منورعلی ملک کےمارچ 2022 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی-

دیہات کے لوگوں کا سادہ طرزِ زندگی اُن کی اچھی صحت ، پُر سکون زندگی اور طویل عمر کی ضمانت تھا – لوگ سرِشام ہی کھانا کھا لیتے تھے ، اور عشاء کے بعد تقریبا دس بجے سوجاتے تھے – صبح سویرے اُٹھ کر روزمرہ کی مصروفیات کا آغاز کر دیتے تھے — سویرے اُٹھنے کے کئی فائدے ہیں – جنابِ علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ صبح سویرے اُٹھ جایا کرو کیونکہ اُس وقت رزق تقسیم کیا جاتا ہے –
سویرے اُٹھنے سے طبیعت بشاش اور جسم ہلکا پُھلکا محسوس ہوتا ہے – محنت بوجھ نہیں لگتی –
اپنا حال یہ ہے کہ اکثر لوگ شام کا کھانا دس بجے کے بعد کھا تے ہیں اور پھر کسی نہ کسی بہانے رات کے پچھلے پہر تک جاگتے رہتے ہیں – نیند کا وقت پُورا نہ ہونے کی وجہ سے دن بھر تھکاوٹ سے چُور رہتے ہیں – مزاج اتنا چڑچڑا ہو جاتا ہے کہ ذرا سی بات برداشت نہیں کر سکتے –
رات کو دیر تک جاگنے کا ایک بڑا سبب موبائیل فون بھی ہے – بلا شبہ موبائیل فون کے بے شمار فائدے بھی ہیں ، لیکن کسی بھی چیز کا حد سے زیادہ استعمال نقصان دہ ضرور ہوتا ہے – بات چیت ، پیغام رسانی ، معلومات اور فیس بُک کی حد تک شغل تو مناسب ہے لیکن دن رات یُوٹیوب ، ٹِک ٹاک آور ایک نئی مصیبت آئی ہے جسے پب جی کہتے ہیں، ایسی چیزوں میں کھوئے رہنا وقت کا ضیاع اور صحت کی بربادی کا سبب بنتا ہے –
رات کو جلد سونے اور صبح سویرے اٹھنے کی عادت اپنا لیں تو آج کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں – انگریزی میں کہتے ہیں :
Early to bed and early to rise
Makes a man healthy, wealthy and wise
( جلد سونا اور سویرے اُٹھ جانا انسان کو صحتمند ، دولتمند اور عقلمند بنا دیتا ہے )
امیر ہونا تو قسمت اور محنت پر منحصر ہے لیکن انسان صحتمند اور عقلمند ضرور ہو جاتا ہے –
—————– رہے نام اللہ کا ——  – ١  مارچ  2022

میرا میانوالی-

پُرانے زمانے میں ذیابیطس (شُوگر ) ، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا تھا – اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ گھر میں پڑے رہنے کی بجائے چلتے پھرتے رہتے تھے – پیدل چلنا سب سے آسان اور مُفید ورزش ہے – اس سے خُون کی گردش ، دل کی رفتار ، سانس کی آمدورفت ، اور نظامِ ہضم ، سب کُچھ نارمل رہتا ہے – جسم میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی قوت برقرار رہتی ہے –
پیدل چلنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اُس زمانے میں موٹر سائیکل تو ہوتا نہیں تھا ، سائیکل بھی بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا تھا ، وہ بھی صرف نوجوان لوگ ہی شوقیہ استعمال کرتے تھے – بزرگوں کو تو سائیکل چلانا ہی نہیں آتا تھا –
آج کل تو لوگ گھر کی دہلیز سے قدم باہر رکھتے ہی موٹر سائیکل پہ سوار ہوجاتے ہیں – محلے کی دکان تک بھی پیدل چلنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے –
اچھی صحت اور طویل عُمر کی ایک اہم وجہ خالص غذا بھی تھی – پانی ، دُودھ ، گھی ، نمک ، مرچ ، سب کُچھ تازہ اور خالص دستیاب تھا – ملاوٹ کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا –
1975 تک ہمارے گھر میں ڈالڈا گھی کا ایک چمچ بھی کبھی استعمال نہ ہوا – 1975 میں جب میں عیسی خیل کالج میں متعین ہوا تو وہاں خالص گھی نایاب تھا – اکثر لوگ ڈالڈا ہی استعمال کرتے تھے – تُرکی کا بنا ہوا مکھن کا تیل butter oil ایک آدھ دکان سے ملتا تھا – پہلے ہم وہی استعمال کرتے رہے – جب وہ بھی نایاب ہو گیا تو مجبورا ڈالڈا پر گذارہ کرنا پڑا – بناسپتی گھی کے کئی برانڈ ہیں – ڈالڈا صرف ایک کمپنی کے گھی کا برانڈ نام ہے ، مگر لوگ اپنی سہولت کے لیئے ہر قسم کے بناسپتی گھی کو ڈالڈا ہی کہتے تھے-
ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ ڈالڈا گھی صرف انتہائی غریب لوگ ہی استعمال کرتے تھے ، کیونکہ یہ دوتین روپے فی کلو کے حساب سے بِکتا تھا – جو لوگ یہ گھی خریدتے وہ اپنی غریبی چُھپانے کے لیئے یہ گھی چوری کے مال کی طرح چُھپا کر لاتے تھے –
——————- رہے نام اللہ کا —٢  مارچ  2022

میرا میانوالی-

صحت کا ایک زریں اصول یہ بھی ہوا کرتا تھا کہ ہر سال گرمی اور سردی کا موسم شروع ہونے سے پہلے (مارچ اور ستمبر میں ) لوگ پیٹ کی مکمل صفائی کر کے اُسے ایک دودن آرام کا موقع دیتے تھے –
معدے کی صفائی کا طریقہ یہ تھا کہ صبح سویرے ایک حصہ کیسٹرآئل اور چار حصے سونف کا عرق ملا کر پی لیتے تھے – یُوں ایک دو گھنٹے میں معدہ بالکل خالی ہو جاتا تھا – معدے کی صفائی کے بعد اُسے آرام دینے کے لیئے دو دن روٹی کی بجائے چاول اور مونگ کی دال کی کھچڑی یا لیٹی کے سوا اور کُچھ نہیں کھاتے تھے –
لیٹی پتلا حلوہ سا ہوتا تھا جو گندم کے بھُونے ہوئے دانوں کو پِیس کر بنایا جاتا تھا – کڑاہی میں ذرا سا گھی ڈال کر آُس میں بھُونے ہوئے دانوں کا آٹا ڈال دیتے ، پھر اُس میں کُچھ مزید گھی اور گُڑ کا شربت ملا کر پتلا سا حلوہ بنا لیتے تھے – اسے ہماری زبان میں لیٹی کہتے تھے –
صفائی اور آرام کا یہ عمل آج کی زبان میں گاڑی کے انجن کی اوور ہالنگ overhauling جیسا تھا –
صفائی اور آرام کے اس عمل سے گُذر کر معدہ اگلے چھ ماہ کی مشقت کے لیئے تیار ہو جاتا تھا – جو کُچھ بھی کھاتے آسانی سے ہضم ہو جاتا تھا – انسان بد ہضمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا تھا –
—————— رہے نام اللہ کا —٣ مارچ  2022 

