MERA MIANWALIN APRIL 2025منورعلی ملک کے اپریل  2025  کے فیس  بک   پرخطوط

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عید کے تیسرے دن داؤدخیل میں ایک خوبرو نوجوان کے ناحق قتل کی خبر فیس بک پر دیکھ کر دل بہت دکھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اظہار خان نامی یہ نوجوان تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ بہت شائستہ مزاج اور خوش اخلاق تھا ۔ ایسے امن پسند نوجوان کے قتل کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔

داؤدخیل تو امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ ہم  دس سال کی عمر تک پہنچے تو شہر میں صرف ایک ہی قتل کی خبر سنی وہ بھی چند سال پرانی۔ قبیلہ بہرام خیل کے احمد خان ولد مقرب خان نے قبیلہ انزلے خیل کے ایک جوان کو برچھا مار کر قتل کر دیا تھا۔ کئی سال تک شہر میں اسی اکلوتے قتل کی باز گشت سنائی دیتی رہی۔

اب تو قتل کے  افسوسناک واقعات روزانہ ہر جگہ ہو رہے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اسلحہ کی فراوانی ہے۔ ہر نوجوان پستول جیب میں لیئے پھرتا ہے۔ ذرا سی کسی سے ان بن ہوئی تو فائر مار کر اس کا کام تمام کر دیا۔ والدین کو بچوں پر نظر رکھنی چاہیئے۔ اسلحہ ان کی پہنچ سے دور رکھنا چاہیئے ۔

ٹریفک چیکنگ کی طرح راہ چلتے نوجوانوں کی تلاشی لے کر اسلحہ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے ۔

علمائے کرام چودہ سو سال پہلے کے واقعات سنانے کی بجائے آج کے دور کی بات کریں کہ اس دور میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزیاں کھلم کھلا کیوں ہو رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو دو ٹوک الفاظ میں یہ حکم جاری فرما دیا کہ جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیا اس کی جزا جہنم ہے۔

رب کریم اظہار خان کواپنی رحمت  کا سایہ نصیب فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

ایسے دردناک واقعات کی روک تھام کے لیئے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔  3      اپریل   2025

یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرائیکی سر سنگت پر لیاقت علی خان اور ان کے صاحبزادے ساجد علی خان کے ساتھ-  4      اپریل   2025

رمضان المبارک گذر گیا۔ اس کے ساتھ ہی مسجدوں کی رونقیں بھی رخصت ہو گئیں ۔ کہاں وہ عشا کی نماز میں نمازیوں کی بھر پور صفیں اور کہاں آج کا یہ عالم کہ عشا کی نماز میں بس  دوچار بزرگ مستقل نمازی ٫ پوری ایک صف بھی نہیں بنتی۔ ویران مسجدیں پوچھتی ہیں کہ کیا رمضان کے ساتھ مسلمان بھی دنیا سے رخصت ہو گئے؟ کدھر گئے وہ بچے بوڑھے اور جوان جو سب کام چھوڑ کر یہاں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ؟

شاعر نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔۔مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے  5      اپریل   2025

غزہ میں نہتے فلسطینی مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہاہے اس کے بارے میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اسلامی ممالک  کا رویہ افسوسناک بھی ہے شرمناک بھی۔ اکثر اسلامی ممالک کے سربراہان صرف یہ کہہ دینا کافی سمجھتے ہیں کہ ہم اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں ۔ کچھ مہربان کہتے ہیں ہم غزہ کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ بھائی صاحب صرف کھڑےرہنے سے تو مظلوموں کی کوئی مدد نہیں ہو سکتی۔

سوشل میڈیا پر غزہ کی ایک بچی نے لکھا۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری خبریں اب تمہیں پریشان نہیں کریں گی۔ صرف چند دنوں کی بات ہے ہم سب ختم ہو جائیں گے ۔۔اللہ اس کو ہرگز معاف نہ کرے جو ہم پہ ہونے والے ظلم پر خاموش رہا۔۔۔۔۔  یا اللہ کوئی بھی اپنے لشکر ہماری مدد کے لئیے روانہ نہیں کر رہا۔ آپ اپنے لشکر روانہ کیجئیے۔ یا رب کوئی بھی غصبناک نہیں ہو رہا۔ آپ ظالموں پر غصبناک ہو جائیے۔ آپ کے سوا ہمارا کوئی نہیں ٫ یا معبود یا ولی یا نصیر یا وکیل یا منتقم یا جبار یا قہار۔۔۔۔۔۔۔۔

بچی نے اپنا کیس رب کریم کی عدالت میں دائر کر دیا ہے۔ اپنا ایمان تو یہ ہے کہ ان شاءاللہ اس پر کوئی ایکشن ضرور ہو گا اور دنیا دیکھے گی-  6      اپریل   2025

اپریل کا مہینہ لواں آلیاں چھٹیاں ( فصل کاٹنے کی چھٹیاں) کہلاتا تھا۔ فصل

کی کٹائی میں چونکہ بچے بھی شریک ہوتے تھے اس لئے ان دنوں میں سکول بند رکھنا ضروری تھا۔

گھر کے تمام افراد مل کر فصل کاٹتے تھے۔ کام زیادہ ہوتا تو دوستوں اور رشتےداروں سے بھی مدد لی جاتی تھی۔ اس صورت میں تعاون کو مانگ کہتے تھے۔ بعض علاقوں میں ونگار بھی کہتے تھے۔

