مولانااحمد خان نیازی کوٹانے خیل رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ (روکھڑی)
تحریر-سید طارق مسعود کاظمی-مصنف کتاب سرزمین اولیا میانوالی
آپ کی پیدائش میانوالی سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹے سے گاؤں روکھڑی میں تقریباً1877 ء کے لگ بھگ ہوئی۔ آپ میانوالی کے مشہور نیازی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے والد محترم کا نام شیر خان تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم مولوی شمس الدین صاحب سے روکھڑی میں حاصل کی۔ اس کے بعد مشہور و معروف عالم دین مولانامحمد اکبر علی میروی میانوالی کی خدمت کر کے دین کا علم حاصل کیا۔کچھ کتابیں آپ نے مولوی محمد حیات مندہ خیلوی سے بھی پڑھیں۔ اس کے بعد سہارن پور جاکر علوم دینیہ کی تکمیل کی اور واپس ہوئے۔
مرشد کی تلاش: ان دنوں حضرت پیر فتح محمد بھوروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولایت کے چرچے تھے۔ آپ بھی ان کے زہد و کمال کی باتیں سن کر آپ کی خدمت میں جا پہنچے اور بیعت کر لی۔پیر صاحب بھوروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے صاحبزادے محمد صدیق صاحب موجودہ سجادہ نشین کا استاد مقرر کیا۔آپ نے مولانا محمد یعقوب سلطان خیل، مولانا محمد سعید ماڑی انڈس اور مولانا مرید احمد کے ساتھ مل کر بھور شریف مدرسہ میں اور طلباء کے ساتھ ساتھ حضرت محمد صدیق صاحب کو دینی تعلیم دی۔اس کے علاوہ آپ ان کی بچیوں کے بھی استاد ہیں۔ آپ نے چار سال اپنے مرشد کی خدمت کی اور پھر آپ کو حضرت پیر فتح محمد بھوروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے 1941 میں خلافت عطا فرمائی۔
جامعہ اکبریہ میانوالی میں تدریس: آپ اپنے استادد مولانامحمد اکبر علی میروی کے حکم کے مطابق اپنے پیر و مرشد کی اجازت سے جامعہ اکبریہ کے استاد مقرر ہوئے۔آپ کا معمول تھا کہ ہر روز روکھڑی سے پیدل 10 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے مدرسہ آتے اور طلباء کو پڑھاتے اور پھر سہ پہر کو واپس پیدل چل کر روکھڑی اپنے گھر تشریف لے جاتے تھے۔جامعہ اکبریہ میں تدریس کے دوران آپ کوئی تنخواہ یا اعزازیہ نہیں لیتے تھے فی سبیل اللہ دین کی خدمت کرتے۔
شریعت کی پاسداری: آپ کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ شرعی امور میں آپ بہت محتاط تھے۔ جامعہ اکبریہ میں قیام کے دوران آپ مدرسہ کا کھانا نہیں کھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے میں صاحب حیثیت زمیندار ہوں اور مدرسے کی معاونت کے لئے زکوٰۃ و صدقات کا پیسہ آتا ہے اس لئے میرے لئے اس کا کھانا پینا جائز نہیں ہے۔آپ کثرت کے ساتھ ساتھ اللہ اللہ کا ذکر کرنے والے تھے اور اکثر اپنے وظائف و اذکار میں دن گزارتے تھے۔ اسی کثرتِ ذکرواذکار کے سبب آپ ٹی بی جیسے مہلک مرض مں متبلا ہوئے۔ علم و عمل کا یہ چراغ آخرکار زندگی کے تقریباً70 سال گزارنے کے بعد 15 نومبر1947 کو بجھ گیا۔آپ کا مزار روکھڑی قبرستان میں ہے۔
آپ کے چار بیٹے ہوئے۔ حاجی غلام اکبر خان، حاجی محمد امیر خان، حاجی محمد اسلم خان اور محمد اقبال خان۔ آپ کے صاحبزادے حاجی محمد اسلم خان صاحب جماعت اہل سنت پاکستان کے روح رواں ہیں۔ آپ مولانا عبدالستار خان نیازی مرحوم کے آخر دم تک رفیق رہے اور آخر کار مولانا نیازی مرحوم کی آخری آرام گاہ بھی محمد اسلم خان صاحب کے گھر کے قریب بنی۔ آپ عملی سیاست میں بہت محرک ہیں اور میانوالی کی جماعت اہل سنت کے لئے آپ کی شخصیت ایک شجرِ سایہ دار کی سی ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ اس مضمون کی تیاری میں مولانا احمد خان روکھڑی کے پوتے عطاء اللہ خان بن محمد امیر خان نے خصوصی تعاون فرمایا ہے۔
فتح مبین۔