میرا میانوالی- 

فاسٹ فُوڈ —– FAST FOOD
آج کا دور فاسٹ فُوڈ کا دور کہلاتا ہے – سادہ الفاظ میں فاسٹ فُوڈ کا مطلب ہے ایسا کھانا جو فورا تیار ہو جائے اور جلد کھایا جاسکے- فاسٹ فُوڈ ابتدا میں دوپہر کا کھانا ہوا کرتا تھا ، کیونکہ دوپہر مصروفیت کا وقت ہوتا ہے – کاروبار ہو یا ملازمت ، کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت ضائع ہو –
آج کل فاسٹ فُوڈ سے مراد ہے پیزا ، برگر شوارما وغیرہ ، جو گھر کی بجائے ہوٹلوں ، ریسٹورنٹس اور ڈھابوں وغیرہ سے ملتا ہے – میکڈانلڈ اور کے ایف سی جیسی بین الاقوامی کمپنیاں اب ہوم ڈیلیوری سروس home delivery service کے تحت فاسٹ فوڈ گھروں میں بھی سپلائی کرتی ہیں – فاسٹ فوڈ اب ایک طرح سے مہذب ہونے کی علامت status symbol سمجھا جاتا ہے –
فاسٹ فوڈ کا رواج پُرانے دور میں بھی ہوا کرتا تھا – گھی شکر کے ساتھ روٹی ، یا گھی شکر اور روٹی کی چُوری ، گھی سے چُپڑی ہوئی تازہ روٹی اور لسی ، انڈے کا سالن یا حلوہ ، ایسے کھانے ہیں جو چند منٹوں میں تیار ہو جاتے ہیں -دیہات میں جب سارا خاندان دن بھر فصل کی کٹائی میں مصروف رہتا تھا وہاں سالن بنانے کا وقت کہاں ملتا تھا – خواتین روٹیاں صبح سویرے بنا لیتی تھیں جو دوپہر کو اچار کے ساتھ کھالی جاتی تھیں ، سبز یا لال مرچ اور ہیاز کی چٹنی بھی اُس دور کی مقبول فاسٹ فُوڈ تھی –
ایک اور بہت مزیدار فاسٹ فُوڈ ہوتی تھی جسے “ ویگر“ کہتے تھے – ویگر مرچ ، نمک ، ہیاز اور دھنیا کو پیس کر پاؤڈر کی شکل میں بنتا تھا – کھانا کھاتے وقت گھی میں ڈال کر کھاتے تھے- بہترین سالن جیسا ذائقہ ہوتا تھا – پاؤڈر کی شکل میں ویگر ہر گھر میں دستیاب ہوتا تھا – ایک ہی بار ایک آدھ کلو بنا لیتے تھے جو دوچار ماہ چل جاتا تھا –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————- رہے نام اللہ کا —٤  مارچ  2022

میرا میانوالی-

کھانے پینے کے معاملے میں پانچ بہن بھائیوں میں سب سے نخریلا میں تھا – سکُول سے واپس آتے ہی پُوچھتا کیا بنایا ہے – جوچیز بھی دوپہر کے کھانے کے لیئے بنی ہوتی میں کہتا “نہیں کھانا“—-
میری اس عادت کو لاڈ ، منافقت یا بے ایمانی ، جو نام بھی دے دیں ، میں دوپہر کے کھانے میں جو چیز بھی گھر کے باقی لوگوں کے لیئے بنتی تھی اُسے کھانے سے صاف انکار کر دیتا تھا –
بچاری امی فٹافٹ میرے لئے میری پسند کی کوئی چیز بنا دیتیں – انہیں پتہ تھا کہ میں میٹھی چیزیں پسند کرتا ہوں ، اس لیئے چُوری ، انڈے کا حلوہ، یا میٹھا پراٹھا ، میٹھی وَشِلی وغیرہ بنا دیتی تھیں –
بچپن سے جوانی میں قدم رکھا تو امی دنیا سے رُخصت ہو گئیں – پھر اللہ نے مجھے صبر دے دیا – کھانے میں جو بھی مل جائے کھا لیتا ہوں – کبھی یہ نہیں کہا میں یہ چیز نہیں کھاتا ، فلاں چیز بنا دو – بہت عرصہ پہلے میں نے آلُو کھانا ترک کر دیا – لیکن اب اگر آلُو کا سالن گھر میں بنے تو میں آلُو کو تو ہاتھ نہیں لگاتا ، صرف سالن کے ساتھ روٹی کھا لیتا ہوں – بکرے کا گوشت میں صرف بقرعید ( عیدالاضحی ) کے دو تین دن کھاتا ہوں – آگے پیچھے اگر کبھی بکرے کا گوشت گھر میں پکے تو میں بوٹی کو ہاتھ لگائے بغیر سالن کے ساتھ روٹی کھا لیتا ہوں – یہ نہیں کہتا کوئی اور چیز بنا دو – سچی بات تو یہ ہے کہ کھانے کا شوق بھی امی کے ساتھ ہی مرگیا – اب تو صرف زندہ رہنے کے لیئے کُچھ نہ کُچھ کھانا پینا پڑتا ہے –
—————- رہے نام اللہ کا —-  -٥  مارچ  2022

میرا میانوالی-

زخم آباد —–
زخم آباد کے عنوان سے محمد مظہر نیازی کا تازہ مجموعہ کلام حال ہی میں شائع ہوا ہے – مظہر نیازی ہمارے بعد کی نسل میں میانوالی کے سب سے سینیئر شاعر ہیں – صرف شاعر ہی نہیں بہت اچھے نثر نگار بھی ہیں – جس طرح انگریزی ادب کے رومانٹک دور کے آغاز میں ورڈسورتھ کی قیادت میں کولرج اور ساؤدی پر مشتمل ایک گروپ ہوا کرتا تھا ، اسی طرح مظہر نیازی کی قیادت میں صابر بھریوں ، محمد ضیاءاللہ قریشی اور محمد ظہیر احمد پر
مشتمل میانوالی کے نوجوان شعراء کا ایک گروپ لمحہ ءموجود میں سرگرمِ سخن آرائی ہے –
مظہر نیازی کی نظم و نثر کی درجن سے زیادہ کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں – اس کی شاعری میں ایک مسلسل ارتقاء نظر آتا ہے – “زخم آباد“ کی شاعری بہت میچیور mature شاعری ہے – اس مجموعے میں بحروں کی بھی اچھی خاصی ورائیٹی دیکھنے کو ملتی ہے – جدید غزل کے سرکردہ شاعر ظفر اقبال کے وزن اور بحر میں تازہ ترین تجربات کی بھی مظہر نیازی نے کامیابی سے تقلید کی ہے – مظہر نیازی اردو غزل کے علاوہ سرائیکی غزل اور گیت کے بھی معروف و مقبول شاعر ہیں –
خداداد ترنم کی بنا پر مظہر بھی گلزار بخار ی ، فاروق روکھڑی اور میری طرح مشاعرے لُوٹنے والے شاعر ہیں – سیماب پا انسان ہیں ، اکثر سفر میں رہتے ہیں – پنجاب بھر کے نمائندہ مشاعروں میں مقبول ترین شعراء کی صفِ اول کی زینت بنتے رہتے ہیں –
میری نظر میں زخم آباد کی ایک بڑی خُوبی یہ بھی ہے کہ مظہر نے اس کا انتساب اپنی اکلوتی بچی عمارہ نیازی کے نام کیا ہے –
زخم آباد کی شاعری کا معیار جانچنے کے لیئے یہ اشعار دیکھیئے –
گلی میں اتنا اندھیرا ضرور رکھتا ہوں
کہ کوئی دیکھ نہ پائے اُسے گذرتے ہوئے
———————-
صرف بے دخل ہم ہوئے مظہر
اور بھی لوگ گھر میں رہتے تھے
———————-
سر کی تکلیف بھی سمجھ لیتے
سر پہ دستار دیکھنے والے
———————–
اندھے شخص نے اک دن رستہ پُوچھ لیا
تب مجھ کو احساس ہوا بینائی کا
———————–
کاش میں اس منزل پر آکر شعر کہوں
جس منزل پر حرف دُعا ہو جاتے ہیں
————————
—————— رہے نام اللہ کا –  -٦ مارچ  2022

