AE MERE SAHIB NOVEMBER  2016

اے میرے صاحب   – نومبر 2016

 

Image may contain: 4 people, people smiling, people standing

…… جناب عالی………………….…..
گالی گلوچ نامناسب الفاط پھبتیاں اپنی جگہ مگر عمران کا فیصلہ قابل تحسین ہے
تلاشی کا آغاز ہو چکا ہے اور بہت جلد اس کے نتائج بھی نظر آنا شروع ہو جایں گے
سیاست میں کبھی کبھی پیچھے ھٹ کے
مقاصد حاصل کرنے پڑتے ہیں
مخدوم جاوید ہاشمی جو عمران خان کے سخت سیاسی حریف ہیں انہھوں نے بھی بہت کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کے عمران کے سیاسی انداز سے اختلاف کے باوجود
میں تسلیم کرتا ہوں کے عمران خان ایک سچا پاکستانی ہے…………………………………………..……………….. ایک مشورہ………………………………………..…… عمران کو جو لوگ.ایزی………. لیتے ہیں انہیں یہ بات ذھن میں رکھنی چاہیے کے یہ واحد شخص ہے جس نے حکمران طبقات کو.. بزی.. کر رکھا ہے

Image may contain: 3 people, people standing and suit اپنے میزبان یار دلدار جامی نظام اکرم صاحب کے ساتھ ایک تصویر  – 2  نومبر 2016

اے میرے صاحب 

Image may contain: coffee cup

کل اچانک ہماری بیگم نے پریشانی کے عالم میں کہھا کے میرے حلق میں کچھ چبھن سی ہو رہی ہے اور آنکھوں سے پانی بھی نکل رہا ہم نے بیگم کی بات کو اہمیت نہ دی مگر صبح واک کے بعد حالات حاظرہ کی محفل میں جہاں دیگر معاملات پر گفتگو ہوی وہاں شہر میں پھیلنے والی اس نئی وبا کا زکر بھی ہوا بہت سارے لوگ آنکھوں میں جلن اور آنسوؤں کے ساتھ ساتھ حلق میں جلن کی شکایت کرتے نظر اے ہم نے خود تو نہیں دیکھا لیکن اس وبا کے حوالے سے کچھ لوگ کھانسی کے ساتھ خون کے نکلنے کی بھی بات کرتے نظر آے اس وبا کی ایک وجہ تو فضا میں آلودگی اور شہروں کے اندر مختلف فیکٹریاں ہیں جہھاں سے نکلنے والا دھواں فضا میں زہر منتقل کر رہا ہے اس حوالے سے حکومت کی ذمداری ہے کے وہ شہر کے اندر موجود فیکٹریوں کو فوری طور پہ شہر سے باہر منتقل کرے اور شہریوں کو کسی بڑی مصیبت کا شکار ہونے سے بچاے کہھا جا رہا ہے کہ فضا میں موجود یہ زہریلی آلودگی بہت خطرناک ہے اور اس سے لوگوں کی صحت متاثر ہونے کا خدشہ ہے ایک اور بات بھی کہی جا رہی ہے کے ممکن ہے دشمن ملک نے فضا میں کوی زہریلی گیس استعمال کرتے ہوے ہمارے شہروں کو نشانہ بنایا ہو؟ 

سو اس حوالے حکومت کو فوری طور پہ قدم اٹھانا چاہیے اور محکمہ صحت کو چاہیے کے وہ لوگوں کو حفاظتی تدابیر سے آگاہ کرے تاکہ شہری اپنی حفاطت کر سکیں اس حوالے سے پہلی تدبیر تو یہ ہے کے عام لوگ گھروں سے نکلتے ہوے کسی رومال سے اپنے چہرے کو ڈھانپ کے رکھیں تاکہ منہ کے زریعے کوی بھی ذہریلا مواد ان کے اندر نہ جا سکے لیکن اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے کے فضائی آلودگی کے حوالے سے خوف ہراس بھی نہیں پھیلانا چاہیے اور افواہ سازی کے زریعے لوگوں کو پریشان بھی نہیں کرنا چاہیے –  3  نومبر 2016

اے میرے صاحب………………….…… جمعہ مبارک

Image may contain: one or more people and flower

میرا رب آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور وہ سب کچھ عطا کرے جو آپ کے لیے بہتر ہے آمین 

اے میرے صاحب……. رفعت بھروں صاحب نے بہت محبت کے ساتھ ہمارے ایک گیت…….Image may contain: 1 person, textذکھاں کوں ڈھولا……………..

………………..ٹال ٹال تھکی آں………….. کے ایک شعر کو بہت نفاست کے ساتھ لکھا ہے ان کا بہت شکریہ کے انہھوں نے اپنے نفیس ذھن کی نفاست دکھای اور شعر کو ایک نیا رنگ عطا کیا سو ان کا شکریہ تو بنتا ہے سو شکریہ اللہ آپ کو عزت دے اور مزید عزت دے آمیںن  4 نومبر 2016 

اے میرے صاحب…..

Image may contain: 1 person, sittingکوی بھیجیں ہا دوای سوہنڑاں یار وے
تیڈے ہجر دا چڑھیا اے بخار وے
میڈے نیناں و چوں ہنج نئیں سکدی
راہندے نکا نکا دل اتے بھار وے    —5  نومبر 2016

اے میرے صاحب 

Image may contain: 1 person, hat

ہمارے اور آپ سب کے پیارے فیس بک کے چمکتے ستارے یار ہمارے 

… جناب منیر اے منیر صاحب…………….. 

کچھ علیل ہیں احبابِ سے دعاے صحت کی   اپیل ہے  –7  نومبر 2016  

اے میرے صاحب قطر سے ہمارے دوست فرحان خان نیازی نے حضرت علامہ اقبال کے دن کے حوالے یہ تصویر بنای ہے اور بطور تحفہ ہمیں عطا کی کسی بھی زاویے سے ہماری تصویر یہھاں بے معنی ہے ہم سر کے بل کھڑے ہوجایں یا پاوں کے بل شاعر مشرق کے کے قدموں میں ہی جگہ بنتی ہے

