حضرت علامہ ابوالسعد احمد خان قدس سرہ -خانقاہ سراجیہ کھولہ شریف

تحریر-سید طارق مسعود کاظمی-مصنف   کتاب سرزمین اولیا میانوالی

 تھل کے تپتے ہوئے صحراؤں میں انتہائی گرم ہوا لو بن کر چلتی ہے تو سامنے آنے والی ہر چیز کو  جھلسا دیتی ہے۔انسان حیوان چرند پرند نباتات سب اس تپتے صحرا کی گرم لو کے تھپیڑے برداشت کرتے ہیں لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ اس لق و دق صحرا سے ایک ایسا نامور پید اہو گا جس کے علم اور زہد و تقویٰ سے صحرا کی تپتی ریت ٹھنڈی ہو جائے گی اور باد سحری کی مانند ہوا کے خوشگوار جھونکے اس ریگزار کو جنت نشان بنا دیں گے۔ اسی صحرا میں ایک چھوٹی سی بستی بکھڑا تھی جس میں حضرت والا شان مولانا احمد خان قدس سرہ راجپوت تلوکر خاندان کے ملک مستی خان کے ہاں 1878 ء میں پیدا ہوئے۔

اللہ کے ولی باذن اللہ غیب کا علم رکھتے ہیں: ہاں ایک شخصیت تھی جس کو معلوم تھا کہ یہاں ایک اللہ کا برگزیدہ بندہ پید ا ہوگا۔ آپ کی پیدائش سے قبل ایک اللہ کے ولی کا کشف ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ یہاں ایک بہت بلند پایہ بزرگ اور اللہ کے ولی حضرت غلام محمدبکھڑوی جو آپ کی پیدائش کے وقت حیات تھے لیکن بے حد ضعیف ہو چکے تھے۔ لوگ محبت و عقیدت کے پیش نظر آپ کو پنگھوڑے میں ڈال کراِدھر اُدھر لے جاتے تھے۔آپ نے حکم دے رکھا تھا کہ جب کبھی ملک مستی خان یہاں سے گزریں تو مجھے ان کے راستے پر لے جایا کرو۔آپ بڑی محبت سے ان کو ملتے احوال پوچھتے۔ آخر ایک دن مریدین نے سوال کیا یا حضرت! اس کی وجہ؟ یہ دنیا دار آدمی ہے آپ اتنے ضعیف ہونے کے باوجود

بڑے اہتمام سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تمہیں کیا معلوم کہ میں اس ولی کا احترام کرتا ہوں جو اس ملک مستی خان کی پشت میں ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے ولی پشت میں موجود اولاد کے متعلق بھی جان لیتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آنے والا کتنے بڑے رتبے کا حامل ہو گا۔

اللہ کے ولی کی خدمت میں حاضری برائے حصول برکت: آپ کے والدین اللہ کے برگزیدہ بندوں کے عاشق تھے۔ حضرت غلام محمدبکھڑوی علیہ الرحمہ سے تو ان کو خاص محبت و عقیدت تھی چنانچہ آپ کے والدین آپ کو اور آپ کے بھائی کو ان کی خدمت میں لے گئے۔آپ نے فرمایا کہ اس بچے یعنی حضرت احمد خان کو علم دین سکھانا اور دوسرے بھائی کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ عزت و وقار حاصل کرے گا لیکن جلد زوال پذیر ہوگا۔ آپ کی پیشن گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔ حضرت احمد خان نے دین کا علم سیکھا اور عزت حاصل کی جبکہ دوسرا بھائی دنیاوی عزت و وقار اور رتبے کا حامل ٹھہرا اور تحصیل دار بنا لیکن کسی وجہ سے نوکری سے محروم ہو گیا اور ایک برگزیدہ بندے کی بات سچ ثابت ہوئی۔

تعلیم و تربیت: آپ کی تعلیم کا آغاز بکھڑا شریف کی جامع مسجد سے ہوا جہاں آپ نے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی۔آپ کو مزیدعلم دین سیکھنے کا شوق ہوا چنانچہ بغیر کسی کو بتائے حضرت علامہ عطا محمد قریشی سیلواں (خلیفہ حضرت سراج الدین موسیٰ زئی شریف) کی خدمت میں پہنچ کر علم دین سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ حضرت علامہ نے آپ کا نام و خاندان پوچھا تو دل میں سوچا کہ یہ ملک زادہ ہے اور اچھی خاصی زمیندار فیملی ہے یہ کہاں پڑھے گا۔ چنانچہ آپ نے کہا کہ بیٹے اگر آپ پڑھنا چاہتے

