AE MERE SAHIB- APRIL 2017
اے میرے صاحب
افضل عاجز کی اپریل 2017 کی فیس بک پرپوسٹ
اے میرے صاحب
معروف دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ میں پھولوں کی نمائش میں شرکت مفصل احوال بعد میں کہ پھولوں کے درمیان رہتے ہوے کیا محسوس کیا
آج فسٹ اپریل ہے بعض لوگ آج کے دن عادتاً نہیں شرارتا بہت بھیانک مذاق کرتے ہیں جو جان لیوا بھی ہوتے ہیں
تو کیا میں اس حوالے سے آپ کو کوی نصیحت کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں؟
نہیں بلکل نہیں
یہ معاملہ میں ان کے ضمیر پہ چھوڑتا ہوں جو مذاق مذاق میں کسی کو اذیت پہنچا کے خوشی محسوس کرتے ہیں تو پھر ان کو کون سمجھا سکتا ہے؟
آپ غلط سوچ رہے ہیں یہ کالم آج مورخہ فسٹ اپریل کو شائع ہوا ہے اور پڑھ کے دیکھ سکتے ہیں کہ حقائق پہ مبنی ہے اور جھوٹ نہیں ہے یعنی آپ کے ساتھ فسٹ اپریل نہیں کھیل رہا –1اپریل 2017
اے میرے صاحب
ہمیں جب کسی دینی وروحانی آستانے پہ جانے کا اتفاق ہوتا ہے یا کوی حاظری کا حکم آتا ہے تو خوشی کے ساتھ ایک خوف بھی بیدار ہوجاتا ہے
ہم جو کہ ایک. میلے کچیلے. آدمی ہیں ڈرتے ہیں کہ کہیں باطنی طور پہ اجلے لوگوں کے درمیان ہمارے باطن کے راز نہ کھل جاییں
اور ہم رسوا نہ ہوجائیں صاحب باطن لوگ ہمارے اندر کے میلے پن کو دیکھ کے ہم سے بیزار ہی نہ ہوجاییں
مگر جانا پڑتا ہے
حدیث مبارکہ ہے کہ جب تمہیں کوی دعوت پہ بلاے تو اس کی دعوت قبول کرو
جامعہ اشرفیہ کے ناظم اجود عبید صاحب کے حکم اور خطاط جمیل ارشد کی خواہش پہ ہم جامعہ اشرفیہ جا پہنچے جامعہ اشرفیہ کے تعارف کی اس لئیے ضرورت نہیں کہ اس دینی درسگاہ کا نام پورے عالم اسلام میں خوشبو کی طرح پھیلا ہوا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب امام کعبہ عبدالرحمن السدیس پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے جامعہ اشرفیہ میں نماز فجر کی امامت فرمای اور جامعہ کے بزرگوں کے ساتھ ناشتہ کرنا اپنے لئیے اعزاز قرار دیا اور فرمایا کہ میں جامعہ کے بزرگوں کے علم کردار سے بہت متاثر ہوں اور انکی صحبت باعث برکت ہے
ہم جب جامعہ اشرفیہ پہنچے تو نماز عصر کی جماعت ہوچکی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ مسجد سے فرشتوں کی ٹولیاں باہر نکل رہی ہیں سبھی جسموں پہ سفید لباس چمک رہے تھے اور چہرے چمک رہے تھے ہاتھوں کی انگلیاں دانے گرا رہیں تھی تو ہونٹ ذکر سے مہک رہے تھے جس چہرے پہ نظر پڑتی بے ساختہ سبحان اللہ زبان پہ اجاتا خواہش ابھری کے ان کے ساتھ ایک تصویر بنای جاے مگر دل نے کہا اس منظر کو دل میں محفوظ کرلیا جاے
ابھی ہم اس ماحول کو اپنے اندر اتاررہے تھے کہ خطاط جمیل ارشد آپہنچے اور ہمیں گلشن حسن کی طرف لے گئے یہ وہی گلشن حسن تھا جسکا افتتاح امام کعبہ نے کیا تھا یہاں پھولوں کی نمائش کا اہتمام تھا
اجود عبید اس وقت ایک نیوز چینل کے ساتھ گفتگو کررہے تھے ہم پہ نظر پڑی تو ان سے معذرت کرتے ہوئے ہمیں سینے سے لگا کے استقبال کیا اور ایک نشست بھی عطاء کردی یہاں جامعہ اشرفیہ کے مہتم مولانا فضل الکریم اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے اور ہر ایک کیلیے دعائیں فرمائے تھے
اجود عبید اپنے بزرگوں کے تصور کو تصویر کا رنگ دے رہے ہیں ان کی شخصیت کے مختلف رنگ ہیں قاری ایسے کے مفہوم کھل جائیں حافظ ایسے کہ سن کے بھولے ہوے قرآن یاد کر لیں گفتگو ایسی کہ سینے روشن ہو جاییں
اجود عبید نے اس موقع پہ جو گفتگو کی وہ صرف پھول اور خوشبو کے حوالے سے نہیں تھی بلکہ انہھوں نے باغبان حضرات کے حوالے سے ان کی محنت و فن کی دل کھول کے تعریف کی نقد انعام کے ساتھ ایوارڈ بھی تقسیم کئے
ہم کچھ کچھ اداس بھی تھے کہ اتنے سارے دینداروں میں میں بچارہ اکیلا شاعر مگر اس دوران شاعر پاکستان ناصر بشیر ایسے سجے سجاے آتے نظر اے کہ جیسے آج ان کا ولیمہ ہو
ناصر بشیر حسین وذھین تو ہیں ہے ہی مگر آج تو پورے قاتل بنے پھرتے تھے ہمیں دیکھ کہ ان کو بھی حوصلہ ہوا کہ
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے شاعر دو
اس موقع پر مہمانوں کیلیے کچھ زبان تر کرنے کا بھی بندوبست تھا اور خوب تھا مگر ہمیں کہیں حلوہ نظر نہیں آیا
شائد جامعہ اشرفیہ میں حلوے کا داخلہ ممنوع ہے؟
اور اب ناصر بشیر کا ایک شعر جو ان پر وہیں نازل ہوا
لوگوں نے تو اس پر بھی سوالات اٹھائے
ہم دشت میں کیوں باد صبا کھینچ کے لاے –2 اپریل 2017
اے میرے صاحب
سابق صدر آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پولیٹکل سیکریٹری محترمہ ناہید خان کے حوالے سے آج 3.5.2017 روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والا کالم-آپ کی توجہ کا منتظر ہے-3 اپریل 2017
اے میرے صاحب
ایف سی کالج لاہور مشاعرے سے قبل صاحب صدر منصور آفاق صاحب مہمان باقی احمد پوری صاحب انتظام ڈاکٹر اختر شمار صاحبان منتظر مشاعرہ سعد اللہ شاہ حفیظ شہزاد ہاشمی اظہر عباس بندہ عاجز اور سٹوڈنٹس بچے بچیاں
ایف سی کالج کے مشاعرے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے نوجوان سٹوڈنٹس بچے بچیوں نے بہترین سامعین کا ثبوت دیا انہوں نے ڈاکٹر اختر شمار کی نگرانی میں مشاعرے کے ایک ایک پل کو خوبصورت بنا دیا جناب منصور آفاق کی صدارت میں ہونے والے اس مشاعرہ کو آپ ایک جاگتا اور زندہ مشاعرہ کہھ سکتے ہیں تمام شعراء اور شاعرات کو بہت عزت واحترام کے ساتھ تالیوں کی گونج میں سنا جاتا رہا ہم بہت شکر گزار ہیں کہ ڈاکٹر اختر شمار نے ایک بھر پور مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی اور شکریہ تمام سامعین کا جنہوں نے بندہ عاجز کو بھی بہت احترام وعزت سے نوازا
اجلے لوگوں کے ساتھ چند اجلی تصاویر نظر احباب ہیں
شکریہ ایف سی کالج شکریہ
3 اپریل 2017
اے میرے صاحب
پیپلزپارٹی کے بانی بھٹو ایک حیرت انگیز شخصیت ہیں اج چار اپریل ان کی پھانسی کا دن ہے اور آج کے دن انہیں ہر کوی اپنے اپنے انداز میں یاد کرتا ہے بھٹو مسلسل یاد اور نظر انداز کیے جانے کے عمل میں کہیں زندہ باد ہے تو کہیں مردہ باد مگر موجود ہے – کالم پڑہیے – 4 اپریل 2017
اے میرے صاحب
عثمان صابر کی زنبیل سے اب فیس بک تک کا سفر کرتی ایک پرانی تصویر جس میں منصور آفاق پہچانے جارہے ہیں رضا اراییں اور نعیم بھی نظر آ رہے ہیں مگر ایک بچے کے علاوہ افضل عاجز نامی ایک شخص پہچانے نہیں جارہے جن احباب کی نظر ٹھیک ہے زرا پہچاننے کی کوشش کریں اور جن احباب کی زبان تیز اور انگلی بے لگام ہے وہ تو نا ہی بتائیں تو اچھا ہے –5 اپریل 2017