Image may contain: 2 people, closeup

شاعر مشرق علامہ اقبال کے حوالے سے گفتگو کے لیے صرف شعر وسخن سے ہی نہیں روحانی رموز سے آگاہی و آشنائی بھی شرط اول ہے آپ کتب بینی کر کے شعر سخن کے میدان کے شہسوار بن سکتے ہیں مگر روحانیت کے لطیف اور باریک معاملات کو نہیں سمجھ سکتے یہی وجہ ہے کے بعض لوگ اقبال کے اشعار کو تو سمجھ لیتے ہیں مگر رمز آ اقبال کو نہیں سمجھ پاتے ہمارے ہاں ہر طرح کے علماء کی زبان پہ اقبال کے شعر سنای دیتے ہیں مگر کسی کے عمل میں نظر نہیں آتے ہمیں اقبال کا شاہین پسند ہے مگر مقاصد کی تکمیل کے لیے ہم.. کوا.. بننا بھی قبول کرلیتے ہیں ہم
اے طاہر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
تو لہک لہک کے پڑہتے ہیں مگر جب پرواز کا وقت آتا ہے تو اپنے پروں کو اپنے کندھوں پہ گرا لیتے ہیں لمحہ موجود میں ہم اقبال کے شاہین بارش میں بھیگی ہوی چڑیا کی طرح نظر آتے ہیں
اقبال کو ایران نے سمجھا اور خوب سمجھا اقبال کے کلام کو اپنے عمل میں لاے اور اس وقت ایک بہادر قوم کی طرح سینہ تان کے کھڑے ہیں امریکہ سے لیکر امریکہ پرستوں تک سب خایف ہیں مگر ایرانی قوم کسی سے خائف نہیں ہے اس نے امریکہ جیسے ملک کو اپنے پاوں کی ٹھوکر میں رکھا اپنے وسائل کو اپنی طاقت بنایا اپنی خارجہ پالیسی کے زریعے اپنے مظبوط ہونے کا احساس دلایا اس نے کبھی بھی اپنے دفاع کے لیے کسی سے کوی مدد نہیں مانگی بلکہ اپنی تلوار سے دشمن کا سر قلم کیا
اقبال نے ایک مسلم کا تصور دیا ہم کسی ایک نکتے پر اتفاق سے محروم ہیں
ہم نے اقبال کو قوالوں کے سپرد کرتے ہوے خود کو شیکسپیئر کے ڈراموں میں گم کر دیا ہم روز مرہ کی گفتگو میں نجانے کس کس کے حوالے دیتے ہیں مگر اپنے جینس کا حوالہ دینے سے شرماتے ہیں
ہمیں اقبال کو نصاب میں ہی نہیں اپنے کردار میں سمونا ہوگا ہمیں شاہین کی طرح پرواز کرنی ہوگی
پرواز کا مطلب یہ نہیں ہے کے ہم ہر ایک پر جھپٹ پڑیں پرواز کا مطلب یہ ہے کے ہم کسی کو خود پہ نہ جھپٹنے دے ہیں پرواز کا مطلب یہ نہیں ہے کے دنیا سے کٹ جایں پرواز کا مطلب یہ ہے کے دنیا کے ساتھ اڑیں
پرواز کا مطلب یہ ہے کے جدید علوم سیکھیں مگر پرواز کا مطلب یہ نہیں ہے اپنے لافانی علوم کو فانی قرار دے دیں
اقبال ہمیں عشق مصطفی کی طرف بلاتا ہے عشق مصطفی ہمیں خدا تک پہنچا تا ہے
کسی نہیں کہھا اقبال ڈے پہ چھٹی منسوخ کرنا اقبال دشمنی ہے
میرے خیال میں چھٹی ہونے یا نہ ہونے سے کوی فرق نہیں پڑتا
اقبال ڈے پہ ہم کیا کرتے ہیں؟
اقبال کے نام پہ ایک دن ضایع کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے– 
9  نومبر 2016  

 اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person

90کی دہای میں جب ہم لاہور آے تو اس کے پیچھے ایک اہم وجہ یہ تھی ک ڈاکٹر شیر افگن گروپ ضلع بھر میں شکست کھا گیا
اور حلیف گروپ کا میاب ہو گیا ہمارا گروپ
پچھلے دونوں الیکشن جیت گیا تھا مگر نوے کے الیکشن میں ناکام ہو گیا مجھے آنے والوں دنوں کی مشکلات کا اندازہ اس وقت ہوا جب جیت کا اعلان ہوتے ہی مخالف گروپ کے سیکنڑو ں لوگوں نے خوشی کا جلوس نکالنے کی آڑ میں میرے گھر پہ حملہ کر نے کی کوشش کی میں نے سیاسی انداز میں ان لوگوں کو کسی بھی
بد تمیزی سے باز رکھا اور آگے بڑھ کے ان کے سرکردہ افراد کو مبارک باد پیش کی اس دوران میرے گھر کا دروازہ اور باہر کی دیوار بھی توڑ دی گئی میری بیٹیاں جو کے بہت چھوٹی تھیں سخت خوفزدہ ہو گیئن
میرے والد شدید علیل تھے چھوٹے بھای بھی بہت پریشان ہوے مگر میری ماں نے حیرت سے مجھے سوال کیا……………… .
تیں انہھاں دا کہیڑا نقصان کیتا اے جو آدھا شاھر بوہے تے اکھولتا اے…………………….
میں نے ماں کی بات سنی اور مسکراتے ہوے کہھا
اماں وت ڈسیساں
صبح یہ خبر شہر میں پھیلی تو کیا اپنے کیا بیگانے سب میرے گھر اکے مجھ سے افسوس کرتے رہے حتی کے مخالف گروپ کے لیڈر بھی معذرت کرنے آے
مگر میں مستقبل میں پیش آنے والے حالات پر غور کرنے لگا اور شہر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ اپنے بھا ئیوں اور بچوں کو مذید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا مگر والد کی بیماری نے مجھے جکڑ رکھا تھا جو کے شدید علیل تھے اور کچھ ہی عرصے بعد فوت ہو گیے
میں لاہور آگیا یہھاں میں نے صحافت کے پیشے کو اختیار ر کرنے کا سوچا مگر قسمت مجھے عطاء اللہ عیسی خیلوی کے ساتھ باندھ چکی تھی باوجود اس کے میں ان کے ساتھ فل ٹائم نہیں رھنا چاہتا تھا مگر سمجھوتہ کرنا پڑا اور میں ان کے ساتھ یا وہ میرے ساتھ نتھی ہو گیے مزنگ چونگی آفس…………………..……………………..…………
اچھرے موڑ تے پیر دھریں تے
پیندی اے دھمک مزنگ
والی مزنگ چونگی
کچھ دن گزرے تو اچانک عطاء صاحب نے مجھے کہھا آج کچھ مہمان آنے ہیں آپ نے ان کا خیال رکھنا ہے باقی کام حفیظ سنبھال لے گا
تقریباً رات سات بجے کے قریب گلوکار منیر حسین مرحوم مسعود رانا مرحوم اور اے نیر مرحوم آگیے دلدار پرویز بھٹی مرحوم
بھی ساتھ تھے میری ان کے ساتھ بہت اچھی دوستی. تھی یہاں آنے سے پہلے کے.. انہھوں نے ان سے میر ا تعارف کرایا تو سب کچھ کچھ میرے نام سے واقف تھے دلدار پرویز بھٹی نے مجھے علیعدہ لے جاکے کہھا
.. یار خیال رکھیں درویشاں دا…………………
یہ سب لوگ کافی دیر تک دفتر میں موجود رہے اور گپ شپ لگی رہی یہ لوگ کافی عرصے تک آتے جاتے رہے اے نیر صاحب سے
میری بہت دوستی بن گیئ اور دفتر سے باہر بھی ملاقات ہوتی رہتی تھی دراصل اے نیر دلدار بھٹی مسعود رانا منیر حسین
رجب علی پرویز مہدی ایک دوسرے کے لیے ملزوم تھے اور ہر جگہ اکٹھے پاے جاتے تھے
اے نیر بہت خوبصورت شخصیت کے مالک تھے ان کی گائیکی کے منفرد انداز نے فلمی دنیا کو بہت کامیابی دلائی خوبصورت آدمی تھے انہیں ایک فلم میں بھی ہیرو کے طور پہ آفر ہوی ایڈوانس بھی مل گیا مگر
وہ انکاری ہو گئے اور فلم ساز سے بچنے کے لیے ٹنڈ کرا کے پھرتے رہے وہ نقال بھی بہت اچھے تھے ایسی ایسی نقل اتارتے کے سبحان اللہ مگر صرف دوستوں کے درمیان
کوی تین سال پہلے اچانک ان کا فون آیا کے یار تم نے تو وقت ضایع کیا ہے,
میں نے پوچھا
نیر صاحب میں نے کیا کیا ہے؟
کہنے لگے یار آج میں نے تیری آواز میں ایک گیت سنا ہے قسم سے تم تو بہت اچھا گاتے ہو
میں نے کھا مزاق نہ کرو نیر صاحب
انہھوں نے بہت بے ساختہ کہھا
قسم اے مولا علی دی
دراصل وہ مسیحی برادری سے تھے مگر مذہبی طور پر تنگ نظر نہیں تھے بہت کھلے دل کے ساتھ دوستوں کے ساتھ ساتھ رہتے
ادبی ثقافتی مزہبی ہر تقریب میں موجود نظر آتے
آج ان کی وفات پر بہت دکھ ہوا وہ بلاشبہ
اس دھرتی کا لال تھے اپنے فن کے زریعے انہھوں نے اس دھرتی کا نام بہت بلند کیا          —
12  نومبر 2016

