منورعلی ملک کے      ستمبر         2020 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی

سجن او پئے ویندے

تقریبا 25 سال پہلے میں نے شفآءاللہ خان روکھڑی کا یہ گیت سنا تو دل میں اتر گیا – کئی دن تک جب بھی میں اکیلا ہوتا یہی گیت گنگنا تا رہتا – ایک عجیب سا درد تھا شفآءاللہ خان کے لہجے میں یہ گیت گاتے وقت – اس نے بعد میں بھی کئی بار یہ گیت گایا ہوگا ، لیکن جس ریکارڈنگ کا میں ذکر کر رہا ہوں اس میں بات ہی کچھ اور تھی – خدا جانے کس کمپنی کی ریکارڈنگ تھی ، اب تو نام بھی یاد نہیں آرہا –
اس گیت کے بول “سجن او پئے ویندے“ کا مفہوم یہ ہے کہ لوگو دیکھو، میرا محبوب مجھے چھوڑ کر جا رہا ہے – آج یہی شکوہ ہمیں شفآءاللہ خان سے ہے – لاکھوں چاہنے والوں کی بھری محفل چھوڑ کر زیر زمین جابسے –
لالا عیسی خیلوی کے شانہ بہ شانہ شفآءاللہ بھی ملک بھرمیں اور بیرون ملک معروف و محبوب تھے – ضلع میانوالی کا بہت قیمتی سرمایہ تھے – ابھی چند دن پہلے GNN ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں آواز کا جادو جگا رہے تھے- کیا خبر تھی کہ سورج بہت جلد غروب ھونے کو ہے –
شفآءاللہ خان بہت محبت کرنے والے انسان تھے – ایک دفعہ میں ایک پروفیسرساتھی کے ہمراہ نہر کالونی کے راستے واپس آرہا تھا – نہر کالونی کی مسجد کے سامنے ایک ہوٹل کے صحن میں لوگ چارپائیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے – ہم بھی ایک خالی چارپائی پر بیٹھ گئے – چائے پینے کے بعد جب ہم پیسے دینے لگے تو ہوٹل کے ملازم نے کہا جناب، آپ کی چائے کے پیسے شفآءاللہ خان نے دے دئیے ہیں –
پیچھے مڑکر دیکھا تو کچھ فاصلے پر شفآءاللہ خان بیٹھے تھے – میں نے شکریہ ادا کیا تو کہنے لگے “سر، کیوں شرمندہ کرتے ہیں ، آپ کی خدمت کرنا میرے لیے اعزاز ہے “-
یہ ان کی محبت کا انداز تھا ، ورنہ نہ وہ ، نہ ان کے بچے میرے سٹوڈنٹ رہے – انہیں مجھ سے کوئی غرض نہیں تھی ، پھر بھی جہاں ملتے بہت پیار اور احترام سے ملتے ، رب کریم ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے – بہت محبوب و محترم شخصیت تھے –—————————————— رہے نام اللہ کا –  بشکریہ-منورعلی ملک- 1 ستمبر     2020

میرا میانوالی

اللہ رحم کرے , 2020 دکھوں کا سال بن گیا – مقامی اور قومی سطح کی کئی محبوب و محترم شخصیات رخصت ھو گئیں –
میرا ذاتی صدمہ تو آپ جانتے ہیں – اس نے میری زندگی کا رخ ہی بدل دیا –
ویسے ہر جاننے والے کی موت میرے لیے صدمہ ہوتی ہے – اللہ سب کا حافظ و ناصر ہو، اور جو گذر گئے ان کی مغفرت فرما کر انہیں جواررحمت میں قیام عطا فرمائے-
کل شفآءاللہ خان روکھڑی کا ذکر ہوا – ان کی وفات سے دودن بعد داؤدخیل کے حافظ مسعودالحسن کی وفات بھی میرے لیے شدید رنج و الم کا سبب بنی-
حافظ مسعودالحسن داؤدخٰیل میں میاں رمدی رحمتہ اللہ علیہ کے قبرستان میں واقع مسجد کے خطیب تھے – مرحوم داؤدخیل کے معزز قریشی خاندان کے چشم و چراغ تھے – ان کے والد مولوی غلام جیلانی محلہ علاؤل خیل کی مسجد کے خطیب تھے – ایک چچا مولوی غلام یاسین محلہ سالار کی مسجد کے خطیب اور دوسرے چچا مولوی رضامحمد نہر کالونی داؤدخٰیل کی مسجد کے خطیب تھے – ان کے ایک بزرگ حافظ دین محمد محلہ داؤخیل شرقی کی مسجد کے خطیب ہؤا کرتے تھے –
داؤدخیل کے لوگوں کودین کا ابتدائی علم حافظ مسعودالحسن کے بزرگوں سے ملا- اس لیے یہ داؤدخیل کے معززین میں شمارہوتے تھے –
حافظ صاحب ہم سے بہت پیار کرتے تھے – کہا کرتے تھے میں روزانہ آپ کے بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرتا ہوں –
حافظ مسعودالحسن ضلع کے دینی حلقوں میں داؤدخیل کی پہچان تھے – ریٹائرڈ عربی ٹیچر تھے – بہت صاحب علم و عمل انسان تھے – ان سے آخری ملاقات مئی میں میری اہلیہ کی قل خوانی میں ہوئی –
رب کریم ان کی مغفرت فرماکر انہیں ان کے علم و عمل کا اجر خیر عطا فرمائے – اور ان کے لواحقین کو صبرجمیل نصیب ہو-
——————————————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 2  ستمبر     2020

میرا میانوالی

ساون , بارشوں، سرسبزی اور شادابی کا موسم ہوا کرتا تھا – بارشیں اب بھی ہوتی ہیں ، مگر اب لوگوں نے آبپاشی کا اپنا بندوبست کر رکھا ہے – ٹیوب ویل ، نہروں وغیرہ کے پانی سے بنجر زمینیں سونا اگل رہی ہیں – گندم، چاول، گنا، کپاس پھل اور سبزیاں کاشت ہوتی ہیں – ایک سال میں تین چار فصلیں کاشت ہو سکتی ہیں کہ آبپاشی آسان ہے –
ایک وہ زمانہ تھا جب آبپاشی کے لیے تمام انحصار ساون کی بارش پر ہوتا تھا – سال میں صرف ایک ہی فصل (گندم) کاشت ہو سکتی تھی – لوگ بڑی بے چینی سے ساون کی بارشوں کے منتظر رہتے تھے – جولائی سے ستمبر تک کے عرصے میں دوچار اچھی خاصی بارشیں ہو جاتی تھیں – انہی بارشوں کی نمی اکتوبر نومبر میں گندم کی کاشت سے لے کر دسمبر جنوری تک فصل کی پرورش کرتی تھی – دسمبر جنوری میں ہلکی مسلسل بارشوں کا ایک اور سلسلہ فصل کو مارچ ، اپریل میں پکنے تک نمی مہیا کر دیتا تھا –
ہمارے ہاں چچالی والا بادل بارش کا بڑا سبب ہوا کرتا تھا – چچالی ضلع کے شمال مغربی پشتون علاقے کا ایک پہاڑی نالہ ہے – اسی نام کا ایک گاؤں بھی اس علاقے میں ہے – شمال مغرب سے کالا سیاہ بادل اٹھتا دیکھ کر لوگ کہا کرتے تھے “ آیا چچالی آلا بدل“ – ایک کہاوت یہ بھی تھی “چچالی ، نہ ویسی خالی“ یعنی یہ بادل ہر جگہ برسے گا ، کسی علاقے کو خالی نہیں رہنے دے گا –
بادل بہت تیزی سے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے کر جل تھل ایک کر دیتا تھا – اس کی تیز رفتاری کے حوالے سے بھی ایک دلچسپ کہاوت تھی “ چچالی بدل گجے ، ترمت گاں چوینی بھجے “ مطلب یہ کہ چچالی پر بادل گرجے تو سنبھلے کا موقع نہیں دیتا – گائے کا دودھ دوہتی ہوئی خواتین کو بھی دودھ سے زیادہ اپنی جان بچانے کی فکر لگ جاتی ہے – اور وہ بھاگ کر مکانوں میں پناہ لیتی ہیں-
بہت تیز، زور دار بارش ہوتی تھی ، لیکن سراپا رحمت اور سرسبزی لے کرآتی تھی – آج کل تو اللہ معاف کرے ———
گذرگیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ——————————————- رہے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک-  3ستمبر     2020