مانگ میں شریک ہونے والوں کے لیئے بڑی مقدار میں دودھی  والا حلوہ بنایا جاتا تھا۔ خالص دیسی گھی میں تربتر حلوہ ختم کرنا مانگ میں شریک  لوگوں کے لیئے ایک چیلنج ہوتا تھا۔ گھی میں تیرتا حلوہ زیادہ مقدار میں نہیں کھایا جا سکتا تھا۔ اس لیئے اس چیلنج میں ہمیشہ مانگی (مانگ میں شریک افراد) ہی ہارتے تھے. جو حلوہ بچ جاتا وہ ہمسایوں اور رشتےداروں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔

 بڑا شغل ہوتا تھا۔ اب وہ رونقیں کہاں۔ اب تو سارا کام مشینیں سرانجام دیتی ہیں۔ تعاون اور پیار محبت ماضی کے قصے ہو گئے۔گذر گیا وہ زمانہ ٫ چلے گئے وہ لوگ-  7      اپریل   2025

آج سے دس سال قبل جب میں نے اپنے  بیٹے محمد اکرم علی ملک کے اصرار پر فیس بک کی وادی میں قدم رکھا تو سب سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا میرے ہم عمر ہم ذوق کوئی اور لوگ بھی یہاں موجود ہیں۔ سوچا تھا اگر اپنا کوئی ہم عمر , ہم نوا نہ ملا تو واپس چلا جاؤں گا کیونکہ بچوں کی محفل میں ایک بزرگ کی شرکت رنگ میں بھنگ ڈالنے والی بات ہوگی۔

اپنے دو دیرینہ ہم ذوق ساتھیوں ٫  معروف شاعر اور افسانہ نگار ظفرخان نیازی اور برادرم پروفیسر اشرف علی کلیار صاحب کو فیس بک پر فعال  دیکھ کر اطمینان ہو گیا کہ یہاں بزرگوں کی باتیں بھی بڑی توجہ اور احترام سے سنی جاتی ہیں ۔ اس لیئے کچھ دن یہاں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔

ابتدا میں مجھے لیپ ٹاپ کے اردو کی بورڈ keyboard کا علم نہ تھا اس لیئے انگلش میں پوسٹس لکھتا رہا۔ الحمد للّہ انگلش میں لکھنا میرے لیئے کوئی مسئلہ نہ تھا اور انگلش لکھنے کا اپنا الگ مزا ہے , مگر میرے اکثر قارئین کی خواہش تھی کہ میں اردو میں پوسٹس لکھوں تاکہ سب لوگ گفتگو میں شریک ہو سکیں ۔

بہت سے لوگ کئی حوالوں سے میرے فین تھے۔ کچھ میرے سٹوڈنٹس کی حیثیت میں ‘ کچھ میری شاعری کے حوالے سے اور ایک بڑی تعداد میں لوگ لالا عیسی خیلوی سے میری دوستی کے حوالے سے باتیں سننا چاہتے تھے۔ لہذا فیس بک پر میرا پر جوش استقبال ہوا۔

اکرم بیٹے نے لیپ ٹاپ پر اردو کی  بورڈ keyboard  تک میری رسائی ممکن بنا دی اور   پھر چل سو چل , میں روزانہ اردو میں ایک پوسٹ لکھنے لگا۔  8      اپریل   2025

میری پوسٹس ہمارے علاقے کے کلچر,  رسم و رواج، بھولی بسری روایات ٫ عید اور محرم کی تقریبات اور مجالس کا احاطہ کرتی ہیں۔

کچھ پوسٹس ٹیچر کی حیثیت میں میرے ذاتی تجربات اور مشاہدات بیان کرتی ہیں۔

ماضی کی خوبصورت روایات اور روایتی کھانوں کے بارے میں پوسٹس بہت پسند کی جاتی ہیں ۔

کبھی کبھار کسی حوالے سے لالا عیسی خیلوی کا ذکر کرتا ہوں تو وہ بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔

بحمد اللہ میرے قارئین دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی میری پوسٹ کو گھر سے آیا ہوا خط سمجھ کر بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ۔

“میرا میانوالی”  کے عنوان سے روزانہ اردو پوسٹس کا یہ سلسلہ دس سال سے چل رہا ہے۔ اس محنت کے صلے میں لوگ مجھے دعائیں دیتے ہیں ۔ لوگوں کی محبت اور دعائیں ہی میرے لیئے دنیا اور آخرت کا سرمایہ ہیں ۔ جب تک میرے رب کو منظور ہوگا ہماری یہ محفل آباد رہے گی , ان شاءاللہ ۔9      اپریل   2025

الحمد للّہ میری دس سال کی تمام  پوسٹس محفوظ ہیں۔ فیس بک کے ریکارڈ کے علاؤہ کرنل شیر بہادر خان نیازی کی ویب سائیٹ mianwali.org پر میری پوسٹس کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔

عیسی خیل کے کرنل (ر) شیر بہادر نیازی کی یہ ویب سائیٹ میانوالی کی تاریخ , جغرافیہ اور کلچر کے بارے میں قیمتی معلومات اور پکچرز سے مزین ہے ۔ اہل میانوالی کو اس بے لوث خدمت کے لیئے کرنل صاحب کا ممنون ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔ منور علی ملک ۔۔۔۔۔۔پکچر ۔۔۔۔۔۔ کرنل شیر بہادر نیازی کے ساتھ ہمارے اسلام آباد والے گھر میں ایک ملاقات۔  10      اپریل   2025

داؤدخیل میں ہمارا گھر چار کنال کی حویلی پر مشتمل تھا۔ حویلی کی مشرقی  دیوار کے ساتھ چار کمروں کی ایک قطار  پر مشتمل گھر ہمارے بابا جی کا تھا۔ مغربی دیوار کے ساتھ اتنے ہی کمروں کا گھر ہمارے دادا جی اور تین چچوں کا تھا۔۔۔۔ اب تو بہت کچھ بدل گیا ,  ہمارے بچپن کے دور  میں گھر کا نقشہ یہی تھا۔

