ZILA MIANWALI MEIN SIYASI SORAT E HAAL

ضلع میانوالی میں سیاسی صورتحال

گذشتہ ایک سال کی غیر یقینی صورتحال کے بادل چھٹتے دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں اور لگتا تو ایسے ہے کہ اب الیکشن واقعی ہونے جا رہے ہیں کیونکہ دنیا کے ساتھ اور خاص کر کئی بین الاقوامی اداروں کے ساتھ چلنے کیلئے ان الیکشن ناگزیر ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے اب لولے لنگڑے ہی سہی الیکشن کرانا ضروری ہیں۔ اس طرح الیکشن کرانے کا پہلا مرحلہ تو پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے اور پاکستان بھر سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی سینکڑوں نشستوں پر ہزاروں امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور کل اُن کو نشانات بھی الاٹ ہو گئے الیکشن کمیشن کی طرف سے مختلف آئینی اور قانونی نقاط پر بلے کی گردن پر چُھری پھیر کر پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا جو کہ ایک سیاسی جماعت کے ووٹرز کو ان کے ووٹ دینے کے آئینی اور بنیادی حق سے محروم کرنے کے برابر ہے لیکن یہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ ہے تو اس پر بحث کرنا ایک قانونی معاملہ ہے جو شاید ہماری سمجھ سے بہت اوپر کا ہو لیکن اب ضلع میانوالی میں تازہ ترین کیا سیاسی صورتحال ہے اس پر بحث کر لیتے ہیں ۔

ضلع میانوالی میں دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ این اے 89 میانوالی ون بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا آبائی حلقہ انتخاب بھی شمار کیا جاتا اس حلقہ میں عمران خان پہلی مرتبہ 1997 کے انتخابات میں آئے تھے اور اُس وقت یہ حلقہ این اے 53 میانوالی ون تھا 1997 میں عمران خان پورے حلقہ سے صرف دو یونین کونسلز سلطان خیل اور سوانس سے تقریباً 18 ہزار ووٹ حاصل کر سکا جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے مقبول احمد خان نے 39 ہزار ووٹ حاصل کر کے برتری حاصل کی تھی جبکہ عبیداللہ خان شادی خیل 26 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے، 1997 کے بعد آہستہ آہستہ یہ ضلع عمران خان کے سحر میں ایسا گرفتار ہوا کہ گذشتہ حکومت میں چار سال رہ کر کوئی خاص کارکردگی نہ دکھانے کے باجود اب تو ان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور مختلف فورمز کی طرف سے کئے گئے سروے میں ضلع میانوالی میں پی ٹی آئی کا گراف 80 فیصد سے اوپر پہنچ چکا ہے۔ اس حلقہ این اے 89 میانوالی میں کل ووٹرز کی موجودہ تعداد ساڑھے پانچ لاکھ ہے اور گذشتہ الیکشن میں یہاں سے عمران خان کے ووٹ ایک لاکھ 63 ہزار 5 سو تھے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار عبیداللہ خان شادی خیل کے ووٹ 50 ہزار تھے اس طرح عمران خان تقریباً ایک لاکھ 13 ہزار کی برتری سے الیکشن جیت کر اسی نشست سے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔

اب موجودہ الیکشن 2024 کیلئے پاکستان تحریک انصاف کو چونکہ بلے کا نشان نہیں مل سکا لٰہذا اس جماعت کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیں گے لیکن یہاں پاکستان تحریک انصاف نے ایک سیاسی چال وقت پر چل دی کہ ایک دن قبل ہی اپنے امیدواروں کی لسٹ شائع کر دی تاکہ ان کے ووٹرز کو اپنے امیدواروں کا  علم ہو جائے اور کل کو اگر بلے کا نشان نہیں بھی ملتا تو ووٹرز کے ذہن میں کوئی خلل نہ رہے۔ اس وجہ سے اب ان کے امیدواروں کو جو بھی نشان ملا ہے اس سے پی ٹی آئی کو اتنا زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہاں اس سے معمولی فرق پڑ سکتا ہے۔ نئی صورتحال کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار جمال احسن خان آزاد الیکشن لڑیں گے جن کا انتخابی نشان (بوتل) ہے۔ اس طرح ان کے بڑے حریف مسلم لیگ ن کے عبیداللہ خان شادی خیل ہیں جو پاکستان مسلم لیگ ن کے (شیر) کے نشان پر ہوں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس مرتبہ اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق راہنما نواب وحید خان کے بیٹے نوابزادہ امیر محمد خان ہیں جو پی پی پی کے نشان (تیر ) پر الیکشن لڑیں گے۔تحریک لبیک کے مولانا امین الدین سیالوی کا تعلق نواحی علاقہ کلور شریف سے ہے وہ نہ صرف ایک مذہبی جماعت کے امیدوار بھی ہیں بلکہ ایک گدی نشین بھی ہیں اور گذشتہ الیکشن 2018 میں اس حلقہ سے لبیک کے امیدوار توقیر الحسن شاہ نے تقریباً 16 ہزار ووٹ حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی اس طرح امین الدین سیالوی اب (کرین) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر ن لیگ کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس طرح پاکستان استحکام پارٹی کے مرکزی ترجمان خرم حمید روکھڑی آزاد حیثیت سے (گھڑیال) کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں اور یاد رہے کہ خرم حمید روکھڑی پاکستان تحریک انصاف کے قریبی حلقوں میں شامل تھے لیکن عمران خان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے انھوں نے پی ٹی آئی سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں وہ ایک پڑھے لکھے اور ضلع میانوالی کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے انسان ہیں موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے بھی بہت قریب جانے جاتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کے کئی سابق عہدیدار بھی ان کی سپورٹ کر رہے ہیں۔