میرا میانوالی

انسان کو اللہ نے بلاشبہ بہت طاقت دی ہے ، لیکن اللہ کی اپنی بے حساب طاقت کی بہت ہلکی سی جھلکیاں کبھی کبھی سمندری طوفانوں ، زلزلوں اور سیلابوں کی تباہ کاریوں میں نظر آتی ہیں تو انسان سر سے پاؤں تک لرز اٹھتا ہے- – ان آفات کے سامنے انسان کی تمام تر طاقت، ٹیکنالوجی، وسائل بے بس ہو جاتے ہیں – ہم یہ مناظر دنیا کے مختلف علاقوں میں آئے دن دیکھتے ہیں –
اپنے علاقے کی ایک ایسی ہی طاقت کا تذکرہ آج ہوگا – یہ طاقت چچالی کا پہاڑی نالہ ہے جو میانوالی / عیسی خیل روڈ پر کالاباغ اور کمر مشانی کے درمیان آتا ھے – اس نالے کی طاقت اور توانائی کا جو ذکر میں لکھ رہا ہوں ، بے شک حیرت انگیز ہے مگر اس میں کوئی مبالغہ ہرگز نہیں – علاقے کے لوگ بھی ان باتوں کے گواہ ہیں ، خود میں نے اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھے ہیں –
چچالی نالہ کوئی معمولی پہاڑی نالہ نہیں – دریا سے زیادہ منہ زور اور خطرناک آبی گذرگاہ ہے – جب کبھی چچالی پہاڑ پر بارش ہوتی ہے پانی کا بپھرا ہوا ریلہ پہاڑ سے اتر کر چند کلومیٹر جنوب میں واقع دریا کا رخ کرتا ہے – پانی کا بہاؤ اتنا تیز اور طاقتور ہوتا ہے کہ انسان اس میں گر جائے تو اٹھنے نہیں دیتا – تنکے کی طرح بہتا ہوا سیدھا دریا میں جا گرتا ہے جہاں سے پھر اس کی لاش ہی برآمد ہوتی ہے –
نالہ جتنی دیر بہتا ہے عیسی خیل اور میانوالی کے درمیان ٹریفک معطل رہتی ہے – ایک دفعہ اس نالے نے ایک بس کو بہا کر دریا میں جا پھینکا تھا – شکر ہے کنارے پر پانی کم گہرا تھا بس کے مسافروں کی جان تو بچ گئی ، بس کئی دن وہاں پڑی رہی ، پھر کرین کے ذریعے وہاں سے نکال کرمرمت کے لیے لے گئے –
چچالی پر پل بنانے کی کوشش بار بار ناکام ہوتی رہی – کئی بار پل بنے اور پانی کے ایک ہی ریلے میں ریت کے گھروندوں کی طرح ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئے – اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے خاصا مضبوط پل بن تو گیا ہے ، پتہ نہیں یہ کتنے دن چلتا ہے –
چچالی کی دوشاخیں ہیں – ایک کوٹ چاندنہ اور جلالپور کے درمیان ، دوسری جلالپور اور خدوزئی کے درمیان ، پانی کا بڑا ریلہ دوسری شاخ میں سے گذرتا ہے – عام حالات میں تو وہاں ریت اڑتی رہتی ہے – لیکن جب چچالی پہاڑ پر بارش ہو تو پانی کا ایک بہت بڑا ریلہ گولی کی طرح تیز رفتار سے بہتا ہؤا ، آٹھ دس کلو میٹر دور دریائے سندھ میں جاگرتا ہے – اس پانی میں بھاری بھرکم پتھر بھی لڑھکتے ھوئے آتے ہیں – پانی میں سے گذرنے والے کی ہڈی پسلی یہ بھی چورچور کر سکتے ہیں –
اللہ قوی عزیز    —————————————- رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک-4ستمبر     2020

میرا میانوالی

1965 کی جنگ کے شہیدوں کا وطن کے نام پیغام —————–
ہم تو مٹ جائیں گے اے ارض وطن، پر تم کو
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
ضلع میانوالی ملک کی مشرقی سرحد سے بہت دور ہے – اس لیے ہم نے محاذ جنگ کے مناظر تو کبھی نہیں دیکھے، لیکن جنگ صرف محاذوں پر متعین فوج نہیں لڑتی بلکہ پوری قوم لڑتی ہے – اس حوالے سے الحمدللہ ہم نے بھی 1965 کی جنگ میں حسب توفیق خوب حصہ ڈالا – محاذ پر سینہ سپر مجاہدین کے لیے بستر، کپڑے، کھانے پینے کا سامان ، بسکٹوں کے ڈبے ، رسک (رس) کے پیکٹ ، مونگ پھلی ، ریوڑیاں سگریٹ ، تولیے ، صابن ، ٹوتھ پیسٹ ، برش ، غرض روزمرہ ضرورت کی ہر چیز یہاں سے بھی بھجوائی گئی – ماؤں بہنوں بیٹیوں نے بھی اس کام میں قابل قدر حصہ لیا – بھنے ہوئے چنے ، چاول ، چنے اور تلوں کے مرنڈے ، اپنے ہاتھوں سے بنا کرمحاذ جنگ پر اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے لیے بھجواتی رہیں – کئی خواتین نے تو اپنا زیور بیچ کر رقم اپنے بھائیوں ، بیٹوں کے لیے بھجوادی –
ہر دوسرے تیسرے دن یہاں سے سامان کے ٹرک محاذ جنگ کو روانہ ہوتے تھے –
کیا جوش تھا، کیا ولولہ ، کیا تعاون ، کیا ایثار —– !!!!! جن لوگوں نے وہ مناظر دیکھے نہیں ، انہیں کیا پتہ کہ اس جنگ میں قوم نے کیا کردار ادا کیا – یوں سمجھیے انڈیا نے سوئے ہوئے شیر کو چھیڑ دیا – شیر کی گرج اور جھپٹ دیکھنے والی تھی –
آج پھر شیر سویا ہوا ہے – کشمیر پر بھارت نے قبضہ کر لیا ہے – ہم کبھی اقوام عالم ، کبھی امت مسلمہ کی طرف دیکھتے ہیں – مظلوم کشمیریوں کو ڈھنگ کی تسلی بھی نہیں دے سکتے – ہم کہتے ہیں ہم کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں – کھڑے تو ہم 73 سال سے ہیں ، اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے – اقبال نے ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا تھا :
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
——————————————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-5 ستمبر     2020

میرا میانوالی


ضلع میانوالی کی صرف زمین ہی سونا نہیں اگلتی – یہاں کا پہاڑی سلسلہ (کوہستان نمک) بھی قدرت کے خزانوں سے مالامال ہے – یہ پہاڑی سلسلہ تحصیل عیسی خیل سے چھدرو تک پھیلا ہوا ہے – اس سے آگے جنوب میں یہ سلسلہ ضلع خوشاب میں داخل ہوجاتا ہے – شمال مغرب میں یہ کوہ سلیمان سے جا ملتا ہے –
کوہستان نمک میں نمک کے علاوہ کوئلہ ، لوہا اور یورانیم کے ذخائر بھی موجود ہیں – لیکن زیادہ مقدار نمک کی ہے – ضلع میں نمک کی سب سے بڑی کان کالاباغ میں دریائے سندھ کے شمال مغربی کنارے پرککڑانوالہ کے قریب واقع ہے – کالاباغ میں تو نمک پہاڑکی سطح کے اوہر بھی پتھر کے چھوٹے بڑے روڑوں کی شکل میں عام پایا جاتا ہے – بچپن میں ہم جب کبھی کالاباغ جاتے تو جیبیں بھر لاتے تھے- کالاباغ میں نمک کے خوبصورت برتن اور آرائیشی چیزیں (ڈیکوریشن پیس) گلدان، ایش ٹرے وغیرہ بھی بنتے ہیں –
نمک کی کان کی شاخیں زیر زمین میلوں تک پھیلی ہوئی ہیں – یہ سب سلسلہ محکمہ معدنیات کے ایک افسر کے ماتحت ہے – ویسے تو وہ افسر مائینینگ انجینیئر ہوتا ھے – لیکن لون (نمک) کے حوالے سے عام لوگ اس افسر کو لونی صاحب کہتے ہیں – دلچسپ بات یہ ہے کہ انگلش میں لونی (loony) پاگل کو کہتے ہیں – شکرہے عام لوگ یہ بات نہیں جانتے ورنہ بچارے اچھے بھلے افسر کو سچ مچ کا پاگل بنا دیتے-————————————————– رہے نام اللہ کا —

بشکریہ-منورعلی ملک- 6ستمبر     2020

 

 

میرا میانوالی

کل اچانک اپنی ایک بہت پرانی ڈائری پرانے کاغذوں کے ڈھیر میں مل گئی – اس میں میں نے کسی زمانے میں اپنی کچھ شاعری لکھی تھی – آج اس میں سے ایک غزل آپ کی نذر- شاید کوئی شعر آپ کے کام کا نکل آئے –
دراصل آج کچھ اور کام کرنا ہے ، اس لیے انہی چند شعروں کو میری آج کی حاضری سمجھ لیں – کل ان شآءاللہ آگے روانہ ہوں گے —————-
یوں ہنس کر وہ ملتا ھے
جیسے اب بھی میرا ھے
موسم کتنا پیارا ھے
تیری آنکھوں جیسا ھے
حال کسی نے پوچھا ھے
صرف اک آنسو ٹپکا ھے
دکھ بس صرف اس بات کا ھے
تو بھی لوگوں جیسا ھے
کل پھر اس کو دیکھاھے
پھر وہ شخص اکیلا ھے
دل تو بہلا رہتا ھے
ورنہ کون کسی کا ھے
کام بہت سا رہتا ھے
اور واپس بھی جانا ھے
———————————————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 7ستمبر     2020