اپریل کے آغاز میں ہم سردیوں والے کمرے سے گھر کے جنوبی سرے پر واقع گرمیوں والے مسکن میں منتقل ہو جاتے تھے۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا جس کے آگے برآمدہ اور برآمدے کے جنوبی سرے پر کچن تھا۔ کمرے کے ساتھ ملحق باتھ روم بھی تھا۔ برآمدے کی وجہ سے یہاں دوپہر کی چلچلاتی دھوپ کی مار بہت کم پڑتی تھی۔ اس لیئے یہ علاقہ کچھ ٹھنڈا محسوس ہوتا تھا۔

سردی اور گرمی کے الگ الگ کمروں کا یہ نظام امی نے قائم کر رکھا تھا۔ منتقلی کا فیصلہ بھی وہی کرتی تھیں ۔ ہم تو سکول سے واپس آ تے تو پتہ چلتا کہ گھر کا سب ساز وسامان لمے( جنوبی) کمرے میں منتقل ہو گیا ۔

جب تک امی زندہ رہیں یہی نظام چلتا رہا۔ بعد میں ہم سب نے الگ الگ گھر بنا لیئے۔  11      اپریل   2025

ہمارے گھر میں ایک مستقل رواج یہ بھی تھا کہ گرمیوں میں روٹی ہمیشہ تنور (تندور) پر پکتی تھی اور سردیوں میں  توے پر۔ اس اصول کی خلاف ورزی کبھی نہ ہوئی۔ بزرگوں کے ان اصولوں کی کوئی نہ کوئی خاص وجہ بھی  ضرور ہوگی۔ ہم نے تو ہوش سنبھالا تو ان اصولوں پر عمل ہی ہوتے دیکھا۔ وجہ نہ ہم نے پوچھی نہ کسی نے بتائی۔

بارانی زمین کی رتی کنڑک (سرخ گندم) کی بنی ہوئی روٹی کی خوشبو سے ہی بھوک لگ جاتی تھی۔ بعض اوقات ہم شوقیہ روکھی روٹی کھا لیتے تھے۔ اس کا ایک اپنا مزا تھا۔ یہ روٹی ٹھنڈی ہو کر بھی سخت نہیں ہوتی تھی  بلکہ ریشم کی طرح نرم رہتی تھی۔ مکھن اور شکر کے ساتھ تندور کی تازہ روٹی گرمیوں میں میرا پسندیدہ دوپہر کا کھانا ہوا کرتا تھا۔

رتی کنڑک اب بہت عرصہ سے نہیں دیکھی۔ اب تو کیمیائی کھادوں سے لبریز گندم کی روٹی کھانے کو ملتی ہے جو بھوک کی آگ بجھانے کے لیئے  مجبورا کھانی پڑتی ہے۔  12      اپریل   2025

چائے کو مشروب میانوالی  کہنا غلط نہ ہوگا ۔ ویسے تو چائے ہر جگہ پی جاتی ہے لیکن مقدار اور معیار کے لحاظ سے میانوالی کی چائے اپنی مثال آپ ہے۔ کسی بھی ہوٹل یا ڈھابے پہ چلے جائیں چائے نمبر ون  ہی ملے گی۔

ایک دفعہ بی بی سی کا ایک نمائندہ میانوالی کے دورے پہ ایا۔ ریڈیو پر اپنے دورے کی روداد سناتے ہوئے اس نے کہا میں حیران ہوں کہ جون کی چلچلاتی دوپہر میں بھی یہاں کے لوگ ہوٹلوں اور ڈھابوں پر  چائے ہی پیتے نظر آتے ہیں ۔ 50 درجہء حرارت میں گرما گرم بھاپ اڑاتی چائے پینا ایک جناتی کارنامہ ہے۔

صحافی کی بات درست پے۔چائے پینے کے معاملے میں تو جنات بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ لاکھ گرمی ہو اگر گھر میں کوئی مہمان اجائے تو اس کی تواضع ٹھنڈے مشروبات کی بجائے چائے سے کی جاتی ہے۔۔ ٹھنڈے مشروبات لے بھی آئیں ٫  مہمان اگر میانوالی کا ہے تو وہ اوپر سے چائے ضرور پیئے گا۔

ضلع میانوالی میں چائے کا رواج جنگ عظیم کے دور میں فوجی جوانوں نے برپا کیا۔ فوج کو ناشتے میں چائے دی جاتی تھی۔ جوان جب چھٹی پر گھر آتے تو یہاں بھی ناشتے میں چائے ضرور لیتے تھے۔ رفتہ رفتہ چائے ہر گھر کی ضرورت بن گئی۔

کہتے ہیں ایک دفعہ ایک فوجی جوان گھر آیا تو چائے کی پتی کے دو چار ڈبے بھی ساتھ لے ایا۔ صبح ناشتے سے پہلے واک کے لیئے جانے لگا تو ایک ڈبہ اپنی امی کو دے کر کہا میرے ناشتے کے لیئے چائے بنا دینا۔

اماں   بچاری نے چائے کبھی دیکھی ہی نہ تھی۔ انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق پتی میں گھی اور مرچ مصالحہ ڈال کر سالن سا بنایا اور پلیٹ میں ڈال کر بیٹے کے آگے رکھ دیا-  13      اپریل   2025

