اے میرے آقا ظفر خان نیازی صاحب آپ میرے میانوالی کے سینے پہ مچلتے ھوے سندھ کے دل پر ناچتی ھوی کشتیوں کے ملاح ھو آپ جب کالاباغ کے پتن پر نغمہ سرا ھوے تو ھم نوجوانوں کے دماغ ھی نہیں حسینایوں کے دل بھی مچل جاتے تھے آپ کے چوکور پہیے نے دنیائے شعرادب کو نئی خوشبو عطا کی ریڈیو پر آپ کی صداکاری تو گویا قیامت نامے تھے جو با نصیب تھے با مراد ھوے جو بدنصیب تھے وہ آج بھی مشتاق دید ھین خود ھم سے بھی کئی حسینایوں نے دیار یار کا پتہ پوچھا مگر مارے حسد کے ھم اپنا ھی پتہ بتادیتےتھے مگر وہی بات کہ… کہاں راجا بھون اور کہھاں گنگو تیلی. آپ نے ھمارے بارے میں قلم کیا چلایا کہ ھم یکدم زمین سے آسمان تک پھیل گئے سر منور ملک مرشد سلیم احسن یار دلدار منصور آفاق مبارک باد دے رھے ھین کہ ان کو دعائیں دو کہ جنہوں نے آپ کو ایک ھی نشست میں مٹی سے سونا بنایا اے میرے آقا میرا رب آپ کو ھمیشہ سکھی رکھے گھرانے کے حوالے سے عرض ھے کہ ھم خانہ بدوش ھین ھمارے پردادا کابل سے لکی مروت اے ھمارے بابا لکی پیدا ھوے دادا کی جوانی نادانیوں سے بھری ھوی تھی مگر گھمنڈ والے پیروں کے ایک بزرگ نے ایسا سیدھا کیا کہ بندوق گروی رکھ کے تسبیح پکڑ لی مرتے دم تک اللہ اللہ کرتے رھے دادی ھماری کمر مشانی کے اللہ خیل قبیلہ سے تھی ھم کندیاں پیدا ھوے باقی کل-2جون2016
پارٹ2 اے میرے آقا دادا میاں احمد فقیر کی وجہ سے گھر کا ماحول فقیرانہ تھا سب سے بڑے بیٹے ھمارے تایا مہرداد خان بھت نیک آدمی تھے فکر معاش کے ساتھ ساتھ اللہ اللہ بھی کرتے تھے ھمارے ابا کوپہھلوانی کا شوق تھا البتہ ایک چچا حقدادخان بمبئی بھاگ گیے اور کسی تھیٹر سے وابستہ ھو گیے خدا جانے اس بات مین کتنی صداقت ھے کہھا جاتا تھا کہ وہ پرتھوی راجکپور کےتھیٹر مین کام کرتے تھے ان کے بھاگ جانے سے دادی بھت پریشان رھنے لگیں اور آخرکار تایا مہر دادخان ان کے سر پہ پہنچ گیے رسی سے باندھ کے ماں کےقدموں مین لاڈالا ھم نے اپنے چچا کو آخری عمر مین بستر علالت پہ دیکھا انہیں دیکھ کے لگتا تھا کہ .. کہیں وقت دا تاج محل ھے. ھم جب بڑے ھوے تو کان پہ ھاتھ کے گانے لگے ھماری شہرت خواتین تک پہنچی تو ھم شادی بیاہ کی محفلوں مین بلاے جانے لگے بری عمر کی خواتین ھمین بعوض دعا تو ھماری عمر کی ناریاں بنظر ادا بلا لیا کرتیین تھیں مگر اچانک ایک دن ایک سانولی سی لڑکی نے شکایت لگا دی کہ یہ گاتے ھوے مجھے آنکھ مارتا ھے ھم نے بھت سمجھایا کہ ھم آنکھ نہھین مارتے بلکہ بند کر کے گاتے ھین مگر ھماری ایک نہ سنی گئی اور ھمین نکال باہر کردیا گیا اوپر سے تایا جان نے پابندی لگا دی کہ تم گھر سے باہر نہھین نکل سکتے یوں ھمارے اندر کے گلوکار کو بچپن میں ھی مار دیا گیا لیکن ایک دن آیا جب اسی سانولی کی شادی پر گانے کی اجازت مل گئی ھم ایک بار پھر پرات بجا کے گانے لگ گیے اختتام پر اس سانولی نے ھمین بلایا اور کہھا اوے آکھ تاں مار-3جون2016
اے میرے آقا اس زمانے میں آنکھ کھولنی نہھیں اتی تھی مارنے کاتوسوال ھی پیدا نہھیں ھوتا ھم نے ایک بار پھر کہھا ھمیں آنکھ مارنی نہھیں آتی البتہ گاتے ھوے آنکھ بند ھو جاتی ھے وہ مسکرای اور کہھا چلو گا کے ماردو ھم نے اونچی آواز میں گانا شروع کردیا جا چڑھ جا ڈولی نی جا چڑھ جا ماپیاں دی لج آتے حرف نہ آوے اس گیت نے ماحول افسردہ کر دیا دلہن اٹھی اور اس نے مجھے سینے سے لگا کےرونا شروع کردیا ھم بھی رونے لگے اس وقت ھماری عمر دس سال کےقریب تھی اس نے کہھا بہن کے لیے دعا کرنا ھم نے کہھا اللہ تیرے بھاگ اچھے کرے اس زمانے میں محلے بیٹی اور بہن سب کی بہن بیٹی ھوا کرتی تھی موسیقی ھم نے لاہور جا کے سیکھی استاد سلامت علی خان سے لیکر استادغلام حسن شگن خان تک کےساتھ کام کیا مگر شاگرد ھم بانسری نواز استاد بابر علی خان کے ھوے بابر علی خان گوالیار گھرانے کے شاگرد اور توکل خان صاحب کے قریبی عزیز ھیں میرے آقا ظفر خان نیازی صاحب مزید کوی حکم-4جون2016
اے میرے صاحب رمضان شریف ھمارے آنگن میں اتر چکا ھے رحمتوں کا نزول شروع ھو چکا ھے نور کی بہار ھے اللہ ھم سب کو اپنی رحمتوں کے خزانےعطا کرے یہ خیرات کا مہینہ بھی ھے ھم بھی آپ سے دعا کی خیرات کے طلب گار ھین دعا کیجیےگا ھماری متاع کل اس مقدس ماہ کے صدقے ھمین مل جائے آمین مطلب ھمارے صاحب ھمین مل جایں پلیز دعا کا طلب گار ھوں میرا رب آپ کو آسانیاں عطا کرے-6جون2016