اے میرے صاحب 

Image may contain: 1 person, hat

سلیم شہزاد کے ساتھ اگر آپ کو کام پڑ جاے اور آپ ان سے وقت مانگیں تو کم بخت کہے گا 

جی جی حکم 

آپ کہیں آپ سے ایک کام ہے

کہے گا حکم کرو 

کتھے حاظر تھیواں 

اور پھر وقت بھی طے کر دے گا کے کل بارہ بجے ملتے ہیں 

مگر اس کے دن کے بارہ رات کے بارہ اور رات کے بارہ دن کے بارہ بجے بجتے ہیں

اب یہی عادت اسد خان میں بھی نظر آنے لگی ہے محمد ظہیر احمد بہت پہلے سے اس عادت سلیم شہزاد کا شکار ہے شکر ہے ندیم بخاری نسیم بخاری اور محمد ضیا قریشی محفوظ ہیں اللہ اختر مجاز کو بھی محفوظ رکھے

ہم نے اسلام آباد سے لاہور کا سفر کرنا تھا 

سلیم شہزاد نے کہھا فکر نہ کرو میں بھای کو کراچی کمپنی چھوڑ دونگا 

مگر میں صبح دس بجے قریب کراچی کمپنی پہنچ گیا کیونکہ میں جانتا تھا…… 

سلیم دے لارے تے پرنے وی کنوارے…

میں کراچی کمپنی ایک نجی بس سروس کے آفس میں پہنچا ٹکٹ خریدنے کے دوران

مجھے بتایا گیا کے گاڑی سوا گیارہ کے قریب جاے گی اس وقت پونے گیارہ کا وقت تھا میں نے ادہر ادہر دیکھا اور اپنے پسندیدہ مشروب چاے خریدنے چل پڑا چاے کے ساتھ احتیاط ایک پیکٹ بسکٹ بھی خرید لیا موسم خاصا دلربا قسم کا تھا 

بادل بہت گہرے ہوتے جارہے تھے اور ہلکی ہلکی بارش کا ترنم بھی چل رہا تھا بس کے انتظار میں بہت سے لوگ کھڑے تھے اس دوران ایک خوبصورت برٹش جوڑا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے میرے قریب آکے بیٹھ گیا 

مجھ سمیت ہر ایک نے اس جوڑے کو پوری آنکھیں کھول کھول کے دیکھنا شروع کر دیا ایک دو نوجوانوں نے تو باقاعدہ باچھیں کھول کھول کے بھی دیکھا مگر یہ جوڑا آپس میں ہی کھویا ہوا تھا بارش نے انہیں اچھا خاصا موقعہ فراہم کیا اور وہ بہت قریب ہونے لگے لڑکے کانام.. مسٹر جیمز.. اورلڑکی کا.. ریٹی تھا وہ دونوں ہلکے ہلکے سروں میں ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرتے تو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے ہوا نے خوشبو کا چولا پہن لیا ہوا 

دونوں کے پاس چپس کے پیکٹ تھے مگر انہوں نے ایک پیکٹ سے نکال نکال کے کھانا شروع کردیا کبھی کبھی مسٹر جیمز ایک ٹکڑا چپس ریٹی کے منہ میں دیتا تو ریٹی بہت احتیاط کے مسٹر جیمز کی انگلیوں کے پوروں کو بھی اپنے ہونٹوں سے چھو لیتی اور پھر مسٹر جیمز بھی اپنی باری لیتا 

ارد گرد کے سارے لوگوں کے لیے یہ ایک بہتریں تماشہ تھا اور سب لوگ سامنے لگے ٹی وی سے نظریں ھٹا کے مسٹر جیمز اور ریٹی پر جما چکے تھے دونوں نے چپس کے پیکٹ ختم کرنے کے بعد ادہر ادہر دیکھا کوی مناسب جگہ نظر نہ آنے بعد انہھوں نے چپس کے خالی پیکٹ اپنی اپنی جیب میں ڈال لیے حالانکہ مجھ سمیت اکثر لوگوں نے اس طرح کی کئی چیزیں کھڑے کھڑے پھینک دی تھیں 

مسٹر جمیز مسٹر جیمز مسٹر جیمز اچانک ریٹی نے جیمز کو سامنے دیکھنے کو کہھا سامنے دیوار کے ساتھ کتے کا ایک بچہ آہستہ آہستہ رو رہا تھا مسٹر جیمز اپنی جگہ سے اٹھا کتبے کے بچے کو گود میں اٹھایا اور پھر اس کے پاوں میں لگا کیل نکا ل لیا کتے کے بچے نے ایک ہلکی سے آہ بھرنے کے بعد ایسی آواز نکالی جیسے کہھ رہا ہو 