اصل غریبی تب تھی جب کئی   لوگوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ اجرت پر فصل کی کٹائی ہوا کرتا تھا۔ جن لوگوں کی اپنی زمین نہ تھی وہ بال بچوں سمیت نہری علاقوں میں جاکر زمینداروں کی فصل کی کٹائی کرتے تھے۔ اس کام کا معاوضہ دسویں گڈی یعنی کاٹی ہوئی گندم کا دسواں حصہ ملتا تھا۔ گھر کے سب لوگ کٹائی کا کام کرتے تھے۔ تقریبا ایک ماہ بعد یہ لوگ اپنے حصے کی گندم لے کر واپس آتے تھے۔ اپنے کھانے کے لیئے گندم رکھ کر بقیہ گندم بیچ دیتے تھے۔ اس سے وصول شدہ رقم سے وہ سال بھر گھر کا خرچ چلاتے تھے۔ پیسے ختم ہو جاتے تو گھر کا سودا سلف ادھار لیا جاتا تھا۔ اگلے سال گندم کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے یہ ادھار بے باق کیا جاتا تھا۔

بچوں کی شادیوں کا خرچ بھی اسی رقم سے پورا کرتے تھے۔ اس لیئے شادیاں فصل کی کٹائی کے بعد ہی ممکن ہوتی تھیں ۔

اللہ کے فضل سے اب وہ حالات نہیں ہیں  ۔ چھوٹے موٹے روزگار کے بے شمار اسباب ہر جگہ دستیاب ہیں ۔ ملازمت کے مواقع بھی بہت ہیں۔ گاؤں میں جہاں پہلے پانچ سات  دُکانیں تھیں وہاں اب پندرہ بیس دکانیں بن گئی ہیں ۔ لوگوں کی معاشی حالت اب پہلے سے بہتر ہے۔  14      اپریل   2025

میانوالی کی  چائے کا ذکر چھڑا تو ایک واقعہ یاد آ گیا۔۔۔۔ایک دفعہ ہم ٹیکسی کار میں لاہور سے میانوالی ا رہے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب موٹروے نہیں ہوتا تھا۔ لاہور سے شیخوپورہ ، پنڈی بھٹیاں چنیوٹ اور سرگودھا سے ہو کر میانوالی آنا پڑتا تھا۔ ہم شیخوپورہ سے گذر رہے تھے تو میں نے کہا چائے پینی ہے ۔

ڈرائیور نے کہا سر ذرا صبر کریں تو آپ کو میانوالی کی چائے مل سکتی ہے۔

شیخو پورہ میں میانوالی کی چائے ؟ بات سمجھ میں نہ آئی ۔

شیخوپورہ سے دوچار میل آگے سڑک کے کنارے ایک چھپر ہوٹل پر میانوالی ہوٹل نام  کا بورڈ دیکھ کر بات سمجھ میں آگئی ۔ یہ ہوٹل  میانوالی کے ایک جوان نے بنا رکھا تھا۔ چائے واقعی خالص میانوالی کی خوش رنگ ، خوشبو دار کڑک چائے تھی۔ وہ نوجوان ہمارے ڈرائیور کو جانتا تھا۔ اس لیئے میانوالی کی روایت کے مطابق اس نے ہم سے چائے کے پیسے بھی نہ لیئے۔

اس نے بتایا کہ اچھی چائے کے شوقین لوگ شیخوپورہ شہر سے  بھی سپیشل یہاں چائے پینے آتے ہیں۔۔۔۔۔ میانوالی زندہ باد۔5  1      اپریل   2025

اکثر شاعر اور فنکار تو کچھ اور پیتے ہیں ، مگر الحمد للّہ  اپنا پینے کا شوق چائے تک ہی محدود رہا۔۔۔ 5 سال لالا عیسی خیلوی کی محفل کا مستقل رکن رہا ، وہاں سب لوگ پیتے تھے لیکن میں نے کبھی گلاس کو بھی ہاتھ نہ لگایا۔ ایک دفعہ سب پی رہے تھے تو ایک دوست نے مجھ سے کہا ملک  صاحب آپ کیوں نہیں پیتے ؟ فاروق روکھڑی صاحب نے کہا اسی لیئے تو ہم سب لوگ ان کی عزت کرتے ہیں ۔

میرا پسندیدہ مشروب ہمیشہ چائے ہی رہا۔ اب بھی چار پانچ کپ روزانہ پیتا ہوں۔ فجر کے وقت اللہ کے دربار میں حاضری سے پہلے چائے کا ایک کپ خود بنا کر پی لیتا ہوں۔

چائے نوشی کے شوق میں بعض اوقات عجیب و غریب کام بھی کرنے پڑتے ہین۔ ایک دفعہ ٹرین پر پنڈی سے داؤدخیل آرہا تھا تو گولڑہ شریف ریلوے سٹیشن پر ہماری ٹرین پشاور سے آنے والی ایک ٹرین کے انتظار میں کچھ دیر کے لئیے رک گئی۔ موقع غنیمت جان کر میں سٹیشن کے ریفریشمنٹ روم میں چائے پینے گیا۔ وہاں ایک چاچا جی اپنے بالوں کو کلف ( کالا رنگ) لگا رہے تھے۔ وہی اس ریفریشمنٹ روم کے اکلوتے ملازم تھے۔ میں نے کہا چاچا  جی چائے پینی ہے۔

چاچا جی نے کہا چائے تو میں پتر کو وہ پلاؤں گا کہ یاد رکھوگے۔ ذرا میرے سر کے پچھلے بالوں پر کلف لگا دو تو ابھی چائے بنا دیتا ہوں۔

میں نے کلف کا پیالہ اور برش پکڑ کر حسب توفیق چاچا جی کا کام کر دیا۔ پھر انہوں نے اٹھ کر چائے بنائی۔ وہ چائے واقعی یادگار تھی۔  16      اپریل   2025

