MERA MIANWALI – JULY 2025منورعلی ملک کے     جولائی 2025 کے فیس  بک   پرخطوط

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محرم میں نیاز کا اہتمام ہر گھر میں ہوتا تھا۔ اہل تشیع ، اہل سنت ، سب لوگ حسب توفیق نیاز کا اہتمام کرتے تھے ۔ہمارے علاقے میں گڑ والے چاول نیاز کا مخصوص مینیو ہوا کرتا تھا۔ یہ نہایت لذیذ خوراک صرف محرم ہی میں بنتی تھی۔چاول گھروں میں بھیجنے کا رواج نہ تھا۔ کہتے تھے یہ نیاز کی توہین ہوگی۔ جس کو نیاز کھانی ہے ادھر ہی آکر جتنا جی چاہے کھا لے۔ڈھیر امید علی شاہ کے سردار سادات نیاز میں بڑی مقدار میں خالص دیسی گھی اور گڑ کا دودھی والا حلوہ بنواتے تھے۔۔ ایک دو دفعہ یہ حلوہ کھانے کا اتفاق ہوا، بہت لذیذ چیز ہوتا تھا۔نیاز کو امام عالی مقام کا لنگر کہا جاتا تھا اس لیئے نیاز کھانا سعادت سمجھا جاتا تھا ۔  2       جولائی 2025

یکم سے چھ محرم تک مجالس عزا دن میں منعقد ہوتی تھیں۔ 7 سے 9 محرم تک شام کے بعد ۔۔۔۔ ان آخری دنوں میں پانی کی بندش ، سادات کے مصائب، شہزادہ قاسم ، شہزادہ علی اکبر ، معصوم شہزادہ علی اصغر اور غازی عباس علمدار کی شہادتوں کا بیان ہوتا تھا۔ سانحہ کربلا کے یہ آخری دن درد و الم سے لبریز تھے۔ ان کے ذکر پر لوگ زاروقطار روتے تھے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ہر شہادت بے مثال تھی۔ اصغر معصوم سے لے کر امام عالی مقام تک خانوادہ رسالت کے ہر فرد نے اپنے خون سے تاریخ کا ایک ایک باب رقم کر دیا۔

10 محرم کو ظہر کے وقت امام عالی مقام کی شہادت کا بیان عشرہ ماہ محرم کا اختتامی بیان ہوتا تھا۔ سامعین آہوں اور اشکوں کی برسات میں عشرہ محرم کو الوداع کہتے تھے۔  3       جولائی 2025

پاکستان کے چوٹی کے دو ذاکر میانوالی سے تھے۔ موچھ سے سید ریاض حسین شاہ اور مہرشاہ والی نزد کمر مشانی سے سید خادم حسین شاہ پاکستان بھر میں مشہور و معروف تھے۔ دونوں کی آواز میں بے پناہ سوز تھا ۔ یہ سوز حب اہل بیت کی عطا تھا۔ ان کی آواز سنتے ہی لوگ زاروقطار رونا شروع کر دیتے تھے ۔ مصائب اہل بیت کا بیان بہت رقت انگیز انداز میں کرتے تھے۔ ان کے دور میں کوئی اور ذاکر ان کے مقابلے کا نہ تھا ۔ ملک بھر میں ان کی دھوم تھی۔  4       جولائی 2025

تلہ گنگ کے سید نذر حسین شاہ بھی ریاض حسین شاہ آف موچھ اور خادم حسین شاہ آف مہر شاہ والی / چک 38 کے ہم پلہ ذاکر تھے، مگر عین جوانی میں ذہنی توازن سے محروم ہو کر گھر بیٹھ گئے ۔۔

کچھ لوگ کہتے تھے کسی دشمن نے ان پر جادو کر دیا تھا۔۔ ذہنی توازن سے محرومی کی وجہ سے تلہ گنگ کے لوگ انہیں نذر شاہ جھلا ( پاگل) کہتے تھے ۔بچپن میں انہیں داؤدخیل میں ایک مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے سنا تھا۔ بہت سمارٹ ، حسین و جمیل ، خوش آواز اور خوش بیان نوجوان ذاکر تھے۔انہیں دوسری بار کئی سال بعد تلہ گنگ کی ایک مجلس عزا میں دیکھا۔ تلہ گنگ میرے سسرال کا شہر ہے۔ ایک دفعہ محرم میں اپنے محلے کی ایک مجلس عزا میں شرکت کا موقع ملا ۔ مجلس جاری تھی کہ اچانک شاہ جی (سید نذر حسین شاہ) باہر سے آئے اور سیدھے جاکر سٹیج پر کھڑے ہو گئے۔

جو ذاکر خطاب کر رہا تھا وہ احتراما پیچھے ہٹ گیا۔ شاہ جی نے شہزادہ معصوم علی اصغر کی شہادت کے موضوع پر مختصر سا خطاب کیا۔ اگر چہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے مگر آواز کا سوز اور انداز بیاں کا حسن اب بھی برقرار تھا۔ رو رو کر لوگوں کا برا حال ہو گیا۔اس مختصر خطاب کے بعد شاہ جی خاموشی سے جس طرح آئے تھے اسی طرح اچانک واپس چلے گئے ۔لوگ بتا رہے تھے کہ ویسے تو شاہ جی گھر سے باہر کم ہی نکلتے ہیں۔ کبھی کبھار لہر میں ہوں تو شہر کی کسی مجلس عزا سے مختصر سا خطاب کر کے حاضری لگوا لیتے ہیں۔5       جولائی 2025

انداز خطابت بیٹی کو بابا سے ملا تھا ورثے میں،

دربار پہ لرزہ طاری تھا جب بول رہی تھیں بنت علی

شام سکینہ۔۔۔۔۔۔ اپنا کلام

لوگ کہتے ہیں شام غریباں

ہے یہ دراصل شام سکینہ

آج مٹی پہ سوئی ہے معصوم

جس کا بستر تھا بابا کا سینہ   –  6       جولائی 2025

بارانی علاقے میں گندم کی فصل کے لیئے ساون کی بارشیں بہت اہم ہوتی تھیں۔ آبپاشی کا کوئی اور ذریعہ تو تھا نہیں ۔ اس لیئے ساون کی بارشوں کے پانی کی نمی کو زیر زمین محفوظ کر کے اسی میں گندم کاشت کی جاتی تھی ۔ زمین کی سطح کے قریب زیر زمین نمی کو وتر کہتے تھے۔ وتر کو دو تین ماہ کے لیئے اس طرح محفوظ کیا جاتا تھا کہ یہ اکتوبر نومبر میں گندم کی فصل کی کاشت تک برقرار رہتا تھا۔