شکریہ. مسٹر جیمز

مسٹر جمیز کی اس حرکت پر ارد گرد کھڑے لوگوں نے ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوے کہھا 

پاگل دا پتر 

اب یہ جوڑا مکمل طور پر تماشہ بن چکا تھا کے اچانک………………….. ٹی وی سکرین پر لال پٹی چلی یہ ایک دھماکے کی خبر تھی آہستہ آہستہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی ریٹی نے یہ منظر دیکھا تو اس نے چلاتے ہوے کہھا مسٹر جیمز.. نائن الیون…اور وہ مسٹر جیمز کے سینے سے لپٹ گیی مسٹر جیمز نے اسے باہوں میں چھپاتے ہوے کہھا او گاڈ…. اور منہ دوسری طرف پھیر لیا 

میں اور میرے ہم وطن مرنے والوں کی تعداد گننے کے بعد مطمعن تھے کے مرنے والے زیادہ نہیں بس پچاس کے قریب ہیں 

ہماری بس آچکی تھی اور سب لوگ اپنی اپنی سیٹ پہ بیٹھنے کے لیے دوڑ پڑے ریٹی کی حالت بہت خراب تھی مسٹر جیمز اسے بمشکل بس کے اندر لایا وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتےہی مسٹر جمیز کی گود میں سر رکھ کے رونے لگی مسٹر جیمز اسے آہستہ آہستہ.. ریلکس ریٹی ریلکس…. کہھتا رہا 

ہم ابھی اڈے سے نہیں نکلے تھے کے پچھلی نشستوں پہ بیٹھے تین سے چار لوگوں نے ڈرائیور سے کہھا 

یار عامر خان کی لگان لگاو

اسلام آباد سے لاہور تک لگان چلتی رہی 

اور مسٹر جیمز ریٹی کو سمجھا تے ہوے کہتا رہا ریلکس ریٹی ریلکس 

میں لاہور اترا تو لوگوں سے سنا شکر ہے خدا کا کوی بڑا نقصان نہیں ہوا پچاس کے قریب بندے مر ے ہیں 

میں گھر پہنچا تو ٹی وی پر وفاقی وزیر بتا رہے تھے اللہ کے فضل سے دہشت گردوں کو ناکام بنادیا ہے عنقریب گرفتار کرکے سزا کی کٹہرے میں کھڑا کریں گے

کوئٹہ میں گزشتہ رات دھماکے میں پچاس کے قریب لوگوں کے شہید ہونے کی خبر چلی تو میری بیگم نے کہھا 

یہ کیا ہو رہا ہے 

میں نے اسے کہھا 

ریلکس بیگم ریلکس تم چاے بناو 

ریٹی نہ بنو

کیونکہ ریٹی اور مسٹر جیمز بننے کے لیے 

اور طرح کے معاشرے اور اور طرح کے حکمران ہوتے ہیں 

اللہ پاک سب کو اپنی پناہ میں رکھے  – 13 نومبر 2016

اے میرے صاحب

Image may contain: coffee cup and drinkکافی پی لیجیے یہ کافی آپ کے لیے کافی رہے گی
تفصیلی طور پہ اس کی افادیت آپ کے حضور پیش کر دی ہے بنانے کا طریقہ بھی لکھ دیا ہے پینے کا اس لیے نہیں لکھا کے پوسٹ مزید طویل ہو جاے گا
اور پھر آپ کہیں گے … بہت لکھتا ہے بھئی بہت لکھتا ہے………..16  نومبر 2016

اے میرے صاحب
چنگے ماڑے دی نیں رہ گئی تمیز یار نوں
کسے ایہو جئے پلاے نے تعویز یار نوں–18  نومبر 2016

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person, sittingہم دھوپ کی چادر اوڑھے اپنے گھر کی چھت پہ بیٹھے ہیں ہمارے گھر کی چھت سے اردگرد کا منظر نامہ اپنے مختلف رنگوں کے ساتھ بہت نمایاں نظر آرہا ہے ہمارے پڑوسی جن کے ساتھ پہلے ہماری دیوار سانجھی تھی اب ان کے حسن اخلاق نے ہمارے دل بھی سانجھے کر دیے ہیں انہیں پرندے پالنے کا شوق ہے ان کے گھر ایک کشمیری طوطا ہے جو صبح اللہ اللہ کرتا ہے اور پھر بہت دردناک آواز میں کچھ بولتا ہے بہت کوشش کے بعد مجھے سمجھ ای ہے کے پہلے تو وہ زکر الٰہی کرتا ہے اور پھر یقیناً خدا کے حضور گڑگڑا کے دعا مانگتا ہےک
.. میرے وطن تیری جنت میں آییں گے اک دن
میرے گھر کے دائیں طرف ایک بزرگ عورت اپنی چھوٹی چھوٹی پوتیوں کے ساتھ بیٹھی نظر آتی ہے اس کی چھوٹی چھوٹی پوتیاں اس کے ساتھ بہت خوش نظر آرہی تھی کے اچانک ان بچیوں کی ماں چھت پہ آگی ہے بچیاں ن چاھتے ہوے بھی ڈر کے مارے نیچے اتر گئیں ہیں بچیوں کی ماں بھی منہ سے جھاگ نکالتے اور پاوں پٹختے ہوے نیچے اتر گیی ہے دادی حسرت بھری نگاہوں سے پوتیوں کو جاتے ہوے دیکھ رہے اس نے اپنی سفید چادر کا ایک پلو اپنی آنکھوں پہ پھیرا اسکی چادر پہ ایک داغ سا نظر آرہا ہے میں کنفرم نہیں کر سکتا کے یہ داغ آنسوؤں کا ہے یا قسمت کا
مگر ایک اور منظر بھی نظر آرہا ہے ایک کبوتر باز اپنے کبوتروں کو اڑانے کی کوشش کر رہا ہے مگر کبوتر.. کھڈے…. سے باہر نہیں نکل رہے کبوتر باز معاملہ سمجھنے کے لیے.. کھڈے.. کے اندر جھانک رہا ہے…………….. کبوترباز کو معاملہ سمجھ آگیا ہے کھڈے میں ایک کبوتر مرا پڑا تھا جو اس نے باہر نکال لیا ہے اب اس نے سارے کبوتر کھڈے میں بند کرنے شروع کر دیے ہیں تمام کبوتر سر جھکا ے کھڈے کے اندر چلے گییے ہیں
آج کبوتروں کے سوگ کا دن ہے کبوتر باز کو کبوتروں کے نا اڑنے کی سمجھ آگئی ہے
دادی اماں بہت اداس ہے اور اب وہ آسمان کی طرف دیکھے جا رہی ہے اس کے ہونٹ
حرکت کر رہے ہیں شائید وہ کہھ رہی ہے
ربا میرے حال دا محرم توں
آسمان پہ کیا ہے؟
آسمان کو دیکھنا مجھے بھی اچھا لگتا ہے مگر شہر اور گاوں کے آسمان میں بہت فرق ہے شہر کا آسمان لوہے کی انگوٹھی میں جڑے کالے نگ کی طرح نظر آتا ہے مگر گاوں کا آسمان چاندی کی انگوٹھی میں جڑے نیلم کی طرح نظر آتا ہے
آسمان پہ ایک گدھ اور شہباز کے درمیان مکالمہ ہو رہا ہے
گدھ…. کیا ہم بھای بن سکتے ہیں؟
شہباز…. نہیں ہم فطرتاً ایک دوسرے کی ضد ہیں
گدھ….. نہیں تم بھی گوشت خور ہو اور میں بھی
شہباز… میں آسمانوں کی وسعتوں کو چیرتے ہوے اپنے شکار پہ جھپٹنا ہوں اور تم مرے ہوے جانور کی ہڈیاں چبانے والے
گدھ.. مگر ہم پرواز تو ایک ہی جگہ کرتے ہیں
شہباز… نہیں تم میرے پنجوں کے نیچے پرواز کرتے ہو
دادی اماں مسلسل آسمان کی طرف دیکھ رہی ہے کبوتر باز نے مرے ہوے کبوتر کو دوسری چھت پہ پھینک دیا ہے
شہباز نے اپنے پر سمیٹتے ہوے کبوتر پر حملہ. کر دیا ہے فضا میں اڑتا ہوا کبوتر شہباز کے پنجے میں تڑپ رہا ہے گدھ نے چھت پہ پڑے مرے ہوے کبوتر پہ اپنےدانٹ گاڑ رکھے ہیں
میری چاے تھنڈی ہو چکی ہے
آج نجانے میں نے کیا لکھ دیا ہے اگر آپ کو سمجھ آجائے تو مجھے بھی سمجھائیے گا–
20  نومبر 2016