ہیں تو پھر آپ کو یہ بال کٹوانا پڑیں گے۔ پہلے جاؤ اور سر کے بالوں کو صاف کراد و (اس زمانے کے دستور کے مطابق ملک زادے ایک خاص قسم کے بال رکھتے تھے جو بڑے بڑے ہوتے تھے اور انہیں ”پٹے“ کہتے تھے)ان کا خیال تھا کہ یہ اپنی روایت نہ چھوڑے گا اور یوں یہ بلا سر سے ٹل جائے گی۔ لیکن آپ فوراً گئے اور بال کٹوا کر آپ کی خدمت میں حاضرہو گئے۔ اب استاد کو یقین آگیا کہ واقعی یہ بچہ پڑھنے کے لئے آیا ہے۔چنانچہ بڑی تندہی سے آپ کو پڑھانا شروع کر دیا۔

حصول علم دین کی راہ میں مشکلات:تحفہ سعدیہ میں لکھا ہے کہ جو کھانا (نانِ جویں) طلباء کو دیا جاتا تھا وہ آپ کو بھی ملنے لگا اور آپ ذوق و شوق سے پڑھنے لگے گھر والوں کو کسی قسم کی اطلاع بہم نہ پہنچائی۔ خیال تھا کہ اگر انہیں میری اقامت کا پتہ چل گیا تو یہاں سے گھر واپس لے جائیں گے اور سلسلہئ تعلیم منقطع ہو جائے گا غرض آپ نے عربی صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں مولانا عطا محمد قریشی کے درس میں پڑھیں۔ پھر بندیال ضلع خوشاب چلے گئے یہاں ایک مدرسہ میں داخل ہوئے جہاں حضرت مولانا نامی درس دیا کرتے تھے۔ آپ بھی ان کے حلقہئ درس میں شامل ہو گئے۔ اب بھی گھر والوں کو اطلاع نہ دی اور نہ ہی ان سے خرچ مانگا۔ مولانا کے لنگر سے جو کچھ کھانے کو مل جاتا صبر و قناعت سے اسی پر اکتفا کرتے ہوئے بڑے انہماک سے درس و مطالعہ میں مشغول رہتے۔ خود بیان کیاکرتے تھے کہ بندیال میں تعلیم کے دوران کھانا اکثر و بیشتر ایک دن ناغہ کے بعد ملتا تھا وہ بھی جو کی ایک روٹی۔ لیکن تشنگیئ علم ایسی چیز ہے کہ ظاہری اسباب اور دنیوی ساز و سامان کافقدان اس کے سامنے حقیقت نہیں رکھتا۔ صبر و شکر سے اسی تیسرے روز ملنے والی جو کی ایک روٹی پر گزارہ

کرتے۔دینی علوم کے مطالعہ میں شب و روز ایسے منہمک رہتے کہ اشتہائے شکم کا دھیان تک نہ آتا۔ فرماتے تھے کہ اس درجہ انہماک رہتا تھا کہ مجھے گردو پیش کی چیزوں کا احساس نہ ہوتا تھا۔

انہماک مطالعہ کی ایک مثال: فرمایا کہ جب والدین کو میرے بندیال میں تعلیم حاصل کرنے کا علم ہو گیا تووالد صاحب نے بھائی ملک محمد خان کو خیریت احوال معلوم کرنے کے لئے وہاں بھیجا۔ وہ گھوڑے پر سوار بکھڑے سے بندیال پہنچے۔ مدرسہ میں استاد گرامی سے دریافت کیا احمد خان کہا ں ہے؟ استاد محترم نے فرمایا کہ باہر جنگل میں کسی درخت کے نیچے بیٹھا مطالعہ کر رہا ہوگا۔ چنانچہ بھائی صاحب گھوڑے پر سوار میرے قریب آکر دیر تک کھڑے رہے ااور مجھے مطالعہ میں محو ہونے کی وجہ سے کچھ خبر نہ ہوئی۔ وہ آدھ گھنٹہ اسی انتظار میں کھڑے رہے کہ میں کتاب سے نظر ہٹاؤں تو وہ مجھ سے بات کریں بعد میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ آدھ گھنٹہ سے تمہارے پاس کھڑا انتظار کرتا رہا کہ تمہیں اپنی طرف متوجہ پاؤں تو گفتگو کروں۔