اے میرے صاحب
ہم دیئے کی روشنی میں ریلوے کے ایک کوارٹر میں پیدا ہوئے بظاہر ہم میں کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ جسکی بنیاد پر کہا جاسکے کہ
تیڈے ویکھن نوں پیاں آون قاف تو پریاں ماہی
ہمارے گھر کے حالات ویسے ہی تھے کہ
رکھی سکھی مل ونجے تاں کھا گھندے ہاں
نیں تاں پانی پی کے رات لنگاہ گھندے ہاں
مگر پھر بھی خاندان کے سبھی لوگ بہت خوش تھے بلکہ اتنے خوش تھے کہ انہیں پانچ سال بعد خیال آیا کہ پچے کی جنم پتری بھی لکھوانی پڑتی ہے جنم دن کے حوالے سے سب سے پہلا سوال داخلہ کے وقت سکول کے ماسٹر نے اٹھایا تو ہم نے اپنی بہشتی ماں سے پوچھا
اماں ہم کس دن اور کس سن میں پیدا ہوے تھے
اللہ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ہماری ماں کو انہھوں نے ہمارا ماتھا چومتے ہوے کہا
میرے لال مجھے تو کل کی بات لگتی ہے
اللہ بخشے والد بہشتی کو وہ غصے میں فرمایا کرتے تھے
تیرا کوئی کام سیدھا بھی ہے. منگل. دا جما ہویا؟
اب اگر اماں اور بابا کے بیان کو سمجھنے کی کوشش کی جاے تو پھر اماں کے بیان کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ہم کل پیدا ہوے ہیں اور اگر بابا کی بات مان لی جاے تو پھر زیادہ سے زیادہ منگل کی بات ہے
البتہ اماں ہمارے جنم دن کے حوالے سے ایک تو.. ٹھڈی مٹھی رت.. کا حوالہ دیتی تھیں ساتھ ہی کہتی تھیں
اجوب خان تے اندرا والی جنگ میں تم بھانبڑے. پڑتے تھے
یہ ایک خاصا تحقیق طلب معاملہ تھا سو اللہ بھلا کرے سکول ماسٹر کا انہھوں نے
جنم دن کے خانے میں. ٹھڈی مٹھی رت. کے ساتھ پانچ اپریل بھی لکھ دیا حالانکہ ہماری سبھی عادتیں جولائی اگست والے
لوگوں سے ملتی ہیں
احباب پوچھتے ہیں ہماری جوانی کا کیا راز ہے؟
سو گزارش ہے کہ ہم پہ جوانی میں ہی بڑھاپا طاری ہوگیا تھا ہمیں معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ جوانی کس بلا کا نام ہے اور جوانی اگر 18 سے 30 سال کے عرصے کا نام ہے تو پھر بتاے دیتے ہیں کہ ہم ابھی پندرہ سال کے تھے کہ غم دوراں نے ہمیں دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا سو نہ ہمیں بچپن کی شرارتوں کا علم ہے اور نہ جوانی کی راتوں کا
جوانی کا ایک تعارف یہ ہے کہ کوئی چاند آپ کے آنگن میں اترا ہو یا کسی ستارے سے گفتگو کی ہو مگر ہمارے آنگن میں ہمیشہ بھوک نے اپنا سایہ رکھا اور ہم غربت کی چھاؤں میں جوان ہوے
تو پھر ہم بعض احباب کو جوان کیوں نظر آتے ہیں؟
درحقیقت جب آپ لوگ ہمیں اپنی محبت کے حصار میں لیتے ہیں تو پھر ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو ہمیں محبت دیتے ہوے اپنی قلم کی نوک اور گفتار میں رکھتے ہوے محبت کے پھولوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں تو پھر ہم خوشی سے سرشار ہو جاتے ہیں
ہماری زندگی میں محبت کا خسارہ بہت ہے ہم ایک سوکھے شجر کی مانند ہیں جس پر کبھی محبت کی بارش نہیں برسی اور اگر کم بخت کبھی برسی بھی تو ایسے کہ شجر دل کو جلا کے راکھ کردیا اور ہم دوبار سبز نہ ہو سکے
ہم اپنے تمام احباب کا علیحدہ علیحدہ شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے جنم دن کے حوالے سے ہمیں یاد کیا اور اپنے اپنے انداز میں ہماری دلجوئی کی
حقیقت یہ ہے کہ کہ ہم ایک غیر اہم آدمی ہیں مگر جب آپ لوگ اپنا وزن ہمارے ساتھ شامل کرتے ہیں تو ہم بہت اہم بن جاتے ہیں
شیخ الشریر مفتی منیر اے احمد صاحب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اسد خان اور ہماری عمر میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے وہ ہم سے پانچ نہیں تو تین ماہ بڑے ضرور ہونگے کیونکہ ہم مہینے میں صرف ایک بار بال رنگتے ہیں اور انہیں ہر جمعہ کو خضاب لگانا پڑتا ہے بصورت دیگر کبوتر ان کے ہاتھ سے دانہ نہیں کھاتے
شیخ الشریر مفتی منیر کی عمر کے حوالے سے عرض ہے کہ موصوف کے حوالے سے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اپنی کتاب. مخولیات. کے صفحہ 420پہ لکھتے ہیں کہ میری بربادی میں انگریز سے زیادہ شیخ الشریر مفتی منیر کے ان نسخوں کا ہاتھ ہے جو وہ مجھے صبح نہار منہ کھلاتے رہے ہیں سو میں ہر مغل بچے کو نصیحت کرتا ہوں کہ کسی عربی پہ اعتبار کرلینا مگر مفتی منیر پہ اعتبار نہ کرنا
سو بہادر شاہ ظفر کے اس بیان کے بعد آپ مفتی منیر کی عمر کا اندازہ لگا سکتے ہیں
البتہ ہم پریشان ہیں کہ انہھوں نجانے کون سا. سنکھیا. کھا رکھا ہے کہ اب بھی ہم سے بس دس سال ہی بڑے لگتے ہیں
اب اجازت کہ بات مختصر ہو تو اچھی لگتی ہے – 6 اپریل 2017
اے میرے صاحب
ڈاکٹر صغرا صدف پلاک کے زیر اہتمام آے روز کسی نہ کسی حوالے سے علمی ادبی ثقافتی تقریبات کا اہتمام کرتی رہتی ہیں انہوں نے پلاک کو ایک بڑے علمی ادبی ثقافتی مرکز میں بدل دیا ہے مجھے لگتا ہے کہ پلاک آنے والوں دنوں میں ایک بڑے ادبی ثقافتی مرکز کی حیثیت سے پہچانا جاے گا
آج پلاک میں ایک قومی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں چاروں صوبوں سے شعراء حضرات کو مدعو کیا گیا اور ہر ایک شاعر نے اپنی زبان میں کلام سنا کے سامعین کو محظوظ کیا
مشاعرے کی صدارت بڑے شاعر ظفر اقبال صاحب نے کی مہمان خصوصی کرامت بخاری صاحب تھے مشاعرے کی نظامت ڈاکٹر صغرا صدف اور پنجابی زبان کے معروف شاعر افضل ساحر نے کی
افضل ساحر نے ہمیں دعوت کلام دیتے ہوئےبہت محبت کے ساتھ کہھا کہ
عام طور پر جب میں کہیں دوسرے شہر میں مشاعرہ پڑھنے جاؤں تو لوگ مجھے افضل عاجز سمجھ کے بہت پیار کرتے ہیں
اور میں بھی خاموش رہتا ہوں آج افضل عاجز کو دیکھ کے بہت خوشی ہوئی
میرے خیال میں افضل ساحر نے ہمارے بارے میں یہ الفاظ اپنی محبت دکھانے کیلیے ادا کیے ہیں ان کی مہربانی ہے
لیکن حقیقت میں وہ خود بہت مقبول شاعر ہیں اور لوگ ان سے بہت پیار کرتے ہیں اللہ انہیں خوش رکھے اور مزید عزت دے آمیںن
مشاعرہ ابھی جاری ہے اور صبح تک جاری رہنے کی امید ہے
مشاعرے سے پہلے کی چند تصاویر ملاحظہ فرمائیں- 7 اپریل 2017
اے میرے صاحب
کیئ پرفیوم ہم نے آزما کے جسم پر دیکھے
مگر کچے گھروں کو لیپنے کے بعد جو خوشبو بکھرتی ہے
اسی مٹی کی خوشبو تو کہیں جانے نہیں دیتی
کبھی تم گاوں آونا.