اے میرے صاحب ہمارے دو بہت معزز اور محترم دوست آجکل ہمارے دوستوں کو ہمارا شجرہ نسب بتاتے پھرتے ہیں وہ جس شہر میں تشریف لے جاییں یہ بتانا بہت ضروری سمجھتے ہیں کے ……… یہ افضل عاجز………………….…….

Image may contain: 1 person, sitting and hat دو ٹکے کا آدمی ہے یہ ایک لکڑ ہارا تھا ہم نے اسکی انگلی پکڑی اور شہرت کے آسمان پہ بٹھایا اب یہ افضل عاجز بنا پھرتا ہے 

مجھے اپنے عزیز دوستوں پہ کوی اعتراض نہیں ہے مگر مجھے افسوس کے انہھوں نے میرا ادہورا شجرہ بیان کرکے میرے دوستوں کو گمراہ کیا ہے اور میرے وقار میں کمی کرنے کی شعوری کوشش کی ہے 

میں لکڑ ہارا بننے کے بعد چاے والا بنا اور پھر اس کے بعد رنگ والا بنا اور پھر اس دوران مجھ پہ شاعری کا رنگ چڑھا اور میں شاعر بنا

میں اب بھی جب اپنے گاوں جاتا ہوں تو بعض مقامات پہ کچھ دیر کے لیے رک جاتا ہوں اور اپنے ماضی کو یاد کرتا ہوں میرا بیٹے نے ایک دن مجھے پوچھا 

بابا تم اس بلڈنگ کو دیکھتے ہوے کہیں کھو جاتے ہو کیوں؟ 

جب علی چھوٹا تھا تو میں اسے جھوٹ کی کہھانی سناتا تھا کے اس بلڈنگ کے اس پاس کبھی بہت درخت ہوا کرتے تھے ان در ختوں پہ بہت سے طوطے بھی رہا کرتے تھے میں طوطے پکڑ کے گھر لے جایا کرتا تھا اور انہیں اچھے اچھے لفظ سکھاتا تھا

میرے اس جواب پر علی خوش ہوجایا کرتا تھا مگر جب اس نے میٹرک پاس کی تو اب طوطے والی کہھانی سے مطمعن نہیں ہوتا تھا 

اسے مطمعن کرنے کے لیے میں نے اسے ایک دن کہھا

میرے بچے 

ہم غریب ابن غریب ابن غریب لوگ ہیں جب میں تیری عمر کا تھا تو ایک ڈاکٹر نے میرے بابا سے کہھا

تمہیں گلے کا کینسر ہے 

یہ ایک خوفناک تشخیص تھی مزید تسلی کے لیے میرے بابا نشتر ہسپتال ملتان چلے گیے مجھے یاد ہے میری ماں نے اپنے زیور بیچ کے میرے بابا کو ملتان روانہ کیا میرے بابا واپس آے تو ان کے پاس ڈاکٹر کالکھا ہوا تھا کے تمیں کوی بڑی بیماری نہیں ہے مگر میرے بابا مطمعن نا ہوے اور چار پای پر پڑ گیے اب میرا امتحان شروع ہوا اور میں نے قلم کی جگہ کلہاڑا اٹھا لیا اس وقت میری عمر سترہ سال تھی اور میں نے 

لکڑیوں کا سینہ چیر نا شروع کردیا جسکی وجہ سے میرے ہاتھوں پہ چھالے پڑ جاتے تھے میر ی ماں دیسی ٹوٹکے کے طور پر میرے ہاتھوں پہ مہندی لگایا کرتی اور میں ماں کے چہرے سے اندازہ لگایا کرتا تھا کے میری ماں دل دل ہی دل میں دعا مانگ رہی ہے کے میرے رب میرے بچے کے ہاتھ صبح تک ٹھیک کردینا اگر اس کے ہاتھ تھیک نہ ہوے تو یہ صبح کام پر نہیں جا سکے گا اور اگر یہ صبح کام پہ نا گیا تو کل ہمارا چولہا نہیں جلے گا اور عجیب بات ہے کے صبح میرے ہاتھ ٹھیک ہو جایا کرتے تھے میری بات سن کے میرے بیٹے کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں مگر میں اسے ڈانٹ دیتا ہوں اور سمجھاتا ہوں کے تو ایک جفاکش اور مزدور کا بیٹا ہے تجھے خوش ہونا چاہیے کے تیرا باپ ہاتھ کی کمای کھاتا ہے… پاپ.. کی نہیں اور پھر میں اسے بتاتا ہوں کے نا صرف اس بلڈنگ بلکہ اس جیسی کیی بلڈنگز میں مزدوری کرتا رہا ہوں 