ایک دن صبح سویرے کال آئی ۔ ریڈیو پاکستان میانوالی کے موجودہ سٹیشن ڈائریکٹر احمد آفتاب خان نیازی بول رہے تھے۔ کہنے لگے سر ، ظفر خان نیازی فوت ہو گئے ہیں ۔ ان کے بارے میں اپنے تاثرات ریڈیو کے لیئے ریکارڈ کرا دیں۔

سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ یا اللہ یہ کیا ہوگیا۔ ظفر خان بھری محفل چھوڑ کر یوں اچانک کیوں چلا گیا ؟

اپنے ریڈیو پروگرام سوغات کی وجہ سے ظفرخان ملک بھر کا محبوب تھا۔ پشاور سے کراچی تک لاکھوں چاہنے والے اس پروگرام کے منتظر رہتے تھے۔ سامعین کے خطوط کے جوابات پر مشتمل یہ پروگرام ریڈیو کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ ظفر کا دلنشیں انداز گفتگو اور اس کا مخصوص ہلکا سا قہقہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھا۔

ظفر خان داؤدخیل کے قبیلہ سمال خیل کی شاخ حسن خیل کا  چشم و چراغ تھا۔ والد بچپن ہی میں فوت ہو گئے۔ ظفر  کی والدہ ظفر کو لے کر اپنے میکے گھر میانوالی آگئیں۔ یوں ظفر کی پرورش میانوالی میں نانا کے گھر میں ہوئی۔

ظفر خان بہت ذہین اور محنتی تھا۔  ریاضی میں ایم ایس سی کرنے کے بعد کچھ عرصہ میانوالی کے ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھاتا رہا۔ پھر ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر کا جاب مل گیا ۔ کویٹہ, راولپنڈی ، آزاد کشمیر اور اسلام آباد ریڈیو سٹیشن پر متعین رہا۔ سٹیشن ڈائریکٹر کے منصب پر ریٹائر ہونے کے بعد اسلام آباد کی ریڈیو کالونی میں گھر بنا لیا۔

ظفر خان صف اول کا شاعر بھی تھا , افسانہ نگار بھی۔ احمد ندیم قاسمی کے بعد اردو ادب کا یہ اکلوتا قلم کار تھا جو شاعر بھی تھا افسانہ نگار بھی ۔

میانوالی میں اس کا حلقہ احباب پروفیسر سلیم احسن ، چوہدری مختار اور چند دوسرے دوستوں پر مشتمل تھا۔ داودخیلوی ہونے کی بنا پر مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ داؤدخیل کے بارے میں میری پوسٹس پر بہت محبت بھرے کمنٹس دیا کرتا تھا۔

ایسے نایاب دوست کی اچانک موت میرے لیئے ایک ذاتی صدمے سے کم نہ تھی۔ اس کیفیت میں میں نے آفتاب خان کی فرمائش پر ریڈیو کے لیئے جو مختصر سی گفتگو ریکارڈ کرائی یاد نہیں کیا کہا تھا۔7  1      اپریل   2025

یادیں۔۔۔۔۔١٩٨٢-گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایک تقریب سے خطاب

موسموں کا مزاج برہم ہے

اللہ جانے کیا بات ہے۔ سردیوں میں جب فصلوں کو پانی کی ضرورت تھی بارش کا ایک قطرہ بھی  زمین پر نہیں آیا۔مگر اب،  جب لوگ اپنی محنت کی کمائی سمیٹ رہے ہیں اچانک موسلادھار بارشیں اور برف باریاں ۔۔۔۔ بے شک ہمارے اعمال ہی کی سزا ہے ۔

 موسموں کے اس برہم مزاج کی اصل وجہ فضائی آلودگی ہے ۔ گاڑیوں اور کارخانوں کا دھواں ، درختوں کی اندھا دھند کٹائی ، ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اس زاویئے سے دیکھا جائے تو یہ ہمارے اعمال کی سزا ہی ہے۔ کاش ہم یہ بات سمجھ سکتے۔  19      اپریل   2025

داود خیل میں ہینڈ پمپس اور کنوؤں سے حاصل ہونے والے پینے کے صاف شفاف صحت بخش  پانی کو ہم لوگ جنت کا پانی کہا کرتے تھے۔۔ ہمارے گھر میں بھی ہینڈپمپ لگا ہوا تھا۔ اڑوس پڑوس کی خواتین بھی ہمارے ہینڈ پمپ سے پانی گھڑوں میں بھر کر لے جاتی تھیں۔ اس صاف شفاف پانی کی وجہ سے لوگ صحتمند تھے۔ کئی بیماریوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔

آج سے تقریبا پچاس سال پہلے پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی کہ زیر زمین پانی کڑوا ہوگیا۔ کنوئیں اور ہینڈ پمپ زہر اگلنے لگے۔ اس تبدیلی کی سائنسی وجہ شہر کے مشرق میں بننے والی چھوٹی نہر کی سیم ہے جس نے زیر زمین پانی کو کڑوا بنا دیا ۔ میونسپل کمیٹی نے نہر کے کنارے ٹیوب ویل لگا کر صاف شفاف پانی کی سپلائی کا بندوبست کر تو دیا مگر یہ سسٹم پورے شہر کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی یہ اکثر بند پڑا رہتا ہے۔ کبھی ٹیوب ویل کے انجن کے لیئے تیل کے پیسے نہیں ہوتے کبھی مشینری کی مرمت کے پیسے دستیاب نہیں ہوتے۔