میرا میانوالی-

اک مشکیزہ ، اک پرچم اور اک تلوار ،
غازی کا بس صرف یہی سرمایہ تھا

  -٧  مارچ  2022

میرا میانوالی-

بیٹی تو رحمت ھوتی ھے۔۔۔۔۔۔۔
قرآنِ حکیم کی سُورہ آلِ عمران میں حضرت عیسی علیہ و علی رسُولنا السلام کی والدہ ء ماجدہ جنابِ مریم علیہاالسلام کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے رب کریم نے ارشاد فرمایا “لیس الذکر کالانثی“ – (مرد عورت کے برابر نہیں ھوسکتا)۔
قصہ یوں ہے کہ حضرت مریم کی والدہ نے منت مانی تھی کہ اگر میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میں اُسے دنیاوی کاموں میں لگانے کی بجائے اللہ کی عبادت کے لیئے وقف کر دُوں گی – بیٹے کی بجائے بیٹی پیدا ہوئی تو وہ کُچھ مایُوس ہوئیں کہ میں نے تو بیٹا مانگا تھا – اس موقع پر یہ ارشاد ہوا کہ لیس الذکر کالانثی ( مرد عورت کے برابر نہیں ہو سکتا) – یعنی بیٹی بیٹے سے بہتر ہے –
یہ واقعہ قرآنِ میں خاص طور پر اُس قوم کو سمجھانے کے لیئے ارشاد ہوا جو بیٹی کی پیدائش کو اپنے لیئے شرمندگی سمجھ کر بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتی تھی – قرآن ِ حکیم میں ایک جگہ یہ بھی ارشاد ہے کہ زندہ دفن ہونے والی معصوم بچیوں سے قیامت کے دن پُوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جُرم کی بنا پر قتل کیا گیا – اور پھر قتل کرنے والوں کو اذیت ناک عذاب کی سزا سُنا دی جائے گی –
آج کی پوسٹ کل پرسوں ہونے والے ایک انتہائی دردناک واقعے کے پسِ منظر میں لکھنا ضروری سمجھا – واقعہ پکچرز کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوا – میں وہ دلگداز سانحہ تو بیان نہیں کر سکتا ، بس یہ بتانا ضروری تھا کہ قرآنِ حکیم کے مطابق تو بیٹی بیٹے سے بہتر ہے – اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بیٹی اپنے باپ سے بیٹوں کی نسبت زیادہ پیار کرتی ہے – کسی فقیر کی بیٹی بادشاہ کی بیوی بھی بن جائے تو پھر بھی کہتی ہے میرے بابا جیسا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا –
ہمارے ایک دوست کے ہاں چھٹا بیٹا پیدا ہوا تو کہنے لگے “یارو ، دعا کرو ، اللہ مجھے اب ایک بیٹی بھی دے دے “ – پُوچھا کیوں ؟ تو جواب یہ تھا کہ میں چاہتا ہوں جب مروں تو کوئی رونے والا بھی ہو – بیٹے تو چالیسواں گذرنے تک دُکھ کا رسمی اظہار کرنے کے بعد میری جائداد کی تقسیم میں مشغول ہو جائیں گے – لیکن بیٹی زندگی بھر باپ کو یاد کر کے روتی رہتی ہے –
قارئین سے گذارش ہے کہ ازرہ کرم کمنٹ میں اس واقعے سے متعلق کوئی پکچر نہ لگائیں –
—————- رہے نام اللہ کا —-  -8 مارچ  2022

میرا میانوالی-

“میرا میانوالی” کے عنوان سے گذشتہ 6 سال کے دوران میانوالی کے کلچر کے بارے میں بہت کچھ لکھ چُکا ہوں – میری یہ تحریریں میرے ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مشتمل ہیں – ان میں بہت سی ایسی اہم باتیں بھی ریکارڈ پر آگئی ہیں جو پہلے کسی کتاب ، رسالے یا اخبار میں شائع نہیں ہوئیں – آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لیئے یہ باتیں بہت اہم ہیں –
تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں صرف وہ باتیں لکھتا ہوں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھیں یا لوگوں سے سُنی ہیں – ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ صرف سچ لکھوں ، اس میں تخئیل یا تعصب کی آمیزش نہ ہو –
بہت سے موضوعات پر لکھ چکا ، بہت سے موضوعات پر لکھنا باقی ہے – کل سے میانوالی میں صحافت کا ذکر چھیڑوں گا – اپنی یہ تمام تحریریں پانچ چھ کتابوں کی صورت میں منظر عام پر لانے کا ارادہ ہے – اللہ کریم نے ہمت ، توفیق اور مہلت عطا کردی تو یہ کتابیں یادگار تصانیف ثابت ہوں گی –
اللہ بھلا کرے عزیزم کرنل شیر بہادر خان نیازی کا کہ انہوں نے میری یہ تمام تحریریں اپنی ویب سائیٹ پر محفوظ کر دی ہیں – اور یہ سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہے گا ، اس لیئے کتاب مرتب کرنا میرے لیئے مشکل نہ ہوگا – اس کام کو مکمل کرنے کی ہمت ، توفیق اور مہلت کے لیے آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے –
—————- رہے نام اللہ کا ——-  -9 مارچ  2022

میرا میانوالی-

صحافت ——- 1
آج سے تقریبا ستر سال پہلے میانوالی سے ہفت روزہ اخبار “شان“ کا اجراء میانوالی میں صحافت کا آغاز تھا – موچھ کے صاحب ِعلم وقلم بزرگ حمیداللہ خان ضیاء اسلامپوری اس اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے – یہ اخبار پہلے ہفت روزہ تھا ، پھر ہر تیسرے دن شائع ہونے لگا – ضلع کی اہم سیاسی ، سماجی ، علمی اور ادبی سرگرمیوں کی مختصر خبریں اس اخبار میں شائع ہوتی تھیں – لیکن چونکہ یہ خبریں تازہ ترین نہیں بلکہ دوچار دن پرانی ہوتی تھیں ، اس لیئے اس اخبار کی اشاعت بہت محدود رہی – اس دور میں میانوالی میں کوئی بڑا کاروباری ادارہ بھی موجود نہ تھا ، اس لیئے اشتہارات کی آمدنی بھی میسر نہ تھی – وسائل کی کمی کے باعث یہ اخبار آٹھ دس سال ہی چل سکا –
“شعاعِ مہر“ کے نام سے ایک سہ روزہ اخبار 1970 / 1980 کے دوران واں بھچراں سے جاری ہوا – یہ اخبار ضلع میانوالی کے معروف ماہرین تعلیم ہاشمی برادران نے اپنے والد محترم مہرحسین شاہ ہاشمی کے نام سے جاری کیا – دلیوالی کے اس اہل علم خاندان کے پانچ بھائی ( دوست محمد شاہ ہاشمی ، نذر حسین شاہ ہاشمی ۔ عاشق حسین شاہ ہاشمی اور فیاض حسین شاہ ہاشمی) محکمہ تعلیم میں اہم عہدوں پر فائز رہے – الصفہ کالج میانوالی کے پرنسپل زبیر ہاشمی اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں –
شعاعِ مہر خاصا معیاری اخبار تھا – مگر اشتہارات اور دوسرے وسائل کی کمی کے باعث یہ بھی صرف چند سال ہی چل سکا – اس کے پہلے ایڈیٹر معروف ماہرِتعلیم دوست محمد شاہ ہاشمی تھے –
تقریبا 35 سال قبل ہمارے محترم دوست ، معروف شاعر اور صحافی شرر صہبائی نے “ نوائے شرر“ کے نام سے میانوالی کا پہلا روزانہ اخبار جاری کیا جو آج بھی چل رہا ہے –
شرر صاحب کی وفات کے بعد اُن کے صاحبزادوں رانا امجد اقبال اور رانا ساجد اقبال نے اس اخبار کی اشاعت جاری رکھی – اخبار کے چیف ایڈیٹر میانوالی پریس کلب کے صدر رانا امجد اقبال ہیں – نوائے شرر میانوالی اور سرگودہا سے بیک وقت شائع ہوتا ہے – سرگودہا میں اس کے ایڈیٹر رانا امجد کے بھائی رانا ساجد اقبال ہیں —— (جاری)————– رہے نام اللہ کا —–  -١٠  مارچ  2022

میرا میانوالی-

میانوالی سے پرواز سے کچھ عرصہ پہلے محمد منصور آفاق اور محمد افضل عاجز نے “مہاری“ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار جاری کیا – چیف ایڈیٹر منصور آفاق اور ایڈیٹر افضل عاجز تھے – یہ اخبار بنیادی طور پر ایک ادبی اخبار تھا – میانوالی کے تمام معروف اہلِ قلم کی تحریریں اس میں شائع ہوتی رہیں – میری کتاب “درد کا سفیر“ بھی اس میں قسط وار شائع ہوتی رہی – ایک دوسال بعد منصور اپنے منشُور کے تعاقب میں لاہور جا بسے ، کُچھ عرصہ بعد عاجز بھی لاہور کو سدھار گئے ، تو “مہاری“ بند ہو گیا –
“سرہنگ“ کے عنوان سے ہفت روزہ اخبار الحاج محمد یُوسف اور محمد ایوب چغتائی کی ادارت میں کچھ عرصہ چل کر بند ہوگیا -1991 میں داؤدانور نیازی نے “میانوالی گزٹ “ کے نام سے ایک اخبار جاری کیا ، وہ بھی ایک آدھ سال ہی چل سکا –
ان ہفت روزہ اخبارات کے علاوہ دو ماہوار رسالے بھی میانوالی سے شائع ہوتے رہے – سید نصیر شاہ کی ادارت میں ادبی ماہنامہ سوزوساز ( 1956-57) غلام جیلانی جاس شائع کرتے رہے۔ بزرگ سیاسی و سماجی شخصیت خان زمان خان کے زیرِ ادارت اسلامی سیاسی و نظریاتی ماہنامہ اذانِ حق 1959 سے 1970 تک جاری رہا –
میانوالی سے اخبار کی اشاعت میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہاں کوئی ایسا پریس موجود نہیں جو اخبار چھاپ سکے – اخبار چھاپنے کے لیئے مخصوص مشینری درکار ہوتی ہے ، جو یہاں آج تک دستیاب نہیں – اسی لیئے روزنامہ نوائے شرر سرگودہا کے ایک پریس سے چَھپ کر آتا ہے – خاصا مشکل کام ہے مگر کمپیوٹر نے کسی حد تک آسان بنا دیا ہے –
میانوالی میں صحافت کی بہار کا آغاز اُس دن سے ہوگا جب کسی سرمایہ دار شخصیت نے یہاں اخبار چھاپنے والا پریس لگا دیا – پتہ نہیں یہ کارِخیر کب ہوگا ، اور کون کرے گا – ؟؟؟؟
—————— رہے نام اللہ کا —  –١١  مارچ  2022 