ساون کی بارشوں سے پورا پورا فایدہ حاصل کرنے کے لیئے بارش شروع ہوتے ہی کسان اپنے اوزار لے کر کھیتوں کا رخ کرتے تھے۔ تیز بارش سے بچنے کے لیئے سر پر خالی بوری لپیٹ لیتے تھے۔

وتر کو محفوظ کرنے کے لیئے ان کی اپنی سائنس تھی ۔ ساون کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے کھیتوں میں ہل چلا کر زمین کی سطح کو نرم کر دیتے تھے تاکہ یہ زیادہ پانی جذب کر سکے۔ بارشوں کے بعد لکڑی کے تختے سے زمین کو ہموار کر دیتے تھے ۔ اس عمل کو پھلا مارنا کہتے تھے ۔ اس سے زیر زمین نمی محفوظ ہو جاتی تھی ۔

سال بھر تمام ضروریات زندگی گندم بیچ کر خریدی جاتی تھیں، اس لیئے زیادہ سے زیادہ گندم پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ کھاد وغیرہ تو اس زمانے میں ہوتی نہیں تھی صرف پانی ہی کی مدد سے زیادہ فصل حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ-7  جولائی  2025

ہر سال اس موسم میں ہم پروفیسر لوگوں کا ایک قافلہ میانوالی سے پروفیسر فاروق صاحب کی گاڑی میں چشمہ بیراج کے پار بلوٹ شہر سے کچھ آگے ضلع ڈی آئی خان کے ڈھکی نامی گاؤں جایا کرتا تھا۔ پروفیسر فاروق, پروفیسر پیر محمد اقبال شاہ ، پروفیسر محمد سلیم احسن ،پروفیسر مقصود احمد اور میں اس قافلے کے مستقل رکن تھے۔ڈھکی کھجور کی مشہور و معروف منڈی ہے۔ یہاں کھجور کے کئی باغات ہیں۔ مقامی لوگ بتاتے تھے کہ یہاں 24 قسم کی کھجور پیدا ہوتی ہے۔۔ لیکن ڈھکی کی سپیشل کھجور سائیز اور ذائقے میں سب سے اعلی تھی۔ لوگ دور دور سے یہ کھجور خریدنے کے لیئے ڈھکی آتے تھے۔

کھجور کی شہرت بڑھی تو لاہور ، فیصل آباد اور سرگودھا سے تاجر یہاں سے ٹرکوں میں کھجور بھر کر لے جانے لگے۔ وہ چونکہ قیمت زیادہ دیتے تھے اس لیئے ڈھکی کے تاجروں نے مقامی لوگوں کے ہاتھ کھجور فروخت کرنا بند کر دیا۔کھجور کی تیاری اور فروخت کے مرکز کو کھوڑی کہتے تھے ۔ ہم لوگ شاہجہان خان کی کھوڑی سے کھجور خریدتے تھے ۔ شاہجہان خان سے ہماری دوستی ہو گئی ۔۔ بہت وضعدار اور مہمان نواز انسان تھے۔۔ چائے پانی سے ہماری خاطر تواضع بھی کرتے اور کھجور کی قیمت میں اچھی خاصی رعایت بھی کر دیتے تھے۔

جب ہم لوگ ریٹائر ہو کر ادھر ادھر بکھر گئے تو ڈھکی آنے جانے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تو صرف ان دنوں کی حسین یادیں ہی دامن میں باقی رہ گئی ہیں۔9       جولائی 2025

رب کریم نے بڑے گناہوں سے   تومحفوظ رکھا البتہ چھوٹے موٹے گناہ ہم سے بھی سرزد ہوتے رہے۔ ان میں ایک گناہ بٹیر بازی تھا۔ داؤدخیل کے اکثر لوگ اس شوق میں مبتلا تھے۔۔بزرگوں میں غلام مصطفی خان خانے خیل، ماسٹر دراز خان ، ہمارے کزن محمد عظیم ہاشمی اور ہدایت اللہ سنار داؤدخیل کے سینئیر بٹیر باز تھے ۔ چاچا گھیبہ سنار کی دکان ان بٹیر بازوں کی بیٹھک تھی جہاں بیٹھ کر وہ دن بھر اپنے اپنے بٹیروں کے فضائل بیان کرتے رہتے تھے۔  ہر اتوار کو نہر کے کنارے

بٹیروں کا ون ڈے میچ ہوتا تھا جس میں ماڑی انڈس ،موچھ اور پائی خیل کے سینیئر بٹیر باز بھی شریک ہوتے تھے۔ بٹیروں کی لڑائی پر سینکڑوں روپے کی بازیاں لگتی تھیں۔  ہم بچہ لوگ بازیاں تو نہیں لگا  سکتے تھے ، صرف شوق پورا کرنے کے لیئے بٹیر لڑا کر دل بہلا لیتے تھے۔بدلتے وقت کے ساتھ وہ کلچرہی ختم ہو گیا۔  10       جولائی 2025

ضلع میانوالی کے بارے میں ہم   لوگ فخر سے کہاکرتے ہیں کہ باہر سے جو بھی سرکاری ملازم یہاں آتا ہے روتا ہوا آتا ہے اور یہاں سے جاتے وقت بھی روتا ہوا رخصت ہوتا ہے۔اتے ہوئے رونا اس بات کا کہ ہائے مجھے اتنی دور کیوں بھیج دیا گیا ، اور جاتے ہوئے رونا اس بات پر کہ اتنے اچھے لوگوں سے دور جانے کو جی نہیں چاہتا ، اسی لیئے میانوالی کو سرکاری ملازمین کی جنت بھی کہتے تھے۔

یہ بہت بڑی بات ہے کہ آپس   میں ہم لوگ جتنے بھی لڑتے جھگڑتے رہیں باہر سے آنے والے لوگوں کو اپنے مہمان سمجھ کر ان کی دل و جاں سےخدمت اور ان سے بھرپور تعاون کرتے ہیں ۔ یوں ان لوگوں سے لازوال دوستی بن جاتی ہے ۔