اس حلقہ کی بڑی برادریوں میں عیسیٰ خیل کے خوانین، ترگ ، کمرمشانی کے پٹھان، کالاباغ کے ملک اعوان جبکہ خٹک بیلٹ کے پشتون قبائل شامل ہیں۔ اسی طرح میانوالی کے دوسرے حلقہ این اے 90 میں ووٹرز کی کل موجودہ تعداد 4 لاکھ 95 ہزار 6 سو ہے گذشتہ الیکشن میں یہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار امجد علی خان مسلم لیگ ن کے امیدوار حمیر حیات خان روکھڑی سے جیتے تھے امجد علی خان کے حاصل کردہ ووٹ ایک لاکھ 57 ہزار 4 سو جبکہ حمیر حیات روکھڑی کے ووٹ 54 ہزار 9 سو تھے اس طرح امجد علی خان کی برتری ایک لاکھ اڑھائی ہزار تھی۔ اب الیکشن 2024 میں امجد علی خان جیل میں ہونے کی وجہ سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرا سکے اور ان کی جگہ نواحی علاقہ موسیٰ خیل سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر عمیر خان نیازی آزاد حیثیت سے (دروازہ) کے نشان پر الیکشن لڑیں گے۔ عمیر خان نیازی سابق جج ضیاء الله خان کے بیٹے ہیں اور عمران خان کی لیگل ٹیم کے ممبر بھی ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے امیدوار حمیر حیات خان روکھڑی (شیر) کے نشان پر ہوں گے اور ان کو حلقہ این اے 90 میں خرم حمید روکھڑی کی حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ ضلع میانوالی سے تعلق رکھنے والے بڑے سیاسی دھڑے کے سربراہ اور حلقہ این اے 89 سے ن لیگ کے امیدوار عبیداللہ خان شادی خیل پاکستان پیپلز پارٹی اور حمیر حیات خان روکھڑی کے گذشتہ ضمنی الیکشن سے آپس میں سخت سیاسی اختلافات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں راہنما حلقہ پی پی 86 میں اپنے اپنے امیدواروں کو ن لیگ کا ٹکٹ دلانا چاہتے تھے لیکن آپس کی چپقلش کی وجہ سے پارٹی نے پی پی 86 داؤد خیل کا حلقہ کُھلا چھوڑ دیا اور کسی کو بھی ٹکٹ نہیں مل سکا۔ این اے 90 میانوالی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار رانا عزیز الرحمان ہیں جو اپنے روایتی (تیر) کے نشان پر الیکشن لڑیں گے جبکہ عبیداللہ خان شادی خیل کے بہت قریبی ساتھی علی حیدر نور خان بھی آزاد حیثیت سے (چارپائی ) کے نشان پر ن لیگ امیدوار حمیر حیات خان کے مقابلہ میں کھڑے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ پی پی 87 میانوالی سے بھی علی حیدر نور خان نے ن لیگ کے امیدوار انعام الله خان نیازی کے مقابلہ میں اپنے کاغذات نامزدگی واپس نہیں لئے اور ابھی تک وہ پی پی 87 سے بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہوئے ہیں۔

