MERA MIANWALI -JUNE 2025

منورعلی ملک کے    جون2025  کے فیس  بک   پرخطوط

 

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شعر کہنے کی صلاحیت رب کریم کی عنایت تھی۔ اس صلاحیت کی تربیت کا سامان بھی رب کریم ہی نے فراہم کر دیا ۔ میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی کی ذاتی لائبریری میں جگر مراد آبادی، فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی ، احمد ندیم قاسمی ، جیسے بڑے شعراء کی کتابیں موجود تھیں۔ وہ میں نے سب پڑھ ڈالیں ۔ اس مطالعے سے زبان میں وسیع دسترس بھی حاصل ہوئی اور لکھنے کے لیئے inspiration بھی ملی۔

بنیادی طور پر میں اردو غزل کا شاعر تھا، سرائیکی گیت نگاری تو عیسی خیل میں قیام کے دوران لالا عیسی خیلوی کی فرمائش پر شروع کی۔ وہ بھی بہت مقبول تو ہوئی مگر میری شخصیت کی اصل جھلک میری اردو شاعری ہی میں نظر آتی ہے۔۔

میری اردو شاعری کا دامن بہت وسیع ہے ۔ اس میں غم جاناں اور غم دوراں کے علاوہ اسرار کائنات کا ذکر بھی ہے۔ میں نے زلف و رخسار کی تعریفوں والی شاعری کبھی نہیں کی۔ شاید میانوالی کے پانی کا اثر ہے کہ میں نے محبوب کو بھی اس کی اوقات میں رکھا ہے۔ چند شعر دیکھیئے:

تم سے بچھڑ کر بھی میں زندہ رہ لوں گا

دریا راہ بدلتا ہے رکتا تو نہیں

وہ محبت نہیں ضرورت تھی

میں اکیلا تھا آپ بھی تنہا

میں نہ فرہاد نہ مجنوں نہ مہینوال ہوا

تو جو ارزاں ہے مرا عشق ہے آساں جاناں

آپ سے پہلے بھی لوگ آتے رہے جاتے رہے

دل کا دروازہ کھلا ہے آنے جانے کے لیئے۔۔۔۔۔۔ منورعلی ملک ۔۔۔  1      جون2025

عام طور پر غزل کے مقطع ( آخری شعر) میں شاعر اپنا تخلص یا نام استعمال کرتے ہیں۔ تخلص یا نام زبردستی ٹھوکنے کا کام مجھ سے نہیں ہوتا۔ اچھی بھلی غزل میں صرف تخلص کی خاطر ایک گھٹیا درجے کا شعر ٹانکنا زیادتی ہے۔ اس لیئے میں نے اکثر غزلوں میں تخلص استعمال نہیں کیا۔۔۔۔ ہاں اگر مناسب خیال کے اظہار میں تخلص موزوں ہو تو استعمال کر لیتا ہوں ۔ یہ چند شعر دیکھیئے ۔۔۔۔۔۔

توڑ کر مجھ سے تعلق اس نے دنیا سے کہا

اک منور چاہیئے اس کو بھلانے کے لیئے

مسرتیں بانٹتا تھا جو شخص شہر بھر میں

اسی منور کو دیکھ کر آج روپڑا ہوں

کبھی منور کو دیکھ کر تو نے یہ بھی سوچا

یہ شخص لٹ کر بھی اس قدر باوقار کیوں ہے ؟

یہ آخری شعر مرحوم ڈاکٹر اجمل نیازی کو بہت پسند تھا۔ جھوم جھوم کر یہ شعر بار بار مجھ سے سنا کرتے تھے۔  2      جون2025

میں نے بہت کم شاعری کی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رب کریم نے مجھے متنوع صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ اردو شاعری کے علاوہ اردو اور انگریزی نثر پر عبور کے باعث میں کسی ایک میدان میں مستقل ٹھکانہ نہ بنا سکا۔ 1983 سے 1996 تک 13 سال انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز میں کالم نگاری کرتا رہا۔

1996 میں پاکستان ٹائمز بند ہو گیا تو میں اردو نثر کی جانب متوجہ ہوا۔ پہلی کتاب درد کا سفیر تھی۔ اس پر ہر طرف سے بہت داد ملی ۔ دوسری کتاب پس تحریر 6 معروف اہل قلم کے قلمی انٹرویوز پر مشتمل تھی۔ تیسری کتاب جان ملٹن نامور انگریزی شاعر جان ملٹن کی داستان حیات تھی۔ چوتھی کتاب جو تم سے کہہ نہ سکا کے عنوان سے میری شاعری کا مختصر سا مجموعہ 2002 میں شائع ہوا۔ اگلے دس بارہ سال میں ایم اے انگلش کے نصاب سے متعلق درجن بھر کتابیں لکھ دیں۔ 2015 سے روزانہ فیس بک پوسٹس لکھ رہا ہوں ۔ 2022 میں میری اردو کی پانچویں کتاب تاریخ انگریزی ادب منظر عام پر آئی ۔ اردو شاعری کے حصے میں بہت کم وقت ایا۔   4      جون2025