میرا میانوالی

مختلف موضوعات اور شخصیات پر پوسٹس لکھنے کی فرمائشیں اکثر آتی رہتی ہیں – مگر اکثراوقات تعمیل نہیں کر سکتا ، کیونکہ ان شخصیات اور واقعات کے بارے میں پہلے لکھ چکا ہوں ، اور میری وہ تمام تحریریں کرنل شیر بہادر خان نیازی کی مہربانی سے mianwali.org نامی ویب سائیٹ میں محفوظ ہیں – آپ اسی لنک پر کلک کر کے اپنی مطلوبہ معلومات وہاں سے دیکھ سکتے ہیں – جنوری 2016 سے جولائی 2020 تک کی میری تمام پوسٹس آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں –
میری پوسٹس کے علاوہ بھی کرنل صاحب کی ویب سائیٹ میانوالی کی تاریخ ، جغرافیہ اور کلچر کے بارے میں دلچسپ اور مستند معلومات , اور نایاب پکچرز کا بہت بڑا خزانہ ہے – کرنل صاحب کا اہل میانوالی پر احسان ہے کہ وہ سالہا سال سے ضلع میانوالی کے بارے میں معلومات آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لیے تاریخ کے سپرد کر رہے ہیں ——–
نہ ستائش کی تمنا ، نہ صلے کی پروا
رب کریم انہیں بے حساب عزت اور نعمتوں سے نوازے ، ان سے محبت اور عقیدت ہمارا فرض ہے – انصاف کی بات تو یہ ہے کہ کرنل صاحب کو ان مخلصانہ کاوشوں کے اعتراف میں قومی سطح کا ایوارڈ ملنا چاہیے –
بات بہت دور نکل گئی – آپ کی فرمائشوں کا ذکر ہورہا تھا – سب سے زیادہ فرمائشیں لالا عیسی خیلوی کے بارے میں لکھنے کی آتی ہیں – لالا کے بارے میں تو میں پوری کتاب “درد کاسفیر“ لکھ چکا ہوں – فیس بک پر بھی کبھی کبھار ان کا ذکر کرتا رہتا ہوں – روزانہ تو ان کے بارے میں نہیں لکھ سکتا کہ فیض صاحب کے قول کے مطابق ——
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
پچھلے دنوں ایک پکچر دیکھ کر کئی دوستوں نے ہروفیسر عبدالغفار خٹک کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کی – ان کی پکچر تلاش کر رہا ہوں ، ان شآءاللہ کل ان کے بارے میں لکھوں گا –
———————————————— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 8 ستمبر     2020

میرا میانوالی

پروفیسر عبدالغفارخان خٹک گورنمنٹ کالج میانوالی کے شعبہ ء انگریزی میں ہمارے بہت محترم ساتھی تھے – میں انہیں ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کے لیے رول ماڈل کہا کرتا ہوں – اپنا فرض مکمل دیانت داری سے وقت اور اصولوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنا کوئی خٹک صاحب سے سیکھے – ان کی جملہ صفات کا احاطہ کرنے کے لیے اردو میں کوئی ایک لفظ نہیں مل رہا – انگلش لفظ Thoroughgoing خٹک صاحب کے کردار اور شخصیت کا مناسب عنوان بن سکتا ھے – اردو (دراصل فارسی) لفظ “جزرس“ کسی حد تک اس معیار پر پورا اترتا ھے –

 

پروفیسرخٹک صاحب فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد لیکچرر کی حیثیت میں ہمارے ساتھی بنے – فوج کے ٹریننگ کالج میں یہ اسلحہ کے انسٹرکٹر تھے – مارٹر گن کے استعمال کے اتنے بڑے ماہر تھے کہ فوج کے اس ٹریننگ کالج میں ان کی پکچر آج بھی آویزاں ھے – پکچر کا عنوان ہے Master of Masters یعنی استادوں کے استاد – فوجی تربیت کے مطابق خٹک صاحب بہت منظم اور منضبط زندگی گذارنے کے عادی ہیں – اللہ سلامت رکھے بہت پرسکون ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہے ہیں –
خٹک صاحب انگلش کے بہت کامیاب ٹیچر ہیں – سٹوڈنٹس ان کے کام سے ھمیشہ مطمئن رہے – یہ ایم اے انگلش کو کلاسیکل پوئٹری پڑھاتے تھے ، میں ڈرامہ – پہلا پیریئڈ ان کا ہوتا تھا ، دوسرا میرا ، تیسرا پروفیسر سرور خان صاحب کا – یوں ہم تینوں کا آپس میں تعلق مرزاغالب کے الفاظ میں یہ بھی تھا کہ ————
وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
بہت سی خوبصورت یادیں ہیں ——— بڑی طویل کہانی ہے ، پھر کبھی اے دوست
——- رہے نام اللہ کا —پکچر— پروفیسرخٹک صاحب اور میں ، گورنمنٹ کالج میانوالی میں ، ایم اے انگلش کی پہلی کلاس (1992) کے ساتھ –

بشکریہ-منورعلی ملک- 10ستمبر     2020

میرا میانوالی

باجرے کا موسم ہے – اب تو پتہ نہیں باجرہ کہاں کاشت ہوتا ہے – ہمارے بچپن کے دور میں لوگ زمین کا کچھ حصہ باجرے کی کاشت کے لیے وقف کر دیتے تھے –
باجرے کی روٹی کو پیاچہ کہتے تھے – توے پر گھر کا خالص دیسی گھی ڈال کر باجرے کا پتلا گوندھا ہوا آٹا اس کے اوپر پھیلا کر موٹی سی روٹی بنالیتے تھے – اوپر سے کچھ اور گھی ڈال کر اس روٹی کو فرائی کر لیتے تھے –
بہت مزیدار تھی باجرے کی روٹی – گھی میں نوالے ڈبو کر لسی کے ساتھ یہ روٹی دوپہر کا کھانا ہوا کرتی تھی – باجرے کی روٹی کی چوری تو ایک بے مثال نعمت تھی – خالص گھی اور شکر سے بنی ہوئی چوری سب لوگ بڑے شوق سے کھاتے تھے – بہت لذیذ چیز ھے – اللہ توفیق دے تو کبھی کھا کر دیکھیں –
دوپہر کے بعد باجرے کے بھنے ہوئے دانے بھی بڑے شوق سے کھائے جاتے تھے – انہیں پھلے کہتے تھے – آج کی زبان میں ان کو پاپ کارن کہہ لیں –
باجرے کے دانے پانی میں ابال کر بھی کھائے جاتے تھے – اس شکل میں یہ بھنگور کہلاتے تھے – آج کل تو باجرا شاید صرف بٹیروں کی خوراک کے طور پر استعمال ہوتا ہے –
ہمارے گھر کے سامنے سڑک تک دس کنال کا رقبہ ہمارے دادا جان نے باجرے کی کاشت کے لیے وقف کر رکھا تھا – چاچا بشیرن (بشیراحمد) باجوہ اس میں باجرا کاشت کرتے تھے – باجرے کی فصل کو انسانوں اور پرندوں سے بچانے کے لیے اس کی راکھی کرنی پڑتی ہے – حفاظت نہ کی جائے تو لوگ سٹے توڑ کر ان میں سے دانے نکال کر کھاجاتے ہیں – یہ چوری ہم بھی اکثر کرتے رہتے تھے – زمین اپنی تھی مگر چاچا بشیراحمد سٹے توڑنے کی اجازت ہمیں بھی نہیں دیتے تھے – اس لیے چوری کرنا پڑتی تھی –
باجرے کو چڑیوں سے بھی بچانا پڑتا تھا – چڑیوں کے بڑے بڑے جھار (غول) باجرے کی فصل پر حملہ آور ہوتے تھے ، ایک طرف سے اڑاتے تو دوسری طرف سے حملہ آور ہو جاتے تھے- دن بھر یہ آنکھ مچولی چلتی رہتی تھی – چڑیوں سے جنگ میں نعرہ تکبیر کی بجائے یہ نعرہ چلتا تھا ،
ہو چڑی ہووووو —- ئیں میڈا سٹا بھنا ، میں تیڈا گٹا بھنا ، ہو چڑی ہوووو-
جنگ میں جیت ہمیشہ چڑیوں کی ہوتی تھی – اللہ نے ان کا چو رزق مقرر کر رکھا تھا ، وہ کھاکر ہی جاتی تھیں –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ——- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک10ستمبر     2020

میرا میانوالی

نہ سہی چھٹی جوار دی
باجرے کے ساتھ کچھ لوگ جوار بھی کاشت کرتے تھے – جوار کا دانہ باجرے سے ذرا بڑا ہوتا ہے – اس کا ذائقہ ذرا سا کڑوا ہوتا ہے ، اس لیے لوگ کھانا پسند نہیں کرتے – کچھ لوگ شوقیہ جوار کی روٹی کبھی کبھار بنوا لیتے ہیں – ایک آدھ دفعہ ہم نے بھی کھائی ہے – عام روٹی سے ذرا سخت ہوتی ہے – اس کے فائدے نقصان کا کچھ پتہ نہیں- ہم نے تو مکھن کے ساتھ کھائی تھی – مکھن کے ساتھ جو چیز بھی کھائیں اچھی ہی لگتی ہے –

 

جوار چارے کے طور پر کاشت کی جاتی تھی – دودھ دینے والے مویشیوں کی پسندیدہ خوراک تھی — جوار کا پودا باجرے سے ذرا سا چھوٹا ھوتا ہے – اس کے پتے باجرے سے زیادہ چوڑے ہوتے ہیں – اس کا تنا گنے کی طرح رسیلا اور میٹھا ہوتا ہے – اسے ٹانڈا کہتے تھے – جوار کے کھیتوں سے ٹانڈے چرا کر چوسنا بچوں کا پسندیدہ شغل ہوا کرتا تھا – کسانوں کی پانچ سات گالیوں کے بدلے دس بارہ ٹانڈے مہنگا سودا نہیں سمجھا جاتا تھا –
جوار کے حوالے سے ایک دلچسپ کہاوت بھی تھی —– نہ سہی چھٹی جوار دی
اس کا استعمال کچھ یوں ہے کہ فرض کریں کوئی کہے فلاں نے نئی لینڈ کروزر گاڑی خریدی ہے – جواب میں دوسرا آدمی کہتا ہے “اساں وی گھنساں ، نہ سہی چھٹی جوار دی “ —— (ہم بھی خریدلیں گے جوار کی ایک بوری بیچ کر) – جوار کی بوری اول تو کسی گھر میں ہوتی نہیں ، ہو بھی تو اس کی قیمت سے گاڑی کہاں مل سکتی ہے – عموما یہ کہاوت مذاق میں بولی جاتی تھی –
—————————————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 11ستمبر     2020