اس حلقہ میں بڑی برادریاں وتہ خیل، پنوں خیل، چھدرو خیل سمیت پٹھانوں کی کئی برادریاں شامل ہیں۔ ضلع میانوالی کی چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں پہلی نشست پی پی 85 عیسیٰ خیل ہے جس میں کل ووٹرز کی موجودہ تعداد 2 لاکھ 68 ہزار 5 سو ہے۔ گذشتہ الیکشن میں یہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار ببلی خان مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق صوبائی وزیر آبپاشی امانت الله خان شادی خیل سے جیتے تھے ۔ ببلی خان کے حاصل کردہ ووٹ 75 ہزار 4 سو تھے جبکہ امانت الله خان نے 35 ہزار 87 ووٹ حاصل کئے تھے اس طرح ببلی خان تقریباً 40 ہزار 3 سو کی برتری سے جیتے تھے۔ الیکشن 2024 میں یہاں سے پی ٹی آئی کے سابق ممبر صوبائی اسمبلی ببلی خان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو جانے کی وجہ سے پی ٹی آئی نے اپنا تبدیل کیا ہے اور کسی بڑی سیاسی شخصیت پر منحصر کرنے کی بجائے پہلی مرتبہ تحصیل عیسیٰ خیل کے نواحی اور پسماندہ ترین علاقہ خٹک بیلٹ سے پشتون امیدوار میجر (ر) اقبال خٹک کو نامزد کیا ہے جو موجودہ سیاسی بحران کی وجہ سے آزاد حیثیت میں (وکٹوں) کے نشان پر الیکشن لڑیں گے۔ اسی طرح ن لیگ کے امیدوار سابق صوبائی وزیر آبپاشی امانت الله خان شادی خیل (شیر) کے نشان پر ہیں، پیپلز پارٹی کے راہنما وحید خان نے موروثی سیاست کے تحت اس نشست پر بھی اپنے چھوٹے بیٹے نوابزادہ مزمل علی خان کو پیپلز پارٹی (تیر) کا ٹکٹ دلایا ہے تاکہ گھر کی بات گھر میں رہے اور کوئی غیر سیاست میں آنے کی گستاخی نہ کرے۔ کہتے ہیں کہ سیاست واقعی بے رحم ہوتی ہے اور کسی کو بھی نہیں دیکھتی لہٰذا اسی اصول کے تحت پی ٹی آئی کے سابق امیدوار ببلی خان کے بیٹے عبدالعظیم المعروف جمی خان خرم حمید روکھڑی پینل کے امیدوار آزاد حیثیت سے (گھڑیال) کے نشان پر الیکشن لڑیں گے ۔جماعت اسلامی نے اس حلقہ سے معروف سوشل ورکر اور کمرمشانی سے تعلق رکھنے والے مرید عباس خان کو (ترازو) کا ٹکٹ دیا ہے اس سے قبل جماعت اسلامی اس حلقہ سے عارف خان خٹک کو ٹکٹ دیتی تھی اور اس مرتبہ انھوں نے بھی اپنا امیدوار بدلا ہے اس حلقہ کی بڑی برادریوں میں خٹک بیلٹ کے پشتون قبائل ، عیسیٰ خیل کے خوانین ، کمرمشانی اور ترگ کے نیازی پٹھان قبائل اور کالاباغ کے ملک اعوان اور بغوچی شامل ہیں۔

ضلع میانوالی کے دوسرے صوبائی حلقہ یی پی 86 داؤد خیل میں کل ووٹرز کی موجودہ تعداد 2 لاکھ 87 ہزار 2 سو ہے۔ یہاں سے گذشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار امین اللہ خان 58 ہزار 5 سو ووٹ لے کر 31 ہزار کی برتری سے آزاد امیدوار عادل عبداللہ روکھڑی سے جیتے تھے عادل عبداللہ روکھڑی نے 27 ہزار 5 سو ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے توقیر الحسن نے 15 ہزار 2 سو ووٹ حاصل کئے تھے

الیکشن 2024 میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سابق ایم پی اے امین اللہ خان آزاد حیثیت سے (صوفہ) کے نشان پر پنجہ آزمائی کریں گے جن کے مقابلہ میں شادی خیل گروپ کے حمایت یافتہ امیدوار اطہر یار اعوان ایڈووکیٹ آزاد ہوں گے جن کو (ہوائی جہاز) کا نشان الاٹ ہوا ہے جبکہ حمیر حیات خان روکھڑی اور خرم حمید روکھڑی پینل کے حمایت یافتہ امیدوار عادل عبداللہ روکھڑی بھی آزاد حیثیت سے (گھڑیال) کے نشان پر بہت طاقتور امیدوار ہیں اسی طرح ٹی ایل پی کے توقیر الحسن شاہ (کرین)، پیپلز پارٹی کے محمد خالد خان (تیر) پر قسمت آزمائی کریں گے۔ پی پی 86 کی بڑی برادریوں میں پکی شاہ مردان کے سید۔ داؤد خیل شہر کے شکور خیل اور سالار سمیت موچھ اور پائی خیل کی نیازی برادریاں بھی قابل ذکر ہیں۔ پی پی 87 میانوالی میں کل موجودہ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 40 ہزار ہے گذشتہ الیکشن 2018 میں یہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار احمد خان بھچر بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔

اب 2024 کے الیکشن میں امیدواروں کی تفصیلات کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سابق ایم پی اے احمد خان بھچر آزاد حیثیت سے ( پریشر ککر) کے نشان پر جبکہ ن لیگ کے امیدوار انعام الله خان (شیر) کے نشان پر الیکشن لڑیں گے جبکہ میں اوپر بھی ذکر کیا ہے کہ ن لیگ کے امیدوار اور شادی خیل گروپ کے سربراہ عبیداللہ خان شادی خیل کے قریبی ساتھی علی حیدر نور خان بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے اس حلقہ میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔ پی پی 87 ، میانوالی شہر، چھدرو اور واں بھچراں پر مشتمل ہے یہاں کی بڑی برادریوں میں وتہ خیل، پنوں خیل، چھدرو خیل ، بھچر اور ملک شامل ہیں۔ اسی طرح پی پی 88 پپلاں میں کل ووٹرز کی موجودہ تعداد 2 لاکھ 55 ہزار 6 سو ہے گذشتہ الیکشن میں یہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے 55 ہزار 6 سو ووٹ لے کر مسلم لیگ ن کے ملک فیروز جوئیہ سے 17 ہزار 600 کی برتری سے جیتے تھے جبکہ ن لیگ کے فیروز جوئیہ کے 37 ہزار 9 سو ووٹ تھے۔

الیکشن 2024 کیلئے امیدواروں میں پی ٹی آئی نے اس حلقہ سے بھی اپنا امیدوار تبدیل کیا ہے کیونکہ ذرائع کے مطابق سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے جامہ استحکام پارٹی کے راہنماؤں سے تعلقات تھے کیونکہ استحکام پارٹی کے سربراہ جہانگیر خان ترین سبطین خان کے قریبی رشتہ دار ہیں ان خفیہ تعلقات کا عمران خان کو معلوم ہونے پر انھوں نے ٹکٹ سبطین خان کو دینے کی بجائے نئی شخصیت ملک ممتاز اسڑ کو نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ممتاز اسڑ گذشتہ بلدیاتی الیکشن میں ضلع کونسل کے ناظم میں کافی متنازعہ بھی رہے عام ورکرز کا خیال تھا کہ انھوں نے پی ٹی آئی کے مخالف امیدوار کو اپنا ووٹ دیا تھا اب وہ پی ٹی آئی کی طرف سے آزاد حیثیت میں (چائے کی چینک) پر الیکشن لڑیں گے جبکہ ان کے بڑے حریف مسلم لیگ ن کے ملک فیروز جوئیہ (شیر) پر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے آئیں گے ۔ ٹی ایل پی کے ثاقب جوڑا (کرین) پر جبکہ پی ٹی آئی کی خاتون راہنما نازیہ سفیر اسڑ آزاد (وکٹیں) پر الیکشن لڑیں گے پی پی 88 کی بڑی برادریوں میں جوئیہ، مہاجر، کلیے خیل، جوڑے اور کُندی شامل ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مندرجہ بالا نشستوں پر کون سا امیدوار معرکہ مارتا ہے کیونکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ امیدواروں کے ساتھ امیدوار بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ آگے کیا ہو گا۔

اسی طرح مختلف پارٹیوں کا ہر نامزد کردہ امیدوار دل کے اندر اس خوش فہمی میں مبتلا نظر آتا ہے کہ کامیابی کا طوطا اُس کے سر پر بٹھایا جائے گا جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اگر پکنے والا حلوہ گُڑ کے بغیر چینی سے تیار کیا گیا تو پی ٹی آئی کے امیدوار چاہے آزاد بھی ہیں انھیں کوئی نہیں روک سکتا اور اگر جیسا کہ نظر آ رہا ہے کہ حلوے میں گُڑ زیادہ ڈالا جائے گا تو خرم حمید روکھڑی اور اس کے ساتھ ن لیگ سے کچھ لوگ جیت کر مکس اچار قسم کی صورتحال بن جائیں گے تاکہ آنے والی حکومت میں ان کو بھرپور استعمال کیا جا سکے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top