اے میرے صاحب جب ھم چھوٹے تھے تورمضان کے مہینے کے رنگ اور طرح کے ھوتے تھے رمضان کی آمد سے چند دن پہلے استقبال رمضان کا آغاز ھو جایا کرتا تھا بعض بزرگ شعبان کے آخری عشرے سے ھی روزے رکھنے شروع کر دیتے تھے اور رمضان کے آتے آئے اپنی روزہ کی عادت پختہ کر لیتے تھے گھروں کی لیپا لاپی شروع ھو جایا کرتی تھی مساجد کو بھی رنگ روغن کرکے چمکا دیا جایاکرتاتھا ایک مسئلہ حافظ قرآن کی تلاش کا ھوتا تھا سو اس کے لیے بھاگ دوڑ شروع ھو جایا کرتی تھی اور تین چار دن بعد کوی بزرگ اعلان فرمایا کرتے تھے کہ مبارک ھو حافظ کا بندوبست ھو گیا ھے اور پھر اہل محلہ سے درخواست کی جاتی تھی کہ کون کون حافظ صاحب کی سحری اور افطاری کی زمہ داری اٹھاتا ھے اعلان کی دہر ھوتی تھی پورا محلہ چھاتی پر ھاتھ رکھ کے کہھا تھا حافظ کی طرف سے بہ فکر ھو جاین اور پھر ایسا ھی ھوتا تھا شام کو مسجد مین اتنا کچھ اجاتا تھا کہ حافظ صاحب دیکھ دیکھ کے ھی سیر ھو جایا کرتے تھے رمضان کے مہینے مین سب سے سخت دیوٹی چاچا نورا کی ھوتی تھی چاچا نورا تین چار دن پہلے اپنے دھول کو نئے سرے سے رسیاں دالتا تھا اور پھر صندوق مین رکھی اپنی گھڑی نکال کے کلای پر باندھ لیتا تھا لیکن باندھنے سے پہلے اسے ریڈیو کے ساتھ ملاتا ضرور تھا لیکن صرف اپنے ریڈیو کے ساتھ دیگر لوگوں کے بارے مین اس کا خیال تھا کہ ان ریڈیو تھیک نہھیں ھین کسی کا پانچ منت آگے ھے تو کسی کا پانچ منٹ پیچھے کوی اگر اسے سمجھاتا کہ سبھی ریڈیو ایک ھی وقت بتاتے ھین تو وہ ھاتھ جوڑ کے کہھتا نہھیں صرف میرا ریڈیو تھیک بتاتا ھے چاچا نورا ایک عدد غلیل بھی اپنے پاس رکھتا تھا تاکہ اوارہ کتوں کے ساتھ دو دو ھاتھ کر سکے لیکن کبھی کبھی کوی کتا بھی چاچا نورا کے ساتھ دودو ھاتھ کر جاتا تھا جس دن کسی کتے کی. کیوں. کی اواز اجاتی تو محلہ سمجھ جاتا تھا کہ چاچا نورا کا ھاتھ اوپر ھے اور جس دن چاچا نورا کی! ھال و اللہ کی آواز آتی تو اس کا مطلب ھوتا تھا کتا چاچا نورا کے اوپر ھے-7جون2016
پارٹ2 چاچا نورا اے میرے صاحب رات کو چاچا نورا کی. ھال وہ اللہ. سے انداز تو ھو جاتا تھا کہ کتے نے چاچا نورا کے ساتھ کچھ نہ کچھ کیا ضرور ھے مگر حقیقی کہھانی اس وقت سامنے آتی جب نورا کی بیگم بڑا ساٹوکرا سر پہ رکھے گھر گھر جا کے کہھانی سناتی موصوفہ زبان کی خاصی تیز تھیں کہھانی بنانے اور سناتے ھوے مخاطب کے دل مین اتر جانے کا فن ان پہ ختم تھا عمر پچاس کے لگ بھگ مگر لچھن تیس سے پینتیس کے قریب کے تھے وہ جونہی کسی گھر مین داخل ھوتی جوان لڑکیاں بھاگ کے اسکے سرسے ٹوکرا اتار کے چارپائی پر رکھتے ھوے فورا چاچا نورا کاحال پوچھتں وہ سرد آہ بھرتے ھوے کہتے پہلے لسی دا گھٹ ڈیو اکا ھا پیا چھکینداے. میڈا تاں روزہ وی مکروہ تھی گیا اے اب پوچھا جاتا ماسی چاچے نورے دی سنا ماسی چارپائی پر سیدھی ھو کے بیٹھ جاتی اور پھر چاچے نورے اور کتے کی لڑائی کا وہ منظر پیش کرتی کہ پانی پت کی لڑائی تو مذاق لگنے لگتی چاچے نورے کی دلیری ایسے بیان کرتی کی اچھا بھلا نوجوان کے اندر خواہش جاگ اٹھتی کے کہ کاش اس رات کتے کی جگہ مین ھوتا تو تیرے نورے کا حال پوچھتا مگر ماسی اپنا بیان جاری رکھتی اور چاچے نورے کی بہ بسی کا منظر بیان کرتے ھوے ایسے ایسے انداز اختیار کرتی کہ گھر مین موجود خواتین کے آنسو نکل پڑتے وہ آپنے. ڈب. مین ھاتھ ڈالتیں اور چند سکے ماسی کے ھاتھ پر رکھ دیتی ماسی جھپٹ کے اپنے ٹوکرے کے اندر رکھ لیتی الغرض دن بھر چاچے نورے کا قصہ سناتی رہتی اور ٹوکرے کا منہ بھرتی رہتی ظہر کے وقت چاچا نورا مسجد مین نماز کے لیے آتا تو پھر بعداز نماز کلام شاعر بزبان شاعر والا معاملہ بن جاتا مگر تعجب کی بات یہ ھوتی کہ ماسی اور کچھ قصہ سناتی لیکن چاچا نورا کا قصہ کچھ اور ھوتا بھلا زمانہ تھا لوگ ایک دوسرے پر اعتبار کیا کرتے تھے سو خاموش ھو جاتے تھے آج کا زمانہ تو ایسا ھے کہ سچ کو بھی سو جھوٹ بول کے سچ ثابت کرنا مشکل ھے-
اے میرے صاحب
تمھیں عادت ھے بچپن سے ھر اک شے چھین لینے کی
میرے دو کے برابر لڑ جھگڑ کے تین لینے کی
چلو ایسا کرو کہ آج سے یہ گھر تمھیں رکھ لو
یہ گھر جس میں مرے بچپن کی یادوں کے خزانے ھیں
وہ کمرہ،
جہاں پیدا ھوئے تھے
وہ,, چولہا،، جس میں اکثر بیٹھ کے ھم کھانا کھاتے تھے
وہ جھولا جس میں تم اکثر اکڑ کے بیٹھ جاتے تھے
وہ اماں کی,, ڈنگوری،، جو ھمیشہ مجھ پہ پڑتی تھی
میں جونہی بھاگتا تھا وہ مجھے جھٹ سے پکڑتی تھی
پکڑ کے میرے کاندھے کو
کہا کرتی تھی سن بیٹا
قسم ھے تجھ کو میرے دودھ کی وعدہ کرو مجھ سے
کبھی جو یہ کوئی بھی شے تقاضا کر کے مانگے تو
اسے انکار مت کرنا…..