 نظم ، نثر کی تحریروں کی روداد پڑھ کر ہمارے مہربان دوست مجیب اللہ خان نیازی نے کمنٹ میں کہا یعنی آپ نے فیض احمد فیض صاحب کی طرح  کچھ عشق کیا کچھ کام کیا

میں نے کہا جی نہیں ، عشق کرنے کا مجھے وقت ہی کہاں ملا۔ میں تو بس کام , کام اور کام ہی کرتا رہا ہوں ۔۔۔ مجھے جوانی کے آغاز ہی میں یہ احساس ہو گیا تھا کہ میرے رب رحیم و کریم نے مجھے دو کام کرنے کے لیئے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ ایک کام پڑھانا ، دوسرا کام لکھنا۔ اس لیئے میں آج تک یہی دو کام کر رہا ہوں۔ یہ دونوں باعزت کام ہیں. الحمد للہ بہت عزت ملی۔۔

عشق میں تو اچھا خاصا معزز آدمی خجل خوار ہو جاتا ہے۔ شہنشاہ سخن میر بھی تنگ آ کر چلا اٹھے۔۔۔۔۔

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

آج اتنی ہی بات کافی سمجھیں۔ طبیعت ٹھیک نہیں ۔ رات بھر بخار سا رہا۔ دوا لے رہا ہوں۔ دعا آپ کردیں۔  5      جون2025

میرے مختصر سے شعری مجموعے جو تم سے کہہ نہ سکا کا آغاز پانچ نعتوں سے ہوتا ہے۔

میری نعتیں عام نعتوں سے مختلف ہیں۔ یہ نعتیں دل کی باتیں ہیں جو میں اپنے آقا سے شیئر کرتا ہوں۔ نعت کے بارے میں میں کہتا ہوں کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ یہ اس رب رحمن و رحیم کی عطا ہے جس نے قرآن کریم میں تمام اہل ایمان کو درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ شاعروں کو درود و سلام شاعری کی شکل میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت بھی اسی رب کریم کی خاص عنایت ہے۔

میری نعتوں سے چند شعر دیکھیئے ۔۔۔

عنایتوں کے یہ سبز موسم ، یہ رحمتوں کی گھٹائیں آقا

مجھے تعجب سے دیکھتی ہیں مری پریشاں دعائیں آقا

اداس راتوں میں چشم تر کے دیئے جلا کر میں منتظر ہوں

مری غریبی کی لاج رکھ لیں کبھی تو تشریف لائیں آقا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ میرے بس میں نظام عالم نہ دل پہ ہے اختیار آقا

اسی کشاکش میں کر لیا ہے ضمیر کو تار تار آقا

نہ جانے کس وقت دست تقدیر چھین لے مجھ سے میرا سب کچھ،

یہ نعت زندہ رہے جہاں میں فقیر کی یادگار آقا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنکھیں بھی برستی ہیں ساون کا مہینہ بھی

ہے شام بھی ہونے کو اور دور مدینہ بھی

جو کچھ بھی ملا مجھ کو اس در سے ملا مجھ کو

جینے کا سلیقہ بھی مرنے کا قرینہ بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرش زمیں سے عرش بریں تک، عرش بریں سے عرش نشیں تک

راہ نما ہے آپ کی چاہت صلی اللہ علیک وسلم

بارگاہ رسالت مآب میں نعتوں کی شکل میں درخواستوں کا اثر یہ ہوا کہ آقا کی سفارش سے رب کریم نے مجھے حرمین شریفین میں حاضری کا اعزاز عطا فرما دیا۔۔ بالکل اچانک ہی وہاں جانے کا پروگرام بن گیا۔ میں آج بھی حیران ہوں کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا ۔

کوثر نیازی صاحب کا مصرع یاد آرہا ہے۔

یہ تو کرم ہے ان کا وگرنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں

آپ سب کو عید مبارک رب کریم آج آپ کی ہر دعا قبول فرمائے–  6      جون2025

عیدالاضحی کو ہمارے ہاں سلونی (نمکین) عید کہتے تھے کیونکہ اس دن ہر گھر میں نمکین گوشت ہی کھایا جاتا تھا۔

عیدالفطر کو میٹھی عید کہتے تھے کہ دن کا آغاز دیسی گھی اور شکر ملی سیویوں کے ناشتے سے ہوتا تھا۔ اس دن گھر میں دودھی والا حلوہ بھی بنتا تھا۔ بچے دکانوں سے دیسی مٹھائیاں ٹانگری ، لاچی دانہ ، پتاسے ، ریوڑیاں اور جلیبیاں وغیرہ بھی لے کر کھایا کرتے تھے۔ اوپر سے سوڈا واٹر کی ٹھاہ ٹھاہ کر کے کھلنے والی بوتلیں بھی دھڑا دھڑ پی جاتی تھیں۔ میرا بیٹا اکرم ننھا سا تھا تو ایک دفعہ عید کے دن اس نے مجھے بڑے فخر سے بتایا کہ ابو آج میں نے 9 بوتلیں پی ہیں۔

تمام بچے دن بھر یہی عیاشیاں کرتے رہتے تھے۔عیدی کے تمام پیسے شام سے پہلے خرچ کر دیتے تھے۔