تو پھر گارا بنائیں گے
بڑی اماں کے کوٹھے کو
دوبارہ
پھر سے لیپیں گے
مگر تم کیسے آو گے
تمہیں تو گاوں کا اب راستہ بھی یاد کب ہوگا
عرض مکر-8 اپریل 2017
اے میرے صاحب
مسلک محبت سے جڑے ایک صاحب نے یہ تصویر سینڈ کی اور حکم لگایا کہ کچھ عرض کیجیے
ہم نے کہا
ہمارا مزاج نہیں حسیین خواتین کے جسموں پہ شعر لکھ کے شعر بیچنے کا
فرمایا
کیا کسی حسیین کی نظر شعر کرنے سے بھی معذور ہیں؟
ہم نے کہا
نہیں تو حسینوں کی نظر شعر کرنے میں تو بہت مشہور ہیں
تو پھر داغ دیجیے
ہم نے کہا تو لو پھر دل باغ باغ کیجیے
وے تو منگیا وی تے منگیا کی بس چھلا
توں منگ کے ویکھدا جان میں کر دیندی قربان
وے اے جانداے میرا اللہ
توں منگیا…… ..9 اپریل 2017
اے میرے صاحب
عمر دراز خان نے ہمیں انبکس میں یہ تصویر بھیجتے ہوے سوال کیا ہے کہ عطاء صاحب کے پیچھے جو مونچھوں والا بھائی بیٹھا ہے یہ کون ہے
ہم نے کہا یہ جو بھی ہے بہرحال بندہ تو سوہنڑاں ہے اور کوی شاعر شاعر سا بھی لگتا ہے
باقی ہم احباب سے پوچھ لیتے ہیں کہ یہ کون ہے
10 اپریل 2017
اے میرے صاحب
Comsets institute of technology lahore کے زیر اہتمام مشاعرے میں سٹوڈنٹس نے مشاعرے کو دونوں ہاتھوں پہ اٹھاے رکھا تو شعراء نے بھی اپنا رنگ جماے رکھا اور احمد حماد نے بھی اپنی خوبصورت کمپرینگ سے مشاعرے کو گرماے اور آگے بڑھاے رکھا
شکریہ سٹوڈنٹس بے پناہ حوصلہ افزائی اور پذیرائی کا –
ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب اور محترمہ افشاں سجاد کے ساتھ مشاعرے سے پہلے کی ایک تصویر
10 اپریل 2017
اے میرے صاحب
گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام مشاعرے میں ملک کی ممتاز ڈرامہ نگار وشاعرہ محترمہ سیما غزل صاحبہ کے ساتھ بھی ملاقات ہوی سیما غزل کو سن کے بہت کچھ سیکھنے کو ملا آپ کا انداز سخن اپنے اندراستاتذہ کا رنگ رکھتا ہے آپ کی شاعری میں زبان وبیان کے کیا کہنے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم غالب کے آستانے یا پھر میر کی مجلس میں آبیٹھے ہیں
مشاعرے کے اختتام پہ ہمارے اندر یہ خواہش جاگی کہ ان سچ مچ کی بڑی شاعرہ کے ساتھ ایک تصویر بنانی چاہیے مگر ان کے مقام مرتبے اور احترام کی وجہ سے جرت نہیں پڑ رہی تھی مگر اچانک انہھوں نے کمال مہربانی سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا
آپ کے ساتھ ایک تصویر بنای جاسکتی ہے یہ سنتے ہی دل نے گواہی دی کہ آپ نہ صرف آعلی ڈرامہ نگار بڑے ہنر کی مالک شاعرہ بلکہ صاحب کشف بھی ہیں ہم نے
شکریے کے ساتھ تصویر بنانے کو کہا تو تو اس دوران ڈاکٹر اختر شمار جاوید صبا اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے سابق صدر اور مشاعرے کے روح رواں راحت لطیف بھی آگیے اور تصویر مزید قیمتی ہو گیی –11 اپریل 2017
اے میرے صاحب
نیلم احمد بشیر ملک کی نامور لکھاری ہیں ان کی کہانیوں میں غیب سے مضامین نہیں اترتے وہ اپنی زمین پہ بکھرے ہوئے واقعات اور حادثات کو قلم کی نوک پہ رکھتی ہیں وہ ان تمام مسائل کو بہت دلیری کے ساتھ بیان کرتی ہیں جو بہت سے لکھاری نظر انداز کر جاتے ہیں یا بیان سے گھبراتے ہیں نیلم احمد بشیر احمد بشیر کی لاڈلی ہی نہیں ان کے نظریہ کی وارث بھی ہیں سو بانو قدسیہ اور ممتاز مفتی لکھتے ہیں
ممتاز مفتی
. نیلم احمد بشیر کی سب سے ٹیلنڈڈ بیٹی ہے اور مجھے یقین ہے وہ ایک دن دنیاے ادب میں اپنی جگہ ضرور بناے گی…..
بانو قدسیہ
نیلم کی کہانی کا انجام قاری کو حیرت میں ڈال دیتا ہے…..
مجھے لگتا ہے کہ آپا بانو قدسیہ کی پات درست ثابت ہوچکی ہے میں ایک بار کتاب پڑھ چکا ہوں مگر دوسری بار ہی نہیں بار بار پڑھنے کی خواہش ہے
نیلم احمد بشیر کی مہربانی ہے کہ انہھوں نے مجھے بہت محبت کے ساتھ کتاب عطاء کرتے ہوے احسان فرمایا
کتاب وصول کرتے ہوئے ایک تصویر اور کتاب کے ٹائٹل کی تصویر آپ کی نظر
12 اپریل 2017
اے میرے صاحب
بیاد منیر نیازی محفل مشاعرہ زیر اہتمام الحمراء آرٹس کونسل
ایک تو ہیں الحمراء آرٹس کونسل کے سربراہ کیپٹن. ر. عطاء محمد خان دوسرے ہیں سلطنت مشاعرے کے بااختیار صدر ڈاکٹر خورشید رضوی اور محترمہ ناہید منیر نیازی صاحبہ جبکہ ایک کونے میں غالباً ہم یعنی افضل عاجز کلام سنا رہے ہیں یہ تصاویر طیب رندھاوا صاحب نے بنای ہیں اور خود بھی تصویر میں موجود ہیں کمال تو یہ ہے…………… 13 اپریل 2017
اے میرے صاحب
اگر کرنا ہے تو برباد کیجے؟
ہمیں بس خوف سے آزاد کیجے
وہ اک بستی محبت کا مدینہ
وہی موسم یہاں آباد کیجے
محبت بھی تو اک واجب عمل ہے
اسے بھی گفتگو میں یاد کیجے
ابھی سقراط تو بن جانے دیجے
مجھے پھر قتل اس کے بعد کیجے
اٹھو پہنو قلندری لال چولا
زبان عشق سے فریاد کیجے
یہی ہو گا زباں کٹ جاے گی نا..