8جون2016
اے میرے صاحب مسلک محبت سےجڑے احباب پوچھتے ھیں اب چاچا نورا کہھاں ھے…. گزارش یہ ھے کہ چاچے نورے کبھی نھین مرتے یہ کسی نہ کسی نام سے ھمارے درمیان موجود ھوتے ھین چاھے نام کوی بھی ھو مگر ھمارے چاچا نورا ابھی زندہ ھین چاچا نورا ھمارے پڑوسی بھی تھے چونکہ ھمارے اندر بھی بچپن سے ایک. نورا. موجود تھا اس لئیے ھماری ان کے ساتھ اچھی خاصی.. مائی پترای. تھی ھمارا محلہ بمشکل ساٹھ کے قریب گھروں پر مشتمل تھا سو ایسا لگتا تھا کہ پورا محلہ ایک خاندان پر مشتمل ھے ھم زیادہ وقت چاچا نورا کے گھر گزارتے تھے چاچا نورا بھت گوشت خور تھا ان کے گھر کسی نہ کسی شکل میں گوشت ضرور بنتا تھا چاچا نورا کی بیگم کے ھاتھ کا سواد سبحان اللہ چاچی جب گوشت بھونتی تھی دو کرارے قسم کی بوٹیاں چاچے نورا کے لیے نکال لیا کرتی تھی ھم بھت للچائی ھوی نظروں سے دیکھا کرتے تھے چاچی سمجھدار عورت تھی وہ چاچا کو ھماری. نظر. سے بچانے کے لیے ایک عدد بوٹی ھمارے لیے بھی نکال لیاکرتی تھی چاچا نورا ڈھول بجاتے تھے ان کا خیال تھا کہ پورے پنجاب میں ان جیسا کوی نہھین ان کے مخالفین کا اصرار تھا کہ دھول بجانا تو دور کی بات اسے یہ بھی نیھی معلوم کے ڈھول گلے مین پہھنا کیسے جاتا ھے وقت بدلا ھم لاہور چلے گیے اور چاچا نورا نے بھی ھمارے پڑوس سے کوچ کے کرکے کچھ دور مکان بنا لیا ھم لاہور سے آتے تو گھر کے جھنجھٹ مین ان کے گھر جانے کاوقت نہ ملتا چاچی کو جب بتایا جاتا تھا کی وہ آیا تھا تو وہ بھت ناراض ھوتی ایک بار ایسا ھوا کہ کچھ لوگ کہھین دور سے ھمین ملنے اے ھم ان کے ساتھ بازار جارھے تھے کہ چاچی سے ٹکرا ھو گیا چاچی نے ھمین دیکھتے ھی گلی مین ھی پکڑ لیا اوپر پھر ایسی ایسی سنایں کی ھمارے مہمان جو ھمین بھت مہمان سمجھتے تھے حیران ھو کے پوچھنے لگے یہ خاتون کون ھے ھم نے اپنی عزت بچانے کے لیے کہھ دیا یہ پاگل ھے ھمارے یہ الفاظ چاچی کے سینے مین تیر کی طرح لگے اور خاموشی کے ساتھ بت بن کے ھماری طرف دیکھنے لگی ھم اسے ویھیں چھوڑ کے آگے نکل گیے شام کو ھم چاچی کو منانے گیے تو وہ گوشت بھون رھی تھی ھمین دیکھتے ھی چہرہ دوسری طرف پھیر لیا ھم سیدھا ان کے پاون پڑ گیے چاچا نورا نے چاچی کو ڈانٹتے ھوے کہھا ھن بس کر معافی جو منگدا پیا چاچی مسکرای اس نے ایک بھولی ھوی بوٹی پلیٹ مین ڈالتے ھوے ھمارے آگے رکھتے ھوتے کہھا وے افضل تیڈا چاچا آھداے افضل ھن وڈا آدمی بن گیا اے اس نون راہ کھاڑے مندے نہ کڈھی کر ھم مسکراتے ھوے کہتے نہھین ھم تو آپ کے بیٹے ھین وہ مسکراتے ھوے کہھتی نہھین اب تم وہ نہھین رھے ھم جب واپس آتے تو سوچتے تھے چاچی کی بات تھیک ھے ھم اب وہ نہھین رھے زمانے کے رنگ مین رنگ چکے ھین مگر ھم کیا کرین وقت حالات بھت کچھ تبدیل کر دیتا ھے مگر چاچا نورا تبدیل نہھین ھوا وہ آج بھی اپنی گھڑی اپنے ریڈیو کے ساتھ سیٹ کرتا چاچی آج بھی گوشت بھونتے ھوے اسکے لیے بوٹی نکالنا نہھین نھولتی-9 جون2016
اے میرے صاحب چاچا نورا رمضان میں مسجد کے معاملات میں خاص دلچسپی لیتا تھا ترنگ میں کبھی کبھی نعت شریف…… ڈکھیاں دی بیڑی کھاندی الارا…. مشکل کشا سانوں تیرا سہارا…درمیان مین کبھی کبھی حسینی دوھڑے بھی سنا دیا کرتا تھا جس دن چاچا نورا مسجد مین نعت سناتا چاچی سر پہ ٹوکرآ اٹھاے پورے محلے ایک ایک گھر جا کے چاچے نورے کی نعت کا تذکرہ ضرور چھیڑ تی تھی اور اگر کوی تعریف نہ کرتا تو خود کہتی تھی….. نیں چھیریو تساں چاچے دے الا جوانی اچ نی سنڑاں اللہ دی قسمے الا ھاں اچ ھتھ چا پیندا ھئی اور پھر کہتی جیڑا علما لوہار اے اس بڑی منت کیتی ھیی میڈے سوھرے دئ جو نورا مینوں ڈے چا…. لیکن اللہ بخشے میڈے سوھرے نوں او آدھا ھی آوے عا لما کملا پتر وی کیں ڈتے…… چاچی کی بات سن کے لڑکیاں اونچی آواڑ میں قہقہے لگاتیں تو چاچی غصے سے کہتی….. تساں چاچے دی جوانی جو نی ڈٹھی اس پر ایک اور قہقہ پڑتا اور اسکی وجہ یہ کہ نورے کی ایک آنکھ نہ ھونے کے برابر تھی اس گفتگو کے دوران کسی بزرگ کی آواز گونجتی….. کیون شودھی نال.. مشقری…. بنا کے باھ گیاں ھو اس نوں کوی شے ڈیو جو گھر ونجے رمضان کے یہ دن بھت اچھے گزرتھے چاچا نورے کے ٹھاٹھ بھی دیکھنے والے ھوتے تھے مگر ایک دن گڑ بڑ ھوگیی……. ھوا یوں کے اچانک گہھرے بادل چھا گیے اور اندھیرا چھا گیا افطاری میں سے آبھی پندرہ بیس منت باقی تھے کہ اچانک مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے.. ٹک ٹک ٹک ٹک…. کی آواز سنای دی اور پھر چاچا نورا کی اوز فضا میں گونجی……… اللہ راضی ھونے روزہ کھول ڈیو….موسم کی خرابی کی وجہ سے لوگوں کو بھی اندازہ نہ ھوا سو پورے محلے نے روزہ افطار کردیا مگر چند منٹ بعد بغیر… ٹک ٹک ٹک ٹک…… کے چاچا نورا کی آواز گونجی… اللہ راضی ھونے اجے روزہ نہ کھلاے ڈاھ منٹ راھندے نیں مگر لوگ روزہ کھول چکے تھے اور چاچا نورے پر برس رھے تھے کہ یہ تم نے کیا کیا وہ بیچارہ دکھی دل کے ساتھ کہھتا….. لگدا اے میڈے ریڈیو آج غلط ٹا یم ڈسا اے اللہ چٹ کریس-10جون2016