اس دوستی کی تازہ ترین   مثال حال ہی میں ڈاکٹر محمد آصف مغل کی وفات پر دیکھنے میں آئی ۔ ان کی موت کادکھ ہر سطح پر محسوس کیاگیا۔

ڈاکٹر محمد آصف مغل لاہور کے رہنے والے تھے۔سکندر آباد ہسپتال میں پندرہ بیس سال خدمات سر انجام دیتے رہے ۔لوگ ان کے حسن اخلاق کے گرویدہ تھے۔ بہت مہمان نواز اور دوست دار انسان تھے۔ڈاکٹر صاحب بہت اچھے شاعر بھی تھے ۔ ان کے مجموعہ کلام کا تعارف میں نے لکھا تھا۔ ان کی اہلیہ ڈاکٹر لبنی آصف بھی بہت اچھی شاعرہ تھیں ۔میانوالی کے ادبی حلقوں میں ڈاکٹر صاحب بہت معروف و محبوب شخصیت تھے۔۔یہاں کے ادبی حلقوں میں بھی ڈاکٹر صاحب کی وفات پر سوگ منایاگیا۔ چند سال قبل سکندر آباد سے ریٹائر ہو کر لاہور چلے گئے ۔ گردوں کا مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ 8 جولائی کو لاہور میں ان کی تجہیز و تکفین میں بھی ضلع میانوالی سے بہت سے لوگ شریک ہوئے   رب العالمین بلند درجات عطا فرمائے ۔ہمارے بہت پیارے دوست تھے  –    11       جولائی 2025

کالاباغ کے کرم اللہ پراچہ میرے بہت مہربان دوست تھے۔ان سے دوستی سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں شروع ہوئی جہاں وہ ہر رات چکوال گروپ کے خلاف تاش کےمیچ میں   میرے پارٹنر ہوتے تھے۔ٹریننگ کالج سے بی ایڈ کی   ڈگری لینے کے بعد کرم اللہ پراچہ صاحب گورنمنٹ ہائی سکول کالاباغ کے ہیڈماسٹر متعین ہوئے ۔ میں جب بھی کالاباغ جاتا زیادہ تروقت پراچہ صاحب کے ساتھ گزارتا تھا۔ سکول میں وہ مجھے کہتے میری دسویں کلاس کو انگلش کی فلاں چیز پڑھائیں۔ خود کلاس میں پچھلے بنچوں پر بیٹھ کر میرا لیکچر سنتے تھے۔کہاکرتے تھے میں بھی انگلش کابہت اچھا ٹیچر ہوں مگر تم سے ڈرتا ہوں۔

کرم اللہ صاحب سے میں نے کالاباغ کی تاریخ اور جغرافیہ کے بارےمیں بہت کچھ سیکھا ۔

پراچہ صاحب کالاباغ کے ایک بڑے کاروباری خاندان کے فرد تھے۔ ان کے والد محترم کے نام سےان کا کاروباری ادارہ امان اللہ اینڈ سنز تحصیل عیسیٰ خیل میں ڈالڈا گھی ، لکس صابن اور کئی دوسرے مشہور برانڈز کی چیزیں سپلائی کرتا تھا۔ کرم اللہ صاحب نے مجھے اپنے پورے خاندان سے متعارف کرا دیا ۔ وہ سب مجھے اپنے گھر کا فرد سمجھتے تھے ۔  کینسر کے مرض میں مبتلا ہو  کر پراچہ صاحب پچاس سال کی عمر میں ہم سے ہمیشہ کیلیے جدا ہو گئے۔ بہت عرصہ بعد ان کے صاحب زادے غضنفر ایک دن مجھے ملے تو مجھ سے گلے لگ کر بہت روئے۔ کہنے لگے انکل آپ کو دیکھ کر ابو یاد آ گئے۔ایساکہاں سے لائیں کہ تم ساکہیں جسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔  12       جولائی 2025

جس زمانے میں میں داؤدخیل  ہائی سکول میں انگلش ٹیچر تھا، ایک دن ڈاکیا سںکول کی ڈاک لایا تو تھیلے میں سے ایک خط نکال کر ہمیں دکھاتے ہوئے کہا سر جس آدمی کا نام لفافے پر لکھا ہواہے، اس نام کا کوئی بندہ شہر میں نہیں مل رہا ۔اس خط کا کیا کروں ۔  ہمارے ساتھی غلام مرتضیٰ خان نے کہا اس بندے کی پہچان کا ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے۔ خط کھول کر دیکھ لیتے ہیں ، شاید کچھ اتا پتہ خط میں مل جائے

خط کھول کر دیکھا تو معلوم  ہوا یہ خط قبائلی علاقے کی کسی خاتون نے اپنے شوہر کے نام لکھا ہے۔ خط کا آغاز یہ تھا تم جیسا داؤس آج تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ جب سے تم گیا ہے تم نے ادھر ایک پیسا بھی نہیں بھیجا۔  اس کے آگے گالیوں کی لمبی  قطار تھی۔ گالیوں کے الفاظ یاد نہیں آ رہے۔ یاد آ بھی  جائیں تو لکھ نہیں سکوں گا ۔ہم نے ڈاکیئے سے کہا خط اپنے پاس رکھ لو ، شاید اس خط کا مالک اسے وصول کرنے کے لیئے پوسٹ آفس پہنچ جائے۔ہم یہ سوچ کر حیران ہوتے رہے    کہ خدا جانے بیوی کے ہاتھوں ان بھائی صاحب کا کیا حشر      ہوگا۔  13       جولائی 2025

دسویں سالگرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للّہ الکریم ، فیس بک پر میری آمد کی آج دسویں سالگرہ ہے۔ جولائی 2015 میں میں نے اپنے بیٹے محمد اکرم علی ملک کے اصرار پر اس وادی میں قدم رکھا۔میں سمجھتا تھا یہ بچوں کا شغل ہے ، ہم جیسے بزرگوں کی یہاں آمد رنگ میں بھنگ والی بات ہوگی۔