عید الاضحیٰ کی صبح اپنے محبوب جانوروں کے ذبح ہونے پر رونا دھونا ڈالنے کے بعد بچہ لوگ کلیجی کے انتظار میں بیٹھ جاتے تھے ۔ گوشت بنتے ہی کلیجی کے ٹکڑے سیخوں میں پرو کر کسی مصالحے کے بغیر آگ میں بھون کر کھایا کرتے تھے ۔ اس کھانے کا ایک الگ مزا تھا۔

عیدالاضحی کے دن بچوں کو صرف یہی ایک عیاشی نصیب ہوتی تھی ۔ مٹھائی کی دکانیں تو بند ہوتی تھیں۔ گھر میں بھی اس دن صرف نمکین گوشت ہی بنتا تھا۔

اس لیئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عیدالفطر بچوں کی عید اور عیدالاضحی بڑوں کی عید ہوتی تھی کہ اس دن وہ لوگ گوشت کھانے کی ہوس جی بھر کر مٹا سکتے تھے۔  8      جون2025

جب نہ بجلی ہوتی تھی ، نہ فریج، نہ اے سی، گرمی کا واحد علاج نہانا ہوا کرتا تھا۔ لوگ گھروں میں ہینڈپمپ , گردو نواح کے کنوؤں یا نہر پر دن میں دو چار بار نہا لیا کرتے تھے ۔ زیر زمین پانی ٹھنڈا یخ ہوا کرتا تھا۔ اس لیئے ہینڈپمپ اور کنوئیں کے پانی سے نہانے کا ایک اپنا مزا تھا ۔

بزرگ لوگ تو ہینڈپمپ یا کنوئیں کے پانی سے نہاتے تھے، بچے اور نوجوان نہر کا رخ کرتے تھے ۔ نہر میں نہانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ اچھا خاصا تیراک ذرا سا توازن بگڑنے سے ڈوب جاتا تھا۔ اس نہر ( تھل پراجیکٹ ) کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ہر سال ایک بندہ لیتی ہے۔

اس نہر کے پار اس کے متوازی ایک چھوٹی نہر بھی بہتی تھی جسے راج واہیا (راجباہ) کہتے تھے ۔ یہ نہر کچے کے علاقے کو سیراب کرتی تھی۔ یہ بارہ فٹ چوڑی ، چار پانچ فٹ گہری نہر بچہ لوگوں کے لیئے ایک نعمت تھی کیونکہ اس میں ڈوبنے کا امکان بالکل نہیں تھا۔

دوپہر کو نہانے کے بعد گیلی دھوتی لپیٹ کر بزرگ لوگ چھپر کے سائے میں سو جاتے تھے۔ شمال سے آنے والی جابہ کی ہلکی ہلکی ہوا گیلی دھوتی سے لگ کر اے سی کا ماحول بنا دیتی تھی۔ لوگ مزے سے عصر کے وقت تک سویا کرتے تھے ۔

ہماری چونک پر ایک بہت بڑے چھپر کے نیچے پانچ سات چارپائیاں اور چار چارپائیوں کے برابر ایک بڑا سا چارپایہ پڑا ہوتا تھا جسے ماچہ کہتے تھے۔ دوپہر کو گھر کے بزرگوں کے علاوہ اڑوس پڑوس کے بزرگ بھی ہماری چونک پر سویا کرتے تھے ۔

گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ–  12      جون2025

ایران پر اسرائیل کا حملہ آج کی سب سے بڑی خبر ہے۔ پہلے ہی حملے میں ایرانی آرمی چیف اور 6 ایٹمی سائنسدانوں کی شہادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کارروائی معلومات کی بنا پر کی گئی۔ ایران کے اندر سے اسرائیلی جاسوسوں نے ہدف کی نشان دہی کر دی تھی۔ ایران میں اسرائیل کے جاسوسوں کی موجودگی ایران کے انٹیلیجنس اداروں کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

کچھ عرصہ قبل حماس کے سربراہ کی ایران میں شہادت کو ایک وارننگ سمجھ کر اسرائیلی جاسوسوں کا خاتمہ ضروری تھا۔ مگر کچھ بھی نہ کیا گیا۔

اب صورت حال بہت نازک ہے ۔ مسلمان بھائی کی حیثیت میں پاکستان کی ہمدردیاں اور تعاون ایران کے ساتھ ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر خدا نخواستہ اسرائیل ایران کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا تو اس کا اگلا ہدف پاکستان ہوگا ۔ ہمیں اس صورت حال کے لیئے پوری طرح تیار رہنا ہوگا ۔ اللہ رحم کرے ۔  13      جون2025

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

ایران کا جوابی وار۔۔۔۔۔۔!!!!!