میرا میانوالی

یہ موسم مہمان پرندوں کی آمد کا موسم بھی ھے – روس کے علاقے سائیبیریا کی جھیلوں کا پانی سردی کے موسم میں منجمد ہو کر برف بن جاتا ہے ، پانی منجمد ہونے سے وہ پرندے رزق سے محروم ہو جاتے ہیں جن کا رزق اس پانی سے حاصل ہوتا ہے – مگر اتنی عقل ، ہمت اور طاقت اللہ نے ان پرندوں کو بھی دی ہے کہ یہ جھیلوں کا پانی خشک ہونے سے ایک آدھ ماہ پہلے وہاں سے ہجرت کر کے گرم علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں سردی کے موسم میں سردی تو پڑتی ہے مگر پانی منجمد نہیں ہوتا – یوں مختلف قسم کے لاکھوں پرندے ہر سال پاکستان آتے ہیں اور موسم گرما کے آغاز سے پہلے مارچ اپریل میں واپس اپنے وطن کو لوٹ جاتے ہیں – یہ مسافر پرندے تقریبا 4500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے آتے جاتے ہیں – اللہ کی شان ہے –
آبی پرندوں میں سے زیادہ تر مختلف قسم کی مرغابیاں ہمارے ہاں آتی ہیں – ان کے علاوہ کونجیں اور بٹیر بھی وہیں سے آتے ہیں – کونج اور بٹیر آبی پرندے نہیں – یہ تیر نہیں سکتے – ان کا رزق دریاؤں ، جھیلوں کے کنارے اگنے والی گھاس سے وابستہ ہے – کھیتوں میں بھی انہیں کھانے پینے کو بہت کچھ مل جاتا ہے – اس لیے بٹیر زیادہ تر دیہاتی علاقے میں باجرے کے کھیتوں میں اترتے ہیں – یہ رات کو اڑتے ہیں ، دن کو چھپے رہتے ہیں – مرغابیوں کی آمدورفت کا اپنا ٹائیم ٹیبل ہے ، بٹیر اور کونجیں ایک ساتھ آتے ہیں –
اس موسم میں داؤدخٰیل میں چاچا صالح محمد درکھان اور چاچا گھیبہ سنارا کے بیٹے جال کی مدد سے بٹیرپکڑ کر لاتے تھے- لوگ کھانے کے لیے بٹیر ان سے خریدتے تھے- دوآنے کا ایک بٹیر ملتا تھا ، ایک آنے کی بٹیری – بٹیر تو مردود سکے سڑے ہوتے تھے بٹیریاں خاصی موٹی تازی ہوتی تھیں – پھر بھی بچاریوں کی قیمت بٹیروں سے کم ہوتی تھی – نصیب کی بات ہے –———- رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک- 12ستمبر     2020

میرا میانوالی

عام طور پر ماضی کے بارے میں لکھتا ہوں کہ ماضی آج سے بہرحال بہتر تھا – لوگ غریب مگر ایمان دار اور خوددار تھے – ان لوگوں کے بارے میں یہ بتانے کے لیے لکھتا ہوں کہ ان کے اصول ، سادگی، سچائی اور دیانت اپنا کر ہم بھی پرسکون زندگی بسر کر سکتے ہیں –
حال کے بارے میں لکھنے سے اس لیے گریز کرتا ہوں کہ حال متنازعہ ہے – قوم بری ظرح تقسیم ہو چکی ہے – سچی بات کہنا بھی مشکل ہے، سننا بھی – لیکن پھر بھی وہ جو فیض صاحب نے کہا تھا
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کے بارے میں لکھنا ضروری ہو جاتا ہے – نہ لکھیں تواپنا ضمیر ملامت کرتا ہے –
ذکر ہے لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا – بہت المناک واقعہ ہے – لاہور پولیس کے سربراہ نے کہا خاتون آدھی رات کے وقت باہر نکلی کیوں تھی – نکلنے سے پہلے گاڑی کا پٹرول کیؤں نہیں چیک کیا –
ذمہ دار پولیس افسر کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر انہیں ہر طرف سے لعنت ملامت ہو رہی ہے ، ہونی بھی چاہیے – کیونکہ ان کا بیان خاتون کے کردار کو مشکوک ٹھہراتا ہے – اس پولیس افسر نے یہ نہیٰں سوچا کہ کوئی عورت برے ارادے سے بچوں کو ساتھ لے کر نہیں نکلتی – اللہ جانے بچاری کو کیا مجبوری تھی – مجبوری کے بغیر رات گئے گھر سے باہر کون نکلتا ہے –
اس پولیس افسرکی حماقت سے زیادہ احمقانہ وزیر اعلی ، آئی جی پولیس اور وزیر قانون کی پریس کانفرنس تھی جس میں یہ بتایا گہ مجرم ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ہے – ناکامی کا اعلان اس قدر شان و شوکت کے ساتھ پہلی دفعہ دیکھنے سننے میں آیا – وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں “کون لوک او تسی؟“ اس انداز حکمرانی کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے –
جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا – اب مجرموں کو پکڑ کر قانون کے حوالے کرنا ہے – دیکھیں کیا ہوتا ہے – فی الحال تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظرآرہا ہے – اللہ خیر کرے – اگر پولیس اصل مجرموں کو پکڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پولیس کو خراج تحسین پیش کروں گا ۔ ورنہ جو لکھ دیا یہی کافی ہوگا –—- رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک- 13ستمبر     2020

میرا میانوالی

اہم وضاحت —————–
صبح کی پوسٹ کے حوالے سے حمیداللہ خان نیازی کی آج کی پوسٹ چشم کشا معلومات فراہم کرتی ہے – حمیداللہ خان بتاتے ہیں کہ ان خاتون کے شوہر پیرس (فرانس) میں رہتے ہیں – ان کے سسرال گوجرانوالہ اور میکہ گھر لاہور میں ہے – سسرال اور میکے والوں کے تعلقات کشیدہ ہیں – اس لیے ان کے شوہر اور سسرال والے ان کا میکے جانا پسند نہیں کرتے –
وقوعہ والے دن یہ خاتون کچھ چیزیں خریدنے کے لیے لاہور آئیں تو کچھ دیر کے لیے اپنے میکے گھر بھی گئیں – قدرتی بات ہے کوئی بھی عورت اپنے میکے سے قطع تعلق نہیں کر سکتی – میکے گھر میں انہیں کچھ دیر لگ گئی – بچوں کو نیند آنے لگی تو خاتون انہیں لے کر گوجرانوالہ روانہ ہوئیں – راستے میں جو المناک سانحہ ہوا ، اس کی تفصیلات حمید اللہ خان کی پوسٹ میں دیکھ لیں – میں حمیداللہ خان سے بہتر نہیں لکھ سکتا – اللہ انہیں بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے انہوں نے بہت سے شکوک و شبہات کا ازالہ کردیا –

بشکریہ-منورعلی ملک- 14ستمبر     2020

جب کبھی موٹروے سانحہ جیسا ہولناک واقعہ ہوتا ہے سوشل میڈیا پر اور گلی کوچوں میں یہ بحث ھونے لگتی ہے کہ مجرموں کو عبرتناک سزا کس طرح دی جائے –
عام لوگ کہتے ہیں سرعام سزائے موت دی جائے —— خاص لوگ کہتے ہیں ، کیا فائدہ ، جرم تو پھر بھی ہوتا رہے گا ——– بہت ہی خاص لوگ انسانی حقوق کا رونا رونے لگتے ہیں- کہتے ہیں سرعام سزائے موت انسانیت کی تذلیل ھے – ان بہت ہی خاص لوگوں میں سرفہرست میراجسم میری مرضی والی خواتین بھی ہیں —- بعض بہت زیادہ پڑھے لکھے دانشور بھی انسانی حقوق کے نام پر یوں چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں جیسے ایک مجرم کو سرعام سزا دینے سے آسمان ٹوٹ کر گر پڑے گا – اس احتجاج کو سادہ لفظوں میں صرف بے غیرتی ہی کہا جا سکتا ہے – سنا ہے اس کے انہیں بیرون ملک سے پیسے بھی ملتے ہیں –
انسانی حقوق کے ان چاچوں ماموں سے کوئی پوچھے کہ کیا گینگ ریپ کا شکار ہونے والی مظلوم بچیوں اور بچوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں ھوتے – بے حرمتی کر کے دفن کی جانے والی بچیوں اور بچوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے – قرآن تو کہتا ہے دفن ہونے والی سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا
“ بای ذنب قتلت ؟“ (تجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟)
—– پھر وہاں جو کچھ ہوگا اس کا تصور ہی لرزہ خیز ہے –
سیدھی سی بات ہے ایسے مجرموں کو سرعام سزائے موت دی جائے – بکواس ہے جو یہ کہتے ہیں کچھ بھی نہیں ہوگا ——— بہت فرق پڑجائے گا —— سعودی عرب سے ہمیں لاکھ شکایتیں اپنی جگہ , ان کا نظام عدل ہم سے ہزار ہا گنا بہتر ہے – شاید پہلے بھی ذکر کیا تھا پچھلے دنوں ایک ویڈیو کلپ دیکھا – گینگ ریپ کے تین مجرموں کو قطار میں بٹھا کے تلوار کے ایک ایک وار سے ہر ایک کا سرقلم کردیا گیا – ایک منٹ میں کام ختم – یہ منظر سرعام ہوا – لوگوں کا ایک ہجوم یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا –
سوال یہ ہے کیا ہمارے ہاں ایسا ہو سکتا ہے ؟ قانون بنانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون اسی پارلیمنٹ نے چند منٹ میں پاس کر دیا تھا – اپوزیشن بھی بسم اللہ کرکے اس کارخیر میں شریک ہوئی تھی – بلکہ اپوزیشن تو حکومت سے بھی زیادہ جلدی میں تھی –
کیا اسی اتحاد ، تنظیم اور ایمان کا مظاہرہ گینگ ریپ کے مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے بھی ہو سکتا ہے – ؟؟؟؟
———————————————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 14ستمبر     2020