میرے عاجز سئیں ارشاد کیجے –14 اپریل 2017
اے میرے صاحب
نبی معصوم آخرالزمان حضرت محمد. ص. کی ذات کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ اسے فیس بک کے چوراہے پہ کھڑے ہو کے زیر بحث لایا جائے
رب العزت نے جہاں جہاں نبی آخرالزمان کو مخاطب فرمایا ہے بہت لطیف انداز میں فرمایا ہے
کہیں یا مزمل اور کہیں یامدثر کہھ کے مخاطب فرمایا ہے کلام ربانی نبی آخرالزمان کی تعریف کیلئے کافی ہے لیکن اس کے باوجود اللہ نے اہل ایمان سے درود شریف کا تقاضہ فرمایا ہے مگر یہ بھی بتایا کہ درود شریف میں بھی بھیجتا ہوں سو اے مومنوں تم بھی بھیجو گویا جب ہم درود شریف پڑھ رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت اللہ کی سنت ادا کر رہے ہوتے ہیں یہ ایک عجیب مگر لطیف اور پراسرار معاملہ ہے جس میں اہل ایمان کیلئے نفع کثیر ہے یہ ایک ایسی عبادت یا ریاضت ہے جسکا کوئی وقت مقرر نہیں اور نہ ہی عدم قبولیت کا کوی معاملہ ہے میرا ماننا ہے کہ درود شریف ایسا عمل ہے جو کسی بھی انسان کیلئے نفع بخش عمل ہے سو اگر کوئی صاحب آزمانا چاہتا ہے تو
صلاے عام ہے یاران. بے ریا. کیلئے
مشال کے حوالے سے بحث چل رہی ہے اور فیس بک کے چوراہے پہ چل رہی ہے میرے خیال میں اس پہ ہمیں گفتگو سے گریز کرنا چاہیے
یہ ایک حساس معاملہ ہے اور ساتھ ہی قانون کا بھی معاملہ ہے
پہلی بات یہ ہے کہ کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ نبی آخرالزمان کی ذات کے حوالے سے اپنی باطنی گندگی کو پھیلاے مگر ساتھ ہی کسی کو یہ اختیار بھی نہیں ہے کہ وہ کسی کی جان لے لے
یہ ملک جیسا بھی ہے یہاں ایک قانون موجود ہے ادارے موجود ہیں کسی فرد یا گروہ کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ
بلوائی کا کردار ادا کرے اور ملزم اور مجرم کے فرق کا بھی مطالعہ کیا جانا چاہیے
بالفرض مشال مجرم تھا تو بھی ھجوم کے ہاتھوں مارے جانا لاقانونیت ہے اور اگر
مشال بے گناہ ہوا اور اس نے بروز حشر نبی آخرالزمان کے ہاتھ چومتے ہوے عرض کی کہ
یا رسول اللہ
میں مشال ہوں جسے میرے مسلمان بھائیوں نے بغیر کسی ثبوت کے بہت بےرحمی کے ساتھ مار دیا تھا میرے آقا مجھے انصاف دلائیں
تو پھر؟
…… وہ اک بستی محبت کا مدینہ
……وہی موسم یہاں آباد کیجے –15 اپریل 2017
اے میرے صاحب
لاہور پریس کلب کے زیر اہتمام مشاعرے میں شرکت
یار جانی ارشاد آمین نے اچانک حکم دیا پانج بجے مشاعرے میں پہنچ جانا اور اگر نہ آیا
تاں ول ڈیکھ گھنے؟
مگر ساتھ ہی خالد منصور نے کہا
ضرور تشریف لائیں
ہم ٹھیک پانج بجے پریس کلب پہنچ گئے اور ارشاد آمیںن بروقت سات بجے تشریف لائے ہم نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا اگر آئندہ ٹھیک وقت نہ بتایا تو
ول ڈیکھ گھنے
سو خوش قسمتی سے یامین صدیقی اپنے دوستوں خالد قریشی کامران بیگ کے ساتھ مل گئے انہوں نے چاے کے ساتھ پکوڑے کھلاے بعدازاں بابا نجمی بھی پہنچ گئے پکوڑے انہھوں نے بھی کھاے مگر. بگھتے. ہم نے؟ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے؟
مشاعرے میں جان کاشمیری فرحت عباس شاہ وسیم عباس ڈاکٹر عمرانہ مشتاق مشتاق قمر اقبال قیصر رضی حیدر اعظم توقیر فراست بخاری کے علاوہ لاہور سے باہر کے شعراء نے بھی اپنا رنگ جمایا اور پھر صحافی دوست پیارے شاہنواز رانا عبدالحمید ساجد میاں شہباز سے بھی ملاقات ہوگئی
بعض دوست کیمرے کی ذد سے محفوظ رہ گئے جو ذد میں آے وہ آپ کے سامنے ہیں-15 اپریل 2017
اے میرے صاحب
پیارے اسد خان کیلئے
مینہ وسیا کنڑکاں پکیاں
تائیں اکھیاں بنا کے بتیاں
بنیرے آتے رکھیاں
وے میں رنگلے پلنگ تے پائیاں چھیٹاں ویل دیاں
ارے ہنڑں آییاں ہنڑیں آئیاں گھڑیاں میل دیاں
تیڈا موڑے آتے رکھ کے فؤٹو جھلیاں پکھیاں –16 اپریل 2017
یہ کیسا شہر کا منظر بنا دیا تم نے
ہر ایک ہاتھ میں پتھر تھما دیا تم نے
اے میرے صاحب
پردیسیا وے میں
جناں تیرے لئی روی
اینا رویا نئیں ہو نڑاں
کدے کسے لئی کوی
آٹا گھندیاں روئ
چلہے باندھیاں روی
پیڑا گھڑ کے تے
توے آتے پاند یاں روئ
کدے چھناں ڈگ پیندا
کدے ڈگ پیندی ڈوئ
دم دارو میں کیتے
ٹونڑیں کر کر ہاری
کسے وید نا بجھی
میڈے دل دی بیماری
میرا رونڑاں نہ مکے
وے میں جیندیاں موئ
17 اپریل 2017
سوئیے وے چوڑے والیا
میں کہندی آں
کر چھتری دی چھاں
میں چھاویں بیندی آں
اے میرے صاحب
اے میرے فیس بک کے سمندر میں سنہری مچھلیوں کی طرح ناچتے محبت کے گیت گاتے خیرات خیر تقسیم کرتے دوستو
ہشیار رہو کہ شیطان اپنے جال پھیلا چکا ہے سازشی نظریات گروہی تعصبات فرقہ وارانہ فسادات اس کا خاص موضوع ہے
اور اس کے ہزار روپ ہیں یہ آپ کو میرے نام سے اور مجھے آپ کے نام سے مل سکتا ہے اس شیطان کا کوی مذہب مسلک نہیں یہ مذاہب و مسالک کے نام پہ اپنا بناتا ہے اور پھر عقیدے کے نام پہ خون کا بازار گرم کرتا ہے لوگوں کے وقار واحترام کو خاک آلود کرتے ہوئے پھر اس کے خون سے زمین سرخ کرتا ہے
فیس بک اس کا میدان خاص اور جعلی اکاؤنٹ اس کا آسان ہتھیار ہے سو باخبر رہو کہ کہیں یہ آپ کے نام کو استعمال کرتے ہوئے آپ کومذہبی سماجی ثقافتی مقاصد کے لیے استعمال تو نہیں کر رہا؟
احتیاط
کہ فیس بک مذہبی یا مسلکی مباحث کا فورم نہیں ہے حتی کہ ادبی مباحثے کا بھی فورم نہیں یہ ایک رابطے کا فورم ہے دیگر معاملات اور مہمات کیلئے یہ بہت حساس اور احتیاط طلب زریعہ ہے
المختصر
میرے نام سے ملتے جلتے لوگوں سے ہشیار رہیں جس آی ڈی سے آپ کے ساتھ مخاطب ہوں یہ میں ہوں
اور میرے نام کا کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے
میں ایک شاعر موسیقار اور لکھاری ہوں
کسی مخصوص مسلک یا نظریے کا پرچارک نہیں ہوں اور اس بات پہ کامل یقین رکھتا ہوں کہ ماسوائے رب العزت کے کوی صاحب
اختیار نہیں اور نبی کامل محمد مصطفٰی کے سوا کوی میرا غم خوار نہیں اور محمد کے گھرانے سے زیادہ کوی صاحب کردار نہیں
انسان اپنے تمام تر عیوب کے ساتھ میرے رب کی بہترین تخلیق ہے سو خالق کی تخلیق کا احترام بھی گویا خالق پہ ایمان کا ایک وصف ہے
سو. نقالوں نقاب پوشوں جذبات فروشوں اور شیطان کے.. شوشوں سے محتاط رہیں
تحریر لکھ دی ہے تاکہ سند رہے –18 اپریل 2017
اے میرے صاحب
ہمارے ساتھ تقریباً پانچ ہزار کے قریب دوست جڑے ہوئے ہیں ان میں سے کچھ بولتے ہیں مگر کچھ صرف سانس لیتے ہیں
سیاست سے ہمیں دلچسپی ہے نظام بدلنے کی خواہش ہمارے اندر موجود رہتی ہے ہم نے محدود سطح پر یعنی میانوالی کی حد تک عملی کردار بھی ادا کیا
سیاستدان برا ہوسکتا ہے مگر سیاست بری شئے نہیں بلکہ ایک مثبت شئے ہے اور اگر اخلاص سے کی جائے تو بہت بڑی خدمت ہے وہ سیاستدان یا حکمران جنہوں نے اخلاص سے کام لیا احترام بھی کمایا اور اپنے ملک کو بھی سنوارا
اس وقت بھی دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جہاں حکمران اور ایک عام آدمی میں کوی فرق نہیں ہے اور عجیب بات ہے کہ اس حوالے سے کسی مسلم ملک کا نام نہیں لیا جاسکتا حالانکہ ازروئے شریعت ایک مسلم حکمران عوام کے کے حقوق کے حوالے سے اللہ کے سامنے جوابدہ ہے
