میانوالی دوبارہ دورِ جہالت میں-عصمت اللہ نیازی
قتل غارت اس وقت ریاستِ پاکستان کیلئے ایک ایسا ناسور بن چکا ہے جس کا حل سرراہ ابھی تک تو نظر نہیں آ رہا کیونکہ ابھی تک تو اس اہم ترین مسئلہ کی طرف نہ تو ریاست کی طرف سے اور نہ ہی معاشرہ میں موجود بااثر طبقہ کی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک بھر میں ضلع میانوالی سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے جہاں گذشتہ کچھ سالوں سے اپنوں کے ہاتھوں انسانی جانوں کا ضائع عروج پر ہے ہم اپنے ہی رشتہ داروں ، پڑوسیوں، محلہ داروں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے میں مصروف ہیں۔
گذشتہ چند سالوں سے یہاں ہماری جھوٹی انا اور وحشت کا نشانہ بننے والوں کی تعداد ہر سال سنچری سے تجاوز کر جاتی ہے اور موجودہ سال تو ہم نے برائی کا ایک اور ریکارڈ اپنے نام کرا لیا ہے کہ ضلع میانوالی اس وقت اپنے آپ کو قتل کرنے والوں میں پاکستان بھر میں سرِ فہرست پر آ گیا ہے اور اب تک ہم اپنے 116 بھائیوں کا ہاتھ انکی بہنوں کے سر سے اٹھا چکے ہیں یا ماؤں کی گود اجاڑ کر اُنکی بد دُعاؤں کے مستحق ہو چکے ہیں۔ اگر ہم حقائق پر تھوڑی سے نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دراصل یہ مسئلہ معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی کوتاہیوں کا مجموعہ ہے. ایسے گھمبیر مسائل عام طور پر کافی طویل عرصہ سے مختلف عناصر کی موجودگی، انصاف کا نظام ، جیل کشی کا نظام، تعلیم کی کمی، اور معاشی بحران جیسے امور کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا عنصر جو قتل و غارت کو فروغ دیتا ہے وہ معاشرتی و عوامی عدم توازن ہے جس میں ایک طرف پاکستان میں امیر طبقہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے تو دوسری طرف غریبی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے یہ صورتحال آئے روز معاشرتی فاصلہ کو بڑھا رہی ہے۔ اسی طرح تعلیم کی کمی بھی اس مسئلہ کی بڑھوتری کے اسباب میں سے ایک ہے۔
پاکستان میں تعلیم عام کرنے اور تعلیمی پالیسیاں مرتب کرنے کی ذمہ داری اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو جان بُوجھ کر عام آدمی کو تعلیم جیسی بنیادی اور اہم نعمت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں تاکہ تعلیم کے ذریعے وہ شعور حاصل کر کے اُن کے سامنے نہ آ کھڑے ہوں اسی وجہ سے ہمارے کرتا دھرتا عام آدمی کیلئے تعلیم کے راستوں کو بند کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ دوسری جانب قانونی نظام میں کمی، جرائم کی سختی اور انصاف ناپید ہونے کی وجہ سے بھی ہمارے ہمارے علاقہ کے لوگ نظام انصاف پر اعتماد نہیں کرتے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں جس سے قتل و غارت جیسے غیر انسانی جرائم کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح جلتی پر تیل کا کام کچھ عرصہ سے جلسے جلوس ، مظاہرے، اور احتجاج بھی کرتے ہیں جو نوجوان نسل کے ذہن میں تخریبی کاروائیوں کے جنم کا سبب بنتے ہیں جس سے ایجی ٹیشن بڑھتی ہے۔
مختصراً یہ کہ ضلع میانوالی میں قتل و غارت کا عروج معاشرتی، تعلیمی، اور قانونی معاملات کا نتیجہ ہے اور اس مسئلہ کا مستقل حل معاشرتی توازن، تعلیم کی بہتری اور قانونی نظام میں اصلاحات سے کیا جا سکتا ہے ورنہ اس کے سامنے عارضی بند ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ سات دہائیوں سے موجود سیاسی عدم استحکام ، مفاد پرست سیاسی نمائندگان اور پیسے کے پیچھے بھاگتے بااثر تاجر طبقہ کے کرتوتوں کی وجہ سے نہ تو اس صورتحال میں کمی ہوئی ہے اور نہ ہی آئندہ پچاس سال تک کوئی مثبت تبدیلی مستقل میں نظر آ رہی ہے۔ اس کا عارضی حل یہ ہی ہے کہ آپ اگر برداشت کر سکتے ہیں تو اپنے بچوں سمیت بوری بستر سمیٹ کر اس علاقہ سے کُوچ کر جائیں لیکن جاتے ہوئے اتنا خیال رہے کہ اپنے ووٹ کا اندراج بھی ساتھ لے کر جانا تاکہ ضلع بھر کے سیاسی ناسوروں کا اتنا تو نقصان ہو کہ آپ کو بچوں سمیت ہجرت پر مجبور کرنے والے آپ کے ووٹ کے حقدار بھی نہ رہیں۔