توقع نہیں تھی کہ ایران اتنی تیزی سے سنبھل کر اتنا بھرپور جوابی وار کر سکے گا۔ اسرائیل کے پہلے ہی حملے میں ایران کی اعلی فوجی قیادت اور 6 سائنسدانوں کی شہادت کے بعد دنیا بھر کے تجزیہ کار کہہ رہے تھے کہ ایران کی کمر ٹوٹ گئی ۔۔ اب وہ ثالثی اور جنگ بندی کے لیئے دنیا کی منتیں کرے گا ۔

مگر ایران نے تو اسی شام بھرپور جوابی وار کر کے دنیا کو حیران پریشان کر دیا۔ جوابی وار کے پہلے مرحلے میں 150 میزائلوں سے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب اور دوسرے اہم مقامات کو نشانہ بنایا گیا ۔ اس پوسٹ میں شامل پکچر ایرانی حملے کے بعد تل ابیب کے شہر کا ایک منظر ہے۔ ایسے کئی مناظر شہر اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی دیکھنے میں آئے۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو زیر زمین بنکر میں چھپ کر وزیر دفاع کے ساتھ مشاورت کرتا رہا کہ اب کیا کریں۔

تباہی کے اصل اعداد و شمار تو اسرائیل کبھی منظر عام پر نہیں آنے دے گا, لیکن کل رات منظر عام پر آنے والی ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ بہت تباہی ہوئی ہوگی۔

ایرانی جوابی وار رات بھر جاری رہے۔

اسرائیل کی سیاسی قیادت کا کہنا ہے کہ یہ جنگ دو تین ہفتے جاری رہے گی۔

بنیان مرصوص میں بھارت کی عبرتناک شکست اور ایران کے ہاتھوں اسرائیل کی پٹائی کے بعد دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ مسلمانوں سے پنگا لینا بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔

جنگ کا انجام جو بھی ہو ایران کا جوابی وار تاریخ میں یادگار رہے گا۔

ایران زندہ باد

اسلام پائندہ باد

  14      جون2025

جنگ جاری ہے۔ کل رات پھر اسرائیل پر بھاری تھی۔ ایران نے 7000 ٹن بارود سے بھرے ہوئے میزائیل اسرائیل پر برسا دیئے۔ بے حساب تباہی ہوئی۔

اسرائیل نے محاذ جنگ کی خبریں اور ویڈیوز نشر کرنے پر پابندی لگا دی۔ اسرائیل کے ایک فوجی ترجمان کا بیان نشر ہوا کہ ایران کے پاس بہت خطرناک ہتھیار ہیں۔ مطلب یہ کہ اسرائیل خوف زدہ ہو گیا۔

ادھر ایران کا کہنا ہے کہ ہمارا اگلا وار فیصلہ کن ہو گا۔

اسرائیل کے جوابی حملوں سے ایران میں بھی تباہی تو ہوئی مگر اتنی نہیں جتنی ایران کے ہاتھوں اسرائیل میں ہوئی ۔ ایران کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے 10 لڑاکا طیارے بھی مار گرائے گئے۔

لگتا ہے کہ اب اسرائیل کے چاچے مامے جنگ بندی کی کوشش کریں گے ۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کر دی ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ اس جنگ نے عالم اسلام کو متحد کر دیا ہے۔ تمام اسلامی ممالک ایران کی پشت پر کھڑے ہیں۔

الحمدللہ پاکستان خوش نصیب ہے کہ اس کے پاس صرف عام ایٹمی ہتھیار ہی نہیں بلکہ 5000 کلومیٹر تک مار کرنے والے ایٹمی میزائل بھی ہیں۔ اس لیئے دنیا کی کوئی طاقت پاکستان پر حملہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ مودی نے پنگا لیا تھا جو بہت مہنگا پڑ گیا ۔ اب ٹھنڈا یخ ہو کر بیٹھا ہے۔

پاکستان زندہ باد

اسلام پائندہ باد

15      جون2025

ایک دو ماہ قبل میانوالی کے نوجوان محمد منشا خان سے تعارف میرے لیئے ایک بڑا سرپرائز تھا۔

فیس بک کی وساطت سے محمد منشا خان نے مجھ سے کہا کہ وہ میرا قلمی انٹرویو لینا چاہتے ہیں۔ اس کے لیئے انہوں نے سوالنامہ بھی مرتب کر لیا ہے۔ میں نے کہا سوالنامہ بھجوا دیں۔

چند روز بعد ڈاک سے محمد منشا خان کا پارسل موصول ہوا جس میں سے 80 سوالات پر مشتمل سوالنامہ ، میرے نام منشا خان کے چار خطوط اور ان کی مرتب کردہ چند کتابیں برآمد ہوئیں۔

سوالنامہ خاصا دلچسپ ہے۔ میرے خاندانی پس منظر ، شخصیت ، علمی و ادبی خدمات کے بارے میں سوالات میری اب تک کی پوری زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ آج کل ان سوالات کے جوابات لکھ رہا ہوں۔ خاصا طویل مگر دلچسپ کام ہے۔

محمد منشا خان میانوالی شہر میں گلبرگ ہوٹل کے قریب ماڈل ٹاؤن میں رہتے ہیں۔ ان کی بیس کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ ان کی ایک کتاب مکاتیب رام لعل بنام پروفیسر محمد سلیم احسن کے تعارف میں سلیم احسن صاحب کہتے ہیں:

” محمد منشا خان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ میں زندگی کا ایک طویل سفر طے کر چکا ہوں اور یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسا صاحب کرامت شخص پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ محمد منشا خان کو عمر کے تناظر میں دیکھیں تو حیرت کے باب کھل جاتے ہیں۔ وہ کامیابیاں جو ہم ساری زندگی حاصل نہیں کر سکے وہ کامیابیاں محمد منشا خان نے اپنے سفر کے آغاز ہی میں حاصل کر لیں ۔ آپ بلاشبہ ایک منفرد شخصیت ہیں۔ اور آپ کا آغاز سفر اتنا شاندار اور جاندار ہے تو آپ کے عروج کا منظر کیسا ہوگا” ۔