مگر یہاں جس والہانہ انداز میں میرا استقبال کیا گیا اسے دیکھ کر معلوم ہوا کہ لوگ تو میری آمد کے منتظر تھے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے ہزاروں سٹوڈنٹس ، لالا عیسی خیلوی کی آواز میں میرے لکھے ہوئے گیتوں کے لاکھوں فین اور مجھے دوسرے حوالوں سے جاننے والے بہت سے لوگ فیس بک پر مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ چند ہی دنوں میں میرے فیس بک فرینڈز کی تعداد 5000 ہو گئی ۔ فیس بُک پر 5000 سے زیادہ فرینڈز کی گنجائش نہ تھی ، اس لیئے باقی لوگوں نے فالوورز کی راہ سے انا شروع کر دیا ۔اب فالوورز کی تعداد بھی دس ہزار سے زیادہ ہے۔ آمد کا سلسلہ ابھی جاری ہے

لوگوں کی یہ محبت دیکھ کر میں نے فیس بک پر روزانہ پوسٹس لکھناشروع کر دیا ۔ یہ سلسلہ دس سال سے چل رہا ہے ۔لوگ میری تحریریں بہت شوق سے پڑھ کر مجھے دعائیں دیتے ہیں یہ دعائیں میرا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔ مجھے اور کیا چاہئیے۔ ایک گھر جیسا ماحول بن گیا ہے۔ اللہ کریم آپ سب کو سلامت رکھے ، ان شاءاللہ آپ کے لیئے لکھتا رہوں گا۔   14       جولائی 2025

داؤدخیل میں مشرق کی جانب پہاڑ سے تین برساتی نالے شہر کی طرف آتے ہیں جنہیں بھڑکی ، ڈبچھے اور جابہ کہتے ہیں۔بھڑکی اور ڈبچھے تو یتیم مسکین سے نالے ہیں۔ یہ کبھی شہر میں داخل نہیں ہو سکتے ۔ بھڑکی کا پانی ریلوے لائن سے آگے نہیں آتا۔ ڈبچھے کا پانی پہاڑ کے دامن ہی میں کہیں غائب ہو جاتا ہے ۔ان دونوں نالوں کے شمال میں جابہ خاصا منہ زور نالہ ہے۔ یہ سکندرآباد ہاوسنگ کالونی اور سکندرآباد فیکٹری ایریا کے درمیان سے گذر کر پکی شاہ مردان کے قریب دریا میں جا گرتا ہے۔ برسات میں اکثر اس نالے کا منہ زور پانی فیکٹریز تک رسائی ناممکن بنا دیتا ہے۔ اس سے فیکٹریز میں کام کرنے والے لوگوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیدل لوگ تو سڑک سے کچھ فاصلے پر واقع ریلوے پل پر سے گزر جاتے ہیں۔ سائیکل ، موٹر سائیکل اور گاڑیاں اس پل سے نہیں گذر سکتیں۔ کیونکہ ریلوے لائن کے نیچے رکھے گارڈروں کے درمیان دو دو فٹ کا فاصلہ سائیکلوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کا گذر ناممکن بنا دیتا ہے ۔ایک دفعہ ہمارے ایک سائیکل سوار دوست نے اس پل پر سے گزرنے کی کوشش کی تو سائیکل سمیت نالے میں جاگرے ۔ بڑی مشکل سے جان بچی۔

جابہ سے گزرنے والی سڑک پر  پل بنانے کا دیرینہ مطالبہ 70 سال سے حکومت کی توجہ کا منتظر ہے ۔16       جولائی 2025

کیا اچھا زمانہ تھا جب کالج لائبریرین حاجی محمد اسلم خان غلبلی اور میں ہر سال کالج لائبریری کے لیئے کتابیں خریدنے لاہور جایا کرتے تھے۔میرے جانے کا مقصد کتابوں کا انتخاب کرنا تھا۔ حاجی صاحب مجھ سے بہت پیار کرتے تھے کیونکہ میں اکثر لائبریری آتا جاتا رہتا تھا۔حاجی صاحب اصول پسند انسان تھے۔ مگر جب میں کسی بات پر ضد کرتا تو اصول ایک طرف رکھ کر ہنس کر کہتے اچھا بھائی جنجیں تیڈی مرضی۔ایک دفعہ کہنے لگے یار محکمہ  تعلیم کی ایک چٹھی آئی ہے ۔ کہتے ہیں ناول اور شاعری کی کتابوں کی بجائے سٹوڈنٹس کے کورس سے متعلق کتابیں خریدی جائیں۔

میں نے کہا محکمہ تعلیم کو   گولی ماریں، میں تو اپنی پسند کی کتابیں خریدوں گا ۔ کورس کی کتابیں تو سٹوڈنٹس کے  ۔پاس پہلے ہی موجود ہوتی   ہیں  ہنس کر بولے ٹھیک اے بھائی جنجیں تیڈی مرضی۔

ہمارا لاہور کا سفر بہت      دلچسپ ہوتا تھا ۔لاہور میں ہمارا قیام داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل میں ہوتا تھا۔ صبح ناشتے میں حاجی صاحب چائے کے ساتھ سری پائے اور پراٹھا لیتے تھے۔ میں نے سری پائے کھانے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا میں تو دہی لوں گا ۔ سری پائے پتہ نہیں کس چیز کے ہوتے ہیں ۔ حاجی صاحب نے ہنس کر کہا یار تم بےشک نہ کھاو، میرا کھانا تو حرام نہ کرو۔

کتابیں خریدنے کے لیئے ہم سرکلر روڈ ، اردو بازار اور مال روڈ کی بڑی دکانوں پر جایا کرتے تھے۔

ایک دفعہ واپسی پر ریلوے اسٹیشن جانے کے لیئے بھاٹی گیٹ سے تانگے پر سوار ہوئے۔ تانگے کی انگلی سیٹ پر ایک آدمی بیٹھا تھا۔ اس سیٹ پر تین آدمیوں کی گنجائش تھی۔ میں اس سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بچھلی سیٹ خالی تھی ، حاجی صاحب نے کہا میں تو ادھر مزے سے پاؤں پھیلا کر بیٹھوں گا ۔۔ جب تانگہ روانہ ہونے لگا تو دو بھاری بھرکم خواتین بھاگتی ہوئی آیئں۔ایک حاجی صاحب کے دائیں طرف ، دوسری بائیں طرف بیٹھ گیئں۔ حاجی صاحب نے رومال سے منہ چھپا لیا کہ کہیں میانوالی کا کوئی بندہ دیکھ نہ لے ۔ بعد میں یہ واقعہ یاد کر کے ہم اکثر قہقہے لگایا  کرتے تھے۔لاہور کے ان دوروں کی بہت سی خوبصورت یادیں ہم آپس میں شیئر کیا کرتے تھے ۔ایساکہاں سے لائیں کہ تم ساکہیں جسے-17       جولائی 2025