گذشتہ چند سالوں سے یہاں ہماری جھوٹی انا اور وحشت کا نشانہ بننے والوں کی تعداد ہر سال سنچری سے تجاوز کر جاتی ہے اور موجودہ سال تو ہم نے برائی کا ایک اور ریکارڈ اپنے نام کرا لیا ہے کہ ضلع میانوالی اس وقت اپنے آپ کو قتل کرنے والوں میں پاکستان بھر میں سرِ فہرست پر آ گیا ہے اور اب تک ہم اپنے 116 بھائیوں کا ہاتھ انکی بہنوں کے سر سے اٹھا چکے ہیں یا ماؤں کی گود اجاڑ کر اُنکی بد دُعاؤں کے مستحق ہو چکے ہیں۔ اگر ہم حقائق پر تھوڑی سے نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دراصل یہ مسئلہ معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی کوتاہیوں کا مجموعہ ہے. ایسے گھمبیر مسائل عام طور پر کافی طویل عرصہ سے مختلف عناصر کی موجودگی، انصاف کا نظام ، جیل کشی کا نظام، تعلیم کی کمی، اور معاشی بحران جیسے امور کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا عنصر جو قتل و غارت کو فروغ دیتا ہے وہ معاشرتی و عوامی عدم توازن ہے جس میں ایک طرف پاکستان میں امیر طبقہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے تو دوسری طرف غریبی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے یہ صورتحال آئے روز معاشرتی فاصلہ کو بڑھا رہی ہے۔ اسی طرح تعلیم کی کمی بھی اس مسئلہ کی بڑھوتری کے اسباب میں سے ایک ہے۔
پاکستان میں تعلیم عام کرنے اور تعلیمی پالیسیاں مرتب کرنے کی ذمہ داری اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو جان بُوجھ کر عام آدمی کو تعلیم جیسی بنیادی اور اہم نعمت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں تاکہ تعلیم کے ذریعے وہ شعور حاصل کر کے اُن کے سامنے نہ آ کھڑے ہوں اسی وجہ سے ہمارے کرتا دھرتا عام آدمی کیلئے تعلیم کے راستوں کو بند کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ دوسری جانب قانونی نظام میں کمی، جرائم کی سختی اور انصاف ناپید ہونے کی وجہ سے بھی ہمارے ہمارے علاقہ کے لوگ نظام انصاف پر اعتماد نہیں کرتے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں جس سے قتل و غارت جیسے غیر انسانی جرائم کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح جلتی پر تیل کا کام کچھ عرصہ سے جلسے جلوس ، مظاہرے، اور احتجاج بھی کرتے ہیں جو نوجوان نسل کے ذہن میں تخریبی کاروائیوں کے جنم کا سبب بنتے ہیں جس سے ایجی ٹیشن بڑھتی ہے۔
مختصراً یہ کہ ضلع میانوالی میں قتل و غارت کا عروج معاشرتی، تعلیمی، اور قانونی معاملات کا نتیجہ ہے اور اس مسئلہ کا مستقل حل معاشرتی توازن، تعلیم کی بہتری اور قانونی نظام میں اصلاحات سے کیا جا سکتا ہے ورنہ اس کے سامنے عارضی بند ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ سات دہائیوں سے موجود سیاسی عدم استحکام ، مفاد پرست سیاسی نمائندگان اور پیسے کے پیچھے بھاگتے بااثر تاجر طبقہ کے کرتوتوں کی وجہ سے نہ تو اس صورتحال میں کمی ہوئی ہے اور نہ ہی آئندہ پچاس سال تک کوئی مثبت تبدیلی مستقل میں نظر آ رہی ہے۔ اس کا عارضی حل یہ ہی ہے کہ آپ اگر برداشت کر سکتے ہیں تو اپنے بچوں سمیت بوری بستر سمیٹ کر اس علاقہ سے کُوچ کر جائیں لیکن جاتے ہوئے اتنا خیال رہے کہ اپنے ووٹ کا اندراج بھی ساتھ لے کر جانا تاکہ ضلع بھر کے سیاسی ناسوروں کا اتنا تو نقصان ہو کہ آپ کو بچوں سمیت ہجرت پر مجبور کرنے والے آپ کے ووٹ کے حقدار بھی نہ رہیں۔