جمعرات فیصلے کا دن ہے اور ہر ایک شخص فیصلے کا منتظر ہے بعض لوگ امید رکھتے ہیں کہ نواز شریف چلے جاییں گے تو بعض لوگ پر امید ہیں کہ نواز شریف نہیں جاییں گے
بعض سیاستدان سپریم کورٹ پہ اعتماد کے اظہار میں بہت چالاکی سے بات کررہے ہیں
فیصلہ محفوظ اور پھر اس کے سناے جانے میں تاخیر کے حوالے سے بھی ہر سطح پہ منفی تبصرے اور تبرے بھی سنائی دییے
پانامہ کیس کے حوالے سے مجھے کوی امید نہیں ہے کہ اس فیصلے کے بعد عوام کی تقدیر بدل جائے گی یا عوامی مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا مثال کے طور پہ جمعرات کے فیصلے کے بعد کیا جمعہ والے دن ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جاے گا
کیا ہر بیروزگا ر کو روزگار مل جاے گا
کیا ہسپتالوں میں علاج بہتر ہو جاے گا
کیا غریب کے بچے اچانک امیروں کے بچوں کی طرح کے حقوق حاصل کر لیں گے
کیا جہانگیر ترین نواز شریف چوہدری برادران اپنی اپنی شوگر ملیں عوام کے نام کر دیں گے
کیا نواز شریف کے بچے اپنا کاروبار اپنے ملک میں لے آئیں گے
کیا عمران خان کے بچے میانوالی کے کسی سکول میں داخلہ لے لیئں گے
کیا یوسف رضا گیلانی پرویز اشرف اور
آصف علی زرداری کرپشن کی دولت قومی خزانے میں واپس جمع کرا دئیں گے ایسا کچھ نہیں ہوگا
مگر مجھے خدشہ ہے کہ فیصلے کے بعد جذبات کا ایک طوفان اٹھے گا عوام ایک بار پھر سیاستدانوں کی لاٹھی بنیں گے اور نجانے کتنے غریب ماوں کے بیٹے سڑکوں پہ
اپنی جان گنوائیں گے
مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ پانامہ کا فیصلہ سننے کے بعد پر سکون رہیں خوشی یا غمی کا اظہار سڑکوں پہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کے خاندان کو آپکی بہت ضرورت ہے
یہ ایک غیر سیاسی ذاتی ردعمل ہے کسی دوست کو اگر برا لگے تو اسے اختیار ہے کہ وہ ایک موٹی سی گالی ہمارے منہ پہ مارتے ہوے ہمیں ان فرینڈ کے نیزے پہ چڑھا سکتا ہے
اللہ بھلا کرے سب کا – 19 اپریل 2017
اے میرے صاحب
اصغر حسین اصغر ہمارے بہت پیارے بھائیوں جیسے دوست ہیں ہم نے جب شاعری کا آغاز کیا تو انہھوں نے ہمارا بہت ساتھ دیا خو بصورت شاعر تو تھے ہی ساتھ انسان بھی بہت نفیس ہیں ان کے ساتھ محبت کا رشتہ ابھی تک جواں ہے
ہم لوگ طویل عرصے تک اکٹھے رہے ایک دوسرے کی بہت مدد کی اور کندیاں میں ادبی سرگرمیوں کو فروغ دیا اصغر بھائی جب تک کنوارے رہے آوارہ گردی میں ہم سے چار قدم آگے رہے اور پھر اچانک ان کی شادی ہوگئی بس پھر کیا تھا جن ہاتھوں میں کوی غزل گیت یا نظم ہوا کرتی تھی
اب سودے کی پرچیاں نظر آنے لگیں اور پھر روزانہ شیو کرنے والے اضغر بھائی باقاعدہ ڈاڑھی والے ہو گئے اور ہاتھ میں تسبیح بھی نظر آنے لگی مگر ہم سے محبت کا رشتہ قائم رہا جو آج تک قائم ہے
یہ تصویر محمود ارشد وٹو کی زنبیل سے برآمد ہوئی ہےجوآپ تک پہنچا رہے ہیں گو کہ تصویر دیکھ کے آپ کا. تراہ.. نکل جائے گا اور آب ساختہ کہھ اٹھیں گے کہ
اف اللہ زرا دیکھو تو
مگر ساتھ ماشاءاللہ ضرور کہنا – 20 اپریل 2017
اے میرے صاحب
موسیقی میں جب کسی گیت کو کمپوز کرتے ہوئے ایک سے زائد راگ استعمال ہوں اور یہ فیصلہ مشکل ہو جاے کہ یہ کون سا راگ بنتا ہے تو پھر کہا جاتا ہے کہ یہ
………. مشل میل.. ہے
ہمیں پانامہ کا فیصلہ بھی. مشل میل.. نظر آتا ہے
اور تو اور کئی قانون دان بھی کیس کے حوالے سے ایک نکتے پہ متفق نظر نہیں آتے
یعنی ان کے ہاں بھی معاملہ. مشل میل..ہی ہے
ہاہاہاہا ہا ہا ہا ہا ہا
احباب پوچھتے ہیں یہ مشل میل کیا ہوتا ہے
اس کی تفصیل کبھی عرض کریں گے انشاءاللہ-20 اپریل 2017
اے میرے صاحب
پانچ میں سے دو جج نواز شریف صاحب کو وزیر اعظم کے منصب کیلئے نااہل سمجھتے ہیں مگر تین ججز گو مگو کی کیفیت میں نظر آتے ہیں سو انہھوں نے پہلے دوججز کے ساتھ جزوی طور پر اتفاق کرتے ہوئے اس کیس کو دوبارہ سے ٹرائل سے گزارنے کا حکم دیتے ہوئے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے سے گریز کیا ہے مگر ساتھ ہی عدم اعتماد بھی ظاہر کیا ہے
ہم انصاف کے طلب گار بھی ہیں مگر یہ بھی چاہتے ہیں کہ عدالت ہماری پسند کا انصاف کرے گویا ہمارے اس مطالبے میں بھی ایک ناانصافی موجود ہے
ہم میں سے اکثریت آئینی اور قانونی معاملات سے متعلق زیادہ کچھ نہیں جانتی مگر قانون جاننے والے جانتے ہیں کہ نواز شریف بظاہر فتح مند ہوے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف قانونی اور اخلاقی طور پہ شکست کھا چکے ہیں اور اب وہ حقیقی معنوں میں قانونی اور اخلاقی گرفت میں ہیں
مجھے لگتا ہے کہ نواز شریف مستعفی ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور اگر وہ ایسا فیصلہ کرتے ہیں تو پاکستان کی سیاسی تاریخ بدل جاے گی ان کی شخصیت کا یہ مثبت پہلو انہیں عوامی سطح پر بلند کر سکتا ہے اور اپنی جگہ پر کسی کو وزیر اعظم منتخب کرانا ان کیلے مشکل نہیں ہے
آنے والے دنوں میں مجھے ایسا نظر آتا ہے ممکن ہے میری. دور. کی نظر کمزور ہو مگر نواز شریف کیلئے اس طرح کا فیصلہ
ان کے سیاسی مستقبل کیلئے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے
احباب اپنی راے کا اظہار کرتے وقت جذباتی نہ ہوا کریں گالی گلوچ سے تبدیلی نہیں آتی البتہ نفرت ضرور بڑھتی ہے ہم سب ایک ملک میں رہتے ہیں ہمارے اختلافات سیاسی ہیں نہ کہ ذاتی
بہرحال دیکھتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کیا فرماتے ہیں-20اپریل 2017
اے میرے صاحب
ہم انسانوں کی طرح پرندے اور جانور بھی گرمی کی شدت کا سامنا کر رہے ہیں جس طرح ہم لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پریشان ہیں بلکل اس طرح پرندے بھی درختوں اور پانی کی کمی کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں سو ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے اور خاص طور پہ ان دنوں گھروں کی چھتوں یا آنگن میں کسی برتن میں پانی بھر کے رکھ دینا چاہے کسی دوسرے برتن میں تھوڑا بہت باجرہ یا پھر دال بھی رکھنی چاہیے مگر اس احتیاط کے ساتھ کے پانی ٹھنڈا رہے
ایک بات جو میں نے محسوس کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ پرندے گندے برتن کا پانی بہت کم پیتے ہیں البتہ صاف پانی اور اناج مزے سے کھاتے پیتے ہیں
اب ایسا کیجیے کہ اٹھیے اور جائزہ لیجیے کہ آپ اپنے گھر میں کس جگہ پرندوں کی ضیافت کا اہتمام کر سکتے ہیں
اللہ اجر عظیم عطا فرمائے آمین الہی آمین …. 21 اپریل 2017
اے میرے صاحب
اسے کہو کہ کسی اور سے بنا رکھے
ہمیں تو اس کی محبت سے اب خدا رکھے
اے میرے صاحب
دیسی مہینہ وساکھ چل رہا ہے مگر کیفیت
ہاڑ کی بنی ہوئی تھی آج اچانک موسم نے
بادل کی چادر اوڑھی اور پھر بارش ایسی برسی کہ طبعیت کھل اٹھی اور موج میں آکے ہم نے ہارمونیم بجاتے ہوے ایک پرانا گیت گنگایا نہیں باقاعدہ گایا