میرا میانوالی- 

دیہات میں اخبار ڈاک کے ذریعے آتا تھا- اخبار کا پورے سال کا بِل ایڈوانس ادا کرنا پڑتا تھا – پڑھے لکھے لوگ دیہات میں بہت کم ہوتے تھے – ہمارے داؤدخیل میں صرف ہمارے گھر میں اخبار آتا تھا ، جو ہمارے دادا جی منگواتے تھے- یہ اخبار مولانا ظفرعلی خان کا اخبار “زمیندار“ تھا – یہ اخبار لاہور سے شائع ہوتا تھا – تحریکِ پاکستان میں اس اخبار نے بہت اہم کردار ادا کیا – یہ برصغیر کے مسلمانوں کا ترجمان تھا – مولانا ظفرعلی خان بہت دبنگ شخصیت تھے – اُنہوں نے ہندوؤں اور انگریزوں کے تسلط کے خلاف قلم سے بھرپُور جہاد کیا – جیل بھی گئے ، حکُومتِ وقت پر سخت تنقید کے جُرم میں اُن کا اخبار بھی کئی بار بند کردیا گیا ، مگر ظفرعلی خان اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے ، اور جب تک زندہ رہے قلم سے تلوار کاکام لیتے رہے – ظفرعلی خان کی وفات کے بعد اُن کے صاحبزادے اختر علی خان نے اخبار کی باگ ڈور سنبھالی ، مگر پہلی سی بات نہ بن سکی ، بالآخر کُچھ عرصہ بعد “زمیندار“ بند ہوگیا –
قیامِ پاکستان کے دور میں لاہور سے حمیدنظامی نے روزنامہ “ نوائے وقت “ جاری کیا ، جو اب تک چل رہا ہے – نوائے وقت نظریہء پاکستان کا داعی صاف سُتھرا اخبار تھا – اس لیئے بہت مقبُول ہوا – ہمارے مرحُوم دوست ڈاکٹر اجمل نیازی نوائے وقت میں “بے نیازیاں“ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے – حمید نظامی کے بعد نوائے وقت کی ادارت اُن کے بھائی مجید نظامی نے سنبھالی ، آج سےچندسال قبل مجید نظامی کی وفات کے بعد اُن کی صاحبزادی نے نوائے وقت کی اشاعت کاکام اپنے ذمے لے لیا –
مشہور و معروف ناول نگار نسیم حجازی کا اخبار “کوہستان “ بھی اپنے دور کا بہت اہم اخبار تھا – زمیندار اور نوائے وقت کی طرح یہ بھی نظریہ پاکستان کا ترجمان تھا – بیس پچیس سال صفِ اول کا قومی اخبار رہا ، پھر وسائل کی کمی کے باعث بند ہوگیا –
اب تو ٹی وی اور دُوسرے جدید ذرائع ابلاغ نے اخبار کی اہمیت بہت کم کردی ہے – لوگوں کو اخبار پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملتا – ممکن ہے کُچھ عرصہ بعد اخبارات کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے –
—————- رہے نام اللہ کا —١٤ مارچ  2022

میرا میانوالی-

نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن
ہر شہر، ہر گاؤں ، ہر جنگل پہاڑ ، دریا ، صحرا کا اپنا الگ حُسن –
کرشمہ دامنِ دِل می کشد کہ جا ایں جااست
( دِل کہتا ہے سب سے اچھی جگہ تو یہی ہے)-
صبح سویرے جہلم کی ایک پکچر نظر سے گُذری تو دِل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں –
جہلم میں ہمارے چچا ملک برکت علی رہتے تھے – چچا جی ہمارے بابا جی سے عُمر میں دوسال چھوٹے تھے – تحصیلدار کی حیثیت میں جہلم آئے تو یہیں کے ہو رہے – شادی بھی ادھر ہی کرلی – یُوں جہلم بھی ہمارا گھر بن گیا – اللہ سدا آباد رکھے، خاصا بڑا قبیلہ وہاں اب بھی موجود ہے ، لیکن وہ شفیق چہرے ، وہ مُسکراتی آنکھیں اب اس دُنیا میں موجود نہیں ، جن سے مل کر دِل کو قرار مل جاتا تھا – چچا جی ، بھائی جان عاشق، ، مشتاق ، امداد ، نثار ، سب خاک اوڑھ کر سوگئے –
دریائے جہلم کے دائیں کنارے پر واقع جہلم شہر ایک چھوٹا سا صاف سُتھرا شہر ہوا کرتا تھا – شہر چھوٹا ضرور تھا مگر جی ٹی روڈ پر واقع ہونے کی وجہ سے پسماندہ نہیں ، خاصا مہذب ، شائستہ اور جدید شہر تھا – اب تو خیر بات ہی اور ہے ، مُلک بھر میں دیہات بھی شہر بنتے جا رہے ہیں –
چچا جی کا گھر سِول لائینز کے علاقے میں گُنبد والی مسجد کے عین سامنے واقع تھا ، اب اُس گھر کی جگہ پلازے بن گئے ہیں – چچا جان کے اکثر سُسرالی رشتہ داروں کے گھر بھی اسی علاقے میں تھے – کُچھ اب بھی موجُود ہیں – بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں – زندہ دل لوگ تھے سب کے سب –
ریلوے سٹیشن بھی قریب ہی تھا – میں کبھی کبھار وہاں ایک صاف سُتھرے ہوٹل میں چائے پیِا کرتا تھا – ایک دن وہاں جاکر بیٹھا تو سامنے کی کُرسی پہ بیٹھے ہوئے ایک بزرگ نے پوچھا “ جوان ، کس قبیلے سے تعلق ہے تمہارا ؟“
میں نے کہا “اعوان“-
“اوئے ، بسم اللہ ، بسم اللہ ، بسم اللہ “ کہہ کر ان بزرگ نے مجھے گلے لگا لیا – کہنے لگے الحمد للہ میں بھی اعوان ہوں – تمہیں دیکھتے ہی میرے دل نے کہہ دیا تھا کہ یہ نوجوان بھی اعوان ہی ہے “-
میرے احتجاج کے باوجود اُن بزرگ نے کھانے پینے کو بہت کُچھ منگوا لیا – کافی دیر ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے – اللہ کریم اُن سے سدا راضی رہے ، بہت نیک دل مہربان بزرگ تھے –
—————— رہے نام اللہ کا —-١٥  مارچ  2022

میرا میانوالی- 

ایک دو دن پہلے پنجابی کلچر کا دِن منایا گیا – زیادہ تر لوگوں نے سر پہ سُفید طرے دار پگڑی سجا کر پنجابی کلچر کی نمائندگی کی – کُچھ لوگوں نے ڈھول کی تھاپ پر رقص کر کے پنجابی کلچر سے محبت کا اظہار کِیا – مگر صرف سر پہ پگڑی اور ڈھول کی تھاپ پر رقص ہی پنجابی کلچر کی نمائندگی نہیں ، پنجابی کلچر کے کُچھ اور لوازمات بھی ہیں , دھوتی اور حقہ وغیرہ –
خالص اور مکمل پنجابی کلچر لاہور ، شیخُوپورہ ، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ ، اوکاڑہ وغیرہ میں دیکھنے کو ملتا ہے – مثلا لاہور کے گوالمنڈی اور اندرونِ شہر میں جائیں تو وہاں یہ کلچر اپنے مکمل رُوپ میں نظر آتا ہے – سو فی صد خالص پنجابی کلچر ان چند اضلاع کے دیہاتی علاقوں میں دیکھنے کو ملتا ہے – شہروں میں یہ کلچر اب آخری سانس لے رہا ہے –
کیا زمانہ تھا —- علامہ اقبال جیسا شہرہءآفاق ، مہذب اور اعلی تعلیم یافتہ انسان گھر میں ہمیشہ صرف دھوتی اور بنیان میں ملبُوس چارپائی پر تکیہ لگائے، حقے کے کش لگاتا رہتا تھا – ملنے والوں سے خالص پنجابی میں بات کرتا تھا – اسی لباس اور انداز میں بڑی بڑی علمی ، ادبی اور سیاسی شخصیات سے علم و ادب اور سیاست کے اسرار و رموز پہ گفتگو کرتا تھا – اتنی بڑی مشہورو معروف شخصیت ہونے کے باوجود علامہ نے پنجابیت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا – پروفیسر ، وکیل ، بڑے بڑے اعلی افسر ملاقات کے لیئے حاضر ہوتے تھے – مگر علامہ اسی خالص پنجابی رُوپ میں اُن سے ملتے تھے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
——————– رہے نام اللہ کا ———-١٦  مارچ  2022