اے میرے صاحب چاچا نورے کی شخصیت پیاز کی طرح تھی چھیلتے جاو اور ایک نئے چاچا سے ملاقات کرتے جاو چاچا بٹیر باز تو تھے ھی ساتھ بٹیروں کے حکیم بھی تھے جب بھی کوی بیٹر باز بیٹرا خرید کرتا سب سے پہلے چاچا نورا کی بارگاہ مین حاظر ی دیتا چاچا نورا بٹیر کو اپنی مٹھی میں پکڑتا اس کے پورے وجود کی تلاشی لیتا اس دوران بٹیر کا مالک چاچا نورا کو یوں دیکھتا جیسے پوری کائنات کا حسن چاچا نورے کے چہرے پر اتر آیا ھو…. مگر چاچا نورا بٹیر کی نسل جاننے کیلئے اس کی تلاشی لینے مین مصروف ھوتا کہ……………. اچانک چاچی کی دھاڑ سنای دیتی…. کوی گھر دے بارے سوچ کھنڈ تے ڈودھ گھن آ بال ولے دے چا کن بیٹھے ان……….. چاچا نورا گھبرا کر بٹیر باز سے کہھتا……..پتر ویلے ٹیم آویں….. مگر بٹیر باز اپنے بٹیر کی نسل جاننے کیلے بے تاب ھوتا تھا وہ چاچا نورا سے کہھتا……ماراچاچا بٹیرے دے بارے ڈس مین کھنڈ تے ڈدھ گھن انداں…..وہ جونہی سامان لینے نکلتا چاچا چاچی سے ناراض ھو کی کہھتا…….کترا پہلے بھونکی ھویں ھا……. الغرض جو بھی بٹیر باز اپنا بٹیر دکھانے آتا………. چاچی کھنڈ اور دودھ ختم ھوتے کا اعلان کر دیتی…… چاچا نورا بھی بٹیر کی نسل بتائے ھوے یہ تسلی کرتا تھا کہ کون کتنا دودھ اور کھنڈ لایا ھے جو جتنا زیادہ سامان لاتا چاچا کی نظر میں اسکا بٹیر اعلی نسل کا ھوتا تھا جو کم لاتا چاچا بڑے آرام سے کہھ دیتا………. پتر بٹیرا چنگا اے لیکن ھے ھک چنج دی مار……… باقی کل-11جون2016
ھم چاچا نورے کے قصے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں چاچا نورا کے قصے اتنے زیادہ ھین کہ.. حکایت چاچا نورا…. کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جاسکتی ھے…… چاچا نورا درمیانے قد کے تھے چلتے ھوے ان کا ایک پاوں مشرق کی طرف تو دوسرا مغرب کی طرف پھسل جاتا تھا گلی مین سے گزرتے ھوے مرد حضرات سے چاچا نورا خود بچنے کی کوشش کر تے تھے البتہ خواتین کو خود بچنا پڑتا تھا لیکن … چاچی پھتو…کے ساتھ چاچا نورا کی ٹکر ھو ھی جاتی تھی اور کبھی کبھی تو ایک دن میں تین سے چار بار بھی ھو جاتی تھی… ھوتا یوں تھا کہ ادھر چاچا نورا کسی کام کے لیے نکلا تو ادھر سے چاچی پھتو بھی نکل پڑتی اور عین گلی کے درمیان دونوں کی ٹکر ھو جاتی دوراں ٹکر چاچے نورے کی کوشش ھوتی کہ وہ چاچی کے اوپر گرے مگر چاچی چاچے نورے کو ایسا ھاتھ مارتی کہ چاچا نورا پہلا جھٹکا اگر ھمارے دروازے کے قریب کھاتا تو دوسرے جھٹکے مین اپنے گھر پہنچ جاتا… چاچی پھتو ماشاءاللہ پونے تین من کی تھی اور چاچا نورا زیادہ سے زیادہ پچیس کلو کا تھا…. محلے والے چونکہ عادی ھو چکے تھے اس لیے کوی نوٹس نہھین. لیتا تھا البتہ چاچی کو جب پتہ لگتا تو… وہ چاچا نورا کو. کوٹھے.. کے اندر لے جا کے کپڑے دھونے والے… ڈنڈے.. سے سمجھانے کی کوشش کرتی تھی ڈنڈے کی ٹھا ٹھا کے ساتھ چاچے کی مسلسل ایک ھی آواز سنای دیتی تھی کہ…. میکوں قسم اے کالے پتر دی پھتو میڈی بھین ھے….. دراصل دونوں کے ٹکرا جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چاچا نورا کی آنکھوں مین تو فرق تھا ھی بچاری چاچی پھتو بھی ایک آنکھ سے محروم تھی محلے والے تو مطمعن تھے مگر چاچی کا خیال تھا کہ پھتو کی نیت ٹھیک نہھین ھے اس حوالے سے مسجد کے مولوی سے چاچی نے کچھ تعویز بھی لکھواے تھے مگر دونوں کے ٹکرانے کا سلسلہ ختم نھین ھو رھا تھا…. پہلے بتا چکے ھین کہ چاچا نورا بٹیر باز تو تھا ھی ساتھ مین بٹیروں کا معالج بھی تھا سو اس حوالے سے بھی اس کے پاس لوگ آتے جاتے رھتے تھے چاچا نورا بٹیروں کے بارے مین یہی بتاتا تھا کہ نزلہ کھانسی قبض مرگی کبھی کبھی کسی بٹیرے کے حوالے سے یہ بھی بتا تا تھا کی بیٹر جسمانی نہھین روحانی بیماری ھے یعنی کوی جن وغیرہ چند بٹیر بازوں کو تو یہ بھی کہھا کہ آپ کا بٹیر اپنی محبوبہ کے لیے اداس ھے… چاچا خود بھی بٹیر باز تھے اور اس کے بٹیر بھت مشہور تھے وہ اپنے بٹیروں کا نام فلمی ستاروں کے نام پر رکھتا تھا سلطان راہی نام کے بٹیرےنے بھت میدان مارے ایک اچھی بھلی بولی لگی… .،13 جون2016
اے میرے صاحب چاچا نورا کے سلطان راہی کی دھوم پورے گاوں مین مچی ھوی تھی درحقیقت چاچا نورا کے ھاتھ مین آیا بیٹر ایسا.. تیار… ھوتا تھا کہ بٹیر سے.. شیر. بن جاتا تھا کہنے والے تو یہھاں تک کہتے تھے کی چاچا نورا اگر چاھے تو کسی بیٹری کو بھی ایسا تیار کرے کہ آٹھ سے دس میدان مار لے.. اس حوالے سے چاچی کا کہنا تاکہ وہ جو..ساون…. نام کا بٹیر تھادراصل وہ بیٹری تھی چاچا نورا نے اسے باربار پنجابی فلم… ملنگی.. دکھای تو بیٹری کے اندر… ساون… بیدار ھو گیا اور اس چاچا کے دو بھت قیمتی بٹیرے گھائل کردیئے اس کی اس حرکت پر چاچا نے بطور سزا اسے ایک زبردست قسم کے بٹیرے سے لڑا دیا مگر کمبخت نے اسے بھی چت کردیا اور اس کے بعد چاچا نے اسے بطور سزا نامی گرامی بٹیروں کے ساتھ لڑایا مگر کمبخت نے سب کی چھٹی کرا دی یہ تو کم بخت بختو کمہار کے… مظہر شاہ… نے ساون کو زیر کردیا.. مگر اس حوالے سے بھی چاچی کا فرمان تھاکہ.ھمارا ساون دراصل مظہر شاہ کے حسن کا اسیر ھو گیا تھا اوپھر چاچی ٹھنڈی آہ بھر کے کہتی…….. بس پتر آخر عورت زات ھیی. نا…. ھم چاچی کے اس جملے پر قہقہ لگاتے اور پوچھتے… چاچی وہ تو بٹیری تھی؟ چاچی بھت سنجیدگی کے ساتھ کہتی…. تے کیوں پکھوواں اچ سارے جڑیں ھوندن کملا پتر پکھوو وی ساڈےآر جوڑا جوڑا ھوندن… ھم مزید پوچھنے کے لیے کچھ کہنا چاہتے تو چاچی غصے سے کہتی.. میں چاواں ڈنڈآ……. تو ھم بتا رھے تھے کہ چاچا نورا کے سلطان راہی کی دھوم مچی ھوی تھی اور کہھا جا رھا تھا اس کا جوڑ……. دینے کمہار کے.. مصطفٰی قریشی.. کے ساتھ پڑنے والا ھے ملک جہھان خان اس پر پانچ ھزارہ کی شرط بھی لگانے کا اعلان کرچکا ھے ادھر سے شیر خان بھی پانچ ھزار لگانے پر آمادہ ھے مگر.. میدان کی جگہ پر بات اٹکی ھوی ھے اور….