پوسٹ میں شامل پکچر داؤدخیل کے قبیلہ امیرے خیل کے گلستان خان نیازی کی ہے۔ آج سے ساٹھ سال پہلے ان کا شمار ریڈیو پاکستان کے نمایاں گلو کاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی آواز لیجنڈ گلوکار طلعت محمود کی آواز سے بہت مشابہہ تھی۔ طلعت محمود کی طرح غزل کے بہت عمدہ گائیک تھے۔

ایک دفعہ شاہ ایران پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو ایک محفل میں حافظ شیرازی کی فارسی غزل پیش کرنے کے لیئے ریڈیو پاکستان نے گلستان خان کا انتخاب کیا۔ گلستان خان نے غزل گا کر سماں باندھ دیا ۔ شاہ ایران نے انہیں خصوصی   انعام سے بھی نوازا۔میں گلستان خان کو ماموں کہتا تھا کیونکہ ان کی بڑی بہن محترمہ عالم خاتوں میری امی کی منہ بولی بہن تھیں۔ میرا بچپن زیادہ تر اسی خاندان میں گذرا۔ یہ لوگ کہا کرتے تھے منور تو مولوی جی خیل نہیں امیرے خیل ہے۔

ایک دفعہ ان کے گھر میں ماموں گلستان خان کاہارمونیم دیکھ کر میں نے ہارمونیم بجانا شروع کر دیا ۔ میری عمر اس وقت تین چار سال تھی۔ مجھے ہارمونیم بجانا تو نہیں آتا تھا ، ویسے ہی ہارمونیم کی ٹاں ٹاں سن کر دل بہلا رہا تھا تو ماموں گلستان خان نے ہنس کر کہا اس طرح نہیں بجاتے۔ یہ کہہ کر انہوں نے ہارمونیم اپنی گود میں رکھ لیا اور مجھ سے کہا کیا سننا چاہوگے۔ میں نے کہا   یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے

محمد رفیع اور نور جہاں کی اواز میں یہ گیت اس زمانے کا مقبول ترین فلمی گیت تھا۔ ماموں نے ہارمونیم کے ساتھ یہ گیت گا کر مجھے حیران کر دیا ۔ بالکل محمد رفیع جیسا انداز تھا۔ پھر کہنے لگے تم بھی گایا کرو ۔ یہ ہارمونیم اب ادھر ہی رہے گا ۔ میرے پاس دوسرا ہے ۔

ریڈیو کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ماموں گلستان خان ماڑی انڈس میں مقیم ہو گئے۔ زیادہ تر وقت محلے کی مسجد میں گزارتے ۔ گلوکاری کی بجائے نعت خوانی کرنے لگے۔ خوبصورت داڑھی بھی رکھ لی ۔ تقریبا 75 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔الحمد للّہ اس خاندان سے ہمارے تعلقات اب تک برقرار ہیں۔ خاندان کے لوگ مجھے اپنے گھر کا فرد سمجھتے ہیں ۔18       جولائی 2025

میانوالی کے سجاد سرور نیازی ریڈیو پاکستان کی ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ وہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کےمنصب سے ریٹائر ہوئے۔

موسیقی سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ اس لیئے انہوں نے ریڈیو پاکستان کے موسیقی کے پروگراموں پر خاص توجہ دی ۔  سجاد سرور نیازی جب ریڈیو    پاکستان پشاور کے سٹیشن ڈائریکٹر تھے انہوں نے میانوالی کے میوزیکل ٹیلنٹ کو ملک بھر میں متعارف کرانے کے لیئے میانوالی سے تین نوجوان گلوکار منتخب کر کے میانوالی کے گیت کے عنوان سے ایک خصوصی پروگرام شروع کیا۔ پندرہ منٹ کا یہ پروگرام مہینے میں دوبار ، شام پانچ بجے سے سوا پانچ بجے تک نشر ہوتا تھا۔ گلوکار تھے عیسی خیل کے امتیاز خالق ، داؤدخیل کے گلستان خان اور موسی خیل کے گل جہان خان۔ یہ لوگ ریڈیو پر میانوالی کے لوک گیت پیش کیاکرتے تھے ۔ جب سجاد سرور نیازی پشاور سے راولپنڈی ٹرانسفر ہوگئے تو یہ پروگرام راولپنڈی ریڈیو سٹیشن سے نشر ہونے لگا۔ بہت مقبول پروگرام تھا ۔ بہت عرصہ تک چلتا رہا۔

سجاد سرور نیازی کی ہدایت پر استاد امتیاز خالق نے مقامی شاعر مجبور عیسی خیلوی کو ساتھ لے کر ضلع کے دورافتادہ دیہات کا دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں سے لوک گیت سن کر انہی طرزوں پر مجبور صاحب سے گیت لکھوائے۔ یوں لوک گیتوں کا اچھا خاصا خزانہ جمع ہو گیا۔ یہ گیت امتیازخالق ، گلستان خان اور گل جہان خان کی آوازوں میں بہت عرصہ تک ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتےرہے۔انہی میں سے کچھ گیت امتیاز خالق نے لالا عیسی خیلوی کو دیئے جو بہت مقبول ہوئے۔

بوچھنڑاں میں توں یار نہ

کھس وے

اور

کالا شاہ بدلا ناں وس توں ساڈے دیس

اسی دور کی یادگار ہیں ۔

سجاد سرور نیازی صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارے بابا جی کے کلاس فیلو رہے۔ بابا جی بتایا کرتے تھے کہ سجاد سرور نیازی ہارمونیم، طبلہ اور بانسری خوب بجا لیتے تھے ۔ کالج کے ثقافتی پروگراموں میں فن کا مظاہرہ کرکے بہت داد وصول کرتے   رہے۔  19       جولائی 2025

محبوب جب من میں بستا ہو تو ہر راستہ اسی کے گھر کو جاتا نظر آتا ہے۔

ایک دفعہ میں اور میرے دوست فضل دادخان ٹیپ ریکارڈر پر لالا عیسی خیلوی کا کیسیٹ سن رہے تھے۔ گیت چل رہا تھا