میں اپنے معزز دوستوں سے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کے وہ میرا ادہورا شجرہ بیان کرکے میری توہین نا کریں- 25   نومبر 2016

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person
بہت عجیب سی صورت حال ہے ہمارے بہت عزیز شاعر اور محبت کے ساحر محمد ظہیر احمد کے بھای کی شادی ہے ادہر لاہور میں ہمارے ایک عزیز دوست کی بیٹی کی شادی ہے ظہیر صاحب نے کھلے لفظوں میں کہھا اگر آپ شادی پہ نا اے تو میں آپ کو ہر ایک مشاعرے.پہ. ہوٹ. کرونگا اور جب بھی آپ شعر سنانے لگو گے میں چاچا نورا کی شرنا سے مشاعرے کا ماحول بدل دونگا مجھے پتہ ہے ڈھول شرنا بجنے کی دیر ہوتی.ہے آپ ناچنا شروع کر دیتے ہیں سو میں نے اسے کہھا ہے میں اتوار کو بارات میں شرکت نہیں کرونگا مجھے لاہور واپس آنا ہے اس کی مہربانی اس نے کہھا ہے آپ بارات میں شرکت نہ کرنا ویسے بھی وہاں آپ کی ضرورت نہیں کیونکہ بارات پہ پیسے لوٹنے کا پروگرام میرا اپنا ہے
ظہیر نے مجھے بتایا ہے کے شادی پر بہت سے پروگرام ہیں مگر سب سے زبردست پروگرام سلیم شہزاد کا مجرا ہے وہ امراوجان ادا میں جو گھنگھرو ریکھا نے باندھے تھے وہی باندھ کے ناچے گا اللہ بھلا کرے منیر اے منیر کا اس نے کوی چکر چلا کے ریکھا سے گھنگرو منگوا لیے ہیں وہ تو کہھ رہا تھا کے کہھو تو ریکھا کو بجھوا دیتا ہوں مگر اسد خان نے کہھا کے جب ہمارے پاس سلیم شہزاد کی شکل میں ریکھا موجودء ہے تو پھر اسکی کیا ضرورت ہے مجھے اختر مجاز نے بتایا ہے کے اسد خان نے بنک سے نیے نوٹ نکلوا لیے ہیں سلیم پہ لٹکانے کے لیے میں نے اختر مجاز کو کن سن میں سمجھا دیا کے پیسوں پہ تم بیٹھنا تاکہ میری واپسی کا کرایہ تو بن سکے
مجھے ظہیر نے بتایا ہے کے سب شاعر دوست تشریف لائیں گے مشاعرے کا سماں بن جاے گا میں نے ظہیر کو سمجھا دیا ہے مشاعرے کو گولی مارو مجرا پروگرام ٹھیک ہے شاعر دوستوں کو مشاعرہ تو مل
جاتا ہے مگر مجرہ کبھی کبھی ملتا ہے سو تمام احباب سے دعا کی درخواست ہے باقی تفصیل ساتھ ساتھ چلتی رہے گی – 
26   نومبر 2016

اے میرے صاحب
میرا میانوالی بہت.. بھاگ ونت. ہے اور اسے بھاگ اس دن لگے جب میاں علی نام کے ایک سید زادے نے اس خطہ زمین پہ اپنے پاوں رکھے یہ پاوں گویا میانوالی کے ماتھے کا سیندوربن گئے اور اس کا چہرہ چمکنے لگا میاں علی نے یہھاں کے قبائل کے دلوں کو تسخیر کرتے ہوے انہیں آپس میں بغلگیر کیا آج بھی میانوالی کے دو بڑے قبائل. وتہ خیل اور بلوخیل میاں علی کے نام کا.گوگا..دیتے ہیں

لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں میانوالی اتنا زرخیز کیوں ہے؟

میں ان سے کہتا ہوں جس زمین پہ ایک سبز پوش نے زندگی بھر اپنے رب سے خیر کی روشنی مانگی ہوئی وہ دھرتی زرخیز اور مردم خیز کیسے نا ہو؟ 

میانوالی نے بڑے بڑے نام پیدا کئے ہیں جنہھوں نے دنیا میں میانوالی سے زیادہ پاکستان کانام بلند کیا اور انہی خدمات کی وجہ سے اہل پاکستان نےبھی بطور خراج تحسین میانوالی کے نام کو احترام دیا ہے میانوالی کی زمین میں ایسی کشش ہے یہ. میانوالینز.. کو اوپر کی طرف اچھالتی ہے تو میانوالی سے باہر کے لوگوں کو اپنی طرف بھی کھینچتی ہے
…. آج میانوالی کے لیے بہت اہم دن ہے دنیاے صحافت کے مختلف.. امام.. اپنے اپنے صحافتی مسلک کے ساتھ تشریف فرما ہو رہے ہیں

Image may contain: 4 people, people smiling… جناب مجیب الرحمن شامی صاحب……
شامی صاحب میرے چیف ایڈیٹر بھی ہیں وہ میری الٹی سیدھی تحریروں کو اپنی اخبار میں نہ صرف جگہ دیتے ہیں بلکہ شاباش کے طور پر مجھے.. جگا.. بھی دیتے ہیں شامی صاحب قلم کے ہی نہیں عمل کے بھی غازی ہیں سیاسی صحافتی حوالے سے ان کا اپنا.. مسلک.. ہے اور وہ اپنے مسلک پہ سختی سے عمل کرتے ہیں وہ اگر صحافت کے.. وہابی.. ہیں تو پھر وہابی ہی ہیں یہ نہیں کے ہر حکمران کے مسلک کے ساتھ اپنا مسلک بدل لیتے ہیں وہ ظالم ہی نہیں عادل حکمران کے سامنے بھی کلمہ حق کہتے ہیں
جنرل ایوب خان جنرل یحی خان.. جنرل بھٹو.. جنرل ضیا جنرل مشرف کوی بھی ہو سب کو قلم کی نوک پہ رکھتے ہیں شامی صاحب نے مختلف ادوار میں جیل کاٹنے کے ساتھ ساتھ بیروزگاریاں بھی کاٹی ہیں مگر ان مشکلات کے دنوں میں اپنے کردار کی سرشاریاں بھی دکھای ہیں
…….. جناب سجاد میر صاحب………………
سجاد میر صاحب بھی بلند نام صحافی ہیں ان کی گفتگو سنتے ہوے لگتا ہے ہم کوی تحریر پڑھ رہے ہیں مگر ان کی تحریر پڑھتے ہوئے لگتا ہے ہم کوی گفتگو سن رہے ہیں
……… جناب روف کلاسرہ صاحب………….
روف کلاسرہ میرے وسیب کا فرزند ہے پہلے جب کوی مجھ سے پوچھتا تھا سرایکی وسیب کیسا ہے؟
تو مجھے سرایکی وسیب کا تعارف کراتے ہوے دو تین گھنٹے لگ جاتے تھے مگر اب جب کوی مجھ سے پوچھتا ہے سرایکی وسیب کیسا ہے تومیں ایک سیکنڈ میں بتا دیتا ہوں ک
میرے روف کلاسرہ کے جیسا ہے……………
میں روف کلاسرہ کے ساتھ محبت کرتا تھا مگر اب وہ میری محبت سے دامن چھڑانا چاہتا ہے وہ اس بات سے بچنا چاہتا ہے کے میں کسی سے کہھوں کے روف کلاسرہ میرا محبوب ہے اس نے چند دنوں سے عجیب روش اختیار کر رکھی وہ میرے بارے میں لوگوں سے کہتا ہے افضل عاجز میرا محبوب ہے سو میں روف کلاسرہ کے بارے میں بہت الجھن میں ہوں سمجھ نہیں آرہی کے میں اس کا محبوب ہوں یا وہ میرا محبوب ہے اس بات پہ ہم دونوں کے درمیان.. ٹسل بازی.. چل رہی ہے سو میں خاموش ہوں
…….. روف طاہر صاحب………………….
میرا دوست ہے بہت نفیس اور پیار کرنے والا دوست اپنی دھن میں لکھتا ہے نا جھکتا ہے نا بکتا ہے