میرا میانوالی

آج سے سات سال پہلے جنرل ثناءاللہ خان نیازی نے قبائلی علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف ایکشن میں جام شہادت نوش کیا – جنرل ثناءاللہ نیازی داؤدخیل کے قبیلہ علاؤل خیل کے ایک معزز گھرانے کے چشم و چراغ تھے – ان کے والد محترم خلاص خان بلوچستان پولیس میں ایس ایس پی ریٹائر ہوئے – بھائی رحمت اللہ خان ڈی آئی جی پولیس ہیں – تیسرے بھائی امین اللہ خان ایم پی اے ہیں –
جنرل ثناءاللہ خان نیازی عام جرنیل نہ تھے – بہت نرم مزاج ، زندہ دل اور دوست دار انسان تھے – لوگ ان کے ماتحت کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے – سپاہیوں کے ساتھ دوستانہ روئیے کی وجہ سے انہیں Soldiers’ General (سپاہیوں کا جرنیل) کہا جاتا تھا –
سوات کے علاقے میں متعین تھے تو وہاں کے شہریوں کے بہت سے مسائل اپنی خصوصی توجہ سے حل کروادیئے – ایک دور افتادہ گاؤں کے لوگوں نے بچیوں کے سکول کا مطالبہ کیا – حکومت نے اس مقصد کے لیے مناسب رقم فراہم نہ کی تو جنرل صاحب نے کچھ پیسے اپنی جیب سے ، کچھ ساتھیوں – عزیزوں رشتہ داروں سے لے کر سکول بنوا دیا – درویش صفت انسان تھے ، فوج کے سپاہیوں اور عوام کے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے – عام آدمیوں کی طرح کھلے عام سوات کی گلیوں ، بازاروں میں پھرا کرتے تھے – وہ لوگ آج بھی انہیں یاد کر کے روتے ہیں –
شہید جنرل ثناءاللہ نیازی نے زندگی کی آخری رات اپر دیر کے علاقے میں افغان بارڈر کے قریب ایک مورچے میں بسر کی – دہشت گردی کے حوالے سے یہ انتہائی خطرناک جگہ تھی ، مگر شوق شہادت کی وجہ سے جنرل صاحب خطرات کی پروا نہیں کرتے تھے – ان کے ایک ماتحت افسر نے لکھا کہ میں نے اس رات جنرل صاحب سے پوچھا “سر، صبح ناشتے میں کیا کھانا پسند کریں گے“
جنرل صاحب نے کہا “ مجھے رات والا بچا ہوا سالن اور روٹی دے دینا “
اگلی صبح جنرل صاحب وہاں سے واپس روانہ ہوئے ، راستے میں ان کی جیپ سڑک کے کنارے نصب بارودی سرنگ پر سے گذرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگئی – جنرل صاحب ایک کرنل اور ایک سپاہی سمیت اس حادثے میں شہید ہو گئے –
جنرل ثناءاللہ نیازی تو شہادت کے مرتبے پر فائز ہو کر ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے ، مگر پاک آرمی ایک بے مثال افسر سے اور سپاہی اپنے محبوب جرنیل سے محروم ھوگئے -17 ستمبر 2013 کو شہید جنرل ثناءاللہ نیازی کو داؤدخیل میں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا –
اک آسمان تھا جو تہہ خاک سو گیا —— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-15ستمبر     2020

میرا میانوالی

تاریخ میں پہلی بار ——-
بہت سی چیزیں تاریخ میں پہلی بار دیکھنے میں آرہی ہیں – مثلا
کورونا کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا – اب کورونا کی تباہ کاریاں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں – ہم کسی قدر خوش قسمت ہیں کہ ہمارے ہاں وہ تباہی نہیں مچی جو دنیا کے دوسرے ملکوں میں دیکھنے میں آئی – یہ نہ حکومت کی کرامت ہے ، نہ ہمارے مسیحاؤں (ڈاکٹروں ) کا کمال – بس اللہ کی مہربانی ہے-
کورونا سے جانی نقصان تو کم ہؤا ، باقی ہر طرح کا نقصان بہت ہو گیا مثلا
تاریخ میں پہلی بار سکول اور کالج مسلسل سات ماہ بند رہے – پرسوں کھلے تو ہیں ، اللہ کرے چلتے رہیں – سنا ہے بچے بہت خوش ہیں – بچے تو بہت خوش ہیں ، کوئی ٹیچرز سے بھی پوچھ کر دیکھے – جب سکول کالج بند تھے تو والدین مسلسل شور مچاتے رہے کہ بچوں کا تعلیمی نقصان ہو رہا ہے ، سچ پوچھیے تو اصل وجہ اور تھی – بچوں نے ناک میں دم کر رکھا تھا –
سکول کالج کھولنے کا مطالبہ والدین اور بچے تو زورو شور سے کرتے رہے ، ٹیچرز کی طرف سے کسی بے چینی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا – ہمارے ٹیچر تو ہمیں گرمی کی حق حلال کی چھٹیاں بھی آرام سے نہیں گذارنے دیتے تھے – چھٹیوں میں بھی کلاسیں لگتی تھیں – کوئی فیس بھی نہیں دینی پڑتی تھی – پتہ نہیں کیا ملتا تھا ہمارے ٹیچرز کو , ہم معصوم بچوں کو کھجل خوار کر کے –
تاریخ میں پہلی بار گندم کی فصل ، کٹائی کے بعد غائب ہو گئی – بچارے وزیراعظم بھی پریشان ہیں کہ ہوا کیا – کوئی سیدھی بات ہی نہیں بتاتا –
تاریخ میں پہلی بار چینی کی قیمت 55 سے 100 روپے کلو تک جا پہنچی – تفتیش ہوئی ، کہا گیا منافع خوروں کو الٹا لٹکا دیا جائے گا – اگر منافع خور سب اپوزیشن سے ہوتے تو سچ مچ لٹکا بھی دیئے جاتے ، مگر——– چلورہنے دو ——
100 فیصد نکمی حکومت اور 101 فی صد فضول اپوزیشن بھی ہم تاریخ میں پہلی بار دیکھ رہے ہیں – بچپن میں بزرگوں سے ایک کہاوت سنا کرتے تھے
روہ تو لتھے دو دریا ، ہک سکا ہئی ، ہک واہناں نئی –
(پہاڑ سے دو دریا اترے ، ایک خشک تھا ، دوسرے میں پانی نہیں تھا )
اللہ رحم کرے ، ابھی پتہ نہیں اور کیا کیا تاریخ میں پہلی بار دیکھنا ہے –—— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 16ستمبر     2020

میرا میانوالی

سید مصطفی عباس روزگار کے سلسلے میں یورپ کےملک یونان میں رہتے ہیں – کل ٹویٹر پر ان کی ایک پوسٹ نظر سے گذری – بات بہت کام کی ہے ، اس لیے آپ سے شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں –
مصطفی عباس صاحب کہتے ہیں میرے باس کٹر عیسائی ہیں – مجھ سے مذہب کے بارے میں بحث کرتے رہتے ہیں – کل مجھ سے پوچھا کیا تم نماز پڑھتے ہو – میں نے بتایا کہ نماز تو باقاعدہ پڑھتا ہوں – آفس میں کام بہت زیادہ ہوتا ہے ، اس لیے مغرب اور عشاء کی نماز دیر سے پڑھتا ہوں –
صاحب نے کہا آج جلدی واپس چلے جانا اور نماز پڑھ کر میرے لیے دعا کرنا – میں بہت پریشان ہوں –
مصطفی عباس صاحب کہتے ہیں میں نے نماز پڑھ کر صاحب کے لیے دعا کی – ابھی میں جانماز سمیٹ ہی رہا تھا کہ فون پر ان کی کال آگئی – مجھ سے پوچھا نماز پڑھ کر میرے لیے دعا کی تھی –
میں نے کہا جی ہاں
صاحب بہت خوش تھے کہنے لگے آپ کی دعا قبول ہوگئی ، میرے چالیس ہزار یورو (رقم) پھنسے ہوئے تھے ، وہ مجھے واپس مل رہے ہیں – ان میں سے دوہزار آپ کا انعام – میں نے انعام لینے سے تو معذرت کر لی- یہ خوشی میرے لیے کسی انعام سے کم نہ تھی کہ میرے رب نے میری لاج رکھ لی –
اس پوسٹ کا پیغام بڑا واضح ہے – مشکل وقت میں ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے سے کام نہ بنے تو اپنے رب کے در پر بھی دستک دے کر دیکھ لیا کریں ، وہ سب کی سنتا ہے ، ہر وقت سنتا ہے اور سب کچھ کر سکتا ہے – وماعلیناالالبلاغ –
———————————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 18ستمبر     2020