قمیض تیڈی کالی۔۔۔۔

اچانک ہم نے دیکھا کہ قبیلہ لمے خیل کے ایک بزرگ حاجی دلاسہ خان کھڑکی کے باہر کھڑے زاروقطار رو رہے ہیں۔ ہم بہت حیران ہوئے۔ پوچھا چاچا جی آپ رو کیوں رہے ہیں۔

چاچاجی نے کہا ظالمو ، تم سن نہیں رہے ہو یہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ کہہ رہا ہے

قمیض تیڈی کالی۔۔۔۔۔۔

کیا خانہ کعبہ کا غلاف کالا نہیں ہے؟

بات ادھر جا رہی ہے اور تم جاہل لوگ پتہ نہیں کیا سمجھ    رہے ہو ۔گیت ختم ہوا تو حاجی صاحب آنسو پونچھتے ہوئے  مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔  20       جولائی 2025

ساغر صدیقی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے دور کے نامور شاعر ساغر     صدیقی زندگی تو ملنگوں والی بسر کرتے تھے، مگر شاعری میں بادشاہ تھے۔ ان کے بہت سے شعر آج بھی زبان زد عام ہیں۔ساغر قیام پاکستان کے بعد  اپنے والدین کے ساتھ بھارت سے پاکستان آئے۔ ان کے والد لکڑی کی کنگھیاں بنا کر بیچا کرتے تھے۔ والد کی وفات کے بعد کچھ عرصہ ساغر بھی یہی کام کرتے رہے۔ پھر سب کچھ چھوڑ کر ملنگ بن گئے۔

ملنگ بننے کی وجہ عشق نہیں تھا ۔ عشق میں ناکامی انسان کو لالا عیسی خیلوی تو بنا  سکتی ہے ، ملنگ نہیں۔ساغر کی ملنگی معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف خاموش احتجاج تھی۔ساغر صدیقی نے دربار داتا صاحب کے ارد گرد پھرتے زندگی گزار دی ۔ کھانا داتا صاحب کے لنگر سے مل جاتا تھا۔ کسی سے کچھ مانگتے نہیں تھے۔ نشے کا خرچ اپنی شاعری بیچ کر پورا کر لیتےتھے۔۔

ان کی شاعری کی شہرت سن کر صدر ایوب خان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو ضلعی انتظامیہ کے لوگ ساغر کو لینے داتا دربار پہنچے۔ ساغر نے صدر صاحب سے ملاقات کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا، صدر صاحب سے کہہ دینا  جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے  ساغر نے بہت سے مشہور و معروف فلمی گیت بھی لکھے۔ ظالم فلمساز انہیں دس پندرہ روپے دے کر ان سے گیت لکھواتے رہے۔

ساغر خود کو نشے کے ٹیکے لگایا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نشہ آور دوا نہ مل سکی تو سرنج میں چائے کا قہوہ بھر کر اپنے بازو کی رگ میں لگا دیا۔نتیجہ فوری موت۔ 19 جولائی 1973 کو ساغر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہیں داتاصاحب کے قریب پیر مکی کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔

شاعر کے چند یادگار شعر دیکھیئے

جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آو اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد رکھنا ہماری تربت کو

قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

  21       جولائی 2025

میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل سے ٹرانسفر ہو کر گورنمنٹ کالج میانوالی آیا تو کچھ دن بعد ڈاکٹر اجمل نیازی نے میرے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا ۔اس تقریب میں مجھ سے ٹیچرز اور سٹوڈنٹس نے بہت سے سوالات پوچھے۔فلاسفی کے پروفیسر نذیر احمد خان نے کہا ملک صاحب ، سنا ہے عشق میں ناکامی نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز کووہ سوز بخشا جس کی بنا پر وہ مقبول ترین گلوکار بن گیا ۔ وہ کیا چکر تھا ؟

میں نے کہا بھائی صاحب ، آپ نے کبھی عشق نہیں کیا؟ ۔

شرما کر بولے ہاں کیا تو تھا۔

۔ میں نے کہا پھر آپ عطا اللہ عیسی خیلوی کیوں نہیں بنے؟

اگر عشق سے عطا اللہ عیسی خیلوی بنتا تو پاکستان کا ہر       دوسرا فرد عیسی خیلوی ہوتا  

اصل بات یہ ہے کہ لالا عیسی خیلوی کو پر سوز آواز اللہ نے عطا کی تھی۔ اپنی اس خداداد خوبی کو پہچان کر لالا نےاس پر محنت کی ، درد انگیز شاعری نے اس کی آواز کو اور زیادہ موثر بنا دیا اور وہ اپنے وقت کا مقبول ترین گلوکار بن گیا ۔لالاخود بھی کہتاہے کہ یہ سب کچھ صرف اللہ کی عطا ہے ۔

اپنا ایک پرانا شعر یاد آگیا ۔۔۔۔

حسن تخلیق تو کرتا ہے خدا

داد انسان کو دی جاتی ہے

24       جولائی 2025

برداشت کی کمی اس دور کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ذراسی بات پر بندہ مار دیا جاتا ہے۔ اسلام تو صبرو تحمل کا سبق دیتا ہے۔

مگر ہم ذاتی معاملات میں اسلام کو ایک سائیڈ پر رکھ کر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ نتیجہ سامنے ہے۔

قتل و غارت کی دوسری وجہ ڈھیلا ڈھالا قانون ہے۔ یہ قانون مجرم کوسزا سے بچانے میں سہولت کار کا کام دیتا ہے۔ اس لیئے بہت کم مجرموں کو سزاملتی ہے۔ اگرسزا یقینی ہو تو لوگ قتل کا ارتکاب کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے ۔

کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب  میں قتل کی سزا کی ایک ویڈیو دیکھی تھی۔ تین قاتلوں کو سر عام زمین پر بٹھا دیا جاتا ہے ۔ جلاد لمبی سی تلوار لہراتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور تینوں کے سر قلم کر

دیتا ہے۔وہاں لمبی چوڑی تفتیش اور جھوٹے گواہ نہیں ہوتے۔ قاتل پکڑا جائے تو اگلی جمعرات کو سر عام اس کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں تو سیشن جج سزا سناتا ہے۔ اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل ہوتی ہے ۔ وہاں سے اپیل خارج ہو جائے تو سپریم کورٹ میں اپیل ہوتی ہے۔ وہاں سے بھی اپیل منظور نہ ہو تو صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی جاتی ہے ۔ تفتیش کو مشکوک بتا کر سزا کا حکم کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے ۔