ساون کنڑں منڑں لای ہو ساون کن منڑں لای میڈا ماہی
اکھیاں چھم چھم وسیاں تے ول نیں ہسیاں
گھولے ونجاں وے ماہی
اکھیاں چھم چھم وسیاں تے ول نیں ہسیاں
22 اپریل 2017
اے میرے صاحبت
ماہی وسے میڈا روہی پاروں
میں وساں اروار وے اللہ
اچی پہاڑی آتے چشمے دا پانی
چشمے دا پانی ٹھڈا ٹھار وے
متھے دا بینہ میڈا وین کریندا اے
ڈکھن کناں دیاں والیاں
چیجی دا چھلا تیکوں یاد کریندا
مندری چا سینے بھایں بالیاں
اجڑے جھکڑے روہی دے رستے
پندہ میڈے وس توں بار وے
پیراں تے چھالے میڈے مٹھڑے مٹھڑے
ٹرنیں تو لاچار وے
تیرے
چرخہ کتینداں میڈی تڑٹ گئی پونڑیں
ترٹ گئی ادہ وچکار وے
اللہ کرای میڈی سوہنڑیں بونڑیں
ڈھولے کرایا اے دیدار وے چا پونڑی وچ پن لئی کر
منڑیں تاں تے کای نیں گل بہ کے تے سن لئ کر-23 اپریل 2017
اے میرے صاحب
آقا جان ظفر خان نیازی صاحب کی ہر تحریر اور شاعری ہم ایک طالب علم کے طور پہ پڑھتے ہیں یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ ہمارے عہد کے بڑے آدمی ہیں ہم نہ صرف ان کے ظاہر پہ فریفتہ ہیں بلکہ ان کی باطنی خوشبو سے بھی معطر رہتے ہیں وہ نیازی ہیں مگر عجب بے نیازی ان کے اندر دھمال ڈالتی رہتی ہے وہ کسی بھی طرح کی سرداری کی پگ سر پہ رکھتے ہوئے خود کو نمایاں کرنے کے بجاے اپنی یتیمی کے شب و روز کو بہت فخر سے بیان کرتے ہیں وہ اپنی ماں کی مشقت کے بیان کو اپنی قلم سے رواں رکھتے ہیں
ہم میانوالی کے لوگوں کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ہم صرف تلوار کی زبان میں بات کرتے ہیں یہ ایک رخ ہے ہمارے تعارف کا لیکن ایک دوسرا تعارف یہ بھی کہ آپ ادب سیاست صحافت ثقافت اور کسی بھی فن میں اگر آپ. میانوالینز…
کو دیکھیں تو ایک لمبی فہرست ہے
ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی صوبہ یا ضلع کے پاس میانوالی سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات کے جتنے نام نہیں اور یہ بڑای یا تکبر کی نہیں بلکہ رب العزت کی مہربانی کی بات ہے
آج آقا جان ظفر خان نیازی صاحب کی ایک غزل ہماری نظر سے گزری تو ایک شعر نے ہمیں جکڑ لیااور ہم ماضی میں کھو گئےمیانوالی کے مسائل
ہماری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگے پنجاب کے گاوں اپنی محرومیوں کے ساتھ ہمیں جھنجھوڑنے لگے اور ہم اداس ہو گییے
پہلے یہ شعر دیکھنے
شہر لاہور تیری سڑکیں سجانے کیلئے
گاوں پنجاب کے اندھیاروں میں ذوبے سارے
یہ ایک حساس مگر سچے پاکستانی شاعر کا احساس ہے جو تقسیم میں برابری کا خواہش مند ہے
ہم لاہور کو جنت نظیر دیکھنا چاہتے ہیں یہ پاکستان کا ایک بڑے دل والا شہر ہے یہ شہر امن ہے یہ شہر محبت ہے یہ شہر دوست ہے کسی بھی طرح کے کے تعصب سے بے نیاز
مگر حکمران مختلف سوچتے ہیں چاہے حکمران پنجابی ہو یا سرایکی سو اسی وجہ سے ظفر خان نیازی صاحب اپنے شعروں میں پنجاب کا نوحہ لکھنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں
بہت سال پہلے ہمارے مرحوم دوست ڈاکٹر شیر افگن مرحوم نے لاہور میں ایک ادبی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں لاہور پہ ایٹم بم گرادوں کیونکہ یہاں پانی میں بھی بجلی کے رنگ برنگے فوارے نظر آتے ہیں مگر میرے میانوالی میں میلوں تک نہ پانی ملتا ہے اور نہ روشنی نظر آتی ہے
ڈاکٹر شیر افگن مرحوم کے اس بیان پہ ہم ان سے بہت ناراض ہوے کہ آپ نے لاہور کے حوالے سے بہت سخت بات کی ہے اور آپ اپنا بیان واپس لیں سو ڈاکٹر شیر افگن مرحوم نے دوسرے دن اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے اپنا تفصیلی موقف بیان کیا اور حیرت انگیز طور پر منوبھای عطاء الحق قاسمی امجد اسلام امجد عبدالقادر حسن احمد ندیم قاسمی اشفاق احمد دلدار پرویز بھٹی منصور آفاق ڈاکٹر اجمل نیازیسلیم احسن مولانا عبدالستار خان نیازی کے علاوہ دیگر دانشوروں اور کالم نگاروں نے ڈاکٹر شیر افگن مرحوم کے تفصیلی بیان کی نہ صرف حمایت کی بلکہ حکمرانوں پہ زور دیا کہ وہ پنجاب کے پسماندہ علاقوں کی تعمیر ترقی میں مساوات لائیں
اب ظفر خان نیازی صاحب نے بھی اپنے شعر میں پورے پنجاب کی تصویر پیش کی ہے وہ بھی چاہتے ہیں کہ پنجاب کا ہر گاوں
زندگی کی بنیادی سہولتوں سے آراستہ کیا جاے وہاں بھی لوگ خوشحالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں
مثال کے طور پر میانوالی اس وقت بہت سے مسائلِ کا شکار ہے حالانکہ میانوالی نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے
وسیع تر قومی مفاد میں بہت سے مسائل کو اپنے گلے لگایا ہے مگر قومی مفاد کو
اہمیت دی
گزشتہ کچھ سالوں سے میانوالی میں کینسر جیسا موزی مرض بہت تیزی سے پھیلا ہے وہ پانی جو چند سال پہلے اپنے اندر شفا رکھتا تھا اب انسانی جسم کیلے موت بنتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سب کے علم میں ہے
میانوالی کے لوگ بجلی سے محروم ہیں حالانکہ ایک حساس ادارے کے زریعے میانوالی کے لوگوں کو بجلی فراہم کرنا کوی مشکل بات نہیں ہے
ضلع کا نہری نظام بھی ناکام ہوچکا ہے لاکھوں کنال اراضی پانی نہ ہو نے کی وجہ سے برباد ہو چکی ہے جس سے نہ صرف مقامی سطح پر لوگوں کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ ملکی سطح پر بھی اس کا نقصان نظر آتا ہے کس کس محرومی کا زکر کیا جاے
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
یہاں یہ بات بھی قابل شرم ہے کہ میانوالی اور پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے حوالے سے آواز آتھانے والا کوئی نہیں ہے حالانکہ
منتخب نمائندوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اینٹ اٹھاو تو نیچے سے ایم این اے نہیں تو ایم پی اے تو ضرور نکل آتا ہے
اور یہ بات مزید قابل شرم ہے کہ ایک شاعر تو پنجاب کے ہر گاوں کا نوحہ لکھ رہا مگر
سیاسی قیادت کا احساس خدمت مرچکا ہے ایک بار پھر شعر لکھ رہا ہوں کہ
شاید کے اتر جاے تیرے دل میں میری بات
تو آقا جان ظفر خان نیازی صاحب فرماتے ہیں
شہر لاہور تیری سڑکیں سجانے کیلیے
گاوں پنجاب کے اندھیاروں میں ڈوبے سارے
نوٹ
یہ تقریب پنجابی ادب کے میانوالی نمبر کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں تھی اور پہلی بار پنجابی ادب میں سرایکی زبان کو علعیدہ زبان کے طور پر شامل کیا گیا جوکہ منصور آفاق کی قیادت میں ممکن ہوا اس
پنجابی ادب شمارے میں میرے حوالے سے ایک خصوصی مطالعہ بھی شامل تھا جو کہ میرے لیے بہت عزت کی بات تھی اس شمارے میں ایسے مضامین بھی شامل تھے جن کی زبان بہت سخت تھی سو احمد ندیم قاسمی مرحوم نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ
اس میں شامل بعض شعراء کا کلام پڑھ کے ایسا لگتا ہے کہ اب اس کے بعد صرف بارود کی بارش ہی ہوسکتی ہے تاہم افضل عاجز کو پڑھ کے مجھے تسلی ہوی کہ یہ بارود کی بارش نہیں ہونے دے گا..