اب اکثر لوگ نہر کے کنارے مسجد بلال کے ہینڈ پمپ سے پانی لاتے ہیں۔۔ شہر کے شمال مشرقی حصے کے لوگ سکندرآباد کے واٹر سپلائی سسٹم سے پانی لے آتے ہیں۔

بزرگ لوگ ہینڈ پمپس اور کنوؤں کے اس صاف شفاف پانی کو یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں جسے ہم جنت کا پانی کہتے تھے۔۔  20   اپریل   2025

میانوالی کے لوگوں کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ یہ لوگ احسان یاد رکھتے ہیں ۔ آپ کسی کا معمولی سا کام بھی کردیں تو وہ اسے ہمیشہ یاد رکھتا ہے اور جب بھی موقع ملے حسب توفیق آپ کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔

ایک دفعہ میں بیٹے کے ساتھ سرگودھا سے میانوالی آ رہا تھا۔ اس دن سرگودھا کی کوئی بس میانوالی نہیں جا رہی تھی۔ مجبورا لاہور سے میانوالی جانے والی بس کے انتظار میں ہم سرگودھا لاری اڈا کے باہر ایک ہوٹل پر بیٹھ گئے۔  ہم  چائے پی رہے تھے کہ نیو خان بس سروس کی ایک بس سامنے پٹرول پمپ پر آ کر رکی۔ کنڈکٹر کسی کام سے ہوٹل میں آیا تو ہمیں وہاں بیٹھے دیکھ کر سیدھا ہمارے پاس آکر کہنے لگا سر کہاں جا رہے ہیں ؟

میں نے بتایا کہ میانوالی جانا ہے۔ اس نے کہا سر آپ اطمینان سے چائے پی لیں ۔ رش تو بہت زیادہ ہے مگر میں آپ کے لیئے سیٹ کا بندوبست کر لوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے ہمارے بیگ اٹھائے اور بس کی طرف چل دیا۔ میں حیران کہ مجھے یہ بندہ کیسے جانتا ہے۔ میں نے تو اسے کبھی دیکھا ہی نہیں۔

ہم بس میں داخل ہوئے تو اس نے دو نوجوانوں کو فولڈنگ سیٹوں پر بٹھا کر ہمارے لیئے سیٹ خالی کروا دی۔

میں نے پوچھا بیٹا کیا آپ میرے سٹوڈنٹ رہے ہیں ؟

اس نے کہا نہیں سر ، میں ایک دفعہ اپنے کچھ کاغذات کی تصدیق کے لیئے آپ کے پاس آیا تھا۔ رات کا وقت تھا اورآپ مجھے جانتے بھی نہیں تھے پھر بھی آپ نے میرے کاغذات پر دستخط کر کے مہر لگا دی تھی۔ سر میں آپ کا یہ احسان کیسے بھول سکتا ہوں ؟-  21      اپریل   2025

ہماری ایک عزیزہ راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔۔ ڈاکٹروں نے کہا اس کے لیئے  او نیگیٹو (O_) قسم کے خون کی ایک بوتل فورا چاہیئے۔۔

بچی کا بھائی اور کزن ہسپتال کے بلڈ بینک گئے اور بلڈ بینک کے انچارج سے کہا ہمیں مریضہ کی جان بچانے کے لیئے او نیگیٹو قسم کے خون کی ایک بوتل چاہیئے۔ جتنے پیسے آپ کہیں ہم دے دیتے ہیں ۔ یا پھر کل صبح خون کی ایک بوتل آپ کو فراہم کر دیں گے۔

بلڈ بینک کا انچارج لڑکا اٹک کا رہنے والا تھا۔ اس نے کہا آپ خون لے جائیں۔ اس کے بدلے میں آپ سے نہ خون لوں گا نہ پیسے ، کیونکہ آپ میانوالی سے آئے ہیں ،  اور میں جانتا ہوں کہ میانوالی کے لوگ احسان فراموش نہیں ہوتے، اس لیئے میں میانوالی کے لوگوں کا احترام کرتا ہوں۔

یہ کہہ کر اس نے خون کی بوتل ان کے حوالے کر دی۔22      اپریل   2025

مٹی کی محبت ۔۔۔۔۔

قیام پاکستان کے باعث ہندو یہاں سے چلے تو گئے مگر وطن کی محبت ان کے دلوں سے نہ جاسکی ۔

میانوالی سے جانے والے ہندوؤں نے انڈیا میں میانوالی نگر کے نام سے بستی بھی بسا لی جہاں یہی زبان اور کلچر اب بھی چل رہا ہے۔ اس بستی کے بزرگ مکین اب بھی میانوالی آتے جاتے رہتے ہیں۔ چاچا منوہر لال جب تک زندہ رہے ہر سال میانوالی آ کر سلطان زکری صاحب کے مزار پر نذرانے کی دیگیں پیش کرتے رہے۔

دو صف اول کے افسانہ نگار رام لعل اور ہرچرن چاولہ بھی بار بار یہاں آتے رہے۔ رام لعل میانوالی کے رہنے والے تھے، ہرچرن چاولہ داؤدخیل کے۔ ان لوگوں کی نظر میں میانوالی اور داؤدخیل مقدس مقامات تھے۔ اس لیئے وہ یہاں آکر بہت خوش ہوتے تھے۔ گلیوں بازاروں سکولوں اور ریلوے سٹیشن سے ان کے بچپن کی خوبصورت یادیں وابستہ تھیں۔ اپنے آبائی گھروں کے درودیوار اور مٹی کو بوسے دیتے تھے ۔ گھر کے کسی کونے سے مٹھی بھر مٹی اٹھا کر ساتھ لے جاتے تھے۔ جب بھی یہاں سے جاتے آنسو بہاتے ہوئے ہی جاتے تھے۔