سزا سے بچ نکلنے کا ایک چور دروازہ راضی نامہ بھی ہے ۔ پیسے والے لوگ مقتول کے وارثوں کو کچھ پیسے دے کر قتل معاف کروا لیتے ہیں۔

ان سہولتوں نے قتل کا ارتکاب آسان بنا دیا ہے۔ اگر سعودی عرب والا نظام انصاف یہاں بھی رائج ہو جائے تو قتل و غارت کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔25       جولائی 2025

جب میں گورنمنٹ کالج میانوالی آیا تو یہاں اچھا خاصا ادبی ماحول تھا

شعبہ اردو میں ڈاکٹر اجمل نیازی رونق لگائے رکھتے تھے ۔پروفیسر سلیم احسن بھی یہاں تھے۔ کچھ عرصہ بعد پروفیسر محمد فیروز شاہ بھی آگئے ۔سٹوڈنٹس میں فیروز شاہ کے خلیفہءخاص عصمت گل خٹک اور گلزار بخاری صاحب کے چھوٹے بھائی سید فیروز بخاری ادب کے افق پر پوری چمک دمک کے ساتھ طلوع ہو رہے تھے منصور آفاق بھی اسی دور میں پوری آب و تاب کے ساتھ ادب کے افق پر نمودار ہورہےتھے ۔ وہ جلد ہی میانوالی سے لاہور منتقل ہوگئے۔

دوسری طرف میانوالی شہر میں بھی خاصا جان دار ادبی ماحول تھا۔ شرر صہبائی ، انجم جعفری ، سالار نیازی ، میاں نعیم ، سلیمان اختر ، تاج محمد تاج انجمن فروع اردو کے پلیٹ فارم سے بہت فعال تھے۔ بزرگ شاعر سوز زیدی صاحب بھی کبھی کبھار ان محفلوں میں شریک ہو جاتے تھے ۔

برادرم انجم جعفری کے ہاں ہر پندرہ روز بعد شعری نشست ہوتی تھی۔ موسی خیل سے ظفر اقبال خان نیازی بھی اس محفل کے مستقل رکن تھے ۔ شعرا کا یہ گروپ روایت پرست گروپ کہلاتا تھا۔ علامہ انوار ظہوری لاہور سے میانوالی منتقل ہوئے تو اس گروپ کی قیادت انہوں نے سنبھال لی ۔

ڈاکٹر اجمل نیازی کی قیادت میں نوجوان شعرا کا جدت پسند گروپ اپنی جگہ سرگرم عمل تھا۔ میں ان دونوں گروپس میں شامل رہا ۔

سید نصیر شاہ بہت سینیئر شاعر اور ادیب تھے۔ مگر وہ کسی گروپ میں شامل نہ ہوئے ۔

آج کے ادبی منظر نامے میں   محمد مظہر نیازی، عصمت خٹک، نذیر یاد، محمد ظہیر احمد مہاروی ، صابر بھریوں، عرشم خان نیازی اور چند دوسرے نوجوان شعرا نمایاں ہیں۔ بہت سے اہم نام اس وقت یاد نہیں آ رہے۔ اس گروپ کے محمد محمود ہاشمی جوانی ہی میں سرحد حیات کے اس پار جا بسے۔سینیئر لوگوں میں سے صرف میں اور محمد سلیم احسن اس وقت بقید حیات ہیں۔ ہمارے باقی سب ساتھی زیر زمین آسودہ ہوگئے ۔26       جولائی 2025

میانوالی کی ادبی تاریخ کو

چند منٹ کی پوسٹ میں سمیٹتے ہوئے کئی بہت اہم نام رہ گئے۔ جلد بازی میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے ۔تلافی ء مافات کے طور پہ آج کچھ ذکر ان دوستوں کا ہوگا جن کا ذکر کل کی پوسٹ میں نہ ہو سکا۔

پروفیسر گلزار بخاری اور فاروق روکھڑی صاحب میرے ساتھ ہی شعروسخن کی وادی میں وارد ہوئے۔ دونوں بہت مترنم اور مقبول شاعر تھے ۔ فاروق۔ روکھڑی بعد میں اردو شاعری ترک کر کے سرائیکی گیت نگاری کی طرف متوجہ ہو گئے ۔

ہم سے کچھ عرصہ بعد پروفیسر رئیس احمد عرشی اور گلزار بخاری کے بھائی شاہ علی اعظم بخاری بھی منظرعام پر آگئے ۔دونوں اردو کے پروفیسر اور بہت اچھے شاعر ہیں۔ہمارے زمانے میں پپلاں سےخورشید میلسوی، حاجی طفیل رضا اور ماسٹر غلام حیدر خاں خاصے مشہور و معروف شاعر تھے۔ اج کے دور میں پپلاں کے سلیم شہزاد اور اسد رحمن ادبی منظر نامے میں نمایاں ہیں۔ دونوں جدید لہجے کے نمائندہ شاعر ہیں۔

نئی نسل کے نوجوان شاعروں

میں حفیظ اور شاکر خان بلچ بہت خوبصورت شعر کہتے ہیں ۔ ڈھیر امید علی شاہ کے نوازش علی ندیم منفرد لب و لہجے کے بہت توانا شاعر ہیں۔ اگرچہ اب ملتان میں مقیم ہیں مگر ضلع میانوالی کے شعراء میں ان کا ذکر نہ کرنا    ناانصافی ہوگا   لمحہ موجود میں میانوالی کے محمد اقبال شاہ ناشناس کی بیٹھک اہل شع وسخن کا مرکز ہے۔ شاہ صاحب بھی بہت اچھے شاعر ہیں۔۔ نوجوان شعرا میں محمد ضیا اللہ قریشی ، ساون شبیر ، اکرم زاھد ، صائم جی اور نسیم بخاری نمایاں ہیں۔

سرائیکی شاعری میں میانوالی کے ابراہیم غریب اور عیسی خیل کے یونس خان ہم سے پہلے دور کے معروف شاعر تھے ۔ ابراہیم غریب ڈوہڑہ لکھتے تھے ۔یونس خان نے ڈوہڑے کے علاوہ کئی گیت بھی لکھے۔ لالا عیسی خیلوی کی آواز میں یونس خان کے گیت   