تحقیق و تدوین منشا خان کا اصل میدان ہے۔ یہ خاصا صبر آزما کام ہے۔ ۔ موضوع سے متعلق کتابوں اور شخصیات تک رسائی میں بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔ منشا خان کی ہمت ہے کہ وہ یہ سب کچھ بہت ذوق و شوق سے کر رہے ہیں ۔ ان کی ذاتی لائبریری میں چودہ پندرہ ہزار کتابیں موجود ہیں۔ ادب اور تصوف سے متعلق بہت اہم اور نایاب کتابیں اس لائبریری کی زینت ہیں ۔ سندھ تک سے اہل علم لوگ یہ لائبریری دیکھنے کے لیئے آتے ہیں ۔

جو کام منشا خان اکیلے کر رہے ہیں یہ ایک ادارے کا کام ہے۔ منشا خان کی ہمت اور ذوق و شوق لائق تحسین ہے۔ آخر میں یہ شعر محمد منشا خان کی نذر۔۔۔۔۔

تجھ سے بس ایک ہی گلہ ہے مجھے ،

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے –  21      جون2025

میری پوسٹس پر کمنٹس میں کئی دوست لالا عیسی خیلوی کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کرتے رہتے ہیں ، میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ لالا کے بارے میں تو میں پوری کتاب درد کا سفیر لکھ چکا ہوں۔ اس میں آپ کے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ مگر میں نے لالا سے دوستی کے علاوہ بھی اللہ کے فضل سے کچھ اچھے کام کیئے ہیں۔ فیس بک پر ان کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ہاں اگر کسی حوالے سے لالا کا ذکر کرنا ضروری ہوا تو کر دوں گا۔

الحمد للّہ درد کا سفیر ہر سطح پر بے حد مقبول ہوئی۔ ریڑھی رکشا والے مزدوروں سے لے کر بڑے بڑے اہل قلم تک نے اس کتاب کو سراہا۔ تعریفی خطوط کے ڈھیر لگ گئے۔ فیصل آباد جیل سے ایک قیدی کا خط بھی موصول ہوا۔ انہوں نے خط میں مجھے بہت سی دعائیں دے کر کہا سر ، آپ کی کتاب ہمیں جیل میں تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ یہ کتاب ہمیں لالا کی ان محفلوں میں پہنچا دیتی ہے جن کا آپ نے اس کتاب میں ذکر کیا ہے۔

ابھی چند روز قبل میانوالی سے محمد منشا خان نے اپنی کتاب مکاتیب رام لعل بنام پروفیسر محمد سلیم احسن ارسال کی۔ معروف افسانہ نگار رام لعل سلیم احسن صاحب کے نام 4 جولائی 1993 کو لکھے گئے خط میں کہتے ہیں :

منور علی ملک کی کتاب درد کا سفیر کا ایک ایک لفظ پڑھا اور خوش ہو گیا کہ میرے سابق وطن سے کتنے بانکے اہل قلم آزادی کے بعد ابھرے ہیں۔ عطا اللہ عیسی خیلوی کے بارے میں منور علی ملک نے بہت ہی دلچسپ کتاب لکھی ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر پہلی بار پتہ چلتا ہے کہ ہمارے علاقے کا ایک نامور گلوکار جس کی شہرت چہار دانگ پھیل چکی ہے اپنی ذاتی زندگی میں کتنا نرم دل اور محبت گزیدہ ہے ۔   22      جون2025

ضلع میانوالی کی ادبی تاریخ میں پہلا دور تلوک چند محروم، منظور حسین منظور اور فتح محمد فاتح کا دور تھا۔ یہ تمام بزرگ نظم کے شاعر تھے۔ غزل بھی لکھتے تھے، مگر ان کی اصل پہچان نظم تھی۔۔ دراصل یہ لوگ علامہ اقبال اور الطاف حسین حالی سے متاثر تھے۔

ان کے بعد شاعری کا دوسرا دور طویل ترین دور تھا۔ یہ دور نظام ہاشمی ، سوز زیدی، شرر صہبائی ، انجم جعفری ، سالار نیازی، کا دور تھا۔ یہ سب لوگ بھی بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ 1970 کی دہائی میں تاج محمد تاج ، ظفر اقبال خان نیازی، فاروق روکھڑی, گلزار بخاری اور میں اس گروپ میں شامل ہوئے۔ ہم سب غزل کے شاعر تھے۔ اسی زمانے میں استاد الشعرا علامہ انوار ظہوری میانوالی منتقل ہوئے اور شعرا کے اس گروپ کی قیادت سنبھال لی۔ ظہوری صاحب بھی نظم کے شاعر تھے ۔ سید نصیر شاہ بھی اسی دور کے شاعر تھے مگر وہ کسی گروپ میں شامل نہ ہوئے۔