…. ڈاکٹر صغری صدف صاحبہ…….

ڈاکٹر صاحبہ کو نہ میں عورت سمجھتا ہوں اور نا مرد یہ ایک صوفی ہیں اور صوفی مرد بھی ہوتا ہے اور عورت بھی صوفی سورج غروب ہوتے ہی ایک مرد کی طرح اپنے مالک کے ساتھ راز نیاز اور ہم کلامی میں مصروف ہو جاتا ہے مگر سورج طلوع ہوتے ہی ایک عورت کی طرح مالک کی مخلوق کی خدمت میں لگ جاتا ہے

……. جناب منصور آفاق صاحب……….
میرا دوست تھا ہم دونوں نے اکٹھے زیست کے شعوری سفر کا آغاز کیا میری جب خواہش ہوتی میں ہاتھ بڑھا کے اس کے سر پہ اپنا ہاتھ رکھ دیتا اس کا جب دل چاہتا وہ اپنے پاوں میرے سر پہ رکھ دیتا تھا مگر اب وہ بڑا آدمی بن گیا ہے میں اگر اب اچھل اچھل کے بھی اس کے سر پہ اپنا ہاتھ رکھنا چاہوں تو بمشکل میرا ہاتھ اس کے گھٹنوں تک پہنچ پاتا ہے جس تیزی کے ساتھ وہ اوپر اٹھ رہا ہے مجھے لگتا ہے اب میرا ہاتھ اس کے.. گٹوں.. تک ہی پہنچ پاے گا مگر میں اس کے.. گٹوں اور گوڈوں میں نہیں بیٹھنا چاہتا ہے
……….میانوالی کی روایت کے مطابق مجھے بھی اپنے معزز مہمانوں کے استقبال کے لیے موجود ہونا چاہیے تھا مگر زاتی مجبوری کی وجہ سے قاصر ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کے معزز مہمانوں کی آمد پر خوش نہیں ہوں نہیں میں اور میرا میانوالی اپنے تمام معزز مہمانوں کے لیے چشم براہ ہے
میرے معزز مہمان اپنے ہونٹوں کو جنبش تو دیں زمین ومکین میانوالی آپ کے الفاظ آواز کے رنگ وخوشبو کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے تیار ہی نہیں باقاعدہ با وضو ہوئے صف در صف کھڑے ہیں

تمام معزز مہمانوں کو خوش آمدید-محمد افضل عاجز –واہلیان میانوالی  –  27   نومبر 2016

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person, sitting and food
یہ تو آپ احباب کے حضور عرض کرچکا ہوں کے ہم لوگ کے پی کے کے شہر لکی مروت سے کندیاں منتقل ہوے تھے سو اس شہر میں ہمارا کوی رشتہ دار نہیں تھا نا کوی ماسی نا کوی چاچی نا کوی دادی اور نہ کو بہن تھی سو کبھی کبھی میں ماں کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا پہلے پہلے آٹا گوندھنا سیکھا پھر روٹی پکانا اور میں نا صرف. توے. پہ بلکہ… تپل..اور تندور میں بھی روٹی پکا لیتا تھا برتن دھونے اور جھاڑو دینے میں تو بہت سی ہم عمر لڑکیاں میری شاگرد تھیں انہی میں سے ایک ایسی بھی تھی جو مجھ سے جھاڑو دینا سیکھنے کے ساتھ ساتھ مجھے اپنا ہاتھ تھمانے کی بھی کوشش کرتی تھی مگر میں اپنا ہاتھ جھاڑو پر مضبوط رکھتا تھا ایک دن اس نے مجھے کہھا
تم مجھے جھاڑو تھماتے ہو تو میں تھام لیتی ہوں
مگر جب میں تمہیں اپنا ہاتھ تھمانے کی کوشش کرتی ہوں تو تم میرا ہاتھ کیوں نہیں تھامتے؟
میں نے اسے سمجھایا کے میں نے اگر تمھارا ہاتھ تھام لیا تو پھر تمھارا ہاتھ مانگنا بھی پڑے گا اور میں جانتا ہوں تمہارا ایک ہاتھ مانگنے کے جرم میں میرے دونوں ہاتھ کٹ جائیں گے اور پھر یہ جو ہم جھاڑو تھامتے ہوے ایک دوسرے کو تھام لیتے ہیں اس…. تھام. سے بھی جائیں گے
گزشتہ رات میرے بھتیجے مجھ سے اپنی دادی اور دادا کے واقعات سن رہے تھے اس دوران میرے بھای کی بہو نے مجھ سے پوچھا

بابا 

تساں روٹی وی پکا گھندے ہو

میں نے کہھا میرے بچے کیوں نیں پکا گھندا

اور پھر صبح میں نے اسے ایک. پراٹھا.. پکا کے دیا ہے 

زرا دیکھو تو  – 28   نومبر 2016

اے میرے صاحب

Image may contain: 2 people, people standing
ممتاز دانشور معروف کالم نگار اور اپنے انداز کے منفرد تجزیہ نگار جناب ہارون رشید کے ساتھ ایک نشست ہارون رشید صاحب کی سیاسی فکر اور سیاسی تجزیوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان شخصیت کے اعتراف سے انکار نہیں کیا جاسکتا بہت خوبصورت شخصیت ہیں آج ان کی مہمان نوازی اور مجلس بازی کا بہت لطف آیا وہ کسی بھی بات کو نا صرف لکھنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں بلکہ بات کے بیان میں بھی ایک نغمگی سی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں ان سے بات اور ملاقات کر کے بہت لطف  آیا  – 29   نومبر 2016