تحصیل علم کے لئے ہندوستان کا سفر:بندیال میں آپ عربی کی متوسطات پڑھنے کے بعد تکمیل علم کے لئے ہندوستان چلے گئے۔ پہلے مرا د آباد پہنچے وہاں کچھ عرصہ مدرسہئ شاہی میں پڑھا۔ پھر وہاں سے کان پور تشریف لے گئے یہاں مولانا احمدحسن کانپوری اور مولانا عبید اللہ بکھروی تعلیم فقہ و حدیث دیتے تھے ان حضرات سے آپ نے تکمیل دورہ حدیث کیا۔

بندیال شریف میں زمانہئ طالب علمی ہی میں آپ     حضرت پیر سید لعل شاہ ھمدانی قدس سرہ کے ہاتھ پر بیعت فرما چکے تھے اور سلسلہ نقشبندی کے ذکر و اذکار سے بہرہ یاب ہو چکے تھے۔ان کے وصال کے بعد ان کے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر تجدید بیعت کے لئے درخواست گزار ہوئے۔انہوں نے آپ کو تسلی دی اور فرمایا کہ شاہ صاحب کے سب مرید ان کے شیخ کے مرید ہیں آپ فی الحال حصول علم دین پر توجہ دیں۔آپ اپنے شیخ طریقت کے حکم کی تعمیل کے بعد پھر حاضر ہوئے اور راہ سلوک کی منازل کو طے کیا اسی دورا ن خواجہ محمد عثمان دامانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے پردہ فرما لیا توآپ نے ان کے صاحبزادے حضرت خواجہ سراج الدین قدس سرہ سے تجدید بیعت کی۔

مواہب رحمانیہ میں آپ کا تذکرہئ بیعت و خلافت: آپ نے پہلے پہل حضرت مولانا خواجہ محمد عثمان دامانی علیہ الرحمہ سے بیعت کی۔ اسی سال حضرت کا انتقال ہو گیا تو حضرت خواجہ محمد سراج الدین صاحب مسند ارشاد پر رونق افروز ہوئے تو پھر ان سے تجدید بیعت کی اور ان کی زندگی میں ان ہی سے کسب سلوک کرتے رہے اور آپ کو مقاماتِ سلوکِ مجددیہ کے طے کرنے کا بے حد شوق تھا چنانچہ ایک دفعہ حضرت خواجہ سراج الاولیا نے آپ کو فرمایا کہ مولوی احمد خان تم اگر مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے اختتام تک یہاں فقیر کے پاس رہو گے تو انشاء اللہ آپ کو مکتوبات شریف پڑھاتے وقت فقیر مکتوب پر آپ کو توجہ دیتا رہے گا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ نے سلوک سلاسلِ اربعہ نقشبندیہ قادریہ چشتیہ سہروردیہ آپ ہی سے مکمل طے کیا اور حضرت نے مولوی صاحب کو آخر میں خلافت عظمیٰ سے مشرف فرمایا۔غرض آپ نہایت گرم جوشی کے ساتھ صحبت شیخ میں مقامات عالیہ کا  اکتساب کر رہے تھے اور حضرت خواجہ بھی بے حد دلنوازی و جانفشانی کے ساتھ کرم گستری اور فیض رسانی میں پیش پیش تھے۔

پیدل سفر: آپ کے رابطہئ روحانی کا یہ عالم تھا کہ آپ کا بار بار بکھڑے سے موسیٰ زئی شریف پا پیادہ سفر کرنا حضرت خواجہ سراج الدین قدس سرہ کو شاق گزرتا تھا لہذا ایک روز فرمایا مولانا! آپ پیدل سفر نہ کیا کریں کیونکہ بکھڑے سے یہاں تک جو قدم آپ زمین پر رکھتے ہیں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے قلب پر پڑتا ہے۔ اس فرمان کے پیش نظر آپ ڈیرہ اسماعیل خان تک سواری پر جانے لگے لیکن وہاں سے موسیٰ زئی شریف کا سفر پھر بھی پا پیادہ ہی طے کرنا پڑتا تھا اور اس زمانہ میں وہاں اونٹ کے سوا کوئی دوسری سواری دستیاب نہ تھی۔