اسی دور میں پروفیسر محمد سلیم احسن ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، ظفر خان نیازی اور محمد فیروز شاہ شعرو سخن کے میدان میں وارد ہوئے ۔ یہ لوگ شرر صہبائی اور انجم جعفری کے گروپ میں شامل نہ ہوئے بلکہ انہوں نے اپنی الگ پہچان بنائی ۔۔ یہ لوگ بھی غزل کے شاعر تھے ۔ جدید انداز میں غزل کہتے تھے۔

عتیل عیسی خیلوی ، عبد الرشید ایاز، رئیس احمد عرشی اور علی اعظم بخاری بھی اسی دور میں شرر صہبائی اور انجم جعفری کے گروپ سے وابستہ ہوئے۔

آج کل شعراء کی تیسری نسل چل رہی ہے۔ منصور آفاق ، سلیم شہزاد ، مظہر نیازی ، شاکر خان بلچ ، اسد رحمن ، اکرم زاہد نیازی، محمد اقبال شاہ، صابر بھریوں، ظہیر احمد مہاروی ، حفیظ ، عرشم خان نیازی اس نسل کے نمائندہ شاعر ہیں۔ صابر بھریوں اور ظہیر احمد مہاروی بنیادی طور پر سرائیکی کے شاعر ہیں۔

شعرا کی اس تیسری نسل کے زیر سایہ نوجوان شعرا کی چوتھی نسل بھی پرورش کے مراحل میں ہے۔ ان نوجوانوں سے میرا تعارف نہیں اس لیئے فی الحال ان کا ذکر ممکن نہیں۔

ہمارے دور میں لالا عیسی خیلوی اور ایوب نیازی کی فرمائش پر میں ، پروفیسر سلیم احسن اور فاروق روکھڑی سرائیکی گیت نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور مجبور عیسی خیلوی کے بعد سینئر گیت نگار شمار ہوئے ۔  23      جون2025  

عید الاضحی سے چند روز قبل لالا عیسی خیلوی کا واٹس ایپ میسیج موصول ہوا۔ لکھا تھا منور بھائی ، پانچ سات دن تک مجھے اردو کے کچھ ماہیئے چاہیئں۔ عید کے بعد ریکارڈنگ ہے۔ مہربانی کر دیں۔

میں نے اس سے اگلے دن سات ماہیئے لکھ کر بھیج دیئے ۔ پہلا ماہیا تھا

میں جیت کے ہارا ہوں

تم ہوئے غیروں کے میں اب بھی تمہارا ہوں

لالا بہت خوش ہوئے۔ وائس میسیج کے علاوہ تحریری میسیج میں بھی میری کاوش کی تعریف کرتے ہوئے کہا بڑی مدت کے بعد آپ نے میرے لیئے کچھ لکھ کر کمال کر دیا ہے۔ کوشش کروں گا کہ ریکارڈنگ میں آپ کے خوبصورت الفاظ سے انصاف کر سکوں ۔

اب ہم منتظر ہیں کہ دیکھیں کیا کرتے ہیں۔  25      جون2025

گرمیوں کی بارش رب العالمین کی خاص نعمت ہے۔ ہمارے بچپن کے دور میں بارش مانگنے کا طریقہ بڑا دلچسپ تھا۔ محلے کے بچوں کی ٹیم بارش کی دعا کا اہتمام کیا کرتی تھی۔ دوبچے توے کی کالک سے منہ کالا کرکے ایک دھوتی یا چادر اس طرح گلے میں باندھ لیتے تھے کہ چادر کی جھولی سی بن جاتی تھی۔ وہ یہ جھولی پھیلائے دوسرے بچوں کے ساتھ مخصوص نعرے لگاتے ہوئے پورے محلے کا چکر لگایا کرتے تھے۔ ایک نعرہ یہ تھا:

کالی بکری کالا شینہ

گھتو دانڑیں وسے مینہ

گھتو دانڑیں وسے مینہ کا مطلب تھا لوگو، ہماری جھولی میں اناج کے دانے ڈالو تاکہ اللہ بارش عطا کردے۔

دوسرا نعرہ یہ تھا

اللہ سوہنٹراں مینہ وسا

ہالیاں نے سر پانڑیں پا

اے ہمارے سوہنے رب بارش برسا دے کہ کسانوں کو بارش کی ضرورت یے۔

۔دونوں نعروں کے بعد اللہ اللہ بی اللہ بلند آواز میں دہرایا جاتا تھا۔

بچوں کی یہ ٹیم ہر گھر کے دروازے پر دستک دیتی تھی ۔ انہیں خالی ہاتھ کوئی نہیں موڑتا تھا۔ کسی گھر سے مٹھی بھر گندم ، کہیں سے مٹھی بھر چنے ، کہیں سے باجرے کے دانے مل جاتے تھے ۔ پھر بچے یہ ملا جلا اناج ایک دیگچے میں ڈال کر اسے آگ پر ابالتے تھے۔ ابلے ہوئے اناج کو گھنگھنیاں کہتے تھے ۔بچے یہ گھنگھنیاں بڑے شوق سے کھاتے تھے ۔

بارش مانگنے کا یہ طریقہ بہت کار گر تھا۔ اللہ تعالیٰ بچوں کی درخواست رد نہیں کرتا تھا۔ کہیں نہ کہیں سے بادل آ کر موسلا دھار بارش برسا دیتے تھے۔