میرا میانوالی-  اپنا پرانا شعر ۔۔۔۔۔۔۔


رحمت کا در کھلا تو رہا اور کچھ نہ یاد،


میں نے خدا سے مانگ لی اپنے وطن کی خیر-١٨  مارچ  2022

میرا میانوالی- 

شاعر نے ٹھیک ہی کہا تھا ——
محوِ حیرت ہُوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
ہماری آنکھوں کے سامنے دُنیا کیا سے کیا ہوگئی – اور ترقی کا عمل ہر لمحہ تیز تر ہوتا جارہا ہے – میانوالی ایک چھوٹا سا معصوم سا چُپ چاپ سا شہر تھا – اتنا چھوٹا کہ لاری اڈہ اور ٹرک اڈہ بھی شہر کے اندر ہی سمایا ہوا تھا –
لاری اڈہ کچہری روڈ پر واقع تھا۔وہاں دن بھر میں سرگودھا ، تلہ گنگ اور عیسی خٰیل سے آٹھ دس بسیں آتی جاتی تھیں – لاہور ، ملتان ، پنڈی اور بنوں کی کوئی ڈائریکٹ بس سروس نہ تھی ، اس لیئے ان شہروں سے آنا جانا زیادہ تر ٹرین کے ذریعے ہوتا تھا – کُل چار بس سروسز میانوالی آتی جاتی تھیں – سرگودہا سے مُسلم اور راجپُوت بس سروس ، تلہ گنگ سے تلہ گنگ بس سروس ، پشاور سے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ اور میانوالی سے عیسی خیل کے لیئے میانوالی ٹرانسپورٹ ، ہر کمپنی کا الگ الگ اڈہ تھا – ہر رُوٹ پر دن بھر میں صرف دوتین بسیں آتی جاتی تھیں – دوسرے لفظوں میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ میانوالی لاری اڈہ کا کُل سرمایہ آٹھ دس جانی پہچانی بسیں تھیں جو اپنے اپنے رُوٹ پر دن میں ایک دو پھیرے لگا لیتی تھیں – اس سے زیادہ سفر کی ان پُرانی کھڑپا بسوں میں ہمت ہی نہ تھی –
میانوالی آمد و رفت کے لیئے بسیں صرف دن کے وقت دستیاب ہوتی تھیں، رات کو کوئی بس یہاں نہیں آتی جاتی تھی –
ٹرک اڈہ بلوخیل روڈ کے شمال میں ریلوے پھاٹک کے قریب ( موجودہ سبزی منڈی کی جگہ) ہوا کرتا تھا – یہ اڈہ قبیلہ پنوں خیل کے بزرگ حیات اللہ خان کے نام سے منسُوب تھا – ادھر بھی دن میں دوچار ٹرک ہی آتے جاتے تھے –
—————– رہے نام اللہ کا —--١٩  مارچ  2022

میرا میانوالی- 

اندرونِ شہر آمدورفت کے لیئے تانگے پبلک ٹرانسپورٹ کا کام کرتے تھے – ریلوے سٹیشن کے سامنے تانگوں کا مرکزی اڈہ ہوا کرتا تھا – شہر کی گلیوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز گُونجتی رہتی تھی – گھوڑے کی چال کا ایک اپنا رِدم ہے ، کسی زمانے میں دلیپ کمار کی شاہکار فلم “آن“ کا محمد رفیع کی آواز میں یہ گیت اپنے دور کا مقبُول ترین گیت ہوا کرتا تھا :
دِل میں چُھپا کے پیار کا طُوفان لے چلے
یہ گیت فلم کا ہیرو اپنی ہیروئن کو تانگے میں لے کر جاتے ہوئے گاتا ہے – اس گیت میں اہم بات یہ تھی کہ اس میں طبلے ڈھولک کی بجائے گھوڑے کی ٹاپوں سے رِدم کا کام لیا گیا ہے ، جس سے گیت کا بہت خوشگوار تاثر بنتا ہے –
تانگے کے حوالے سے کچھ پاکستانی فلمی گیت بھی ہوا کرتے تھے – مسعود رانا کا گیت “ٹانگہ لہور دا ہووے تے بھاویں جھنگ دا ، ٹانگے والا خیر منگدا“ بہت مقبول ہوا –
فلم “یکے والی“ میں ہیروئن مسرت نذیر ایک لڑکے کے رُوپ میں تانگہ چلاتی ہے – اس فلم میں اداکار ظریف اور مسرت نذیر بھاٹی گیٹ لاہور کے سامنے تانگہ سٹینڈ پر سوال جواب کے انداز میں پنجابی ماہیے گاتے ہیں – پہلے ماہیئے کے بول تھے
کیوں مُڑ مُڑ تکدے او
بھاویں لکھ پردے کرو ساتھوں لُک نئیں سکدے او
سوال جواب کے انداز میں ماہیئے گانے کا رواج ہمارے ضلع میانوالی میں بھی ہوا کرتا تھا – شادی بیاہ کے موقعوں پر مائیں بہنیں گھڑا تھالی بجا کر سوال جواب کی شکل میں ماہیوں کا تبادلہ کرتی تھیں – جو ٹیم ماہیئے کا جواب نہ دے سکتی وہ ہار جاتی تھی – ماہیوں کے اس مقابلے کو ولانویں ماہیے کہا جاتا تھا۔
بات کہاں سے کہاں جا پنہچی ، ذکر تانگے کا کرنا تھا —– خیر جو کُچھ لکھ دیا اُمید ہے یہ بھی چل جائے گا –
———————- رہے نام اللہ کا ———————-٢٠  مارچ  2022

میرا میانوالی-

ایک صبح پروفیسر محمد سلیم احسن اور میں کالج پہنچے تو سائیکل سٹینڈ والے گیٹ کے سامنے دولڑکے آپس میں لڑ رہے تھے – خاصی سیریئس لڑائی تھی -چند دُوسرے لڑکے بیچ بچاؤ کی کوشش کر رہے تھے – ہمیں دیکھتے ہی لڑنے والے اور چھڑانے والے بھاگ کر کالج کے اندر چلے گئے – ہم لّڑنے والے دونوں جوانوں کو نہیں جانتے تھے ، پتہ نہیں کون سی کلاس کے سٹوڈنٹ تھے- اس لیئے ہم مزید کارروائی تو نہ کر سکے ، لیکن یہ یقین تھا کہ دونوں فریق فطرتا شریف اور مہذب تھے – خداجانے کس بات پر لڑ رہے تھے ، مگر ٹیچرز کے سامنے شرمندگی کے احساس سے لڑائی جھگڑا ختم کرکے چُپ چاپ وہاں سے ہٹ گئے –
احترام اور ضبط کے ایسے چھوٹے چھوٹے مظاہرے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نئی نسل کے بچے اتنے بُرے نہیں جتنے سمجھے جاتے ہیں – ٹیچر کی حیثیت میں چالیس سال سے زائد عرصہ دن رات نوجوان نسل سے واسطہ رہا – ہزاروں سٹوڈنٹ تھے ، ہر قوم ،قبیلے ، رنگ ، نسل کے – الحمد للہ میں نے ایک بھی بُرا ، نافرمان یا بد فطرت بچہ نہیں دیکھا – بعض بڑے بڑے نامی گرامی لڑاکا نوجوان بھی میرے سٹوڈنٹ رہے، لیکن مجھ سے کبھی کسی نے آنکھ میں آنکھ ملا کر بات نہ کی – مجھے بطور ٹیچر اپنے سٹوڈنٹس کی طرف سے کوئی پریشانی لاحق نہ ہوئی – میرے ہر حُکم کی تعمیل کی گئی –
بچوں کی اس سعادت مندی میں میرا کوئی کمال نہیں – کمال اُن بچوں کا ہے ،جنہوں نے اِس بگڑے ہوئے دور اور ماحول میں بھی اپنی فطری شرافت کو مرنے نہ دیا-
اس لیئے میں یہ نہیں مانتا کہ آج کی نسل ناقابل اصلاح ہے – میرا یہ دعوی برگر پیسٹری والی کروڑ پتی نسل کے بارے میں نہیں ، متوسط طبقے کے نوجوانوں کے بارے میں ہے –
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ممکن ہے انفرادی طور پر کسی ٹیچر دوست کو کسی تلخ تجربے سے گذرنا پڑا ہو – مجموعی حیثیت میں سب ٹیچرز نوجوان نسل کے بارے میں میری رائے کی تصدیق ہی کریں گے – جاتے جاتے نوجوان نسل کے بچوں کے لیئے علامہ اقبال کی یہ دُعا :
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خُدا کرے کہ جوانی تِری رہے بے داغ——————- رہے نام اللہ کا —-  -٢١  مارچ  2022 