اس تقریب میں جب میں نے یہ کلام سنایا
اساڈی زندگی ہے کاغذی تحریر دے وانگوں
کسے مالک دی بے مقصد جیئی جاگیر دے وانگوں
اساڈی زندگی تپدے ہوے ٹباں دے وچ لنگھی
اساں مجبور تے مظلوم ہاں شبیر دے وانگوں
تو مولانا عبدالستار خان نیازی صاحب نے اپنے خطاب میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا
نوجوان اپنے حوصلے بلند کر ہم اتنے بھی مجبور نہیں ہیں اپنی محرومیوں کو اپنی طاقت بنا اور اپنے حق کیلئے آواز بلند کر
آقا جانی
ظفر خان نیازی صاحب نے میانوالی کے حوالے سے ہماری پوسٹ کو عزت بخشی اور اپنی راے کا اظہار کرتے ہوے ہمارے موقف کو مزید مضبوط بنانے میں مدد کی اور ساتھ ہی میانوالی کے مسائل کی مکمل تصویر پیش کی
شکریہ آقا جانی
احباب یہ بھی پڑہیے
محترم و عزیزم عاجز صاحب –
اس محبت کا تو مقروض ہوں جس سے آپ نے یاد کیا اور پوسٹ میں میرا ذکر کیا لیکن اس سے زیادہ قرض تو مجھ پر اس مٹی اور اس شہر کا ہے جس کے دکھوں کو آپ نے آج کا موضوع بنایا ، وہ شہر وہ علاقہ جس کی خوشبودار مٹی سے میرا وجود بننا تھا اور جس کے محفوظ اور محبت بھرے ماحول نے مجھ جیسے یتیم کو تحفظ کی وہ چھتری دی اور پرورش کا وہ ماحول دیا جس سے زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور توانائی ملی – مجھے اعتراف ہے کہ میں اور مجھ جیسے ہزاروں فرزندان میانوالی پڑھ لکھ کر اپنی مٹی اور اپنے علاقے کا وہ قرض نہیں چکا سکے اور خارجی حالات کے جبر میں گھلتے گھلتے آخر شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ اپنے علاقے کے منظر نامے سے ہی نکل گئے – جتنا برین ڈرین میانوالی سے ہوا ہے ، جتنے گھرانوں نے اس علاقے کو بوجوہ چھوڑا ہے شاید تناسب کے اعتبار سے یہ تعداد پاکستان میں سب سے زیادہ ہے – باہر نقل مکانی کرنے اور بہتر زندگی کا آپشن استعمال کرنے کے بعد جب کبھی میں میانوالی کی بہتری کی بات کرتا ہوں تو میں احساس جرم کے مارے سوچتا ہوں کہ جب میں میدان ہی چھوڑ آیا ہوں تو اب یہ کیسی لڑائی لڑ رہا ہوں – اور پھر ستار سید کا ایک شعر یاد آتا ہے :-
مٹی کا سوندھا پن بھی تعفن میں ڈھل گیا
بھٹکا اگر تو اب مجھے گھر کون لائے گا
یہ ایک درد ناک حقیقت ہے کہ میانوالی کی خوشبو بکھرتی جا رہی ہے – ستر سال سے حکومت پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں میں یہ لوگ اور یہ علاقہ جس طرح نظر انداز ہوتا رہا ہے اور اس کے وسائل کو دیگر علاقوں کی بہتری کیلئے جس بے دردی سے استعمال بلکہ استحصال کیا جاتا رہا ہے اس سے کسی بزرگ کا یہ خیال صحیح لگتا ہے کہ شمالی پنجاب کے ان علاقوں کو دانستہ اس لئے بیک ورڈ رکھا گیا ہے کہ غربت اور پسماندگی کے سبب یہاں سے فوج کیلئے جوان ملتے رہیں –
میانوالی کے مسائل کیا ہیں ، ان موضوعات پر میں آپ اور کئی دیگر دوست تفصیل سے لکھتے رہے ہیں – نہری پانی سے محرومی ، چشمہ بجلی گھروں میں علاقے کا بجکی کا کوٹہ نہ ہونا ، یہاں کی ریل گاڑیوں کو بند کرنا اور ریلوے کے نظام کو برباد کر کے رکھ دینا ، سی پیک میں مولوی فضل الرحمان کے گاوں سے روٹ نکالنا اور میانوالی کو کم سے کم روٹ دینا ، نوکریوں میں میانوالی کے لوگوں کو نظر انداز کرنا اور ترقیوں کے موقع ہر دھکے دینا ، جنرل نیازی کا نام سامنے رکھ کر قومی شکست کا ذمے دار صرف اسی ایک جنرک کو قرار دے کر اور غازی علم دین شہید کی پھانسی کا واقعہ بیان کرکے ساری میانوالی کو مطعون کرنا ، یہ فہرست بہت طویل ہے – میانوالی اس وقت زخموں سے چور ہے – اور ستم تو یہ ہے کہ اس پر طنز و تشنیع کے تیر چلانے میں اس کے اپنے فرزند بھی شامل رہتے ہیں کہ یہ ہمارا قصور ہے ہم ایسے ہیں وغیرہ – نواب کالا باغ ملک امیر محمد خان آج بھی بہت سوں کا ہیرو ہے جس نے افغان پٹی میں گورنر ہونے کے باوجود سکول تک نہیں بننے دیا کہ کہیں لوگوں کو شعور نہ آجائے اور کالاباغ سٹیل مل کو دھکا دینے میں کردار ادا کیا –
بہرحال مجھے خوشی ہے کہ آپ جیسے سر پھرے اب بھی میانوالی کی محبت میں اس کی ویلفیئر کی بات کرتے ہیں – اور مجھے امید ہے اس طرح یہ شمع آپ جیسے دوستوں نے جلائے رکھی تو میانوالی کے علاقے میں روشنی ضرور آئے گی – ورنہ یہ علاقہ اس طرح اجڑ جائے گا جس طرح ایٹم بم کے بعد بستیاں اجڑ جاتی ہیں –
ہم اپنے شہر اور علاقے کیلئے کسی کا حق نہیں مارنا چاہتے لیکن سرکاری اور نیم سرکاری سطح پر اسے جس بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے ، وہ بھی ناقابل برداشت سمجھتے ہیں اور اس کا ازالہ چاہتے ہیں –
اللہ پاک ہمارے میانوالی کو اور اس کے باسیوں کو اپنی امان میں رکھے اور یہاں بھی زندگی کی رونقیں بحال ہوں –
میانوالی تیری آب و ہوا کو جب ترستا ہوں
میں گوگل پر تیری گلیوں کا نقشہ دیکھ لیتا ہوں
بہت شکریہ-24 اپریل 2017
اے میرے صاحب
شکر ہے کسی نے ہمارے شعر کو بھی ڈیزائن کیا ہم تو بس انھے وا شعر پہ شعر ٹھوکے جا رہے تھے
فاروق نیازی صاحب کا شکریہ تو بنتا ہے نا..