اے میرے صاحب افطاری کے فوری بعد مسلک محبت سے جڑے ایک.ساب. کا فون آیا. کہھا عاجز صاحب ڈھولے کے حوالے سے ایک سرائیکی شعر لکھ دیں ھم نے کسی سے لکھوا لیں انھوں نے کہھا نہھین آپ ھی لکھیں گے بصورت دیگر ھم آپ سے ناراض ھو جاین گے سو ان کی ناراضگی سے بچنے کیلے آپ کو گواہ بناتے ھوے عرض ھے اکے ودے ھاں خدا دی قسمے آساں انہھاں ڈھولاں توں ھاں بندے غریب تے ماڑے ڈردے ھاں رولاں توں-14 جون2016
اے میرے صاحب ھم میانوالی مین ھین اور جن جن سے امید تھی کہ افطاری کرا کے ثواب کمائیں گے سب نے کہھا ھے افطاری کے بعد ملتے ھین…. آف اللہ زرا دیکھو تو…16 جون2016
اے میرے صاحب ھم غم روزگار کے سلسلے میں تھوڑی دیر کے لیے غائب کیا ھوے کہ ھمارے.. دشمنوں..نے افسانے بنا ڈالے ھمارے کردار پر انگلیاں اٹھا ی جانے لگیں منیر صاحب نے ھمارے وہ وہ اوصاف بیان کئے کہ جو سرے سے ھمارے اندر موجود ھی نہھیں ھیں انہوں نے ھمیں فرشتہ ثابت کرکے ھمارے دوستوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ھے اللہ انہیں اس کا اجر دے….. اور وہ بلبل ھزار داستان انہوں نے ھمارے ھی شعر سنا سنا کہ محبت کی بڑھاس نکالی میرا رب میرے بلبل کو خوش رکھے……. ان دوستوں کی مہربانی سے ھمارے محبوب ھم سے خفا ھو گیے ھین ان کا کہنا ھے اگر آپ واقعی اتنے اچھے ھو جو تمہارے دوست لکھ رھے تو پھر ھمارا جواب سمجھو…. کیونکہ ایک انسان اور فرشتے کے درمیان دوستانہ نہھین ھو سکتا ….. اے میرے دوستو ایک انسان کو فرشتہ ثابت کرکے آپ کو کیا ملا….. اللہ آپ سب کو عزت دے صحت دے رزق دے زندگی دے اور سدا خوش رہیں .. ھم اس وقت میانوالی سے اسلام آباد کی طرف روانہ ھین دعا کی درخواست ھے-17 جون2016
اے میرے صاحب ھم علی عمران اعوان کی آواز میں ایک گیت عید کے حوالے سے ریکارڈ کرنا چاھتےتھے مگر وہ گانے پہ آمادہ نہھین تھے ھم نے ان سے کہھا ھے کہ چلو ھم آپ سے معاوظہ بھی نہھین لیتے مگر انہوں نے آج کہھا ھے اگر آپ معاوظہ ادا کریں تو ھم گانا گا دیتے ھیں سو معاملات طے پا چکے ھین انشاءاللہ کل ریکارڈ کرین گے دعا کیجیے گا نوٹ یہ جو ھم گیت ریکارڈ کر رھے یہ دراصل ایک مطالبہ ھے دوست ھشیار رھین- 18 جون2016
اے میرے صاحب ھم بھت افسوس کے ساتھ چند احباب کے ساتھ مخاطب ھین ھم جب آپ کے لیے کچھ لکھتے ھین تو کوشش کرتے ھین کہ اس مین آپ کی دلجوئی کا سامان ھو آپ ھمارا لکھا پڑھیں اوراپکا… ھا سہ…. نکل جاے ایسا ھم دانستہ کرتے ھین ھم محبت کے پرندے ھین اور چاھتے ھین کہ آپ کے دلوں کے آنگنوں مین محبت کے گیت گنگنایں اور چند لمحوں کے لیے ھی سہھی آپ کے دکھ بانٹ لیں…… مگر بعض احباب ھماری محبت میں بھت آگے نکل جاتے ھیں ھم جانتے ھین کہ وہ ایساکرتے وقت ھماری اھمیت بڑھا رھے ھوتے ھیں… مگر…. مگر ھم کسی کو گالی نکال کے عزت حاصل نہھیں کرنا چاھتے گزشتہ رات ھم نے علی عمران اعوان کے حوالے سے ایک پوسٹ لگای…. بعض احباب نے بھت نامناسب کمنٹ دیے علی ھمارے چھوٹے بھای ھین بچپن کے دوست ھین ھمارے جان جگر ھین ھمین بھت تکلیف ھوی….. کیا ھمارے احباب ھمارے پیاروں کے ساتھ یہ سلوک کریں گے…… بعض احباب عطا اللہ عیسی خیلوئ کو بھی درمیان مین کھینچ لاتے ھین وہ گلوکاری کی حوالے سے بھت بڑے آدمی ھین بطور گلوکار ان کا کسی کے ساتھ موازنہ ان کی تضحیک ھے….. ھم نے ان کے ساتھ طویل عرصہ کام کیا ھم سے زیادہ ان کے فن اور مقام سے کون آگاہ ھے؟ ھم سمجھتے ھین کہ اگر وہ سلطنت گائیکی کے بادشاہ تھے تو ھم ان کے سپہ سالار تھے…. مگر اس کا مطلب یہ نہھین ھے کہ دیگر گلوکاروں کی توہین کرین ان پر منفی تبصرے کرین نہھیں یہ نا مناسب بات ھے..ھم آپ سے گزارش کرتے ھین کہ محبت کو فروغ دیں اور پھر یاد رکھیے……… ڈھا دے مسجد ڈھا دے مندر… ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا….پر بندیاں دا دل نہ ڈھاویں… رب دلاں وچ رھندا…. پلیز……. ھم اپنے بعض پیاروں کے روئے سے بھت افسردہ ھیں…. قسم سے-
اے میرے صاحب…….ھم عزیز جاں علی عمران اعوان کے گیت کی ریکارڈ نگ کا آغاز کر رھے ھیں …….گیت کے بول ھیں ………عید پائی آندی اے …عید پیی آندی اے…..کوی ونگاں شنگاں …کوی مہندی شہندی …کوی کجلے شجلے ….کوی کپڑے شپرے ………………………………دعا کیجیے گا…. 19 جون2016
اے میرے صاحب ھم اپنے احباب کو بتانا چاھتے ھیں بلکہ عرض کرنا چاھتے ھیں کہ میرے مہھربانوں اپ کی دعاوں سے گیت ریکارڈ ھوگیا ھے اب اسکی ویڈیو بنا نے لگے ھیں ..اور ھاں…یہ سب اپ کی دعاوں سے ھی ھوا ھے….اگر سپ ھماری مدد نہ کرتے تو ھم تو ایسے نالایق ھیں کہ کام کو اٹکا ھی دیتے ھیں ..دعاکرنا-