میرا میانوالی-

گورنمنٹ کالج میا نوالی کے سابق پرنسپل ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی بعض اوقات معرفت کی کوئی ایسی بات کہہ دیتے تھے کہ انسان حیران رہ جاتا تھا – ایک دن کہنے لگے یار ملک صاحب کل رات میں ایک ایسے تجربے سے گذرا کہ دیر تک روتا رہا – ہوا یُوں کہ ایک مانگنے والا بندہ ہر رات ٹھیک دس بجے ہمارے دروازے پر دستک دیتا تھا – ہم اُس کے لیئے ایک دو روٹیاں اور سالن بچا رکھتے تھے – ہم اُس کی آمد کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اُس کے منتظر رہتے ہیں- کل رات وہ نہ آیا تو ہم رات بھر پریشان رہے کہ اللہ خیر کرے پتہ نہیں بچارا کیوں نہیں آسکا —– اسی پریشانی کے عالم میں اچانک یہ سوچ کر میری آنکھوں سے آنسُو بہہ نکلے کہ جس طرح ہم اُس فقیر کے نہ آنے پر پریشان ہو رہے ہیں ، اسی طرح اللہ کریم بھی راتوں کے پچھلے پہر اپنے در سے مانگنے والوں کا منتظر رہتا ہوگا – اور جو نہ آسکیں ان کی کمی محسوس کرتا ہوگا –
یہ واقعہ سُناتے ہوئے بھی ڈاکٹر صاحب کی اںکھوں سے آنسُو برسنے لگے ، میری آنکھیں بھی بھیگ گئیں –
——————– رہے نام اللہ کا ——-٢٢  مارچ  2022 

میرا میانوالی-

مجھے ڈاکٹرصاحب (ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج میانوالی ) کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع نصیب ہوا – ویسے تو سب پروفیسر صاحبان سے اُن کا رویہ دوستانہ رہا ، تاہم مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے – مجھے دفتری امُور کا انچارج مقرر کر رکھا تھا ۔ تمام سرکاری خط و کتابت میرے قلم سے ہوتی تھی – مُجھ سے دل کی باتیں شیئر کِیا کرتے تھے – میں نے اُن سے بہت کُچھ سیکھا –
میرے داؤدخیل کا ایک یتیم بچہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا – میرے کہنے پر اُسے ایف ایس سی پری میڈیکل گروپ میں داخلہ بھی دے دیا ،فیس بھی معاف کر دی اور اپنی جیب سے کتابیں بھی خرید کر دلوا دیں – ایف ایس سی کے بعد اُس بچے کو راولپنڈی میڈیکل کالج میں داخلہ ملا تو ڈاکٹر صاحب نے اُسے کتابیں خریدنے کے لیئے اپنی جیب سے پیسے دیئے اور اُس کے اخراجات کے لیئے بھی ہر ماہ رقم بھیجتے رہے –
ڈاکٹر صاحب کے ایک کزن ڈاکٹر محمد اسلم خان نیازی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال راولپنڈی کے ایم ایس تھے – اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا “ بھائی جان ، آپ میانوالی سے اُس بچے کو ماہانہ خرچ بھیجنے کی زحمت گوارا نہ کیا کریں – بچے سے کہہ دیں ہرماہ آکر مجھ سے رقم لے جایا کرے“-
ڈاکٹرصاحب نے کہا “ بھائی صاحب ، میں نہیں چاہتا کہ وہ بچہ ہرماہ کسی کے در پر جاکر ہاتھ پھیلائے – اللہ کے فضل سے میں اُس کا خرچ برداشت کر سکتا ہوں ، اس لیئے یہ کارِخیر میں خود ہی کرتا رہوں گا – آخر اپنی آخرت کا کُچھ سامان مجھے بھی بنانا ہے –
ڈاکٹر صاحب اسی طرح کئی دُوسرے مستحق لوگوں کی بھی مالی مدد کیا کرتے تھے – بہت کُچھ سامانِ آخرت بنا کر لے گئے – گُلزار بخاری نے ایک بزرگ کی وفات پہ کہا تھا –
وہ ساتھ لے گیا ہے وسائل نجات کے
کہتا ہے کون بے سروساماں چلاگیا
ڈاکٹر سرور نیازی کے بارے میں بھی یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے –—————— رہے نام اللہ کا —–٢٣ مارچ  2022

میرا میانوالی-

پچھلے پندرہ بیس سال میں میانوالی شہر نے حیرت انگیز ترقی کی ہے – مین بازار ، مسلم بازار (گُرُو بازار) اور کچہری روڈ تو پہلے بھی آباد تھے ، اب بلوخیل روڈ اور گورنمنٹ ہائی سکول روڈ بھی اچھے خاصے جدید کاروباری مرکز بن گئے ہیں – عوامی چوک سے لاری اڈہ کو جائیں تو دائیں ہاتھ سب سے پہلے رابی سنٹر نام کا پلازہ آتا ہے – اس کے عین سامنے دس بارہ مزید دُکانیں بھی حال ہی میں بن گئی ہیں ، کسی زمانے میں رابی سنٹر کی جگہ صرف ایک سینما ہوا کرتا تھا – آس پاس کوئی دکان نہ تھی –
گورنمنٹ ہائی سکول روڈ سے لاری اڈہ تک سڑک کے بائیں ہاتھ سرکاری تعلیمی ادارے اور ہسپتال ہیں ، دائیں ہاتھ پر بہت بڑے سُپر سٹور اور پلازے ہیں – مٹھائی اور بیکری کی مصنوعات کے علاوہ ملبُوسات کے بھی کئی قومی اور بین الاقوامی برانڈز Gourmet , edenrobe, DINERS , NDURE وغیرہ کی فرنچائیزز پچھلے چند سال میں کُھل گئی ہیں – فہد پلازہ اس علاقے کا اولیں کاروباری مرکز ہے –
یُوں لگتا ہے شہر کی تجارتی ترقی کا رُخ اب اسی علاقے کی طرف ہوگیا ہے – حال ہی میں لاری اڈہ کے سامنے دوسو سے زائد دکانوں پر مشتمل ماڈل بازار بنا ہے ، یہ بھی اگلے ماہ تک مکمل آباد ہو جائے گا –
گلبرگ چوک سے جنوب کو جانے والی سڑک کے دونوں جانب کئی پرائیویٹ ہسپتال بھی گذشتہ چند برسوں میں بنے ہیں جہاں ہر قسم کی طبی امداد ہر وقت دستیاب ہے – لاری اڈہ کے نواح میں اچھے خاصے جدید ہوٹل بھی بن گئے ہیں –
اللہ آباد رکھے ہمارا شہر بہت تیزی سے ایک جدید شہر بنتا جا رہا ہے –
———————– رہے نام اللہ کا ——————–  -٢٤ مارچ  2022