شیخ کی خصوصی توجہ: حضرت خواجہ سراج الدین قدس سرہ آپ کو سرگرم طلب دیکھ کر ہمیشہ کرم نوازی فرماتے اور آپ پر دامن رحمت کشادہ رکھتے تھے۔جس قدر آپ کی طلب روز افزوں ہوتی جاتی تھی اسی قدر حضرت خواجہ کی طبیعت میں گرمی اور جوش بڑھتا تھا چنانچہ اس خاص کیفیت کا اظہار حضرت خواجہ نے برملا طور پر ان الفاظ میں فرمایا”اس زمانہ میں طالبان صادق کے ناپید ہوجانے کی وجہ سے طبیعت سرد ہو گئی تھی۔ بسا اوقات خیال آتا تھا کہ کاروبارمشیخت ترک کر دیا جائے لیکن اب مولوی احمد خان کے آجانے سے طبیعت میں گرمی آ گئی ہے“ اس کے بعد آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”من پیری و مریدی برائے تومی کنم“ یعنی سلسلہئ مشیخت تمہارے لئے جاری رکھا ہے۔

ذکر و شغل میں سرگرمی: آپ اپنے عالم درویشی میں حضرت  خواجہ سراج الدین قدس سرہ کے الطاف و عنایات کے زیر اثر ذکر و شغل میں اس درجہ منہمک اور مشتغل رہتے تھے کہ ذکر الٰہی سے اندرونی حرارت بڑھ گئی تھی اور اس کے آثار جسم مبارک پر اس قدر نمودار تھے کہ موسم سرما میں اگر جمے ہوئے گھی کا پیالہ آپ کے سینہ مبارک پر رکھ دیا جاتا تو گھی پگھل جاتا تھا۔ذکر کی کثرت سے تسبیح کا مضبوط سے مضبوط دھاگا دوچار روز ہی میں بوسیدہ ہو کرٹوٹ جاتا تھا اور پھر نیا دھاگا ڈالنا پڑتا تھا۔

خدمت شیخ کا بے مثال ذوق: خدمت شیخ کی بجا آوری میں سرشاری و ہمت کا یہ حال تھا کہ سردی کے موسم میں تمام رات صرف ایک ململ کا کرتہ پہنے شیخ کے دروازہ کے باہر کھڑے ہو کر ذکر و شغل میں مصروف رہتے تھے اور اسی آرزو میں ایستادہ رہتے کہ شیخ جب حویلی سے باہر تشریف لائیں تو پہلی نگاہ مجھی پر پڑے اور اس دن کی پہلی خدمت بجا لانے کا شرف بھی مجھی کو حاصل ہو۔خدمت آب کشی: فرماتے ہیں کہ ان دنوں میری جسمانی قوت کا یہ عالم تھا کہ بھرا ہوا پانی کا گھڑا انگوٹھے اور انگلی سے پکڑ کر اٹھا لیتا اور اسے منہ سے لگا کر پانی پی لیا کرتا تھا۔ سون سکیسر میں قیام کے دوران پانی پہاڑی چشمہ سے لانا ہوتا تھا اور چشمہ اقامت سے دور اور کافی نیچے تھا دومشکیزے جن میں سے ہر ایک میں سات سات گھڑے پانی آتا تھا نیچے چشمہ سے بھر کر اپنے کندھوں پر اٹھاتا اور ننگے پاؤں دوڑتا ہوا اوپر خانقاہ میں لے آتا تھا اور اس طریق سے پورے لنگر کے لئے پانی کا ذخیرہ کر دیا کرتا تھا۔ دوسرے درویش دو مشکینرے تو درکنار ایک بھی اٹھانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔

حیرت انگیز روحانی قوت اور جسمانی توانائی: حضرت خواجہ سراج الدین قدس سرہ نے سون سکیسر کے پہاڑی علاقہ میں بھی اپنی ایک اقامت گاہ (خانقاہ) تعمیر کرائی تھی۔ موسم گرما میں اکثر وہاں تشریف لے جاتے اور درویشوں کا ایک بڑا قافلہ بھی ساتھ ہوتا تھا۔ حضرت خواجہ سراج الدین قدس سرہ اس طویل راستے کو ڈیپ یا خوشاب سے اسپ سوار طے کرتے اور آپ اپنے پیر و مرشد کے ساتھ پا پیادہ ہوتے تھے۔ مٹی کے چند ڈھیلے اور پانی کا کوزہ ہاتھ میں لئے حضرت خواجہ سراج الدین قدس سرہ کے گھوڑے کے آگے آگے دوڑا کرتے تھے کہ نہ معلوم کس وقت حضرت خواجہ سراج الدین قدس سرہ کو حاجت پیش آئے اور مٹی کے ڈھیلے اور پانی کی ضرورت پڑ جائے۔درویشوں کا باقی قافلہ جو باربردار اونٹوں اور پیادوں پر مشتمل ہوتا تھا بہت پیچھے رہ جاتا تھا۔ یہ فاصلہ بھی کوئی دو چار میل کا نہ تھا بلکہ 35 یا 40 میل کی مسافت تھی جسے آپ دوڑتے ہوئے قطع کرتے تھے۔

خانقاہ سراجیہ کا قیام: آپ بکھڑا سے نقل مکانی کرکے کھولا شریف آگئے لیکن اسے بھی دریا برد ہونے کی وجہ سے چھوڑنا پڑا چنانچہ آپ نے اپنی وراثتی زمین پر خانقاہ سراجیہ کی بنیاد رکھی۔یہاں ایک شاندار مسجد بنوائی اور درویشوں کے لئے رہائش کے کمرے، تسبیح خانہ اور کنویں کا بندوبست فرمایا۔ آپ کو کتابوں سے بے حد محبت تھی۔ آپ نے جگہ جگہ سے کتابیں خرید کیں اور آہستہ آہستہ ایک شاندار لائبریری بن گئی آج بھی اس لائبریری کا شمار پاکستان کی چیدہ چیدہ بڑی ذاتی لائبریریوں میں ہوتا ہے۔

 ولی اللہ کے مزار پر حاضری کے لئے سفر جائز ہے (سفر سر ہند شریف): اولیائے کرام کے مزارات سے فیض حاصل کرنا بھی بزرگان دین کا معمول رہا ہے۔ مولانا احمد خان بھی حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضری کے لئے سر ہند شریف تشریف لے گئے وہاں کے واقعات کو تحفہ سعدیہ میں یوں بیان کیا گیا ہے ”امام ربانی قدس سرہٗ کے مزار مبارک پر مراقبہ کے دوران صوفی محمد مواز خان صاحب نے یہ خصوصی واقعہ دیکھا کہ کچھ کرسیاں اور تخت لا کر لگائے گئے اور ان پر رنگا رنگ ریشمی کپڑے کے تخت پوش جن میں جھالر سبز تھے، بچھائے گئے۔ اس کے بعد امام ربانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ تشریف لائے آپ ہاتھ میں ایک خوشنما اور اعلیٰ جبہ لئے ہوئے تھے آپ نے وہ جبہ تخت پہ لا کر رکھ دیا اور مولانا احمد خان کو پاس بلا کر یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ کو تکلیف دی کہ یہاں بلایا دراصل ہمارے پاس آپ کی یہ امانت تھی جسے آپ کے سپر د کرنا ضروری تھا۔ یہ فرما کر آپ کو کرسی پہ کھڑا کیا اور خود حضرت امام ربانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ خلعت خاصہ آپ کو پہنا دیا جو آپ کے جسم پر راست آیا اور بے حد حسین و زیبا دکھائی دیا۔ جبہ مبارک کے ساتھ ایک مرصع اور زرنگار تاج تھا جو حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کے سر مبارک پر رکھ دیا علاوہ ازیں یہ دیکھا کہ تختوں پر کنجیوں کے انبار لگے ہوئے تھے وہ کنجیاں بھی سب کی سب آپ کے حوالے کر دی گئیں۔صوفی مواز خان نے یہ واقعہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ خلعت نسبت خاصہئ مجددیہ اور منصب قیومیت کا ہے جو آپ کو پہنایا گیا ہے۔ اس کے بعد مراقبہ ختم ہو گیا اور آپ اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے۔ صوفی مواز خان کو ارشاد فرمایا کہ پانی کا ایک کوزہ لے لو ہمیں باہر جانا ہے۔ چنانچہ مواز خان صاحب پانی کا ایک کوزہ اٹھا کر حضرت کے ساتھ ہو لیے۔ حدود خانقاہ سے باہر تشریف لے گئے اور واپسی پر مواز خان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میاں مواز خان! کوئی بات دیکھی ہو تو