توے کی کالک سے منہ کالا کرنے کی رسم دراصل عاجزی اور اپنے گناہوں پر شرمندگی کا اظہار تھا ۔ اللہ کو بندوں کی عاجزی اور شرمندگی بہت پسند ہے اس لیئے ان بچوں کی التجا رد نہیں ہوتی تھی۔  26      جون2025

بارش کا اصل لطف تو بچے اٹھاتے تھے۔ بڑے تو بارش میں بھیگنے سے بچنے کے لیئے کمروں میں گھس جاتے تھے۔ مگر بچے بارش میں نہانے کے لیئے لنگوٹ باندھ کر میدان میں آجاتے تھے۔ پانچ سال کی عمر تک بچے صرف ایک لمبا سا کرتہ پہنتے تھے جسے چولا کہتے تھے۔ پانچ سال کی عمر میں بچے جب سکول میں داخلہ لیتے تو مجبورا شلوار بھی پہننا پڑتی تھی۔ چولے کو لنگوٹ کی طرح باندھنے کی ٹیکنالوجی بچوں کی اپنی ایجاد تھی۔ بچے لنگوٹ باندھ کر بارش میں اچھلتے کودتے، دوڑتے بھاگتے۔ کاغذ کی کشتیاں بنا کر بہتے ہوئے پانی میں چھوڑ کر ان کے ساتھ ساتھ بھاگتے رہتے۔ ہمارے ماموں زاد بھائی ملک اقبال حسین نے ہمیں کاغذ کا دو چمنیوں والا بحری جہاز بنانا بھی سکھا دیا۔ یہ جہاز بھی خوب چلتا تھا۔۔۔۔۔ بارش میں نہانا ، کشتیاں اور جہاز چلانا بہت زبردست شغل ہوتا تھا ۔ اب یہ سب مشغلے قصہ ماضی ہوگئے۔ کیا سہانا دور تھا ۔۔۔۔ !

ایک دوست نے مجھ سے پوچھا آپ زندگی کا کون سالمحہ دوبارہ جینا پسند کریں گے۔ میں نے کہا ایک لمحہ نہیں میں تو سارا بچپن دوبارہ جینا چاہوں گا۔ کاش ایسا ہو سکتا ۔۔۔  27      جون2025

ساون کے موسم میں ضلع میانوالی کی شمال مغربی سرحد پر واقع چچالی پہاڑ کے پیچھے سے کالا سیاہ بادل نمودار ہوتا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے کر موسلا دھار بارش برسانے لگتا تھا ۔ ایک دو گھنٹے کی لگاتار بارش سے جل تھل ایک کر دیتا۔

چچالی والے بادل کے بارے میں کہا جاتا تھا “چچالی نہ ویسی خالی” یعنی چچالی والا بادل برس کر ہی جائے گا ۔

بادل کی تیز رفتار آمد کے بارے میں کہتے تھے

“چچالی بدل گجے، تریمت گاں چووینی بھجے”

مطلب یہ کہ بادل چچالی پہاڑ پر گرجے تو گھر کے صحن میں گائے کا دودھ دوہتی خاتون تیز بارش سے بچنے کے لیئے بھاگ کر گھر میں پناہ لیتی ہے۔

بادل اتنی تیز رفتار سے آکر اتنی شدت سے برستا تھا کہ لوگوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ بارش اتنی موسلا دھار ہوتی تھی کہ اس کے آگے کھڑا ہونا ناممکن ہوتا تھا۔ بادل کی اس زیادتی سے واقف لوگ پہلے ہی بارش سے بچنے کا بندوست کر لیتے تھے۔۔ کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے کسان بادل کو دیکھتے ہی کام چھوڑ کر گھروں کا رخ کرتے تھے۔ شہر میں پھرتے ہوئے لوگ بھی فی الفور گھر لوٹ آتے تھے ۔ پوری تحصیل عیسیٰ خیل اور داؤدخیل کا علاقہ اس بادل کی زد میں آتا تھا۔

اب وہ بادل بہت عرصہ سے نہیں دیکھا۔ پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ ؟-  28      جون2025

شاعر نے تو تقریباً ایک سو سال پہلے خبردار کر دیا تھا کہ

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

اس بات کو محض شاعری سمجھ کر لوگوں نے واہ واہ تو کہہ دیا مگر تہذیب کے نام پر آنے والی تباہی کا سد باب کرنے کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ تباہی کی راہ پر سرپٹ دوڑتے رہے۔

اس ترقی کے بھیانک نتائج اب سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت، موسموں کی غیر یقینی صورت حال ، سموگ کی مصیبت، پانی کے ذخائر کی کمی، زیر زمین پانی کی سطح سینکڑوں فٹ نیچے چلی گئی ہے۔ تیل اور گیس کے ذخائر آخر کب تک چلیں گے۔ عنقریب یہ بھی ختم ہو جائیں گے۔

اگر اس صورت حال کا تدارک نہ کیا گیا تو بھیانک مستقبل زمین پر بنی نوع انسان کا منتظر ہے ۔

