تباہ و برباد کر دیا- قرآن حکیم ، انجیل اور تورات میں بھی اس کا ذکر ھے-
پکچر میں آپ جو چیز دیکھ رھے ھیں، اسی رنگ اور سائیز کی لاکھوں نہیں کروڑوں،بلکہ اربوں ٹڈیاں با د لوں کی صورت میں آسمان سے اترتی ھیں، اور فصلوں،درختوں ،گھاس اور پودوں کا منٹوں میں صفایا کر دیتی ھیں- صفایا ایسی صفائی سے کرتی ھیں کہ پتوں کا سبز رنگ یہ چٹ کر جاتی ھیں اور پتوں کے ڈھانچے باقی رہ جاتے ھیں- چندمنٹ میں اچھے خاصے کھیت کا صفایا ھو جاتا ھے-
جب ٹڈی دل ایک دفعہ زمین پر اتر جائے تو پھر اس کا کوئی مستقل علاج نہیں- کروڑوں مکڑیوں کو کوئی کیسے مار سکتا ھے-؟ بہتر یہ ھے کہ اسے زمین پر اترنے ھی نہ دیا جائے- اس کام کے لیے ٹین اور برتن وغیرہ کھڑکا کر شور مچایا جاتا ھے، جسے سن کر ٹڈی دل خوف کے مارے زمین پر اترنے کی بجائے اڑتا ھؤا آگے نکل جاتا ھے-
داؤدخیل میں بھی لوگوں نے یہ حربہ آزمایا،مگر ذرا دیر سے- ھم نے اپنی آنکھوں کے سامنے کھیتوں اور درختوں کا صفایا ھوتے دیکھا- لوگوں کی فریادوں اور چیخوں سے پورا شہر لرز رھا تھا-
ھم ٹڈی دل کو اپنی زبان میں مکڑی کہتے تھے- اس کی ایک مصیبت یہ ھے کہ مکڑی ایک رات میں ھزاروں انڈے دیتی ھے – صبح ان سے بچے نکل کر زمین پر اچھلنے کودنے لگتے ھیں- وہ اڑ تو نہیں سکتے ، لیکن گھاس وغیرہ کا ستیاناس کر دیتے ھیں-
اس قصے کی بقیہ باتیں انشاءاللہ آج تین بجے کی پوسٹ میں لکھوں گا-
—————————————- رھے نام اللہ کا
بشکریہ-منورعلی ملک- 22 نومبر 2017-
میرا میانوالی
میرا میانوالی ———————— 2
ٹڈی دل تو ایک آدھ دن میں فصلیں اجاڑکر آگے نکل گیا، اس کے کروڑوں بچے جو اڑ نہ سکتے تھے ، باقی رہ گئے- سرکار نے حکم دیا کہ انہیں تلف کرنے کاکام سکولوں کے بچوں سے لیا جائے- تلف کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ جہاں ٹڈیوں کے بچے پھرتے نظرآئیں ، وھاں زمین میں نالیاں ( چریاں) کھود دی جائیں- یہ بچے ان میں گرنے لگیں گے ، جب ایک نالی بھر جائے تو اوپرمٹی ڈال کر ان مردودوں کو دفن کردیں-
خاصا دلچسپ کام تھا- ھماری کلاس نے اپنے ٹیچر محمد رفیق کی نگرانی میں یہ کام کیا- کھدائی کے لیے بیلچے وغیرہ ھم ساتھ لے گئے- منٹوں میں نالی بھرجاتی تھی اور ھم مٹی ڈال کر ٹڈیوں کو دفن کر دیتے تھے-
دوتین برس پہلے ایف اے کی انگلش کی کتاب میں نوبیل انعام یافتہ خاتون Doris Lessing کی ایک کہانی نظر سے گذری ، عنوان تھا A mild attack of locust – یہ کہانی پڑھتے ھوئے مجھے اپنے بچپن کا یہ واقعہ بار بار یاد آتا رھا-
آپ یہ سن کر حیران ھوں گے کہ ٹڈیاں حلال ھوتی ھیں- لوگ انہیں آگ میں بھون کر بڑے مزے سے کھاتے ھیں- میں نے تو نہیں کھائیں ، کہتے ھیں چپس کی طرح بہت کراری ھوتی ھیں – روایت یہ ھے کہ جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے قربانی کا دنبہ ذبح کر کے چھری پھینکی تو ایک ٹڈی کو لگ کر ایک ندی میں مچھلی کو جا لگی- اللہ کے نبی کی چھری لگنے سے یہ دونوں چیزیں حلال ھو گئیں- انہیں ذبح کرنا ضروری نہیں ۔ واللہ اعلم –
————————————— رھے نام اللہ کا —-
بشکریہ-منورعلی ملک- 22 نومبر 2017-
سرپہ دنیا میں ھو گر سایہ تری رحمت کا
قبر میں بھی ترے دامن کی ھوا آتی ھے
میرا میانوالی
میری نعت ———-
آرائش شاھد انورخان نیازی ، داؤدخیل
بشکریہ-منورعلی ملک-24 نومبر 2017-
میرا میانوالی
چند حسین لمحے ناصر خان اور شوکت اللہ خان کے ھاں
فوٹو گرافی ناصرخان-بشکریہ-منورعلی ملک- 27 نومبر 2017-
–
میرا میانوالی
اپنی نعت کا شعر ————————-
دل میں ھے یادآپ کی لب پر ھےنام آپ کا
دامن پہ آنسوؤں سے ھے لکھا سلام آپ کا
بشکریہ-منورعلی ملک- 29 نومبر 2017-
میرا میانوالی
آج سے 1439 سال پہلے اس گھر سے رحمت کا وہ آفتاب طلوع ھؤا جس کی روشنی قیامت تک ، اور قیامت کے بعد بھی ھمیشہ رھے گی ——
صلی اللہ تعالی علی رسولہ الکریم -بشکریہ-منورعلی ملک- 30 نومبر 2017-