میرا میانوالی

چند روز قبل پہاڑی نالہ چچالی کا ذکر ہؤا – عیسی خیل سے داؤدخیل تک ایسے کچھ اور نالے بھی راستے میں آتے ہیں – عیسی خیل سے داؤدخیل کی طرف آئیں تو کلور اور ترگ کے درمیان “رکا“ یا “رکہ“ نام کا ایک نالہ ہے – ترگ اور کمر مشانی کے درمیان بڑوچ نام کا نالہ بھی برسات کے دنوں میں ٹریفک کی روانی کو متاثر کرتا ہے – کمرمشانی اور مندہ خیل کے درمیان بہت بڑا نالہ اڈوالہ آتا ہے – سڑک کے جنوب کی طرف اڈوالہ کے کنارے سادات کی بستی برزی واقع ہے – چچالی کا تو پہلے بتا چکا ہوں کہ جلال پور اور کوٹ چاندنہ کے درمیان گذرتا ھے –
داؤدخیل کے شمال میں میپل لیف سیمنٹ فیکٹری اور سکندرآباد کے درمیان نالہ جابہ آتا ہے – چچالی کے بعد یہ سب سے بڑا پہاڑی نالہ ہے – چوڑائی اور بانی کی تیز رفتاری کے حساب سے یہ بھی برسات میں خاصا بڑا مسئلہ بن جاتا ہے – سڑک کے راستے آمدورفت منقطع ہو جاتی ہے –
سڑک کے متوازی مغرب میں ریلوے کا خاصا لمبا پل ہے – اس پل کے بارے میں ہمارے مہربان بزرگ شاعر مرحوم سردار خان ممتاز نے “خونی پل صراط “ کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی تھی – محترم سردارخان ممتاز فرٹیلائزر فیکٹری میں اکاؤنٹنٹ تھے – سائیکل پر داؤدخیل سے فرٹیلائیزر فیکٹری آتے جاتے تھے – ایک دن برسات کے موسم میں سڑک کے راستے جانا ناممکن دیکھ کر سائیکل سمیت ریلوے پل سے گذرنے لگے تو پانی میں گر گئے – پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا – ڈوبنے سے تو بچ گئے مگر اچھے خاصے زخمی ہوگئے – یہی واقعہ انہوں نے ایک دلچسپ نظم کی صورت میں لکھ دیا – یہ نظم ان کے مجموعہ کلام میں شامل ہے –
جابہ بنی افغاناں کے قریب پہاڑی درے میں سے گذر کر آتا ہے – اس میں پانی تو صرف برسات کے موسم میں آتا ہے، البتہ اس درے سے خاصی تیز ہوا فجر سے دوہہر تک داؤدخیل سے ہو کر گذرتی ہے – اس ہوا کو بھی جابہ کہتے ہیں – جب یہ ہوا چل رہی ہو تو کہتے ہیں جابہ گھلا کھلا اے ٠ بہت صحت بخش ہوا ہے جوروزانہ فجر سے دوپہر تک چلنے کے بعد دوپہر کو خود بخود بند ہو جاتی ہے – اس میں بھی یقینا قدرت کی کوئی حکمت ہوگی –
———————————————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 19 ستمبر     2020

میرا میانوالی

روزنامہ نوائے شرر میانوالی اور سرگودہا سے بیک وقت شائع ہونے والا مؤقر روزنامہ ہے – یہ اخبار آج سے تقریبا 30 سال پہلے ہمارے بہت پیارے دوست مرحوم شرر صہبائی نے جاری کیا تھا – شرر بھائی میانوالی کے سینیئر شاعر بھی تھے ، بے باک صحافی بھی – اپنی بے باک صحافت کے باعث کئی دفعہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں – مگر رانا تھے ، اپنے مؤقف پر ڈٹے رہتے تھے — رانا قوم کا بندہ کوئی اور کام جانتا ہو ۔ نہ جانتا ہو، لڑنے جھگڑنے کا ماہر تو ہوتا ہے – سو شرر صاحب بھی شاعری اور صحافت دونوں میدانوں میں کسی نہ کسی محاذ پر معرکہ آرا رہے –
شرر بھائی کے صاحبزادے رانا امجد اقبال ، رانا ارشد اقبال کا کمال ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے والد کے لگائے ہوئے اس شجر سایہ دار کی آبیاری کر رہے ہیں – یوں ان کے والد محترم کا نام نوائے شرر کی صورت میں روزانہ ہزاروں لوگوں کی نظر سے گذرتا ہے – والد کی یاد کو اس طرح زندہ رکھنا سعادت مندی کی لائق تقلید مثال ہے –
روزنامہ نوائے شرر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر غیر جانب دار اخبار ہے – ہر سیاسی جماعت کی خبروں کو یکساں اہمیت دیتا ہے – آج کی زبان میں اس اخبار سے نہ پٹواری ( مسلم لیگ ن کے ورکر) ناراض ہیں ، نہ کھلاڑی ( پی ٹی آئی کے ورکرز) نالاں – نوائے شرر ایک مکمل اخبار ہے – خبروں اور اداریوں کے علاوہ اس میں کالم اور معلوماتی مضامین بھی شائع ہوتے ہیں – مختصرا یوں کہا جا سکتا ہے کہ روزنامہ نوائے شرر آج کے میانوالی کی ایک جیتی جاگتی ، چلتی پھرتی تصویر ہے –
نوائے شرر کو 29 ویں سالگرہ مبارک ہو – اہل میانوالی کی نیک تمنائیں اپنے اس بے لاگ ترجمان کی ہمسفر ہیں –——————————————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 20ستمبر     2020

میرا میانوالی

میرا لخت جگر علی بیٹا (میرا پوتا محمد علی ملک ) اگر اس دنیا میں موجود ہوتا تو آج اس کی28 ویں سالگرہ تھی – مگر وہ تو 10 سال پہلے18 سال کی عمر میں یہ دنیا چھوڑ کر سرحد حیات کے اس پار جا بسا – اللہ کی مرضی کے آگے سر خم ہے – دکھ کا احساس مگر انسان کے بس میں نہیں ہوتا – سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صاحبزادے جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو سرکار کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے – رو کر کہا “یااللہ ، مجھے معاف کر دینا – تیری مرضی کے آگے سر تسلیم خم ہے ، مگر یہ آنسو میرے اختیار میں نہیں “-
کچھ ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے اپنے دل کی بھی – علی بیٹے کی سالگرہ پر موم بتیوں کی جگہ ہماری آنکھوں میں آنسو جھلملاتے ہیں – بہت گہرا زخم ہے —- سال پہ سال گذرتے چلے جارہے ہیں مگر یہ زخم پھر بھی تازہ ہے – لوگ بچھڑ جانے والوں کو ہر سال برسی پہ یاد کر کے روتے ہیں ، مگر ہمارے لیے علی بیٹے کی سالگرہ کا دن بھی بھاری ہوتا ہے – بہت سی یادیں ہیں ، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا لکھوں – بس دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے یہ دکھ آپ کے ساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھا –
یارب کریم ہمیں معاف فرما کر صبر عطا فرما –—————————————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 22ستمبر     2020

