“زن مریدی “اور انسانی تاریخ – عصمت اللہ نیازی
انسانی تاریخ میں لفظ زن کو بے حد اہمیت حاصل رہی ہے۔ زن دراصل فارسی زبان کا لفظ ہے جو خاص کر بیوی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اسے ناری کہا جاتا ہے۔ عام طور پر کسی چیز کے تیز سے چلنے کی آواز کو بھی زن کہا جاتا ہے۔ کئی جگہوں پر زن کا لفظ کسی دوسرے لفظ کے ساتھ جُڑنے سے اس کے معنی بہت خطرناک بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر شمشیر زن یا تیغ زن وغیرہ۔ شمشیر زن سے مراد وہ چیز جس پر تلوار چلائی جائی یعنی دوسرے معنوں میں تلوار کے آگے قربانی دینے والی چیز۔ ان قربانی دینے والی چیزوں میں شوہر سر فہرست ہے جو ساری زندگی تیغ زنی کا شکار رہتا ہے۔ لیکن اس عذاب مسلسل سے بچنے کیلئے شوہر نے زن مریدی کا ہتھیار ڈھونڈ نکالا ہے جو بہت زیادہ کارگر بھی ثابت ہوا ہے۔ زن مریدی دنیا کے ہر ملک اور ہر ادارہ میں پائی جانے والی بیماری ہے لیکن خاص طور پر ہم جیسے تیسری دنیا کے سربراہان مملکت اور اکثر اداروں کے افسران اکثر اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جیسے ہمارے ایک سابق وزیر اعظم زن مریدی کی وجہ سے اپنی حکومت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی طرح کئی ملکوں کے اداروں کے سربراہان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مدت ملازمت میں توسیع بھی بیگمات کے کہنے پر دی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ کار بھی بہت آسان ہے کہ اگر آپ سیکنڈ کمانڈ پر کام کر رہے ہیں تو یقیناً آپ کی بیگم آپ کے باس کی بیگم کی سہیلی ہو گی بس آپ نے اپنی بیگم کے ذریعے باس کی بیگم کو منوانا ہے اور آپکی ایک سال کی ایکسٹینشن پکی ہو گئی۔ اِسی طرح آپ باس کی بیگم کو راضی کر کے الیکشن میں چوتھے نمبر پر ہارنے والے اپنے بھائی کو جتوا بھی سکتے ہیں۔ کچھ بیگمات اپنے شوہروں کی زن مریدی کی عادت کو مثبت استعمال بھی کرتی ہیں جیسے ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں 1975ء میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بیٹے سنجے گاندھی نے مشورہ دیا کہ اماں حضور! اب ملک میں نئے انتخابات کروانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم ماں بیٹا ملکر ہندوستان پر بیس، پچیس سال تک حکومت کر سکتے ہیں اور آئین اس کی اجازت بھی دیتا ہے کیونکہ اگر مغل وسطی ایشیا سے اُٹھ کر چار سو سال ہندوستان پر حکومت کر سکتے ہیں تو ماں بیٹا کیوں نہیں؟ تاہم ایمرجنسی کے دو سال بعد اندرا گاندھی انتخابات کروانے پر راضی ہو گئیں، مارچ 1977ء میں الیکشن ہوئے اور تمام شمالی علاقوں اور ریاستوں میں کانگریس کو شکست ہوئی، تمام غریبوں نے پیغام دیا کہ انھیں کانگریس سے زیادہ اپنی آزادی عزیز ہے اور وہ اپنے بنیادی حقوق غصب کرنے والی لیڈر سے اس سے بہتر بدلہ نہیں لے سکتے تھے جس کانگریس نے 1971ء میں 350 سیٹیں حاصل کی تھیں اسے صرف 150 نشستیں مل سکیں، جنتا پارٹی نے 298 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی،بالیکشن سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غریبوں کو اپنی آزادی پیاری ہوتی ہے اور وہ جمہوریت کے