اے میرے صاحب شفا اللہ خان روکھری کے ساتھ بھی ھم ایک البم بنایا جو کے انشااللہ عید پر ریلیز ھوگا ان میں سے ایک گیت فیس بک پر بھی اپ کی سماعتوں کی نظر کیا ھے….ماھی ماریا وٹہ چکاواں. .میں منہ اگوں کیتیاں باھواں تے ونگان چور چور ھو گیاں …..ذرا سنئے تو 20 جون2016
اے میرے صاحب حضرت سلیم شہزاد نے یہ تصویر بھیجتے ھوے پوچھا ھے کہ تصویر کس کی ھے ھم نے عینک لگا لگا کے پہچاننے کی کوشش کی ھے مگر سلیم شہزاد کی طرح یہ تصویر بھی سمجھ مین نہھین آرھی کہ کس کی ھے……. زرا بتاوتو کس کی ھے…. اجی کچھ تو بتاییے- 21 جون2016
اے میرے صاحب فیس بک بھت دلچسپ میڈیا ھے ھم اس کے بھت خلاف تھے مگر ھمارے بیٹے علی نے ھمیں.. پانچ وقت.. سمجھایا توھمین سمجھ آئی کہ اگر اسے مثبت انداز میں استعمال کیا جاے تو کمال کی چیز ھے… اب ھم اسے.. چھ وقت… استعمال کررہے ھین تو علی صاحب ڈانتے ھین…. کہ پاپا آپ کچھ زیادہ ھی.. فیس بکیے.. ھوں گیے ھین دیکھ لیجیے کہھین کوی.. چن چڑھا…. کے نہ بیٹھ جانا.. اور ساتھ ھی اس نے اپنی اماں سے کہھ دیا ھے کہ بابا جب بھی فیس بک پر سوار ھوں آپ نے ان کے سر پہ سوار رھنا ھے… سو آجکل ھماری بیگم ھمارے سر پہ سوار رھتی ھین یہ تو شکر ھے ان کی نزدیک کی نظر اللہ کے فضل سے کمزور ھے سو ھم اگر کرینہ کپور کی تصویر دیکھ رھے ھوں تو انھین یوں لگتا ھے جیسے ھم اپنی جوانی کی تصویر دیکھ رھے ھین اور وہ پھر ھم سے پوچھتی بھی ھین کہ جب ھماری شادی ھوی تھی تب تو آپ ایسے نھین تھے؟…… مگر ھم انھین سمجھاتے ھین کہ یہ سیف علی خان سے پہلے کی بات ھے.. یہ تو خیر ھمارے گھر کی بات ھے… مگر سب سے دلچسپ بات یہ ھے کہ بعض احباب کسی بھی پوسٹ کو پڑھے بغیر کمنٹ.. ٹھوک… دیتے ھین جس پہ بھت ھنسی آتی ھے… مثال کے طور پر ایک دن ایک صاحب نے لکھا ھماری امی بیمار ھین دعا کی اپیل ھے.. ایک صاحب نے لکھا اللہ آپ کی امی کو جنت دے.. ایک صاحب نے لکھا آج ھمارے ابا کی برسی ھے دعا کی اپیل ھے… جھٹ سے کمنٹ آیا.. برسی مبارک ھو..ھم تمام احباب سے گزارش کرتے ھین کہ پوسٹ پڑھنے کے بعد کمنٹ کیا کیجیے….لیکن ھمیں یقین ھے کہ کوی نہ کوی صاحب ابھی کومنٹ کرین گے…. اف اللہ بھت پیاری تصویر ھے….
ھمارے لیے یہ ایک افسوسناک خبر ھے کہ بھت ھی محبت سے بھرے ھوے قابل قدر امجد صابری صاحب کو شہید کر دیا گیا ھے… امجد صابری صاحب بھت اعلی شخصیت تھے ان کے خاندان کی بھت خدمات ھیں ان کے والد ایک صوفی قوال تھے جن کے لبوں پر حمدوثنا کے نذرانے رھتے تھے اور انہوں بھت سے لوگوں کو کلمہ حق پڑھایا ان کے بیتے امجد صابری بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ھو ے دنیا بھر میں نیک نامی کا زریعہ بن رھے تھے وہ ایک خوبصورت شخصیت تھے ایسا لگتا ھے کہ اس ملک کے دشمن ھر ایک خوبصورت شیے کو چھین لینا چاھتے ھین…… میری گزارش ھے کہ تمام احباب امجد بھای کے لیے دل سے دعا کریں- 22 جون2016
اے میرے صاحب ھم مسلک محبت سے جڑے احباب سے مخاطب ھیں ھم بتانا چاھتے ھین کہ ھم کوی دانشور مبلغ مسٹر یا مولانا نہھین ھیں….. محبت کے گیت لکھنے والے شاعر ھین اور محبت پھیلانے پر یقین رکھتے ھیں ھم سمجھتے ھیں محبت ایک ایسی طاقت ھے ایسی قوت ھے کہ جس سے پہاڑوں کے سینے پر سبزے اگاے جاسکتے ھین دلوں میں گھر کیا جاسکتا ھے اور گھروں مین پھول کھلاے جاسکتے ھین…. محبت بھت مہنگی چیز ھے اگر اسے کاروبار بنا لیا جاے… مگر محبت بھت سستی چیز بھی ھے اگر اسے کردار بنا لیا جاے… ھم جب قران پڑھتے ھین تو ھمین سمجھ آتی ھے کہ دراصل یہ پیغام محبت ھے.. ھم جب اللہ کے آخری نبی حضرت محمد. ص.. کی حیات مبارک کو دیکھتے ھین تو سمجھ آتی ھے وہ تو محبت کے پیغمبر ھین اور محبت کو ھی پھیلانے کے لیے آے ھیں انہوں نے ھمیں بھی محبت کے راستے پر چلنے کی تلقین کی بلکہ محبت کے اسرار رموز بھی سکھا ے… آنہھوں نے صرف بندے اور خدا کے درمیان ھی نہھین بلکہ بندے اور بندے کے درمیان بھی محبت کو لازم کر دیا آنہھوں نے تلوار سے نہھین کردار محبت سے لوگوں کے دل بدلے اور انہھین حق کی طرف بلایا…. مگر ھم تلوار سے دلوں کو تسخیر کرنا چاھتے ھین کیون. ؟ ھمیں ایسا نہھین کرنا چاھیے ھمین نفرت سے نہھین محبت سے کام لینا چاھے تلوار سے نہھین کردار سے آگے بڑھنا چاھے… خون بہانے سے کچھ نہھین ملے گا البتہ محبت بڑھانے سے سب کچھ ملے گا… اے میرے محبوب دوستو آگے بڑھو…. محبت کا پرچم تھام لو… اختلاف کرو…. اختلاف نعمت ھے… اس سے دماغ ھی نہھین دل بھی روشن ھوتے ھین مگر کسی بھی طرح کے تعصب کی ملاوٹ نہ کرو خود کو.خیر..اور دوسرے کو… شر… نہ سمجھو… 23 جون2016
اے میرے صاحب ھم نے ایک زمانے مین گیت لکھا تھا……..