یہ خطرہ صرف پاکستان کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو لاحق ہے۔ مگر اس خطرے کو بڑی بے دردی سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پانی، تیل اور گیس کا بےتحاشا استعمال روز بروز بڑھ رہا ہے۔ قدرت کے خزانوں کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے۔

موسم کو معتدل رکھنے میں درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر ہم درختوں کے جنگل کاٹ کر ان کی جگہ سیمنٹ اور سرئییے کے جنگل کھڑے کر رہے ہیں۔ ایسا آخر کب تک چلے گا ۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟ ترقی کے نام پر دوڑ چند سال سے زیادہ نہیں چل سکے گی ۔ کاش کوئی سمجھ سکے کہ آگے گہری کھائی ہے جس میں گر کر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا ۔

ہم ایک اندھے کنوئیں کی جانب بڑی ہی تیزی سے جا رہے ہیں –  29      جون2025

یہی ہے قصہ مختصر

یزید تھا, حسین ھے

29 جون2025

داؤدخیل میں تین مقامات پر محرم کی عزاداری کا اہتمام ہوتا تھا۔ محلہ علاول خیل میں سید گل عباس شاہ کی چونک ، محلہ داوخیل میں شاہ غلام محمد کی چونک اور محلہ شریف خیل میں غلام عباس شاہ کی چونک پر مجالس عزا منعقد ہوتی تھیں۔

داؤدخیل کے سادات غریب تھے اس لیئے باہر سے ذاکر نہیں بلا سکتے تھے۔ مجالس سے خطاب مقامی ذاکر ہی کرتے تھے۔

بعد میں محلہ شریف خیل کے ایوب خان ٹھیکیدار نے شہر سے باہر ایک بہت بڑی امام بارگاہ بھی بنوا دی جو داؤدخیل کی مرکزی امام بارگاہ بن گئی۔

گل عباس شاہ کی چونک پر اسی خاندان کے سید جعفر شاہ ، شاہ غلام محمد کی چونک پر غلام سرور خان داوخیل اور غلام عباس شاہ کی چونک پر غلام مرتضی خان المعروف مرتہ ملنگ محرم کی مجالس عزا سے خطاب کرتے تھے۔

خطاب کا آغاز عربی زبان میں مختصر خطبے سے ہوتا۔ اس کے بعد اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فضائل بیان کر کے انہیں منظوم خراج عقیدت پیش کیا جاتا جسے قصیدہ کہتے تھے

قصیدہ کے بعد سانحہ کربلا کے دردناک واقعات بیان کیئے جاتے اور پھر آخر میں اجتماعی دعا کرائی جاتی تھی ۔

خطاب ملتانی سرائیکی زبان میں ایک مخصوص درد انگیز لے میں ہوتا تھا۔ اس میں واقعے کے حوالے سے ڈوھڑے بھی شامل ہوتے تھے۔ دردناک واقعات کا رقت انگیز بیان سن کر سامعین زاروقطار روتے تھے۔

ان مجالس میں خطاب کے دوران کوئی اختلافی بات نہیں کی جاتی تھی ۔ پورا بیان مظلومین کربلا کے مصائب پر مرکوز ہوتا تھا۔ اہل تشیع کے علاوہ کثیر تعداد میں اہل سنت بھی ان مجالس میں شریک ہوتے تھے ۔ بلکہ آبادی کے تناسب سے اہل سنت کی تعداد زیادہ ہوتی تھی ۔ یوں یہ مجالس اتحاد بین المسلمین کا ایک عمدہ نمونہ ہوتی تھیں۔  30      جون2025

MERA MIANWALI OCT 16

MERA MIANWALI OCT 16

MERA MIANWALI OCTOBER  2024

MERA MIANWALI OCTOBER 2024

MERA MIANWALI SEP 16

MERA MIANWALI SEP 16

MERA MIANWALI AUG 16

MERA MIANWALI AUG 16

MERA MIANWALI JUNE 23

MERA MIANWALI JUNE 23

MERA MIANWALI-MAY-2022

MERA MIANWALI-MAY-2022

MERA MIANWALI FEBRUARY 2025

MERA MIANWALI FEBRUARY 2025

MERA MIANWALI -JULY16

MERA MIANWALI -JULY16

MERA MIANWALI MARCH 2019

MERA MIANWALI MARCH 2019

MERA MIANWALI DEC16

MERA MIANWALI DEC16

MERA MIANWALI -JUN16

MERA MIANWALI -JUN16

MERA MIANWALI-SEPTEMBER 2022

MERA MIANWALI-SEPTEMBER 2022

MERA MIANWALI OCTOBER 2018

MERA MIANWALI OCTOBER 2018

MERA MIANWALI OCTOBER 2019

MERA MIANWALI OCTOBER 2019

مرا میانوالی جن

MERA MIANWALI JANUARY – 2023

MERA MIANWALI- APRIL- 2021

MERA MIANWALI- APRIL- 2021

MERA MIANWALI APR 2018

MERA MIANWALI APR 2018

MERA MIANWALI JULY 2023

MERA MIANWALI JULY 2023

MERA MIANWALI NOV 2017

MERA MIANWALI NOV 2017

MERA MIANWALI FEB 2017

MERA MIANWALI FEB 2017

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top