میرا میانوالی- 

تصویر کا دُوسرا رُخ ——-
کاروباری لحاظ سے برق رفتار ترقی کے باوجود شہری سہولتوں کے حوالے سے میانوالی شہر کا بُرا حال ہے – شہر کے کُچھ علاقوں میں تو انفرا سٹرکچر ( سڑکیں ، پانی، بجلی ، گیس وغیرہ) ہےہی نہیں ، جن علاقوں میں ہے وہاں ٹُوٹ پُھوٹ کر ناکارہ ہو رہا ہے – جابجا کچرے کے ڈھیر ، اُبلتے گٹر ، تجاوزات ، بے ہنگم ٹریفک ، کوئی پُوچھنے والا نہیں ، کوئی بتانے والا نہیں –
بس یہ دیکھ کر کُچھ اطمینان ہوتا ہے کہ بُزدار صاحب کی مہربانی سے لاہور بھی تقریبا میانوالی بن چُکا ہے – انفراسٹرکچر کی تباہی ، سہولتوں کے فقدان ، بے مہار ٹریفک ، بے شمار تجاوزات ، کچرے کے ڈھیر ، ہر شہر کا یہی حال ہے – بلدیاتی ادارے عوام کے پریشر پر کُچھ نہ کُچھ کام کرتے رہتے تھے ، پانی کی فراہمی، صفائی اور سڑکوں کی مرمت وسائل کی حد تک ہوتی رہتی تھی – اب نہ بلدیات فعال ہیں ، نہ کام ہو رہا ہے – بلدیات کے ملازمین کہتے ہیں کئی کئی ماہ تنخواہ تو ملتی نہیں، ہم کیوں کام کریں –
اللہ رحم کرے ، بہت افسوسناک صُورتِ حال ہے ، کوئی پُوچھنے والا نہیں ، کوئی بتانے والا نہیں –——————- رہے نام اللہ کا ——————–—— منورعلی ملک ——-٢٥  مارچ  2022

میرا میانوالی-

سال میں شادی کے دوموسم ہوا کرتے تھے ، ایک گندم کی فصل اٹھانے کے بعد ، دوسرا رمضان المبارک کی آمد سے قبل ، اسلامی مہینے تو گردش میں رہتے ہیں ، اس لیئے رمضان المبارک کبھی گرمی میں ، کبھی سردی میں ، کبھی بہار ، کبھی برسات میں آتا ہے ، فصل اٹھانے کا موسم مارچ کے آخر سے مئی کے آغاز تک رہتا ہے – اس موسم میں شادیاں کرنے کا رواج اس لیئے تھا کہ نقد پیسہ تو لوگوں کے پاس اتنا ہوتا نہیں تھا ، اس لیئے گندم بیچ کر شادی کے اخراجات کا بندوبست کیا جاتا تھا –
بالکل سیدھا سادہ کام ہوتا تھا – سسرال والے بہوکے جہیز کے لیئے بہو کے میکے والوں کے گلے پر چُھری نہیں چلاتے تھے – حسبِ توفیق بچی کے والدین چو کُچھ دے دیتے وہی قبول کر لیا جاتا تھا ، کوئی فرمائش ، کوئی تقاضا نہیں کیا جاتا تھا – بجلی نہ ہونے کی وجہ سے فریج ، ٹی وی ، اے سی وغیرہ کا دیہات میں وجود ہی نہ تھا – مہندی ، بارات اور ولیمہ کے مراحل بھی بالکل سادہ ہوتے تھے – اب تو مہندی پہ لاکھوں روپے لُٹا دیئے جاتے ہیں ، چار چار لاکھ کے لہنگے اور مہندی والے سُوٹ ، میکے سُسرال دونوں طرف کی کھال اُتر جاتی ہے – اس لیئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کے دور میں شادی بہت مہنگا سودا ہے – حسبِ طلب جہیز نہ ملنے کی وجہ سے غریب بچیوں کی شادی ہو ہی نہیں سکتی – گھر والے بھی انہیں بوجھ سمجھنے لگتے ہیں – بہت افسوسناک صُورتِ حال ہے – اللہ رحم کرے –
میرے خیال میں دیہات میں اب بھی کسی حد تک سادگی برقرار ہوگی – کم از کم شہری علاقوں جتنے اخراجات نہیں ہوتے ہوں گے – واللہ اعلم –  -26 مارچ  2022

 

 

 

میرا میانوالی-

ڈاکٹر حنیف نیازی کی گاڑی میں تقریبا دو بجے بعد دوپہر ہم میانوالی سے کمر مشانی روانہ ہوئے ، مظہر نیازی تو میری فرمائش پر ڈاکٹر حنیف نیازی کے ساتھ ہی میرے ہاں پہنچے ، میں نے کہا صابر بھریوں کو بھی ساتھ لے لیں ، صابر بھریوں کو لے کر ہم میانوالی سے روانہ ہوئے – راستے میں داؤدخیل کے نہرپُل المعروف ڈاہ ہزار آلا پُل سے سکندرآباد کے ایک مہربان دوست بھی ہمارے ہمسفر بن گئے –
نہر کے ہر ُپل کا الگ مخصوص نمبر ہوتا ہے ، دس ہزار والے پُل کا معاملہ یوں ہے کہ اس کا اصل نمبر تو 10800 ہے مگر اپنی سہولت کے لیئے لوگوں نے اس کا نام ڈاہ ہزار آلاپُل رکھا ہوا ہے – یہ داؤدخیل کا مشہور مقام ہے – یہاں میانوالی سے کالاباغ جانے والی سڑک سے ایک شاخ بائیں ہاتھ کو کوٹ چاندنہ ، جلالپور، خدوزئی ، مندہ خیل ، بُرزی سے گذر کر کمرمشانی میں داخل ہوتی ہے ، اور وہاں سے آگے عیسی خٰیل ، لکی مروت ، بنوں وغیرہ کو جاتی ہے –
پُل کے قریب ہی داؤدخیل کا پہلا جدید ہوٹل الباسط سیاحوں اور پڑھے لکھے لوگوں کے لیئے ایک خُوبصورت گوشہء عافیت کاکام دیتا ہے – اب تو سی پیک رُوٹ کی وجہ سے داؤدخیل اور پُل دس ہزار کی اہمیت یکلخت کئی گُنا بڑھ گئی ہے –
ہمارا قافلہ تقریبا 3 بجے کمر مشانی پہنچا ، کمر مشانی میں قدم رکھتے ہی
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں
اپنے بچپن اور جوانی کی یادوں نے قدم قدم پر استقبال کیا ، اگرچہ گُذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ – حلقہ ادب کے منتظمین نے بہت تپاک سے ہمارا استقبال کیا –
ایک اچانک مصروفیت کے باعث بقیہ داستان ان شآءاللہ کل لکھوں گا –
—————— رہے نام اللہ کا ——————-—— منورعلی ملک ——  -٢٨  مارچ  2022

میرا میانوالی-

حلقہ ء ادب کمر مشانی میں چند یادگار لمحات ——-2
حلقہ ء ادب کے دفتر میں پُرتکلف چائے پینے کے بعد ہم بالائی منزل پر لائبریری ہال پہنچے ، جہاں حلقہ ء ادب کے منتظمین نے ہمارے لیئے استقبالیہ تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا- تلاوتِ قرآںِ حکیم کے بعد میرے بہت پیارے بیٹے احمد نواز خان نیازی نے میری نعتوں سے منتخب اشعار اپنی خوبصورت مترنم آواز میں سُنا کر محفل پر وجد طاری کردیا- احمد نواز خان گورنمنٹ کالج عیسی خٰیل میں میرے سٹوڈنٹ رہے – اعلی ادبی و فنی صلاحیتوں کے باعث میرے بہت قریب رہے – عیسی خیل کالج میں میرے موجودہ جانشین ( انگلش کے لیکچرر ) خلیل الرحمن نے محفل میں میزبانی کے فرائض سرانجام دیئے -ترگ سے میرے سابق سٹوڈنٹ نیازاحمد اور معروف خطاط ظہور احمد صاحب بھی شریک محفل تھے۔
مظہر نیازی اور صابر بھریوں نے اپنا اپنا کلام سُنا کر داد سمیٹی – مندہ خیل کے نوجوان ظفراللہ خان نے اپنی خُوبصورت غزل سنائی – ڈاکٹر حنیف نیازی نے اپنے دلکش انداز میں تعارفی خطاب کِیا – میں نے حلقہءادب کمرمشانی کی علم وادب کے فروغ کے لیئے کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کیا – حاضرین کی فرمائش پر اپنی ایک نعت کے چند اشعار بھی سُنائے –
علم وادب کے چاہنے والے چالیس پچاس افراد کا یہ اجتماع ایک یادگار تقریب تھا – لوگ تو ہمیں مختلف حوالوں سے اچھی طرح جانتے تھے ، لیکن اس پہلی ملاقات میں وقت کی کمی کے باعث حاضرین کا فردا فردا تعارف نہ ہو سکا —- قسمت کی بات ہے حلقہ ء ادب لائبریری کے بانی محمد ساجد خان RESCUE -1122 کی ملازمت کے کسی ٹرنینگ کورس میں شرکت کے لیئے مری گئے ہوئے تھے ، آُن سے ملاقات نہ ہوسکی – حالانکہ مجھےاس دورے کی دعوت دینے اور اس پر اصرار کرنے میں وہی مسلسل کئی ماہ سرگرم رہے-
– ( جاری)
——————— رہے نام اللہ کا —-٢٩  مارچ  2022