چاچا منوہر لال ، رام لعل اور ہرچرن چاولہ تو دنیا سے رخصت ہوگئے لالا روشن لال چیکڑ ابھی اس دنیا میں موجود ہیں۔ وہ ہر سال میانوالی آتے جاتے رہتے ہیں ۔ ابھی پچھلے دنوں بھی آئے ہوئے تھے۔۔ میانوالی میں ان کا اچھا خاصا حلقہ احباب ہے۔ بہت دوستدار اور مہمان نواز انسان ہیں ۔ میانوالی میں ان کا قیام پروفیسر سلیم احسن کے ہاں ہوتا ہے۔ میانوالی کے جو لوگ خواجہ معین الدین چشتی کےمزار پر حاضری دینے جاتے ہیں ان کا قیام دہلی میں لالا روشن لال چیکڑ کے ہاں ہی ہوتا ہے۔ لالا روشن لال میانوالی سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار ” ہائے میانوالی” کا نعرہ لگا کر کرتےہیں۔  23      اپریل   2025

دلچسپ سفر بہت کیئے ۔ اچانک کوئی سفر یاد آتا ہے تو بہت سی حسین یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔

میں چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا۔ ان دنوں اپنے ماموں ملک منظور حسین منظور کے ہاں ہڈالی ضلع خوشاب آیا ہوا تھا۔ ماموں جان وہاں ہائی اسکول میں  ہیڈماسٹر تھے۔ 31 مارچ کو ماموں جان سروس سے ریٹائر ہوئے تو ہم سب لوگ اپنے گھر داؤدخیل روانہ ہوئے۔ ہمارا قافلہ ایک ٹرک ایک کار اور ایک جیپ پر مشتمل تھا۔ ٹرک میں گھر کا سامان، کار میں ماموں جان اور خواتین اور جیپ میں میں ، میرے ماموں زاد بھائی ملک سجاد حسین ، ملک اعجاز حسین ، ملک ممتاز حسین اور بھائی جان اعجاز کے دوست محمد خان بھٹی سوار تھے۔

کار اور ٹرک تو آگےنکل گئے، ہماری کھٹارا سی جیپ ہانپتی کانپتی جھومتی جھامتی آہستہ آہستہ چلتی رہی۔ واں بھچراں ریلوے پھاٹک کے قریب پہنچے تو جیپ کا ایک ٹائر پھٹ گیا۔ واں بھچراں میں ٹائر کو پنکچر لگانے کی کوئی دکان نہ تھی۔ اس لیئے ڈرائیور کو ٹائر کی مرمت کے لیئے میانوالی جانا پڑ گیا ۔ اس کی واپسی صبح کو ہی ممکن تھی کیونکہ ان دنوں شام کے بعد میانوالی سے کوئی بس اس روڈ پر نہیں آتی تھی۔

ریلوے پھاٹک کا گیٹ مین داؤدخیل کا رہنے والا تھا۔ اس نے حسب توفیق ہماری بہت آوبھگت کی۔ اس زمانے میں سڑک کے کنارے کوئی دکان نہ تھی۔ پھاٹک والے چاچا کی بیوی نے تین  روٹیاں اور سالن ہمارے آگے رکھ دیا۔ مزید روٹیوں کے لیئے ان کے پاس آٹا ہی نہ تھا۔

خوش قسمتی سے قریب ہی چنے کا کھیت تھا۔ میں اور ممتاز بھائی وہاں سے بہت سے چنے کے پودے اکھاڑ لائے اور انہیں آگ پر بھون کر تراڑا لگا لیا۔ یہ تھا ہمارا اس رات کا کھانا ۔

ہم دو چھوٹے بچوں ، ممتاز بھائی کو اور مجھے سردی سے بچانے کے لیئے بھائی جان سجاد نے  قریب ہی کھڑی ایک بس میں لٹا دیا۔ یہ بس صبح سرگودھا جاتی تھی اس لیئے ہم اس میں رات بسر کر سکتے تھے۔

صبح ہماری جیپپ کا ڈرائیور ٹائر لے کر آگیا اور ہم بخیر و عافیت داؤدخیل پہنچ گئے۔ ادھر داؤدخیل میں گھر کے سب لوگ پریشان تھے کہ اللہ جانے کیا ہوا ۔ ہمارے نوجوان کدھر گئے۔ رابطے کا کوئی وسیلہ ہی نہ تھا اس لیئے صبر ہی کرنا پڑا ۔ ہم پہنچ گئے تو سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ امی نے فورا گڑ کی بوری منگوا کر ہمارا سر صدقہ اتار دیا۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ میرے چار ہمسفروں میں سے کوئی بھی آج دنیا میں موجود نہیں۔ ایک ایک کر کے سب رخصت ہو گئے-  24      اپریل   2025

نماز جمعہ سے پہلے ہر مسجد میں خطیب صاحب حاضرین سے خطاب فرماتے ہیں۔ عام طور پر یہ خطاب مسلکی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ بریلوی علمائے کرام اولیاء اللہ کی کرامات بیان کرتے ہیں۔ دیو بندی حضرات سارا زور بیاں توحید اور رد بدعات پر صرف کرتے ہیں۔

ان نظریاتی مباحث کی بجائے عملی زندگی کے معاملات پر بات کی جانی چاہیئے۔ والدین ، بیوی بچوں اور ہمسایوں کے حقوق پر بات ہونی چاہیئے ۔ سیرت طیبہ سے مثالیں پیش کر کے صبر تحمل ہمدردی تعاون کی ترغیب دینی چاہیئے۔ معاشرے میں موجود برائیوں کی مذمت کر کے لوگوں کو ان سے بچنے کی ہدایت کرنی چاہیئے۔