کرکر منتاں یار دیاں آخر آنڑں جوانی ڈھلی اورو

شالا رج رج مانڑیں یار میڈا

بہت مقبول ہوئے۔

یونس خان کے بعد گیت نگاری میں مجبور عیسی خیلوی اور کمر مشانی کے اظہر نیازی اور ڈھیر امید علی شاہ کے خورشید شاہ نے بہت شہرت حاصل کی۔ لالا عیسی خیلوی کی فرمائش پر میں نے بھی سرائیکی میں بہت سے گیت لکھے ۔

سرائیکی غزل میں پروفیسر      محمد سلیم احسن سب سے نمایاں شاعر ہیں۔ انہیں ان کے شعری مجموعہ جکھڑ جھولے    پر صدارتی ایوارڈ بھی ملا۔ حال ہی میں میانوالی کے محمد ظہیر احمد مہاروی نے بھی سرائیکی شاعری میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔  27       جولائی 2025

میانوالی کے نثر نگار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل کو چھو لینے والی نثر لکھنا آسان کام نہیں ۔ یہ بھی ایک نایاب خداداد صلاحیت ہے ۔ نایاب اس لیئے کہ شعرا کے مقابلے میں نثر نگاروں کی تعداد آٹے میں نمک کی طرح بہت کم ہے۔ فیس بک شاعروں اور نثر نگاروں کو متعأرف کرانے کا بہت اچھا وسیلہ ہے۔ یہاں قارئین کے فوری رسپانس کی شکل میں اپنی تحریروں کی قدرو قیمت کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ اچھا لکھنے والوں کو اپنی کاوشوں کا صلہ ملتا رہتا ہے

فیس بُک کے میدان میں ڈاکٹر حنیف نیازی اور قمرالحسن بھروں زادہ مقبول ترین نثر نگار ہیں ۔ دونوں کا اپنا اپنا منفرد انداز تحریر ہے۔ دونوں اپنے اپنے تجربات و مشاہدات پوسٹس کی صورت میں فیس بُک پر لکھتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر حنیف نیازی کی تحریریں مثبت تعمیری سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی تقریروں کی طرح تحریریں motivational بھی

ہوتی ہیں۔ لوگوں کو تعمیری سرگرمیوں کی طرف راغب کرتی ہیں۔ موسازکے عنوان سے ان کی تحریروں کا ایک مجموعہ پہلے شائع ہو چکا ہے ۔ دوسرا مجموعہ عنقریب منظر عام پر آنے والا ہے ۔

قمر الحسن بھروں زادہ کی تحریریں وادی ء سون کی سیاحت کی دلچسپ داستانیں ہوتی ہیں ۔ انہیں مختصر سفر نامے کہا جا سکتا ہے۔ انداز تحریر مشہور و معروف سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے انداز تحریر سے کم دلکش نہیں ۔ انہیں مسلسل کہتا رہتا ہوں کہ اپنی یہ تحریریں مرتب کر کے کتاب کی شکل میں شائع کرائیں۔ بہت دلچسپ کتاب بلکہ کتابیں بنیں گی ۔کہتے تو ہیں کوشش کر رہا ہوں۔(  28       جولائی 2025

ہرسال جولائی کے آخری دنوں میں ہم ۔۔۔۔۔۔اکرم بیٹا اور فیملی۔۔۔۔۔۔۔ مری آتے ہیں۔ اسی روٹین کے مطابق ہم کل شام یہاں پہنچے۔ میدانی علاقوں کی ناقابل برداشت گرمی سے نکل کر مری کی ٹھندی فضا میں آنا نہایت خوش گوار تجربہ ہے۔ مجھے توبچپن سے ہی سردی زیادہ لگتی ہے اس لیئے رخت سفر میں ایک آدھ سویٹر بھی شامل ہوتا ہے ۔ جولائی اگست میں سویٹر پہنے دیکھ کر لوگ حیران تو ہوتے ہوں گے۔ مگر لوگ تو میری کئی عادتوں پر حیران ہوتے ہیں ۔ ہوتے رہیں ، میں ے تو ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہوں ۔

اللہ کرے یہاں قیام کے دوچار  دن بخیرو عافیت گذر جائیں۔ مصروفیات جتنی بھی زیادہ ہوں آپ لوگوں سے رابطہ بہر حال رہے گا۔ ان شاءاللہ ۔30       جولائی 2025

MERA MIANWALI- JANUARY-2022

MERA MIANWALI- JANUARY-2022

MERA MIANWALI-MAY-2022

MERA MIANWALI-MAY-2022

MERA MIANWALI OCTOBER 2018

MERA MIANWALI OCTOBER 2018

MERA MIANWALI JANUARY 2019

MERA MIANWALI JANUARY 2019

MERA MIANWALI-DECEMBER 2022

MERA MIANWALI-DECEMBER 2022

MERA MIANWALI-AUGUST -2021

MERA MIANWALI-AUGUST -2021

MERA MIANWALI-DECEMBER -2021

MERA MIANWALI-DECEMBER -2021

MERA MIANWALI -OCTOBER -2021

MERA MIANWALI -OCTOBER -2021

MERA MIANWALI APRIL 2017

MERA MIANWALI APRIL 2017

MERA MIANWALI JANUARY 2020

MERA MIANWALI JANUARY 2020

MERA MIANWALI MAY 2017

MERA MIANWALI MAY 2017

MERA MIANWALI- JANUARY-2021

MERA MIANWALI- JANUARY-2021

MERA MIANWALI  MAY 2024

MERA MIANWALI MAY 2024

MERA MIANWALI AUG 16

MERA MIANWALI AUG 16

مرا میانوالی جن

MERA MIANWALI JANUARY – 2023

MERA MIANWALI MARCH 2019

MERA MIANWALI MARCH 2019

MERA MIANWALI MAY 23

MERA MIANWALI MAY 23

MERA MIANWALI NOVEMBER  2024

MERA MIANWALI NOVEMBER 2024

MERA MIANWALI  JAN 2017

MERA MIANWALI JAN 2017

MERA MIANWALI -NOVEMBER 2020

MERA MIANWALI -NOVEMBER 2020

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top