وے توں ڈیکھیں میں شیشہ نپی کھلی آں……..
زلفاں کھول کھول کے.
میڈا ماھی گیا اے کندییے… کوی خط سجناں نوں منجھیے
بیٹھی خط سجناں نوں لکھاں.
منشی گول گول کے.
. ھم کندیان جا رھے ھین.
اور دعا کی درخواست ھے – 25 جون2016
اے میرےصاحب ھم جب کسی شخصیت کے بارے میں بات کرتے ھیں تو اس کا طلب یہ نہھیں ھوتا کہ باقی برے ھیں اپنی اپنی جگہ ھر ایک اھم ھے…………………………… شفااللہ خان روکھڑی بھی بھت اھم ھیں اور اس کے لیے ھماری گواہی کی ضرورت نہھیں ھے ھم چونکہ زیادہ تر سفر مین رھتے ھیں توھم نے مشاہدہ کیا ھے کہ میانوالی سےتعلق رکھنے والے یہ خوبصورت فنکار پورے پاکستان مین یکساں مقبولیت رکھتے ھین اور سنجیدہ میوزک سننے والوں کے لیے بھت اھم ھیں بیرون ملک سے بھی محبت کے… سندیسے..ان کے نام آتے ھین ھمارے پڑوسی ملک سے تعلق رکھنے والی.. شوبز…کی ایک اھم شخصیت ان کی بھت مداح ھین حالانکہ اس شخصیت پہ ھزاروں فدا ھیں ھم ان کا نام دانستہ نہھین لکھ رھے کیونکہ…. فسادخلق… کا اندیشہ ھے…………………………………………………. شفا صاحب کے اس والیم کو آپ ضرور سنیے.. اس لیے نہھین کہ اس البم کو ھم نے بنایا ھے نہھین. بلکہ اس لیے سنیے کے اسے ھم نے آپ کے لیے بنایا ھے اور عید کے تحفہ کے طور بنایا ھے…… یعنی آپ اسے ھماری طرف سے….. عیدی.. سمجھئیے………. اور ھاں آپ کی سنجیدہ راے کا انتظار رھے گا- 26 جون 2016
ھمارا بچپن بھت غربت میں گزرا ھمیں یاد ھے جب رمضان کا چاند نظر آتا تو ھمیں اپنے کپڑوں کی فکر لگ جاتی تھی گو کہ ھم سے دگنی فکر ھمارے ماں باپ کے چہروں پہ لکھی ھوتی تھی مگر ھم نادان تھے پڑھ نہھین سکتے تھے………………….. ھم ھر شام جب اپنی ماں کے پہلو میں لیٹتے تھے تو ایک ھی سوال کرتے تھے……. اماں عید دے کپڑے کڈاں گھنساں………….. ھماری ماں مسکراتے ھوے کہھتی……….. پتر اجے تاں مہینہ پیا اے…….. اور پھر ھم ماں کے ساتھ کپڑوں کے رنگوں پر بحث کرتے ھماری ماں بھی بحث براے بحث میں الجھ جاتی اور پھر نجانے کب ھماری آنکھ لگ جاتی………. مگر صبح پھر ھم کپڑوں کا..پٹنڑاں….ڈال کے بیٹھ جاتے…. اور پھر ھماری ماں ھماری ھاں میں ھاں ملاتے ھوے ھمارے لیے رنگ منتخب کرنے شروع کر دیتی ھمارے سے چھوٹے ناصر کے لیے نیلا سب سے چھوٹے خالد مرحوم کے لیے سفید اور ھمارے لیے بوزکی کلر منتخب کرتی… اور پھر دوراں گفتگو باقاعدہ خرید بھی لیتی سلای کا ڈیزائن بھی طے ھو جاتا اور ھم پہھن کے ماں کو دکھا بھی دیتے اورنجانے کب اس خیالی خوشی مین ھماری آنکھ لگ جاتی…………………………. مگ چند دنوں بعد دھیرے دھیرے ھمیں محسوس ھوتا کہ اب ھماری مان کپڑوں کے نام پر چڑ جاتی ھے سو ھم کپڑوں کے بجاے جوتیوں کی بات چھیڑ دیتے خالد بھای تو..زری…کی جوتی پر اڑ ھی جاتا ھماری ماں کا دل بھر آتا اور دو موٹے موٹے آنسوؤں اس کے رخسار پہ گرتے جو ھمارے سمجھانے کیلے ھوتے تھے مگر…. مگر ھم نادان تھے آنسوؤں کی زبان نہھین سمجھتے تھے……مگر……مگر ھم محسوس کرتے تھے کہ ھمارے ابا کو ھمارے کپڑوں سے کوی دلچسپی نہھین ھے وہ خاموشی سے سنتے رھتے البتہ کبھی کبھی کہھ دیتے تھے………مارا ماں نوں تنگ نہ کیتا کرو……..مگر دس بارہ روزہ کو اچانک ابا ھمارے کپڑے جوتیاں لے آتے اور ھم صبح دوپہر شام درزی کے پاس جا کے پوچھتے ضرور تھے….. چاچا عید تک سیتے ویسن …. درزی مسکراتے ھوے کہھتا….. پیو کولوں پیسے گھن او تے شامی چا کھڑو….. مگر ابا عید کی رات ھی اٹھانے کے قابل ھوتے…….. عید کے دن ھم لشک پشک ھو جاتے مگر ھمارے ماں باپ پرانے کپڑے پہھن کے عید مناتے…. ھم جب پوچھتے… اماں تساں نویں کپڑے کیوں نن پاے…. تو ھماری ماں کہھتی…. کملا پتر بڈھنڑاں دی کہھڑی عید ھوندی اے عید تاں بالا ں دی ھوندی اے… حالانکہ اس وقت ھمارے ماں باپ تیس سال سے اوپر کے نہھین تھے….. اب ھم سوچتے ھین کہ اولاد کی خوشی خریدنے کیلے ماں باپ کتنی جلدی بوڑھے ھو جاتے ھین؟……… . .. …. ………… ابھی گزشتہ روز ھم نے علی کے کپڑے خریدے تو اس نے ایک.. بوزکی..کلر ھمارے لیے پسند کرتے ھوے کہھا… پاپا یہ آپ پر جچے گا.. مگر ھم نے کہھا… میرے بچے… بڈھنڑاں دی کہھڑی عید ھوندی اے…………. مگر ھم سمجھتے ھین کہ اب بھی نجانے کتنے افضل ناصر اور خالد اپنے ماں باپ سے عید کے کپڑوں کی بات کرتے ھوں گے تو والدین کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ھوں گے ….. آپ اپنے قریب کے گھر جھانک کے دیکھیں ممکن ھے کوی عید کے جوڑے کا منتظر ھو…. آپ آگے بڑھیے اس کی انگلی پکڑ کے بازار لے جاین اور اسے کہیں………… تیڈا عید دا جوڑا میں گھنساں – 27 جون2016