مختصر یہ کہ علمائے کرام کو جمعہ کے خطابات میں اپنا زور بیاں لوگوں کی اصلاح اور تربیت پر صرف کرنا چاہیئے۔ نظریاتی اور فرقہ وارانہ اختلافی بیانات پر واہ واہ تو بہت ہوتی ہے مگر سامعین کے کردار کی اصلاح نہیں ہوتی۔۔۔۔

وماعلینا الا البلاغ-  25      اپریل   2025

اپنی غزل ۔۔۔۔ اپنی پسند

اپنی اپنی ہے زندگی تنہا

شہر آباد آدمی تنہا

غیر مشروط پیار سب سے کیا

کر گئی ہے یہ سادگی تنہا

آ تو جاؤ مگر یہ ڈر ہے مجھے

میں نہ ہو جاوں اور بھی تنہا

کھو گئے مشوروں میں پروانے

شمع بے چاری جل بجھی تنہا

میری امید کے شجر کی خیر

ایک پتہ ہے آخری تنہا

وہ محبت نہیں ضرورت تھی

میں اکیلا تھا آپ بھی تنہا

  26      اپریل   2025

اللہ میاں کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک  پوسٹ آفس میں دوسرے شہروں کو جانے والے خطوط کی چھانٹی کرتے ہوئے ایک خط پر لکھا ہوا پتہ دیکھ کر ڈاکیا بہت حیران ہوا۔ پتہ یہ تھا۔۔۔۔

اللہ میاں کے نام

اس نے وہ لفافہ پوسٹ ماسٹر کو دکھایا۔ پوسٹ ماسٹر نے کہا دیکھ لیتے ہیں خط میں لکھا کیا ہے۔

لفافے سے خط نکال کر دیکھا تو اس میں یہ لکھا تھا۔۔۔۔

اللہ میاں سلام،

مجھے فوری طور پر 100 روپے چاہیئیں۔ مہربانی فرما کر 100 روپے بھیج دیں۔

نیچے خط لکھنے والے کا پتہ لکھا تھا۔

پوسٹ ماسٹر نے کہا اس بندے کا اللہ پر یقین ضائع نہیں ہونا چا ہیئے۔ ہم پیسے لفافے میں ڈال کر اسے بھیج دیتے ہیں۔ کہیں گے اللہ میاں نے بھیجے ہیں۔

پوسٹ ماسٹر اور ڈاکیئے کے پاس اس وقت کل ملا کر 80 روپے تھے۔ یہ رقم لفافے میں بند کر کے خط لکھنے والے آدمی کو پہنچا دی گئی۔

دوسرے دن اللہ میاں کے نام اس شخص کا دوسرا خط پوسٹ آفس کے لیٹر بکس سے برآمد ہوا۔ اس میں لکھا تھا۔

اللہ میاں سلام

مجھے 80 روپے ملے ہیں ۔ 100 میں سے  20 روپے ڈاکخانے والے بے ایمانوں نے چرا لیئے ہیں۔ مجھے 20 روپے اور بھیج دیں۔ مگر ڈاک سے نہ بھیجنا کہ وہ لوگ پھر چرا لیں گے۔

پوسٹ ماسٹر صاحب ایمان تھا۔ ناراض ہونے کی بجائے اس نے 20 روپے لفافے میں بند کر کے اللہ تعالٰی کے اس بھولے بادشاہ دوست کو بھجوا دیئے۔  27      اپریل   2025

اپنا شعر ، اپنی پسند

تم سے بچھڑ کر بھی میں زندہ رہ لوں گا،

دریا راہ بدلتا ہے رکتا تو نہیں

  28      اپریل   2025

سفر حیات کا طے ہو تو جائے گا لیکن ،

تمہاری یاد رلائے گی ہر قدم پہ ہمیں

اہلیہ کی برسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خصوصی دعاؤں کی درخواست-  30      اپریل   2025

MERA MIANWALI DEC16

MERA MIANWALI DEC16

MERA MIANWALI SEPTEMBER  2024

MERA MIANWALI SEPTEMBER 2024

MERA MIANWALI -JULY 20

MERA MIANWALI -JULY 20

MERA MIANWALI JUNE 2017

MERA MIANWALI JUNE 2017

MERA MIANWALI SEPTEMBER 2023

MERA MIANWALI SEPTEMBER 2023

MERA MIANWALI JANUARY 2025

MERA MIANWALI JANUARY 2025

MERA MIANWALI JUNE 23

MERA MIANWALI JUNE 23

MERA MIANWALI NOV16

MERA MIANWALI NOV16

MERA MIANWALI-SEPTEMBER 2022

MERA MIANWALI-SEPTEMBER 2022

MERA MIANWALI DECEMBER 2018

MERA MIANWALI DECEMBER 2018

MERA MIANWALI OCTOBER 2019

MERA MIANWALI OCTOBER 2019

MERA MIANWALI SEPTEMBER  2018

MERA MIANWALI SEPTEMBER 2018

MERA MIANWALI MAR 2017

MERA MIANWALI MAR 2017

MERA MIANWALI NOVEMBER  2024

MERA MIANWALI NOVEMBER 2024

MERA MIANWALI JULY 2018

MERA MIANWALI JULY 2018

MERA MIANWALI APR 2018

MERA MIANWALI APR 2018

MERA MIANWALI MAY 2018

MERA MIANWALI MAY 2018

MERA MIANWALI-AUGUST 2022

MERA MIANWALI-AUGUST 2022

MERA MIANWALI-JULY -2021

MERA MIANWALI-JULY -2021

MERA MIANWALI APRIL – 2023

MERA MIANWALI APRIL – 2023

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top