میرا میانوالی

ضلع میانوالی میں تین قسم کی زمین پائی جاتی ہے ،
پہاڑکے دامن کی پتھریلی زمین مہاڑ کہلاتی ہے – دریا سے براہ راست سیراب ہونے والی زمین کچہ کہلاتی ہے ، مہاڑ اور کچہ کے درمیان وسیع علاقے کو تھل کہتے ہیں –
کچہ دریا کے مشرقی کنارے کی تقریبا دس کلومیٹر چوڑی پٹی ہے جو وتہ خیل (میانوالی) سے داؤدخیل تک پھیلی ہوئی ہے – دریا کے مغربی کنارے کا کچہ کمر مشانی سے عیسی خیل کی مختصر سی پٹی پر مشتمل ھے –
کچہ میں بہت سی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد ہیں – بہت سی بستیاں دریا کے ہاتھوں نیست و نابود ہو گئیں – ایسی ہی کسی بستی کے بارے میں میں نے کہا تھا —————————
دریا نے رخ بدلا تو اک گاؤں اجڑا
مل نہ سکے پھر دوہمسائے، اس سے کہنا
یہ تلخ حقیقت ان معصوم بستیوں کا مقدر تھی جن کا اب زمین پر نام ونشان بھی باقی نہیں رہا – سرکاری کاغذات میں ان بستیوں کے نام کے آگے “بے چراغ ہے“ لکھا ملتا ہے –
جو خوش نصیب بستیاں دریا کی زد سے محفوظ ہیں ان میں داؤدخٰیل کے مغرب میں توحید آباد سے لے کر میانوالی کچہ تک کی بہت سی بستیاں شامل ہیں – تحصیل پپلاں کا بھی کچہ ہونا چاہیے ، مگر اس کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں –
کچہ کا علاقہ بہت زرخیز ہے – زرعی پیداوار کے علاوہ خالص دیسی گھی ، مرغیاں ، انڈے ، ایندھن (لئی اور کانہہ) اور بھی بہت کچھ کچہ ہی سے تھل کے علاقے میں آتا تھا – داؤدخیل کا کچہ شملات یا شملاتاں کہلاتا ہے – یہ کوئی ایک بستی نہیں ، لوگوں نے اپنی اپنی زمینوں میں ڈیرے بنائے ہوئے ہیں – زیادہ تر زمین امیرے خیل اور علاول خیل قبیلے کے تصرف میں ہے – مگر شملات کے لوگوں کا رہن سہن خالص کچے والا نہیں –
کچہ کا بہت بھولا بھالا معصوم سا کلچر تھل کے کلچر سے بہت مختلف ہے – لوگ بہت سیدھے سادے ، دوست دار اور مہمان نواز ہیں – میانوالی میں ہفتہ وار میلے میں کچے کے علاقے سے اونٹوں کی قطاریں آیا کرتی تھیں –
مین بازار کا قدیم میلہ گراونڈ سے لے کر گلی مہاجرین تک کا علاقہ کچے کے لوگوں کی ضروریات کی چیزیں فراہم کرتا ہے، کپڑا ، دیسی ادویات ، گوشت ، خواتین کے غریبانہ دیہاتی میک اپ کے سامان ( سرمہ ، کجل ، مساگ ، مہندی وغیرہ) بچیوں کے لیے پیتل کے زیورات ، چھلے انگوٹھیاں ، بالیاں وغیرہ ، اونٹوں کی آرائش کا سامان اور بانس – چٹایئاں ، مصلے چارپائیاں ، پیڑھیاں وغیرہ ، سب کچھ اب بھی دستیاب ہے –—— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-24  ستمبر     2020

میرا میانوالی

میرا میانوالی ———————
کچے کے علاقے کا ذکر چل رہا ہے – کل میں نے کچے کی زمین کی زرخیزی کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ بہت زرخیز علاقہ ہے – زرخیزی صرف زمین تک محدود نہیں ، اگر مناسب تعلیمی سہولیات میسر ہوں تو کچے کے لوگوں کے ذہن بھی بہت زرخیز ہیں ، مجاہدملت مولانا عبدالستار خان نیازی اور نامور شاعر تلوک چند محروم بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصییات ہیں – یہ دونوں لیجنڈ شخصیات عیسی خیل کچہ کی دو گمنام بستیوں کے باشندے تھے – دریا کی چیرہ دستیوں کے باعث وہ بستیاں تو صفحہ ء ہستی سے مٹ گئیں ، مگر مولانا عبدالستار خان نیازی اور تلوک چند محروم کی وجہ سے ان بستیوں کے نام اب بھی زندہ ہیں ، اور ہمیشہ زندہ رہیں گے –
نورنگہ کے بخاری سادات میں بھی علم و ادب کی کئی لیجنڈ شخصیات ملک بھر میں مشہور ہیں – تعلیم کے میدان میں سید عطامحمد شاہ ، ادب میں پروفیسر گلزاربخاری ، پروفیسر علی اعظم بخاری ، ستار سید ، حسنین بخاری اور خاور نقوی کچے کی بستی نورنگہ سے تعلق رکھتے ہیں – یہ تمام شاعر ملک کے سرکردہ شعراء میں شمار ہوتے ہیں – ادب کی ان مشہور و معروف شخصیات کے علاوہ نورنگہ کے سادات میں سے متعدد افراد اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہیں –
کچہ کی زمین کی زرخیزی کے حوالے سے ایک دوست کے کمنٹ نے اداس کر دیا – کہتے ہیں جب سے کچہ میں چاول کی کاشت شروع ہوئی ہے ، زمین کسی اور کام کی نہیں رہی – چاول کی فصل کے لیے تقریبا پورا سال زمین زیرآب رہتی ہے ، وہاں کسی اور چیز کی کاشت ممکن ہی نہیں – کھڑے پانی میں کاشت کیسے ہو سکتی ہے – ؟ چاول کی کاشت سے ایک مسئلہ یہ بھی بن گیا ہے کہ راستے مسدود ہو گئےہیں – ادھرآنا جانا بھی مشکل ہوگیا ہے –
امید ہے علاقے کے لوگ ان مسائل کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیں گے – سرکار تو زراعت سے زیادہ محکمہ زراعت کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہے – کاشتکاروں کو اپنے مسائل خود ہی حل کرنے ہوں گے –
—————————— رہے نام اللہ کا ———بشکریہ-منورعلی ملک- 25 ستمبر     2020

میرا میانوالی

پہاڑ کے دامن کا علاقہ مہاڑ کہلاتا ہے – کچے کی طرح مہاڑ بھی زمین کی دس بارہ کلومیٹر چوڑی پٹی ہے جو عیسی خیل کے شمال مغرب سے لے کر ضلع کے جنوب مشرقی کونے چھدرو تک پھیلی ہوئی ہے –
پہاڑ کے قریب کی ایک آدھ کلومیٹر چوڑی پٹی پتھریلی زمین ہے جہاں کوئی چیز کاشت نہیں ہو سکتی – بقیہ آٹھ دس کلومیٹر میرا زمین ہے – میرا وہ زمین ہے جو ریت اور چکنی مٹی کی آمیزش سے بنتی ہے – اگر پانی دستیاب ہو تو میرا زمین بہت زرخیز ہوتی ہے – مگر ہمارے ہاں مہاڑ ہمیشہ پانی کی قلت کا شکار رہا ہے – زیرزمین پانی بہت زیادہ گہرائی ہر ہے – پتھریلی زمین میں کنواں یا بورنگ کاکام بھی بہت مشکل ہے – ڈرلنگ کے ذریعے ٹربائین لگ سکتی ہے مگر اسے چلانے کے لیے بجلی دستیاب نہیں – بہت عرصہ پہلے چھدرو کے علاقے میں ایک سرکاری ٹیوب ویل دیکھا تھا – ایسے ٹیوب ویل مہاڑ کے علاقے میں ہر جگہ ہونے چاہیئیں –
پانی کی قلت مہاڑ کے علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے – کہیں کہیں نشیب میں برسات کا پانی جمع ہونے سے چھوٹی چھوٹی جھیلیں سی بن جاتی ہیں – ایسی جھیل کو ہماری زبان میں “ٹوبھی“ کہتے ہیں – پانی کا اکلوتا وسیلہ ہونے کی وجہ سے ٹوبھی پر دن بھر رونق لگی رہتی تھی – چھدرو کے بزرگ شاعر اکبرخان المعروف اکبر چھدروی نے ٹوبھی کے حوالے سے ایک بہت خوبصورت گیت بھی لکھا تھا ، جس کے ابتدائی بول تھے ———-
شالا توں نہ سکیں ہا ٹوبھڑی ( اے ٹوبھی ، اللہ کرے تیرا پانی کبھی ختم نہ ہو) –
اکبر چھدروی کو ضلع میانوالی کا وارث شاہ بھی کہا جاتا ہے – وارث شاہ کی طرح ان کی شاعری میں زلف و رخسار کی باتوں کے علاوہ معرفت کے گہرے راز بھی پنہاں ہیں – تقریبا ستر اسی سال پہلے دنیا سے رخصت ہو گئے – ہم نے تو صرف نام اور ان کا کچھ کلام ہی سناہے – بلاشبہ بہت باکمال شاعر تھے –
کچے کے لوگ تو پانی کی فراوانی اور کاشتکاری کی وجہ سے خاصے خوشحال ہیں ، مگر مہاڑ میں ھمیشہ غربت کا راج رہا – بہت سے لوگ تلاش معاش میں ہجرت کرکے دوسرے شہروں میں جا بسے – مثلا سوانس کے کچھ خاندان میانوالی میں آباد ہو کر تجارت سے وابستہ ہو گئے – بوری خیل کے علاقے سے کچھ لوگ کراچی جا بسے – جفاکش لوگ تھے ، دل لگا کر محنت کی – آج کل وہ پاکستان کے بہت بڑے گڈز ٹرانسپورٹرز میں شمار ہوتے ہیں – ان کے ٹریلر (ٹرالربھی کہتے ہیں ) ملک بھر کی سڑکوں پر ہر وقت رواں دواں رہتے ہیں –
————————————————— رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-26ستمبر     2020