اے میرے صاحب ھم بھت پریشان ھیں قسم سے بھت پریشان ھیں. بعض احباب کا خیال ھے کہ ھم حسن کے دلیپ کمار راجیش کھنہ یا وحید مراد ھیں ایک… ساب. تو باقاعدہ دیوداس بنے بیٹھے ھین اور ھمیں… روپا… بنانے پہ تلے ھوے ھین.. کل کی بات ھے ایک صاحب نے فرینڈ روکیوسٹ بھیجی ھم نے ابھی یس کی انگلی دبای ھی تھی کہ کم بخت نے اٹھتے ھی کہھا.. کیا حال ھے میری ھما مالنی… اب اگر یہی بات دھر میندھر جی تک پہنچ جاے اور وہ اپنے بیتے سنی دیول کو انتقام کے جذبے کے ساتھ ھماری طرف بھیج دے توپھر ھم تو گیے نہ کام سے کے نہھیں.؟..گزشتہ دنوں؛ یک واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ ایک صاحب ھمارے ان بکس مین اے اور کہھا.. عاجز جی کیا حال ھے… ھم نے کہھا اچھے ھیں… انھوں نے پوچھا کیا ھو رھا ھے ھم نے کہھا.. دال میں سے کنکر چن رھے ھین… کہھا یہ کام تو عورتوں کا ھے..ھم نے کہھا کبھی کبھی ھم بھی کر لیتے ھین… انہھوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ھوے کہھا.. کاشش. ھم نے کہھا کیا کاش.؟ کم بخت نےمنہ کھول کے کہھ دیا. آپ عورت ھوتے ھمارے چار بچے ھوتے ایک کو شاعر دوسرے کو موسیقار تیسرے کوئی کو کالم نگار چھوتے کو اینکر بنالیتے.. ھم نے غصے میں کہھا کم بخت باز آجا نیں تو ان فرینڈ کا طمانچہ ترے منہ پہ ماروں گا… مگر وہ ھشیار نکلا کہھنے لگا ان فرینڈ نہ کرنا ورنہ چور دروازے سے اجاونگا… ان صاحب کی شکایت کرنے کا ارادہ بنایا تھا کہ اپنے منیر اے منیر سے بات کرین گے مگر پھر خیال آیا کہ وہ تو ایسے آدمی ھین کہ جھٹ سے کہھ دیں گے کہ آپ ان صاحب کو بلاو ھم مولوی لے کے آتے ھیں…. ان صاحب کی شکایت ھم نے اپنے بلبل سے بھی کی تھی مگر انہھوں نے ھماری بات ھوا میں اڑا دی…. لیکن جن.. ساب.. کا ھم زکر کر رھے ھیں. وہ ابھی تک ھمارے فرینڈ ھین ھم جونہی آن لاین ھوتے ھین وہ بھی نازل ھو جاتے ھین.. وہ بولتے رھتے ھیں بولتے رھتے ھیں ھم انہھین اف لاین ھونے سے پہلے بس ایک جملہ کہتے ھین… کاش توں میڈے ہتھ تلے ھوندا…. 28 جون2016
اے میرے صاحب اپنے ساتھ جڑے احباب کو رلانا ھر گز مقصد نہھیں ھوتا ھم نے زندگی میں ھر طرح کے بھت دکھ جھیلے ھیں کسی نے ھمارا سماجی حق چھین کے ھمیں بے آبرو کیا تو کسی نے ھمارا سیاسی حق مارکے اپنی سلطنت بچانے کی کوشش کی کسی نے ھمارے ثقافتی ھنر کو اپنی عظمت دولت بڑھانے کیلے مکاری سے استعمال کرکے ھمیں ٹشو پیپر بناے رکھا تو کسی نے محبت کے پھول دکھا کے ھمارے سینے میں نفرت کا خنجر گھونپ دیا مگر ھم خدا پرست ھیں اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کو استعمال کرتے ھوے آگے بڑھنےآورمزید اگے بڑھنےپہ یقین رکھتے ھیں ھماری کہھانی صرف ھماری کہھانی نہھیں ھے یہ ھمارے طبقے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں لوگوں کی کہھانی ھے………… ھم سمجھتے ھیں میرا رب انسانوں کیلے آسانیاں پیدا کرتا ھے وہ اپنی زات میں فضل وکرم کے لاتعداد خزانے رکھتا ھے وہ ان خزانوں کو زمیں پر نازل کرتا ھے مگر زمین پر موجود ایک مٹھی بھر طبقہ بھت مکاری کے ساتھ ان خزانوں پر قبضہ کر لیتا ھے اور تقسیم کا نظام اپنے ھاتھ میں لے لیتا ھے.. مگر ھمیں افسوس اس وقت ھوتا ھے جب ھم نظام کے غلام بن جاتے ھین اور خاموشی سے سر جھکا دیتے ھیں….. یاد رکھنے کی بات ھے کہ میرے رب نے انسان کو آزاد اور خود مختیار پیدا کیا ھے اور صرف یہ حکم دیا ھے کہ صاحب کردار لوگوں کی اطاعت کرو یہ صاحب کردار لوگ کون ھیں؟………………………………… اس پر پھر کبھی بات ھوگی…. فلحال ھم ان تمام احباب سے معذرت خواہ ھیں جن کیلے ھماری کہھانی والی پوسٹ رونے کا سبب بنی معافی معافی معافی- 29 جون2016
………… اے میرے صاحب……………………… اس سے پہھلے کہ مجھے دار پہ لایا جاے….. منصفو مجھ کو مرا جرم بتایا جاے………… ابن آدم ھوں فضیلت کی سند رکھتا ھوں….حکم نامہ نہ مجھے ایسے سنایا جاے عشق اور پیار تو پاکیزہ سے دو جذبے ھیں ان کے مفہوم کو الٹا نہ پڑھایا جاے……. آج خواہش ھے کہ دو گھونٹ لگا لوں میں بھی باوضو ھو کے مرا جام بنایا جاے………. یہ مرا حق ھے مری آخری خواہش بھی ھے میرے دشمن کو مرے سامنے لایا جاے کیا تھا اور کیوں تھا جدائی کا سبب اے عاجز کیا ضروری ھے زمانے کو بتایا جاے؟- 30 جون2016