بتاؤ انہوں نے مراقبہ کے دوران جو مشاہدہ کیا اسے یوں بیان کیاجب ہم سب خدام حضور والا کے ساتھ حضرت خواجہ محمد معصوم رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار پر مراقب تھے تو خادم کو یہ نظر آیا کہ نور کا ایک ستون ہے جس کا اوپر کا سرا آسمان میں پیوست ہے اور نیچے کا سرا حضرت خواجہ محمد معصوم رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار اقدس میں اترا ہے۔ پھر جب حضرت امام ربانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار مقدس پر مراقبہ ہو رہا تھا تو عطائے خلعت خاصہ کا منظر دیکھا اور پورا واقعہ تمام جزئیات کے ساتھ عرض کر دیا یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ تم نے بالکل درست دیکھا ہے اور بالکل صحیح دیکھا ہے“۔

کشف و کرامات (اولیائے کرام کی توجہ سے عذاب قبر ٹال دیا جاتا ہے): مولوی عبدالستار نے بیان کیا کہ ہم حضرت غلام محمد قادری چشتی کا جنازہ لے کر ان کی ذاتی زمین میں تدفین کے لئے پہنچے۔ قبرستان پاس ہی تھا قبر ابھی کھودی جارہی تھی لہذا جنازہ وہاں رکھ کر ہم سب بیٹھ گئے۔ موصوف نے ایک قبر کے پاس بیٹھ کر مراقبہ کیا اور دیکھا کہ کہ قبر میں مدفون شخص آگ میں جل رہا ہے یہ دیکھ کر ان کو پسینہ آگیا اور چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ مولانا احمد خان قریب ہی تشریف فرماتھے چنانچہ کسی نے اس مشاہدے کو آپ تک پہنچا دیا تو آپ نے بنفس نفیس وہاں مراقبہ کیا۔ خصوصی توجہ مبذول فرمائی اوریوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا نصف عذاب دور کر دیا ہے اب اس کے پسماندگان سے کہو کہ وہ اسے ختم قرآن شریف کا ایصال ثواب کریں جس سے باقی عذاب بھی ٹل جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے ارشادکے مطابق عمل کیا۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے دوبارہ اس شخص کی قبر پر مراقبہ کیا تو دیکھا کہ اس سے عذاب الٰہی دور ہو گیا اور وہ جنت میں مقیم ہے۔

آپ کے مریدین اور عقیدت مند آپ سے بہت محبت رکھتے تھے چنانچہ تھل کے علاقہ میں آپ کے لئے پنجابی شعر ماہیا کی شکل میں پڑھے جاتے تھے۔ جن سے ان لوگوں کی محبت و عقیدت جھلکتی ہے ملاحظہ ہو

پانی بھردی آن ڈولاں تے             اوہ غم کیوں کر دے جیندا مرشد کھولاں تے

وصال: آپ آخری عمر میں متعدد امراض کا شکار ہو گئے جن میں دمہ کا مرض زیادہ شدید تھا۔ آپ مختلف حکماء کے زیر علاج رہے لیکن افاقہ نہ ہوا۔ آخر دہلی کے مشہور نابینا حکیم عبدالوھاب سے علاج کے لئے دہلی تشریف لے گئے لیکن ان کے علاج نے بھی فائدہ نہ دیا۔ آپ کو کان پور کے ایک ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا لیکن وہیں 14 مارچ 1941 کو یہ آفتاب علم و عرفان عمر کی63 منزلیں طے کر کے کان پور کے افق میں غروب ہوگیا۔ آپ کی قبر مبارک انتہائی سادہ حالت میں خانقاہ سراجیہ میں ہے۔ آپ کے بے شمار خلفاء ہوئے لیکن افسوس صد افسوس کہ ان بزرگوں کے عقائد سے یکسر مختلف عقائد رکھنے کی وجہ سے اتنی بڑی شخصیت کے کارناموں کو صحیح طور پر روشناس نہیں کرایا گیا۔

حوالہ جات: (۱) تحفہ سعدیہ (۲) رسالہ بادبان ستمبر 1981 (۳) تذکرہ اولیائے دیو بند(۴) مواہب رحمانیہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top