ذریعے اندرا سے بدلہ لے سکتے ہیں، جب ایک طرف ساری دنیا انتخابی نتائج پر حیران ہو رہی تھی تو اندرا گاندھی کے اپنے حلقہ رائے بریلی کا ڈپٹی کمشنر ونود ملہوترہ زندگی کے سب سے بڑے امتحان سے گزر رہا تھا، وہ اس حلقہ کا ریٹرنگ افسر تھا اور جب نتائج کی گنتی شروع ہوئی تو ملہوترہ کو احساس ہوا کہ نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی برے طریقے سے ہاری ہے اب مسلئہ یہ تھا کہ ایک ڈپٹی کمشنر اتنی جرات کیسے کرے کہ ملک کی وزیراعظم کے ہارنے کا اعلان کرے؟ ووٹوں کی گنتی کے وقت ریڈیو اور ٹی کی نشریات بند تھیں، نتائج کا اعلان رات گئے ہونا تھا، ڈپٹی کمشنر کو علم نہ تھا کہ ہندوستان کے دیگر حصوں سے انتخابی نتائج کیا آ رہے ہیں؟ کانگریس جیت رہی ہے یا ہار رہی ہے؟ ندرا گاندھی کا پولنگ ایجنٹ ماننے کو تیار نہ تھا کہ وزیراعظم بھی ہار سکتی ہیں اس نے تین دفعہ ووٹوں کی گنتی کرائی مگر نتیجہ شکست ہی تھا۔ ڈپٹی کمشنر کو بہت او پر سے فون آنا شروع ہوئے کہ وہ اندرا گاندھی کی شکست کا اعلان ابھی نہ کرے۔ جب ڈپٹی کمشنر کو علم ہو گیا کہ اندرا گاندھی ہار چکی ہے تو اُس کے سامنے دو راستے تھے کہ وہ نتیجہ روک لے یا پھر فوراّ اعلان کر دے. کافی سوچ بچار کے بعد جب وہ بیوی کے پاس گیا جو گھر کے لان میں کرسی پر اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کھیل رہی تھی. اُس نے بیوی کو بتایا کہ اگر اس نے اندرا گاندھی کے ہارنے کا اعلان کر دیا تو انھیں اندرا کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہت ساری مشکلات کھڑی ہو جائیں گی. وہ ضمنی انتخابات میں دوبارہ جیت جائے گی اور حکومت اسی کی ہی بنے گی. ڈپٹی کمشنر کی بیوی اطمینان سے اپنے بیٹے کے ساتھ کھیلتی رہی اُس نے سر اُٹھا کر خاوند کو دیکھا تک نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کتنے بڑے امتحان سے گزر رہا ہے. اُس نے اندرا گاندھی جیسی لیڈر کے ہارنے کا اعلان کرنا ہے. ڈپٹی کمشنر نے بیوی سے دوبارہ پوچھا کہ وہ کیا کرے؟ تو اس کی بیوی نے شانِ بے نیازی سے کہا کہ “جاؤ وہی کرو جو جائز ہے، ہم برتن مانجھ لیں گے مگر بے ایمانی نہیں کریں گے.”
ڈپٹی کمشنر نے اعلان کر دیا کہ اندرا گاندھی ہار گئی ہے۔ یہ اعلان سُن کر ہندوستان کیا پوری دنیا ششدر رہ گئی. لیکن شوہر کی زن مریدی نے پورے ہندوستان کو بدل کر رکھ دیا۔ اسی طرح زن مریدی کیلئے چند حکایات بھی ہیں جو شاید آپ کو اس ضمن میں بہت کام آ سکتی ہیں مثلآ
1: جب بیوی کہے کہ “ٹھیک ہے” اور ساتھ ہی کوئی چیز بھی زور سے پٹخ دے تو یقین جانیں کہ یہ بلکل ٹھیک نہیں ہے۔
2: جب وہ کہے کہ “کیا” ؟ تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس نے آپ کو سنا نہیں بلکہ وہ آپ کو ایک اور موقع دے رہی ہے کہ آپ اپنا بیان بدل لیں۔
3:جب وہ کہے کے “جو آپ کا دل چاہے کرو” تو وہ کام کرنے کی حماقت کبھی بھی نہ کریں۔
4:جب وہ کہے کہ “مجھے تنہا چھوڑ دو” تو تنہا چھوڑنے کا سوچنا بھی مہنگا پڑ سکتا ہے۔
5: جب وہ کہے کہ” مجھے نہیں پتہ” تو اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ انھیں کچھ نہیں پتا بلکہ اس کا مطلب ہے اس موضوع پر مزید اب کوئی بات نہیں ہو گی۔۔۔