میرا میانوالی

کیا اچھا دور تھا ——— شوگر، بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں اور کینسر وغیرہ کا نام و نشاں تک نہ تھا – اکا دکا لوگوں کو ٹی بی کا مرض لاحق ہوتا جو موت کا پروانہ سمجھا جاتا تھا ، کیونکہ اس زمانے میں ٹی بی ایک لا علاج مرض تھا – لیکن یہ بھی بہت کم ، بمشکل ایک فیصد لوگوں کو لاحق ہوتا تھا –
اس موسم میں ملیریا ہر گھر میں وارد ہوتا تھا – عام لوگ اسے موسمی بخار کہتے تھے – بخار اور سردرد کے ساتھ سردی بھی بہت لگتی تھی – یہ کیفیت دوتین دن رہتی تھی – ملیریا سے کسی کو مرتے تو نہ دیکھا، انسان اچھا خاصا خجل خوار ضرور ہوتا تھا – کچھ کھانے پینے کو جی نہیں چاہتا تھا – مائیں منت ترلے کر کے کچھ نہ کچھ بہرحال کھلا پلا دیتی تھیں –
داؤدخیل کے سرکاری ہسپتال سے پانی کے رنگ کی دوا (کونین مکسچر) اور اے پی سی کی پڑیاں ملتی تھیں – (ایک اے پی سی آج کل بہت مشہور ہے ، مگر وہ ملیریا کے علاج کے لیے نہیں ) – ہسپتال سے جو اے پی سی ملتی تھی وہ غیر سیاسی اے پی سی تھی جو بخار اور جسم کے درد کا علاج ہوا کرتی تھی – اس کے ساتھ لال رنگ کا شربت بھی ملتا تھا ، ہاضمے کا یہ شربت پہلے 28 نمبر کہلاتا تھا ، بعد میں 10 نمبر کہلانے لگا –
کونین مکسچر اور ہاضمے کے شربت کے لیے خالی بوتلیں مریضوں کو گھر سے لانی پڑتی تھیں – اے پی سی کی کاغذ کی پڑیاں ہوتی تھی – ایک خوراک صبح ، ایک دوپہر، ایک شام ، دو تین دن دوا لینی پڑتی تھی – سچ پوچھیئے تو ہم بچوں کو یہ بخار بہت وارے میں رہتا تھا – دوتین دن سکول سے چھٹی مفت مل جاتی تھی – بخار ختم ہونے کے بعد بھی سکول جانے کو دل نہیں چاہتا تھا ، مگر مائیں تھوڑی بہت بے عزتی کرکے سکول بہر صورت بھجوا دیتی تھیں-
دلچسپ بات یہ کہ ہمارے ہاں تو ملیریا سے کبھی کوئی نہ مرا ، انگریز جب یہاں تھے تو بہت مرے – ان کے لیے ملیریا شرطیہ موت ہوا کرتا تھا – اس کی وجہ آب و ہوا کا فرق تھا – ان کے علاقے میں ملیریا نہیں ہوتا تھا ، اس لیے ان کے جسم میں ملیریا کے خلاف دفاعی نظام ہی نہیں تھا – ادھر ہم تھے کہ ملیریا کے دوران موت قریب سے بھی نہیں گذرتی تھی – اللہ کی شان ہے –—— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 27ستمبر     2020

میرا میانوالی

شہروں اور دیہات کے نقشے تیزی سے بدل رہے ہیں – چالیس سال پہلے جب میں گورنمنٹ کالج میانوالی میں لیکچرر کی حیثیت میں آیا اس وقت میانوالی کا گروبازار بمشکل پانچ سات دکانوں پر مشتمل تھا – قیام پاکستان سے پہلے اس کا نام گرو بازار تھا – بعد میں مسلم بازار کا نام دے دیا گیا ، مگر کہلاتا آج بھی گرو بازار ہے –
چالیس سال پہلے یہ بازار سادات دواخانہ سے شروّع ہو کر لال خان بلوچ کے ہوٹل پر ختم ہوجاتا تھا – سادات دواخانہ سے آگے ایک دودھ دہی کی دکان تھی ، ایم سی ہائی سکول والی گلی کے سرے پر کامل میڈیکل سٹور ، اس سے کچھ آگےپرانی طرز کی مٹھائی کی ایک دکان ، پھر ڈاکٹر عطاءاللہ خان کی گلی کے چوک میں عبدالرزاق خان وتہ خٰیل کی کریانے کی دکان اور اس سے چند قدم آگے دائیں ہاتھ پہ لال خان کا ہوٹل – بس یہ تھا اس وقت کا ٹوٹل گروبازار –
آج دیکھیں تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک بے شمار دکانیں پلازے اور شاپنگ سنٹر ، لوگوں کا ہجوم اتنا کہ بازار سے گذرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے – یہی حال سارے شہر کا ہے – اب تو رفتہ رفتہ ہر گلی بازار بنتی جا رہی ہے –
اس تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ شہر میں خوشحالی آئی ہے – ویسے ہم غریبی کا جتنا رونا روتے رہیں ، حکومتوں کو جتنی گالیاں جی چاہے دے لیں ، یہ حقیقت چھپ نہیں سکتی کہ کاروبار میں تیزی سے اضافہ ہوا ، اور ہو رہا ہے – چالیس سال پہلے میانوالی شہر میں دس موٹر سائیکل بھی نہ تھے – پانچ سات لوگ ویسپا سکوٹروں پر پھرتے نظر آتے تھے – آج تقریبا جتنے بندے اتنے موٹر سائیکل – گاڑیاں بھی بے شمار – سائیکل سوار یا پیدل بہت کم لوگ پھرتے دکھائی دیتے ہیں –
پھربھی ہر طرف یہی رونا ہے ہائے مر گئے ، پوری نہیں پڑتی – میرے خیال میں تو شکوے کی بجائے شکر کرنا چاہیے ، کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے اگر شکر کرو گے تو اور زیادہ دوں گا – یہ الگ بات کہ اللہ تعالی سے ہمارے تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں – کبھی وہ ناراض ، کبھی ہم ناراض ، کبھی دونوں راضی – آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا –—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-28ستمبر     2020

میرا میانوالی

کل طبیعت ٹھیک نہیں تھی ، اس لیے آپ کی محفل میں حاضر نہ ہو سکا – منتظر ساتھیوں سے معذرت –
کیا آپ نے کبھی “ آوی“ دیکھی ہے -؟ ——- آوی مٹی سے بنے ہوئے کچے برتن پکانے کی بھٹی کو کہتے تھے – داؤدخیل میں ہمارے گھر کے قریب چاچا شادی بیگ کمہار کی آوی ہؤا کرتی تھی – آوی راکھ کا بہت بڑا سا ڈھیر تھی – چاچا شادی بیگ مہینے بھر میں جو برتن بنا لیتے وہ آوی میں پکا تے تھے – بہت بڑے دائرے میں اوپر نیچے برتنوں کی قطاریں راکھ میں دبا کر اوپر کچھ اور راکھ ڈال دیتے تھے – آوی پر خشک کوندر کے پودے تہہ در تہہ بچھا کر انہیں آگ لگا دیتے تھے – تیز آگ کے سیک اور دھوئیں کے سیاہ بادلوں سے دوچار گھنٹے سارے محلے کا جینا حرام رہتا ، مگر لوگ برداشت کر لیتے کہ آوی پر پکے ہوئے برتن بھی وہی استعمال کرتے تھے – خاص طور پر خواتین تو بہت خوش ہوتی تھیں –
آگ کے شعلے دوچار گھنٹے بھڑک کر بجھ جاتے مگر آگ اندر ہی اندر دو تین دن دہکتی رہتی – تین چار دن بعد جب آگ بالکل بجھ جاتی اور برتن ٹھنڈے ہو جاتے تو چاچا شادی بیگ اور ان کے گھر والے راکھ کھود کر خوبصورت سرخ رنگ کے ٹھن ٹھن کرتے برتن نکال لیتے تھے – آوی کھلتے ہی خواتین کی یلغار شروع ہوجاتی – نقد پیسے یا گندم دے کر دھڑا دھڑ برتن خریدے جاتے – اب تو اکژبرتنوں کے نام بھی لوگوں کو معلوم نہیں ھوں گے – تاریخ کے ریکارڈ کی خاطر میں بتا دیتا ہوں –
گھڑے ——–
ماٹیاں ( اردو اور شاید پنجابی میں بھی) چاٹی کہتے ہیں – یہ گھڑے کے سائیز کی کھلے منہ والی دیگ سی ہوتی تھی ، جس میں لسی ، مکھن وغیرہ بناتے تھے –
کٹوی ——- ہانڈی
سگلی — ہانڈی کے سائیز کا برتن ، عام طور پر سگلی دودھ ، لسی وغیرہ رکھنے کے لیے استعمال ہوتی تھی –
ساہنڑک ( شاہنڑک بھی کہتے ہیں – عربی لفظ صحن کے ساتھ ‘ک؛ لگا کر ایرانیوں نے اسے صحنک بنا دیا – وہاں سے یہ لفظ ہم تک پہنچا تو ہم نے اپنا لچ تل کر اسے ساہنڑک یا شاہنڑک بنادیا) – ساہنڑک آٹا گوندھنے میں استعمال ہوتی ہے –
پھیلی —- مٹی کی پلیٹ ، سالن وغیرہ کے لیے –
ٹھبرا —— بڑے سائز کی خاصی وزنی پلیٹ جو ولیمے کے سالن کے لیے استعمال ہوتی تھی –
بٹھلی —— پانی پینے کا پیالہ
بادیہ —- یہ بھی پانی پینے کا پیالہ تھا – یہ بٹھلی سے ذرا زیادہ نفیس اور خوبصورت ہوتا تھا –
ہمارے ہاں تو مٹی کے یہی برتن چلتے تھے – کچھ اور بھی ہوں گے جو ہمیں معلوم نہیں – مٹی کے برتنوں میں کھانا پینا سنت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بھی ہے – اس کی یقینا کچھ برکات بھی ہوں گی –
اب تو گلبرگ اور ڈیفنس میں رہنے والے نئے اور پرانے امیر بھی culture symbol کے طور پر یہ برتن اپنے ڈرائنگ رومز کی زینت بناتے ہیں – استعمال تو وہ کرے جو کھانا گھر میں کھائے – ماڈرن لوگ برگر ، پیزا، چرسی تکہ وغیرہ باہر سے کھا لیتے ہیں – واللہ اعلم –
——————————————————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 30 ستمبر     2020

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top