1 اپریل 2017
اے میرے صاحب
اڑتی اڑتی خبر آی ہے کہ دشمن جاں گرمیوں میں لکار اوڑھے شاعر جناب محمد ظہیر احمد مہاروی آج 30 برس کے ہوگئے ہیں
لیکن میونسپل کمیٹی کے اندراج کے مطابق ساٹھ برس کے ہوچکے ہیں اور اگر ہم ان کی حرکات و سکنات کی روشنی میں دیکھیں تو موصوف اس وقت. بہترے. ہو چکے ہیں
اور اگر ہم ان کے ساتھ اپنا موازنہ کریں تو موصوف ہم سے،، 266. برس بڑے ہیں بس ہم زرا. شعر شاعری. کے چکر میں پھنسنیں کی وجہ سے ان سے ایک دوماہ بڑے نظر آتے ہیں
سنا ہے رات کیک کاٹتے ہوے وہ دھاڑیں مار مار کے رونے لگے جب ہماری عزت والی بھابھی نے پوچھا خوشی کے موقعہ پہ آنسو؟
بھابھی کے اس سوال پہ ظہیر نے غریب دے بال جس طرح آستین سے اپنا. لم. پونچھتے ہیں آنسو پونچھتے ہوے کہا
افسوس اب یہ کیک باٹنا بھی پڑے گا
اس لیے رو رہا ہوں
باقی کا حال اللہ جا نتا ہے بہر حال ہماری طرف سے مبارک باد او
…….. ڈھڈ دا پٹا ہویا…25 اپریل 2017
اے میرے صاحب
آج ملک کے ممتاز شاعر برادر ڈاکٹر اختر شمار کے اعزاز میں ادبی بیٹھک میں ایک تقریب تھی تقریب کیا تھی دوستوں کی طرف سے ایک مان تھا جو انہیں دینا تھا اور ظاہر ہے کہ ہم نے اپنے حصے کا مان بھی دینا تھا مگر
جی ہاں مگر ہوا یوں کہ ہم بہت پہلے گورمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی کی مجلس اقبال کے نوجوانوں کے ساتھ شرکت کا وعدہ کرچکے تھے اور دونوں تقریبات کا وقت تقریباً ایک ہی تھا ہم نے سوچا کہ نوجوانوں کے پاس حاظری لگا کے ڈاکٹر اختر شمار کی تقریب میں دھمال ڈالنے پہنچ جاییں گے مگر ایسا نہ ہو سکا
بہرحال انہیں ہاتھ جوڑ کے منا لیں گے بصورت دیگر گانا سنا کے تو منا ہی لیں گے
یونیورسٹی کی غزل نائٹ بہت بھرپور تھی نوجوان گلوکاروں نے آسمان سر پہ اٹھاے رکھا سینر گلوکاروں نے بھی سر جگاے رکھا شاعر رومان فرحت عباس شاہ نے پہلے تو تحت الفظ سماں باندھا اور پھر ترنم سے سے. پڑ. بھی باندھ دیا
ہم شکر گزار ہیں کہ یونیورسٹی کے بچوں نے ہمیں بہت عزت سے نوازا انہوں نے اتنی تالیاں بجا ییں کہ ہم سمجھے تالیاں پیٹ پیٹ کے ہمیں بھگانا چاہتے ہیں مگر ان کا جواب آیا کہ ہم ابھی آپ کو مزید سننا اور سراہانا چاہتے ہیں
یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید امیر حسن کا شکریہ کہ انہوں اپنی گفتگو میں ہماری عزت افزائی فرمای ڈاکٹر ارم اور دیگر انتظامیہ کا بھی شکریہ جنہوں نے
عزت افزائی فرمائی
شکریہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور –25 اپریل 2017
اے میرے صاحب
فرزانہ ناز سے میرا تعارف نہیں ہے مگر بطور شاعر ان سے واقف ہوں ان کی حادثاتی موت پہ ہر ایک غمزدہ ہے میں کوی مفکر دانشور یا علامہ نہیں مگر میرا خیال ہے کہ وہ کتاب میلہ میں شریک تھیں جس کا سیدھا مفہوم یہ ہے کہ وہ حصول علم کے ساتھ ساتھ فروغ علم میں مصروف تھیں اور راہ علم میں حادثے کا شکار ہوتے ہوے شہادت کا درجہ حاصل کیا
اب ہمیں چاہیے کہ ہم ایک تو ان کے لواحقین کیلئے حکومتی سر پرستی کا مطالبہ کریں
2ہمیں مطالبہ کرنا چاہیے کہ جہاں وہ گر کے شہید ہوئیں اس جگہ کو فرزانہ ناز صاحبہ کے نام سے منسوب کریں تاکہ ان کی کتاب اور علم دوستی ہمیشہ یاد رکھی جائے
خاص طور سینر ادبی شخصیات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہے
میرا رب فرزانہ ناز صاحبہ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین الہی آمین
26 اپریل 2017
اے میرے صاحب
ساڈے سر سو سو الزام…………….سائیں
ہوے کل عالم بدنام……………….سائیں
کل وکدے رہے بازار دے وچ
ساذا اٹیاں لگیا دام…………..سائیں
تھی روشن چوڈاں طبق ونجن
ڈے اے جیا آج کوی جام……..سائیں
ساڈی فجر دے نال مثال نہ ڈے
اساں چپ چپیتی شام………..سائیں
پیے جھٹ لنگھدن مسکینی وچ
بے نام دے کہیڑے نام…………سائیں
اساں ناچے عشق دے کوٹھے دے
نچن گاون ہے کام………..سائیں- 27 اپریل 2017
اے میرے صاحب
ممتاز کالم نگار افسانہ نگار شاعرہ اور علم دوست شخصیت محترمہ بشری رحمان صاحبہ نے آج اپنی رہائش گاہ پہ ممتاز شاعر ڈاکٹر اختر شمار کی زیر ادارت شایع ہونے والے ادبی جریدے. بجنگ آمد. کے 23 سال مکمل ہونے پہ ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا یہ ایک بہت بھرپور تقریب تھی جس میں ادب اور ادیب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہمارے ملک میں اس وقت کتاب کے فروغ کی ضرورت ہے اور علمی ادبی ماحول کے
فروغ کی بھی ضرورت ہے ادبی جرائد کے حوالے سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہا گیا کہ سرکاری اور نیم سرکاری ادارے ادبی جرائد کو اشتہارات کے ضمن میں کوی خاص اہمیت نہیں دیتے جو کہ بہت افسوس کی بات ہے اس تقریب میں سرکاری ادبی اداروں کے حوالے سے بھی بعض معاملات میں پسند و ناپسند کو معیار بناے کے عمل کوبھی ناپسند کیا گیا
تقریب میں موجود تمام شرکاء نے اسلام آباد میں فرزانہ ناز صاحبہ کی حادثاتی موت پر بہت افسوس کا اظہار کیا اور اس حوالے سے ان کے لواحقین کی سرکاری سر پرستی کا بھی مطالبہ کیا گیا تاہم کسی خاص شخصیت کو تنقید کا نشانہ بنانے اور حادثے کی زمہ داری کے الزام لگانے کے رویہ کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی
بعدازاں مشاعرے میں حسن عسکری کاظمی اسلم کمال خالد یزدانی بینا گوییندی نیلمہ احمد بشیر فوزیہ تبسم ڈاکٹر اختر شمار بندہ عاجز اور میزبان بشری رحمان صاحبہ نے اپنا کلام پیش کیا
اس موقعہ پر کلام کےساتھ طعام کا بھی وافر اہتمام موجود
معروف شاعر حسن عسکری کاظمی نے اس موقعہ اپنا شعری مجموعہ. وہ ایک شخص.
عطاء کیا تو ہم نے انتہائی ادب کے ساتھ وصول کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا
27 اپریل 2017
اے میرے صاحب
تفسیر عباس بابر ناول نگار اور شاعر ہیں بطور ناول نگار ان کا اپنا منفرد اسلوب ہے ان کی کسی کے ساتھ مثال دینا بھی چاہوں تو یہی کہھ سکتا ہوں کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں
انکی اردو غزل بولتی اور سرائیکی پنجابی دوہڑہے تو دلوں میں دھمال ڈالتے ہیں
میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں گزشتہ روز ہم نے پوسٹ پہ ہال فریاد.. ڈالی کہ ہمیں تو نیلے پیلے رنگوں میں لکھنا نہیں آتا تو انہھوں نے یہ دوھڑہ انبکس میں بھیجتے ہوے کہا
ہم ہیں نا….28 اپریل 2017
اے میرے صاحب
پیارے مناظر گوندل کا اللہ بھلا کرے انہھوں نے ہماری غزل کو نہ صرف چار چاند لگا دئیے بلکہ ایک عدد چاندنی بھی لگا دی -شکریہ-29 اپریل 2017
اے میرے صاحب