میرا میانوالی-

حلقہ ء ادب لائبریری کمر مشانی —-
ہال کی عقبی دیوار کے ساتھ خوبصورت شیلفوں میں تقریبا ڈیڑھ ہزار رنگارنگ کتابیں سجی ہوئی ہیں – دینی کتابوں میں حدیث ِ پاک کی معتبر کتابیں صحیح مسلم اور مشکواہ مع اردو ترجمہ ، فقہ کی معروف کتاب بہارِشریعت نمایاں ہیں – سی ایس ایس کے شائقین اور عوام کی معلومات میں اضافے کے لیئے CURRENT AFFAIRS کے عنوان سے حالاتِ حاضرہ پر بھی بہت سی کتابیں موجود ہیں – مجموعی لحاظ سے اس لائبریری کا سرمایہ ادبی سے زیادہ علمی ہے – ادب ( افسانہ ، ناول ، سفرنامہ ، آپ بیتی ، شاعری) کی کتابیں کم ہیں – ان شاءاللہ یہ کمی ہم پُوری کریں گے – اپنی کُچھ کتابیں ہم ساتھ لے گئے تھے ، مظہر نیازی کے متعدد شعری مجموعوں اور صابر بھریوں کی شاعری کے دو مجموعوں کے علاوہ میری تین کتابیں( درد کا سفیر ، تاریخ انگریزی ادب اور جوتُم سے کہہ نہ سکا ) اور ڈاکٹر حنیف نیازی کی تصنیف موساز ہم نے لائبریری کی نذر کیں – اب یہ سلسلہ ان شآءاللہ چلتا رہے گا – ہم اپنی تصانیف کے علاوہ اردو ادب کی مشہورومعروف شاہکار کتابیں بھی اس لائبریری کو فراہم کرتے رہیں گے – لاہور سے میں اپنی انگریزی کی 12 کتابیں بھی لاکر اس لائبریری کی نذر کروں گا – میانوالی کے اہلِ قلم کی کتابیں جمع کرنے کی ذمہ داری ڈاکٹر حنیف نیازی اور مظہر نیازی نے اپنے سر لے لی ہے – لائبریری انتظامیہ سے ہم مسلسل رابطے میں رہ کر ان کی رہنمائی کرتے رہیں گے –
کمر مشانی میں لائبریری کا قیام ہر لحاظ سے ایک لائقِ تحسین اقدام ہے – نوجوان نسل کی تعلیم اور تربیت کا یہ اہتمام وقت کا ایک اہم تقاضا پُورا کرتا ہے –
میں نے پروفیسر خلیل الرحمن سے لائبریری کی فنڈنگ کے بارے میں پُوچھا تو انہوں نے کہا بس جی ہم لوگ اپنے پاس سے حسبِ توفیق پیسے ڈال کر کتابیں خریدتے رہتے ہیں –
یہ سُن کر افسوس ہوا – کمر مشانی کاروباری لحاظ سے ضلع میانوالی کا امیر ترین شہر کہلا سکتا ہے – اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر یہاں کے لوگوں کو اس لائبریری سے بھرپُور مالی تعاون کرنا چاہیئے –
کل کی پوسٹ میں استقبالیہ ادبی نشست کا ذکر کرتے ہوئے غزل پیش کرنے والے کمر مشانی کے نوجوان شاعر کا نام غلط لکھ دیا ، محمد ساجد خان نے میسیج کر کے بتایا کہ وہ نوجوان پٹرولنگ پولیس کے اے ایس آئی ثناءاللہ اعوان تھے – غلطی پر معذرت –
——————— رہے نام اللہ کا —  -٣٠  مارچ  2022

میرا میانوالی-

کل ڈاکٹر حنیف نیازی کے ریڈر کالج کی سالانہ تقریب میں حاضری دی – طبیعت ٹھیک نہیں تھی ، مگر ڈاکٹر حنیف کا اصرار تھا کہ جب تک آپ اس دنیا میں موجود ہیں میری اس سالانہ تقریب کے مہمانِ خصوصی آپ ہی ہوں گے – یہ اعلان انہوں نے 2020 میں پہلی سالانہ تقریب کے دوران کیا تھا ، پھر اس پر ڈٹ گئے – اللہ کریم انہیں اس محبت کا اجرِعظیم عطا فرمائے – طبیعت کی خرابی کے باوجود انکار نہ کر سکا –
راج محل مارکی میں منعقد ہونے والی یہ تقریب بلاشبہ ایک یادگار تقریب تھی – ایسا حُسنِ انتظام میانوالی کے کسی تعلیمی ادارے کی کسی تقریب میں کبھی نہیں دیکھا – سلیقے سے سجاہوا پنڈال ، سٹیج کے عقب میں سی سی ٹی وی کی سینما سکوپ سکرین ، بہترین ساؤنڈسسٹم ، پروفیسر شاکر خان کی لفظ لفظ دُودھ میں دُھلی میزبانی ، مکمل نظم ، ضبط اور سلیقہ ، تقریب کے آخر میں کھانا ، سب کُچھ شاندار –
ضلع بھر سے تعلیمی اداروں کے سربراہان بھی زینتِ محفل تھے ، سب کو عزت و اکرام سے متعارف کرایا گیا – سب کو ایک ایک یادگاری شیلڈ بھی پیش کی گئی – تقریب میں سٹوڈنٹس نے دلچسپ مزاحیہ خاکے اور مقبول عام گیت پیش کیئے اور خُوب داد سمیٹی – چند ٹیچرز نے بھی خطاب کیا ، ہر لمحہ دلچسپی سے بھرپُور تھا –
ریڈر کالج میانوالی کیمپس سرگودھا کے ریڈر گروپ آف کالجز کا میانوالی کیمپس پے – 2020 میں اس کیمپس کا انتظام و انصرام ڈاکٹر حنیف نیازی نے سنبھال لیا – پہلے سال
صرف 120 سٹوڈنٹس نے داخلہ لیا ، کالج کے حُسنِ انتظام اور اعلی کارکردگی کو دیکھ کر لوگوں کا اعتماد بڑھا ، دُوسرے سال (اس سال) بچوں کی تعداد 700 ہوگئی – کالج میں 43 ٹیچرز کام کر رہے ہیں جن میں سے 11 ایم فِل سکالرز ہیں –
کالج کے جواں سال پرنسپل ملک جہانزیب رحمن انگریزی ادب میں ایم فِل ہیں – ان کی انتظامی کارکردگی ہر لحاظ سے لائقِ صد تحسین ہے – کالج کا ہر شعبہ ، ہر گوشہ ملک جہانزیب کے حُسنِ انتظام کا مظہر ہے – سٹوڈنٹس اور ٹیچرز کا ان کے بارے میں اظہارِ خیال محبت اور احترام کی بہت عمدہ مثالوں سے بھرپُور تھا –
ڈاکٹر حنیف نیازی ضلع میانوالی کے نوجوانوں کی محبُوب ترین شخصیت ہیں – نوجوان لوگ ان کے ویژن کے شیدائی ہیں – ڈاکٹر حنیف کا ویژن یہ ہے کہ انسان کوئی بڑا کام کرنے کا ارادہ کر لے تو غریبی اور پس ماندگی اُس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی – اپنے اس ویژن کو عملی صُورت میں پیش کرنے کے لیئے ڈاکٹر حنیف نے ایسے باہمت و باحمیت نوجوانوں کے لیئے تعلیمی وظائف اور پُرکشش مراعات کا ایک نظام قائم کیا ہے ، جس سے اس وقت160 سٹوڈنٹس مستفید ہو رہے ہیں –
مختصر یہ کہ ریڈر کالج میانوالی ایک عوام دوست ادارہ ہے ، جو غریب طبقے کے بچوں کو بھی خوشحال مستقبل فراہم کرنے کی کاوشِ سعید کر رہا ہے – اللہ کریم ڈاکٹر حنیف اور اُن کے ادارے کا حامی و ناصر ہو-——- رہے نام اللہ کا ——–—— منورعلی ملک ——

-٣١  مارچ  2022 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top