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person, closeup

گزشتہ سے پیوستہ رات بہت مزے کی گزری ظہیر احمد صاحب کے بھای کی شادی پرروایت کے سبھی رنگ دوستوں کے سنگ انجواے کییے
ہم جب لہور سے نکلے تو ایک خوبصورت نوجوان کے ساتھ سیٹ مل گئی یہ دوسری بات ہے کہ واپسی کا سفر گھنی مونچھوں اور اور کھردری گفتگو کے درمیان منصور آفاق کے ساتھ کرنا پڑا
یہ نوجوان کانوں میں ہینڈ فری لگاے آنکھیں بند کیے کچھ سن رہا تھااور وہ اپنی دھن میں مگن تھا اسے زرا بھر بھی احساس نا ہوا کہ لمحہ موجود کا ایک عظیم شاعر اس کے پہلو میں اتر چکا ہے ہم نے بہانے بہانے سے اسے اپنی عظمت کا احساس دلانے کی کوشش کی مگر اس کے احساس کے در بند ہو چکے تھے حالانکہ بس کا کنڈیکٹر بآواز بلند ہماری شان میں دو چار قصیدے بھی پڑھ چکا تھا
گو کہ اس کے بدن سے کسی بہت مہنگے پرفیوم کی خوشبو پوری بس کو معطر کر چکی تھی مگر ہم اس کی گفتگو سے معطر ہونا چاہتے تھے
بس سٹینڈ کو چھوڑ چکی تھی بمشکل چند فرلانگ کا فاصلہ طے ہوا ہو گا کہ اچانک زوردار بریک لگنے پر اس نوجوان کے ساتھ ہمارا ماتھا ٹکرا گیا پوری بس اللہ خیر خیر کے نعروں سے گونج اٹھی نوجوان نے حیران ہوتے ہوے ڈرائیور سے پوچھا
… کیا ہوا..
موقعہ مناسب تھا ہم نے اس بتایا کہ بس کے آگے اچانک.. چنگ چی رکشہ. آجانے سے ڈرائیور نے بریک لگای ہے نوجوان نے آہستہ سے
.. اچھا
کہھا اور آنکھیں بند کرلیں
ہم پہ. مایوسی طاری ہونے لگی تھی کہ اچانک اس نے اپنی نیلی نیلی آنکھیں ہمارے چہرے پہ گاڑ دیں ہم نے بھی اپنی کالی کالی آنکھیں اسکی نیلی نیلی آنکھوں میں گاڑنے کی کوشش کی مگر کہھاں نیلی نیلی آنکھیں اور کہھاں کالی کالی آنکھیں
اب اس نے آہستہ سے اپنا ہیڈ فون اتارا اور کہھا
آپ……………………………….. افضل……………… عاجز ہیں شاید؟
ہم نے سر کے ساتھ ساتھ پورے جسم کو ہلاتے ہوے کہھا جی……… جی…. جی نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہا
اف اللہ آپ بھی کتنے روپ بدلتے ہیں پچھلے جنم میں.. بہروپییے.. تھے کیا؟
ہم بھی ہم ہیں.. ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوے کہھا
اف اللہ زرا سنو تو ہمارے جنم جنم کا ساتھی ہمارے حال سے بے خبر ہے
بس موٹر وے پہ رواں دواں ہوچکی ہے اس نے بہت خوش دلی سے کہھا
میرے پاس نمکو بسکٹ اور کوکا کولا ہے اگر آپ کا موڈ ہو تو پیش کروں
ہم نجانے کس موڈ میں تھے منہ کھول کے کہھ دیا
ہم سفر میں پانی تک نہیں پیتے
آگے سے وہ بھی انگریز مزاج نکلا اور دوسری بار نہیں کہھا حالانکہ. ہمارا خیال تھا وہ ہم میانوالی والوں کی طرح بار بار کہھے گا

.. مارا کھا نی مردا…..
اب اس نے ایک خوبصورت پیکٹ میں سے بسکٹ نکال نکال کے کھانے شروع کر دیے
ہماری حالت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے ناشتہ کییے بغیر سفر کا آغاز کیا ہو
اس نے اچانک کوکا کولا کا لمبا سا گھونٹ لیتے ہوے کہھا
آپ جانتے ہو کوکا کولا کا مالک ایک یہودی ہے اور ہم مسلمانوں کو اس کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ اور پھر ہم دونوں نے مل کے
.. لعنت ہو اہل یہود پر…….

ہم سرگودھا سٹینڈ پر پہنچ چکے ہیں تمام لوگ اپنے اپنےپیٹ اور ریٹ کے مطابق پیٹ پوجا میں مصروف ہیں ہم اکیلے کھڑے سگریٹ کے کش پہ کش لگا رہے ہیں نوجوان کیلے اور سیب لے چکا ہے اور اب اس نے اپنے سفید چمکیلے دانت سیب کے سینے پہ گاڑ دیے ہیں نوجوان سیب کے لزیز اور اس کے فوائد پر بھی روشنی ڈال رہا ہے مگر ہمیں آفر نہیں دے رہا کیونکہ ہم اسے بتا چکے ہیں
ہم سفر میں پانی تک نہیں پیتے
ہم نے فیس بک آن کر دیا ہے ظہیر احمد نے ایک پکچر روٹیوں کی ایک پکچر میانوالی کے مشہور پکوان.. کٹوے… کی اور کم بخت نے ایک جگہ. حلوہ.. بھی بنتے ہوے دکھایا ہے
ہم نے دل ہین دل میں خود کے چہرے پہ دس بارہ بار طمانچے مارنے کے بعد یہ عہد کیا ہے کہ ہم آیندہ کسی سے نہیں کہیں گے کہ
ہم سفر میں کچھ نہیں کھاتے
ظہیر بار بار میسج کر رہا ہے چھ بجے تک کھانا کھل جاے گا لیٹ سے لیٹ ساڑھے چھ بجے تک پہنچ جانا بصورت دیگر میرے لیے بھی لیتے آنا
ہم واں بچھراں پہنچ چکے ہیں نوجوان نے کوکا کولا کی بوتل کومنہ لگاتے ہوے پوری بوتل خالی کرتے ہوے میانوالی سٹینڈ پر اترتے ہوے کہھا
میں کوکا کولا میں سیلیز آفیسر ہوں سو میری مجبوری ہے تم کبھی نا پینا اور پھر مسکراتے ہوے کہھا
لعنت اہل یہود اور اس کے حلیف امریکہ پر
بس سٹینڈ پر اسد خان عصمت گل خٹک اختر مجازسلیم شہزاد موجود ہیں ہم نیچے اتر ہی رہے تھے کہ…… …  30   نومبر 2016

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top